اختر بخاری
akhtarbukhari@gmail.com
نومبر، دسمبر1967 کی درمیانی رات لاہور میں جنم لینے والی پاکستان پیپلز پارٹی کا بچپن، جوانی اور ادھیڑ عمری عجیب و غریب حادثات و واقعات سے مزین ہے ․16 اکتوبر 1966کو جنرل ایوب خان کے وزیر باتدبیر کی حیثیت سے استعفے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور اس وقت کے پاکستان کے مغربی بازو میں انہیں بے مثال پذیرائی ملی․ایسی پذیرائی کہ بڑے بڑے جغادری سیاست دانوں کی دوکانیں بند ہوگئیں․ پاکستان کے دوسرے فوجی حکمران جنرل یحی خان کے احکامات پر 7 دسمبر1970 کو پاکستان بھر میں عام انتخابات منعقد ہوئے جنہیں ایک طرف شیخ مجیب الرحمن اور دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی شعلہ بیانیوں سے لوٹا ،مشرقی و مغربی پاکستان میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی اقتدار کے سنگھاسن کے قریب پہنچ گئیں․بزرگان سیاست کہتے ہیں کہ کچھ ذاتی مفادات، کچھ کج فہمیاں اور کچھ صحیع فہمیاں آڑے آئیں دو بھائی ایک دوسرے سے دور ہونےلگے صحیع فہمیوں پر غلط فہمیوں کا تیل بھارت نے ڈالا اور اسے آگ ذاتی مفادات کی تیلی نے لگا ڈالی․16 دسمبر 1971 کو پاکستان سمٹ کر مغربی حصے تک محدود ہوگیا اور مشرقی پاکستان نے اپنا نام بدل کر بنگلہ دیش رکھ لیا․مغربی پاکستان کو بھی مجبورا خود کو پاکستان کہلوانا پڑا اور باقی ماندہ پاکستان کے شکست خوردہ فوجی حاکم جنرل یحی خان کو بھی اپنے نام میں تبدیلیوں کی ضرورت آن پڑی․20 دسمبر1971 کو صدر یحی خان سابق صدر ہوئے تو مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت سے انتخابات جیتنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو پہلی بار اقتدار ملا وہ بھی کچھ ایسا لنگڑا لولا کہ مشرقی بازو الگ،93000 سے زائد فوجی بھارت کی قید میں اور 5000 مربع میل کا علاقہ بھارتی حملہ آوروں کے بوٹوں تلے․امریکہ و برطانیہ کے تعلیمیافتہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے چوتھے صدر بننے کے کوئی ڈیڑھ سال بعد پاکستان کے نویں وزیر اعظم بن گئے اور بہت زور شور سے پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی اننگ کا آغاز کیا․ پاکستان دولخت ہو چکا تھا، پاکستان کی مسلح افواج کی بہت بڑی تعداد بھارتی قید میں تھی، پاکستانی علاقہ بھارتی قبضے میں تھامغربی پاکستان میں عوام حوصلہ ہارے بیٹھے تھے اور دنیا پاکستان کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا شکار ہوچکی تھی․ شملہ معاہدے کے تحت پاکستان پیپلز پار ٹی کی پہلی حکومت نے پاکستانی جنگی قیدیوں کو آزاد کروایا، پانچ ہزار مربع میل کی پاک سرزمین بھارتیوں سے واگذار کروائی․مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے خوفزدہ قوم کو حوصلہ دیا، نہ صرف مسلح افواج کے حوصلے بڑھائے بلکہ بنگلہ دیش کو تسلیم کر کے مشرقی بازو کے ساتھ روابط بھی بحال کئے․آمریت کے ہاتھوں کھلونا بنے ملک کو 1973 کا متفقہ آئین دیا․چین پہلی بار عالمی بساط پر ایک طاقتور کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا جس کا سہرا بلا شبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سر جاتا ہے․سعودی عرب کیسا تھ تعلقات کو نئی جہت دکھائی اور سب سے اہم یہ کہ جنوری 1972 میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھی ڈالی اورتاریخ میں”Father of the Pakistan’s nucler deterrent programme” “کی حیثیت سے نام پایا․ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان کی پہلی جمہوری منتخب حکومت تھی جس نے اپنی اقتدار کی مدت پوری کی لیکن ایک منتخب جمہوری حکومت کی حیثیت سے خود کو بچا نہ سکی․1977 کے عام انتخابات منعقد کروائے، مجموعی طور پر ملک بھر میں اکثریت بھی حاصل کی لیکن اس سے پہلے کہ پیپلز پارٹی اقتدار کی دوسری اننگ کا آغاز کرتی امیرالمو منین جنرل محمد ضیا الحق نے جموریت کی بساط لپیٹ دی․ شملہ معاہدہ، چین کی عالمی بساط پر رونمائی، سعودی عرب سے تعلقات کی نئی جہت، ایٹمی پروگرام کا آغاز کچھ بھی تو پیپلز پارٹی کے کام نہ آسکاہاں یہ ضرور ہوا کہ ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں بری طرح ناکام رہیں․زوالفقار علی بھٹو کے اقتدار پر امیر المومنین کے
قبضے کے بعد یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ” قبر صرف ایک ھے اور لاشے دو” اور وہی ہوا بندوق والا ہاتھ جیت گیا نہتا انسان ہار گیا․1988 میں امیر المومنین جنرل ضیا الحق کے سفر آخرت کے بعد ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی اقتدار کی دوسری اننگ کے لئے میدان میں اتر چکی تھی․پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی بے نظیر بھٹو پاکستان کی گیارھویں وزیر اعظم بن گئیں ہاروڈ اور آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ شعلہ بیاں بے نظیر بھٹو پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت کی نصف مدت بھی مکمل نہ کرپائیں اور اپنی کرشماتی شخصیت اور بے پناہ عوامی محبت کے باوجود1990 میں ایک بیوروکریٹ آمر کے ہاتھوں آؤٹ ہوگئیں ․ پیپلز پارٹی نے ہمت نہ ہاری اور 1993 میں اقتدار کی تیسری اننگ کے لئے پھر لاؤ لشکر سمیت انتخابی میدان میں آ کھڑی ہوئی اکتوبر1993 میں بے نظیر بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھا رہی تھیں․ریلوے لائن کی زمین پر بنے ایک قبضہ ہوٹل میں بیٹھا میرا بلوچ دوست اکثر کہتا ہے کہ پیپلز پارٹی پر کسی آسیب کا سایہ ہے اور میں اس کی بات پر ہنس بھی نہیں سکتا کہ وہ بلوچ ہے جو مارتے پہلے ہیں اور معذرت لواحقین سے کرتے ہیں․دنیا مین آہنی خاتون کے نام سے پہچانی جانے والی بے نظیر بھٹو 1995 کی بغاوت کو ناکام بنانے کے باوجود 1996 میں ہونے والی زمین رنگ سازش سے خود کو نہ بچا سکی خورشید بیگم اور سر شاہنواز بھٹو کی ذہین و فطین پوتی، نصرت اصفہانی اور ذوالفقار علی بھٹو کی لائق و فائق بیٹی پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت کی مدت پوری کروانے میں ناکام ہوگئی عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم فوجی حکام کو تمغہ جمہوریت دینے کے باوجود نہ اپنا بھائی بچا سکیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی حکومت ․ننگ دھڑنگ غریب و بے بس عوام کی آنکھوں میں امید کی شمع کی طرح جھلملانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری حکوت نومبر1996 میں نابغہ روزگار تہجد گذار سردار فاروق احمد خان لغاری کے ہاتھوں امیر المومنین کی بنائی ہوئی آٹھویں ترمیم کی نذر ہوگئی․ شائد میرا بلوچ دوست ٹھیک ہی کہتا ہے ؟ 1996 کے بعدسے پیپلز پارٹی مسلسل اس آسیب کے زیر اثر ہے․بے نظیر بھٹو کی حکومت گئی؟ مرتضی بھٹو گئے؟ بے نظیر بھٹو کے شوہر اسیر ہوئے؟ پاکستان کے غریب اور مظلوم طبقات کے مستقبل کی امید بے نظیر گئیں؟پھر نصرت بھٹو بھی نہ رہیں؟ اتنی قربانیاں اتنے صدقے اتنے چڑھاوے اور پھر !پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت جس میں سب کچھ ہے لیکن کوئی بھٹو نہیں جس میں خورشید بیگم اور سر شاہنواز بھٹو کی دو نسلوں کا خون تو ہے لیکن کوئی زندہ بھٹو نہیں․ فروری 2008کے انتخابات پاکستان پیپلز پارٹی نے کسی بھی زندہ بھٹو کے بغیر لڑے ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک نیم زند ہ نصرت بھٹو ، راولپنڈی کی مقتول بے نظیر بھٹو، 70 کلفٹن کے گیٹ پر تڑپتا مرتضی بھٹو کہیں نہ کہیں سے2008 کے انتخابات میں شریک تھا شائد اسی لئے پیپلز پارٹی
ایک بار پھر اقتدار میں تو آگئی لیکن نسبتا کمزور آسیب کے زیر اثر اور یوں ذوالفقار علی بھٹو کے بعدموجودہ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت ہے جو اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے․
پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں عنان اقتدار بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار جناب آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہے جو خود بھی اس آسیب کے زیر اثر چلے آ رہے ہیں جو 1967 سے پیپلز پارٹی کو مسلسل ہیجان میں مبتلا رکھے ہوئے ہے․کسی بھی آمر کی چھتری کے بغیر کسی بھی نادیدہ قوت کی بیساکھیوں سے ماورا پیپلز پارٹی کی یہ دوسری حکومت ہوگی جو اپنی آئینی مدت پوری کرے گی لیکن ابھی بہت وقت باقی ہے ابھی مارچ2013 تک پہنچنے کے لئے بہت سی رکاوٹیں پیپلز پارٹی کی راہ میں پھن پھیلائے منتظر ہیں اور یہ وہ رکاوٹیں ہیں جن کا ملک کی دیگر سیاسی، مذہبی یا لسانی جماعتوں سے کوئی تعلق نہیں یہ رکاوٹیں وہ ہیں جو کسی بھی بھٹو کے بغیر بننے والی پیپلز پارٹی میں آکاش بیل کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں ان میں کرپشن کے الزامات سرفہرست ہیں، بیروزگاری ملک کے کوچے کوچے میں ننگی ناچتی پھر رہی ہے، امن و امان کی تباہ کن صورتحال نے ہر گھر کو نفسیاتی ہسپتال بنا دیا ہے․مہنگائی کا جن کالی آندھی کی طرح تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے․قومی و دینی اقدار کے جنازے سڑکوں، پارکوں اور تفریح گاہوں میں مدفن کے منتظر ہیں․معیشت کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں صنعت حالت نزع میں ہے․
وطن عزیز کی سرحدیں زلزلوں کی فالٹ لائن پر ہیں․ ادارے حدود و قیود سے مبرا دکھائی دیتے ہیں لیکن ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لئے آہنی عزائم کے مالک صدر پاکستان آصف علی زرداری مارچ 2013 تک بہت سارے کمالات دکھا سکتے ہیں لیکن سیاسی، مذہبی و لسانی جماعتوں کی نئی یلغار جمہوریت کے لئے سازگار موسموں کا پتہ نہیں دیتی․ مسلم لیگ(ن) اقتدار پر یوں توجہ جمائے کھڑی ہے جیسے اقتدار رائیونڈ کی زرعی زمین ہو ، تحریک انصاف سونامی کے خطرات سے نابلد عوام کو سونامی کے آنے کی نوید دے رہی ہے․ متحدہ مجلس عمل ہے کہ نمودار ہوا ہی چاہتی ہے دفاع پاکستان کونسل کی سمت کا تعین اب زیادہ دور کی بات نہیں، سنی اتحاد بھی خود کو سیاسی دوڑ میں شامل کرچکی ہے، حیرت انگیز تو مولانا طاہر القادری کی ریلیاں اور جلسے ہیں جو سیاست سےنفرت کی حد تک دور سمجھے جاتے تھے ، سرائیکی صوبہ سرائکی عوام کی طرح گومگو کی حالت میں ہے بہاولپور صوبے کی آواز ابھی بہاولپور کے ریلوے اسٹیشن سے آگے نہیں بڑھی صوبہ ہزارہ برق رفتاری میں بازی لیجاتے ہوئے ایبٹ آباد سے کراچی تک آن پہنچا ہے ،بلوچستان کے پشتون بھی ہزارہ، سرئیکی، اور بہاولپور کے ہم زبان ہوچکے ہیں لیکن سب سے خوفناک آواز امریکی کانگریس سے اٹھی ہے جسکی انگریزی کا اردو میں ترجمہ کریں تو تو مطلب کچھ یوں نکلتا ہے کہ “امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ بحر الہند کی جانب روانہ ہو چکا ہے” بلوچ صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کسی منتخب جمہوری حکومت نے اگر اپنی آئینی مدت مکمل کی ہے تو وہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت تھی جس کا انجام مارشل لا پر منتج ہوالیکن اس کے بعد کوئی حکومت جمہوری طریقے سے وجود میں آئی ہی نہیں محمد خان جونیجو تین ،بے نظیر بھٹو کی پہلی منتخب حکومت ڈیڑھ سال تک بمشکل برداشت کیا ۔غلام مصطفی جتوئی تین ماہ کے وزیر اعظم بنائے گئے لیکن عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے نواز شریف دو سال ․بلخ شیر مزاری کوئی 38 دن ، میاں نواز شریف دوسری بار مزید تین ماہ ،معین احمد قریشی تین ماہ ، بے نظیر بھٹو کی دوسری منتخب حکومت بھی صرف تین سال،ملک معراج خالد تین ماہ،میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت صرف اڑہائی سال،ظفر اللہ جمالی فوجی آمر کا انتخاب ہونے کے باوجود صرف ڈیڑھ سال،فوجی حکمران
کو دس بار صدر بنوانے کے بنانگ دہل اعلان کرنے والے میرے محسن چوہدری شجاعت حسین کے حصے میں صرف پچاس دن اورلال مسجد پر برستی آگ میں قلفی کھانے کے شوقین شوکت عزیز کوئی سوا تین سال ،اقتدار کے لئے ہر دم تیز دم محمد میاں سومرو چار ماہ کے وزیر اعظم رہے لیکن جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئینی مدت پوری کی جمہوریت کو مارشل لا کی چوکھٹ پر دم توڑناپڑا اور پیپلزپارٹی کی یہ دوسری منتخب حکومت ہے جو اقتدار کی آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہے لیکن ” جانے کب طوفان بنے اور رستہ رستہ بچھ جائے․․․․ بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے”