سمیع اللہ ملک
لندن
کابل یا اسلام آباد؟
بھارت کے خصوصی دوست اور پاکستان کے سرپرستِ اعلیٰ قصرِ سفید کے فرعون کی نمائندہ ہلری کلنٹن نے اکتوبر میں قدم رنجہ فرمانے کی بجائے جولائی میں ہی آنا شائد اس لئے پسند فرمایا کہ عراق اور افغانستان میں مسلسل شکست وریخت کے بعد بالآخر اسلام آباد کی تسخیر کا جشن منانا ضروری تھا۔انہوں نے اپنے خصوصی نمائندے ہالبروک کو راستے کے تمام کانٹوں کو دورکرنے کا جو کام سونپ رکھا تھا ‘وہ اپنی اس ذمہ داری کو اس سرعت سے سرانجام دیں گے اس کا انہیں یقین نہیں تھا۔ہالبروک اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اس سے پہلے بھی ہم ان کی ایک ٹیلیفون کال پرڈھیر ہو گئے تھے اس لئے گاجر اورچھڑی کے بیک وقت استعمال نے ان کی کامیابی کو یقینی بنادیا تھا جس کی بناءپر اپنی اس کامیابی کا فیتہ کٹوانے کےلئے انہوں نے وقت سے پہلے ہلری کلنٹن کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی جہاںمہارانی ہلری کلنٹن کے عطا کردہ ڈالروں کے گھنگھروباندھے ہمارے سارے حکمران استقبال کےلئے موجود تھے ۔
مہارانی ہلری کلنٹن نے جونہی ہمارے ملک کو عزت افزائی بخشتے ہوئے پہلا قدم رکھاتو اپنی تکبر ونخوت سے تنی ہوئی گردن کے ساتھ اپنی نوازشات کا اعلان کرتے ہوئے اپنی نئی مفتوحہ ریاست پاکستان کی توانائی‘زراعت اورپانی کے مسائل حل کرنے کی نوید سنائی تو حکمرانوں کی آنکھوں میں فتح کی چمک اوردلوں میں خوشی کے ایسے لڈو پھوٹ رہے تھے کہ گویا کسی فقیر کو بادشاہی کی سند عطا کردی گئی ہے لیکن اس سے اگلے ہی سانس میں جب مہارانی نے اپنی خونخوار آنکھوں میں کڑک بھرتے اورگرجدارلہجے میں پاکستانی حکمرانوں کو انتباہ کرتے ہوئے یہ کہاکہ” اگر امریکا پر اب کوئی حملہ ہواتواس کے نتائج تباہ کن ہوں گے“ تو ہمارے حکمرانوں کی آنکھوں کی چمک فوری ماند پڑگئی اورانہوں نے مذاکرات کا ڈول ڈالنے سے قبل ہی آقا اورغلام کا رشتہ دوبارہ یاد کروادیاکہ پاکستان کو امریکا سے اچھے تعلقات کے حوالے سے کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہئے اورشدت پسندوں کے خلاف ایک دفعہ پھر ”ڈومور“کا حکم صادرکیا گیا۔
اسی شام پاک افغان معاہدہ پر دستخط کی تقریب منعقد کی گئی جہاں مہارانی بنفسِ نفیس موجودتھیں اوران کے پہلو میں ملتان کا سید زادہ یوسف رضا گیلانی بھی موجود تھا۔ دوسری قطار میں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی سرجھکائے کھڑے تھے جن کے کان میں ٹہلتے ہوئے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی ہالبروک کوئی حیرت انگیزسرگوشی کرکے دوبارہ اپنی جگہ آن کھڑے ہوئے جس کے بعد ہمارے مخدوم کے چراغوں کی روشنی جاتی رہی۔بھارت کو اس ڈرامائی انداز میں راہداری دینے پر جب سارے ملک میںشور مچاتو ایک اور مخدوم ہمارے وزیر ِ تجارت امین فہیم نے اعلان کیا کہ اس معاہدے میں کسی تیسرے ملک کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ‘گویا انہوں نے اس بات کی تصدیق فرمادی کہ ہلری کلنٹن اور ہالبروک اب کوئی تیسری قوت ہرگز نہیں ۔ اب انہوں نے اب اپنے ہم وطنوں کی اس حیرت کو بھی ختم کردیا ہے کہ امریکا نے بلا کسی فوجی حملے کے کابل کی بجائے اسلام آباد کو تسخیر کرلیا ہے اوراب پاکستان کے تمام معاہدے انہی کی موجودگی میں انہی کی مرضی کے مطابق پایہ تکمیل کو پہنچےں گے۔معاہدے کے بعد پریس کانفرنس میں امریکی مہارانی ہلری کلنٹن امریکی موقف پیش کررہی تھیں لیکن ہمارے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی بھی امریکی موقف کی تشریح میں مصروف رہے۔
تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے کہ افغانستان میں ہمیشہ افغان ہی فتح سے ہمکنار ہوئے ہیں لیکن ہم وہ ہیں کہ لڑے بغیر ہی شکست سے دوچار کر دیئے گئے ہیں۔ بھارت کے ساتھ ہمارے پرانے حساب کتاب تھے لیکن امریکا بہادر نے ایک ہی رات میں ایسی بساط پلٹ کررکھ دی کہ ۸۱جولائی کی شام کے ایک منحوس لمحے میں پاکستان کو بھی بھارت کی گزرگاہ بناکر رکھ دیا ہے۔پاکستان اورامریکا کے درمیان بہتر باہمی تعلقات کے نام پرسجایا جانے والا میلہ بھارت نے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ لوٹ لیا۔بھارت جو پچھلی چھ دہائیوں سے اپنے اس مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا تھا اس کی کامیاب خارجہ پالیسی نے ایک ہی جست میں پاکستان کی موجودہ غلام حکومت کو چِت کردیا ہے۔بھارت کو افغانستان کے ساتھ تجارت کےلئے فضائی اوربحری راہداری کی اجازت دینے کے بعدامینی رابطے کی اجازت دینے کے بارے میںکہا گیا ہے کہ”اس مرحلے پر بھارت کو واہگہ کے راستے اپنا سامان افغانستان لیجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی”اس مرحلے(At this stage) کے الفاظ کے اندرساری کہانی پوشیدہ ہے۔اس کے ساتھ ہی اس معاہدے میں یہ شرمناک فقرہ بھی موجود ہے کہ”تاہم مستقبل میںکسی موزوں وقت پر اس سلسلے میں کسی قابل عمل تجویز پر گفتگو ہوسکتی ہے“۔
(However,a feasible proposel in this regard can be discussed at appropriate time in future)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ” این آراو“ معاہدے کے تحت داآمد شدہ صدر زرداری نے اقتدار سنبھالتے وقت اپنے آقاو
¿ں کے دیئے ہوئے ایجنڈے کے مطابق بھارت کو جن مراعات دینے کا اعلان کیا تھا اس کو پایہ تکمیل پہنچانے کی پہلی کڑی پرعمل ہوا ہے ۔ایک(Side Letter)سائڈ لیٹرکوبھی اس معاہدے کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں‘وہی ہوگا جو ہمارے آقا کی مرضی ہے فی لحال ہماری مجبوری ہے ۔اپنے اقتدار اورملک سے لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کےلئے یہ غلامی بھی کیا شئے ہے کہ اس نے حکمرانوں کی سوچ اورضمیر کے سارے زاویے یکسر تبدیل کرکے رکھ دیئے ہیں۔
اس معاہدے کے نفع ونقصان سے ہٹ کر بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کی ایک متعین پالیسی سے انحراف کس کے ایماءاورکس کی منظوری سے ہواہے؟ امریکیوں کے اس بیان کی وضاحت بھی ازحد ضروری ہے کہ اس راہداری معاہدے پر پاکستانی فوج کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔امریکیوں کے اس بیان اوراس معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیا نی کے موجودہ عہدہ پرتعیناتی میں تین سال کی توسیع کو بھی ایک ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
امریکا پچھلے کئی سالوں سے بھارت کواپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے چکا ہے اوراپنی اس دوستی کےلئے وار آن ٹیر ر کے نام پر پاکستان سے قربانی کا مطالبہ کرتا چلا آرہا ہے۔پچھلے نوسال سے زائد ہم نے اپنے ملک کی معیشت اوراس کے امن و امان کا بیڑہ غرق کرلیا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک ۵۳/ارب ڈالرنذرِ آتش کرچکے ہیں اوراپنے ہی لوگوں کےلئے اس دھرتی کودہکتے آتش فشاں میں تبدیل کردیا گیاہے لیکن جب کبھی ہم پانی کے مسئلے پربھارت کی زیادتی کا ذکر کرتے ہیں تو امریکا منہ موڑلیتا ہے‘کشمیر میں ہونے والے مظالم پرتوجہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کو پاک بھارت کا داخلی معاملہ کہہ کر جان چھڑا لیتا ہے۔
زرداری حکومت نے ملک کی معاشی شہہ رگ کو بھارت اورافغانستان کے حوالے کرنے سے پہلے نہ تو اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں اٹھایا اورنہ ہی اپنی کابینہ سے مشورہ کرنے کی حاجت محسوس کی۔حکومت کے اتحادی بھی اس معاہدے سے لاتعلقی کااظہار کرچکے ہیں پھر یہ کیسی جمہوریت ہے کہ آمروں اورڈکٹیٹروں کی طرح امریکا کے حکم پر بھارت اورافغانستان کو ہماری شہہ رگ پر پاو
¿ں رکھ کر ہماری سانس بند کردینے کی اجازت دے دی گئی ہے؟
بھارت کی طویل عرصے سے یہ خواہش تھی کہ اسے افغانستان سے پاکستان کے راستے تجارت کےلئے راہداری مل جائے تاکہ وہ پاکستان اورافغانستان کی منڈیوںکے ساتھ ساتھ وسطی ایشیاکی ریاستوںتک آسانی سے رسائی مل جائے ۔پچھلے باسٹھ سالوں سے ہم نے کابل کا راستہ سرینگرسے مشروط کرکھا تھالیکن جب پاکستان نے اپنے اصولی مو
¿قف سے ہٹ کر راہداری دینے کے جواب میں بھارت سے نیپال ‘بھوٹان اوربنگلہ دیش تک تجارتی رسائی مانگی تو بھارت نے اس سے صاف انکار کردیالیکن اسے پاکستان کی بدقسمتی قرار د یا جائے یا پسپائی کانام دیا جائے کہ۸۱جولائی کوکئے گئے ایک معاہدے کے نتیجے میں بھارت بالواسطہ طورپر یکطرفہ یہ سہولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔آج یقیناپیپلز پارٹی کے جیالے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے شرمندہ ہونگے جنہوں نے بھارت کے ساتھ ایک ہزارسال تک جنگ لڑنے کا نعرہ لگایا تھالیکن بھٹوکے نام پر ووٹ حاصل کرنے والی جماعت اوران کے داماد نے بھارت کو راہداری اس وقت دی ہے جبکہ نہ صرف کشمیر میں آزادی کی تحریک زوروں پر ہے بلکہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے کشمیر میں ہونے والے ان تمام معاملات سے اپنے آپ کو بالکل الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ۔اب ایسا وقت آگیا ہے کشمیری اورپاکستانی قوم کو اپنی خواہشات‘امنگوں اورآرزوںکا خون ہوتے دیکھ کر خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
گزشتہ چار سال کے دوران بھارت افغان ٹرانزٹ ٹریڈکی آڑ میں ساٹھ ارب روپے سے زائدکی سبزیاںاوردیگر اشیائے خوردونوش پاکستانی اداروں کی لاپرواہی اورملی بھگت سے پاکستان کی منڈیوں میں فروخت کی جاچکی ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق بھارت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر دولاکھ ٹن ٹماٹر‘تین لاکھ ٹن آلو‘دولاکھ ٹن پیاز‘ساڑھے تین لاکھ ٹن چینی اورتقریباً تین لاکھ گانٹھ روئی سالانہ پاکستانی منڈیوں میں فروخت کرتا ہے جن کی بناءپر پاکستانی زراعت اورکسانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔اب جب بھارت کو افغانستان کی باقاعدہ راہداری کا پروانہ دے دیا گیا ہے تو اس کی آڑ میں اب پاکستان کی بیمارصنعتوں کو ختم کرکے پاکستان کومکمل طور پردیوالیہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ بھارت اورپاکستان کی معیشت کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان کی کل برآمدات بمشکل بیس ارب ڈالر ہیں جب کہ بھارت کی برآمدا کا حجم دوسو ارب ڈالرسالانہ سے زائد ہے۔دنیا کے اقتصادی ماہرین کے رائے کے مطابق اگلے چارسالوں تک بھارت کی برآمدات چارسو ارب ڈالر تک پہنچے کا امکان ہے جب کہ ہم نے راہداری کے معاہدے کے بعد وسطی ایشیا کی مارکیٹ بھارت جیسے دشمن کوسونے کی تھالی میں رکھ کر پیش کردی ہے جو ہمیں نابود کرنے کے درپے ہے۔
کیا اپوزیشن اورجیالے پاکستان کو بچانے کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے کےلئے تیار ہیں؟
کاش ریاست ہائے متحدہ امریکاکا شہنشاہِ عالی مقام جان پاتاکہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف اپنی زمین ‘اپنی فضائیںاور اپنے پانی ہی نذر نہیں کئے ‘ہماری وفا کشی واطاعت گزاری کا اصل پہلو یہ ہے کہ ہمارے حکومتی نومولود فقیہ‘ اہل قلم اور ارباب دانش نے بھی اپناسب کچھ ہدیہ جاناں کر دیا ہے اور امریکی مہم کے بے ننگ و نام خاکے میں ایسے ایسے دلائل کی مینا کاری کررہے ہیںکہ خود دانش بھی انگشت بدنداں ہے اور قلم کی آنکھیں بھی اپنی کم نصیبی پراشکبار ہیںکہ ہمارے مقدر میں کیسے ہاتھوں کی چاکری لکھ دی گئی ہے۔وہ کہ جن کے ذہنوں میں سرِ شام کنکھورے رینگنے لگتے ہیں‘جن کے افکار میں رات بھر چمگادڑیں پھڑ پھڑاتی رہتی ہیں‘جن کے دلوں میں چھچھوندروں نے گھر بنا رکھے ہیں اور جن کی روح میں مکڑیوں نے جالے تان رکھے ہیں ‘وہ بھی سحر دم مروان صفا کی طرح سفیلہ ارشاد پر بیٹھ کر وعظ و تلقین کی پوٹلیاں کھول لیتے ہیں ۔
مہارانی ہلری کلنٹن کاتازہ ارشاد یہ ہے کہ ”مجھے یقین ہے کہ ملا عمر اوراسامہ بن لادن پاکستان میں ہی ہیں اورآپ بھی جانتے ہیں کہ وہ یہیں ہےں‘لہندا دوغلا پن ختم کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کے سلسلے میں ہماری مدد کی جائے۔“مزید یہ فرمایا ”پاک چین ایٹمی معاہدے پر ہماری تشویش بجا ہے ‘ہم پاکستان سے دیگر ممالک کو برآمد کئے جانے والے ایٹمی رازوں اورایٹمی مواد کا مختلف ذرائع سے کھوج نکال سکتے ہیں۔ہم اپنے وعدے نبھا رہے ہیں لیکن یہ یکطرفہ ٹریفک نہیں چلے گی۔“
ان واضح دھمکیوں کی تناظرمیں افغان ٹریڈ معاہدے پر غور کریں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ وار آن ٹیرر میں ٹیلیفون کی پہلی کال پر ڈھیر ہوجانے والے فاسق کمانڈو نے غلامی کا جو راستہ متعارف کروایا تھا امریکا آج بھی اسی فارمولے کو استعمال کررہا ہے۔اس معاہدے کےلئے امریکا نے دونوں ملکوں کو دسمبر۹۰۰۲ءکی ڈیڈ لائن دی تھی لیکن پاکستان میں کچھ سرپھرے اب بھی ایسے موجود ہیں جو ابھی تک بھارت کو اپنا زلی دشمن سمجھتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ اگر مکار بنیاءایک بارافغان ٹریڈکے بہانے پاکستان کی سرزمین کو اپنی گزرگاہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تو ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی بنانے میں اس کے کئی گماشتے پہلے سے تیار بیٹھے ہیں جومفاہمت اورروشن خیالی کے اس دورمیں بھی دوقومی نظریے جیسی”متروک“ اصلاحات کواپنے ایمان کاجزوجانتے اورمانتے ہیں۔۶۱جولائی ۰۱۰۲ءکی شام کویہ مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے جو قصرسفید کے فرعون کے ایجنڈے کی ناکامی تھی اس لئے مہارانی کو تین ماہ پہلے متعلقہ تمام دھمکیوں کے ساتھ اپنے دورہ پاکستان کا آغازکرنا پڑا ۔
امریکا عراق کے بعد افغانستان میں اپنی جنگ مکمل طور پر ہارچکا ہے اوراپنی اس ناکامی کی ذمہ دار ی پاکستان کے سرتھوپتے ہوئے اب کابل کی بجائے اسلام آباد پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔علاوہ ازیں امریکا کئی سال پہلے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے چکا ہے اورمستقبل میں اس کو اس علاقے کا پولیس مین بنانے کےلئے اپنے تمام وسائل اورطاقت کو استعمال کرنے سے کوئی گریز نہیں کررہاکہ اس سے پہلے وہ اس علاقے میں شاہ ایران اورمشرف جیسے غلاموں سے ہاتھ دھو چکا ہے۔وہ اپنے انخلاءکے بعد بھارت کو اس علاقے میں اپنا فرنٹ مین کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے ۔اسی لئے وہ بھارتی سورماوں کی افغانستان میں تعیناتی چاہتا تھا لیکن چالاک بھارتی بنیاءامریکا کے جال میں نہیں پھنساکیونکہ وہ جانتا تھا کہ جن افغانوں کو امریکا جیسی سپر طاقت اوراس کے اتحادی قابو نہ کرسکے وہاں اس کی ایسی درگت بنے گی کہ بھارت وقت سے پہلے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔لہندا اسی لئے اب ایسٹ انڈیاکمپنی والا طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت کےلئے مارکیٹیںاورپاکستان کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کے نئے راستے کھولنے کےلئے بیتاب ہورہا ہے۔وہ افغانستان سے اپنی پہلی فرصت میں بوریا بستر لپیٹ کر باعزت رخصت ہونا چاہتا ہے لیکن تجارت کے نام پر دوسرے ملکوں میں اثررسوخ بڑھا کرانہیں اپنے زیرِ نگیںکرنے کی شدید خواہش بھی رکھتا ہے ‘اسی لئے مذاکرات ملتوی ہونے کے اعلان کے باوجودقصرِ سفید کے فرعون کے حکم پردونوں غلاموں نے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا اورمہارانی کی مداخلت پر راہداری کا معاہدہ طے پاگیا۔امریکا کی دلچسپی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے کے صرف تیس منٹ بعدواشنگٹن میں امریکی ترجمان نے فوری طور پراس بات کو تسلیم کیا کہ دونوں ملکوں کے مابین مفاہمتی نوٹ پر دستخط ان کی مداخلت سے ہوئے ہیں لیکن ہماری حکومت کے وزیرِ تجارت‘وزیرِ خارجہ اوروزیراطلاعات قوم سے مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں کہ اس معاہدے میں کسی تیسرے ملک کا کوئی ہاتھ نہیں۔
قارئین!اب آپ کو صدر زرداری کی تقریبِ حلف وفاداری میں حامد کرزئی کی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شمولیت اورصدرزرداری کی پہلی تقریرمیں بھارت کے ساتھ مشترکہ تجارتی منڈیوں اوردوستی کی درخواست کی بھی آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ کس طرح ”این آراو“کے تحت درآمد کئے گئے حکمرانوں کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کےلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
معاہدہ کی تکمیل کے بعد پریس کانفرنس میں مہارانی تو امریکا کا موقف بیان کررہی تھی لیکن ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھی امریکی موقف کی وضاحت کررہے تھے ۔ منافقت اورخوئے غلامی کا سب سے ہولناک پہلو یہی ہے کہ وہ ہر قطرہ خوں میں گھر کر لیتی اور عشق کا ایسا رنگ اختیار کر لیتی ہے کہ محبوب کا چیچک زدہ چہرہ بھی چودھویں کے چاند جیسا روشن ‘اس کی یرقان زدہ آنکھیں بھی مئے کے چھلکتے پیمانے اور اس کے سوکھے سڑے ہونٹ بھی گلاب کی پنکھڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ان نورتنوں کو کون بتائے کہ امریکا اتنا معصوم نہیں ہے کہ بلاوجہ پاکستانی حکومت اورعوام کے انرجی مسائل کے علاوہ دودرجن سے زائد پراجیکٹ پر امداد کی صورت میں سرمایہ کاری کرے۔ پچھلے ساٹھ ستر سالوں کی تاریخ پر ہی نظر ڈال لی جائے تو امریکا دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے‘منافق اور سب سے مکروہ ملک کی حیثیت سے سامنے آتا ہے جو ہر آن جمہوریت ‘انسانیت اور انسانی حقوق کے معنی تبدیل کرتا رہتا ہے۔ابو غریب جیل سے گوانتاناموبے تک‘قندھار‘غزنی سے کابل تک ”شرفِ انسانیت“کی نئی تاریخ رقم کرنے والے عفریت کو ایسی سندِ فضیلت تو امریکا یا برطانیہ کی کسی دانش گاہ سے بھی نہیں ملیں۔اقبالؒ نے کیا الہامی بات کہی تھی:
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی یہی ہے مرنے والی امتوں کاعالمِ پیری
شیاطین ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو کہ خود نخچیرکے دل میں ہو پیداذوقَ نخچیری
شکاری کا کام تو شکار کرنا ہی ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود شکار کے دل میں بھی تیر کھانے کی آرزوانگڑائیاں لینے لگتی ہے۔اپنی تاریخ و روایات کو ”نسیم حجازیت“کانام دیکر ”نشانہ تمسخر“بنانااور مکروہ تریں نامہ اعمال رکھنے والوں کے گلے میں ہار ڈالنا‘مری ہوئی قوموںکے مرے ہوئے حکمرانوںکا شیوہ رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے یہ معاہدہ کرکے مہارانی کو ان کی مرضی کی سلامی پیش کی ہے ۔ابھی چند دن پہلے انہیں ساڑھے چارسو امریکیوں کے ویزے کی منظوری کا تحفہ بھی دیا گیا جن میں سے ڈیڑھ سو سے زائد امریکی فوجی اورسی آئی اے کے افسران ہیں۔یہ وہ افراد ہیں جن کے ویزے قومی سلامتی کے اداروں کے تحفظات کے باعث روکے گئے تھے کیونکہ اس سے پہلے ان کے ساتھیوں نے جو گل کھلائے تھے اس کے بعد پاکستان اس طرح کے ”مہمانوں“کی میزبانی سے انکار کرچکا تھالیکن ہمارے سفیرِ امریکاحسین حقانی مہارانی کی آمد سے پہلے ایوان صدر سے ان ویزوںکی منظوری کا نہ صرف بندوبست کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں بلکہ ایوانِ صدر نے امریکیوں کو ویزوں کےلئے سیکورٹی کی کلیرنس کے ”جھنجھٹ“سے نجات دلانے کےلئے حسین حقانی کوایک سال کا ملٹی انٹرنس ویزہ جاری کرنے کا اختیار بھی دے دیا ہے ۔اٹھارویںترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم کو زیادہ بااختیار بنانے کا نعرہ لگانے والی حکومت نے وزیراعظم کو بائی پاس کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ کو ہدائت نجانے کس قانون کے تحت جاری کی ہے؟
دنیا میں راہداری معاہدوں میں کسی بھی ملک کے انفراسٹرکچرکے استعمال کو دیکھتے ہوئے راہداری چارجز مقرر کئے جاتے ہیں لیکن ہم نے کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان ٹرانسپورٹر کومفت اپنے ملک کے سارے انفراسٹرکچر کو استعمال کرنے کی اجازت دینے پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔اس سے ملکی سلامتی کو جو شدید نقصانات پہنچنے کا احتما ل ہے اس پر شائد کسی نے بھی غور نہیں کیا۔واہگہ سے افغانستان جانے کےلئے اگر وہ جی ٹی روڈاستعمال کرتے ہیں تو ملک کی تمام اہم میزائل ٹیسٹنگ سائٹس اورگوجرانوالہ‘کھاریاںاورجہلم چھاونیاںان کی گزرگاہ کا حصہ ہونگی اوربھارتی سرحد قریب ہونے کے باعث ہماری ساری فوجی نقل و حمل زیادہ تر جی ٹی روڈپر ہی ہوتی ہے اس طرح ملک کی ساری فوجی نقل و حمل پر ان کی پوری نظر ہوگی اوراگر موٹر وے کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس کی دفاعی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا ائیر بیس سرگودھا اورملک کی اہم دفاعی تنصیبات خوشاب میں موجود ہیں جو موٹر وے کے ساتھ ساتھ ہیں‘پھر اس بات کا تو قوی امکان ہے کہ ”را“کے تربیت یافتہ ایجنٹ ڈرائیوروں کے روپ میں پاکستان کی شاہراہوں پر مکمل نظر رکھیں گے۔اس لئے پنجاب حکومت نے اپنے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے اس پر فوری غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اسلام آباد کے حکومتی ایوانونں میں ابھی قصر سفید کی مہارانی کی دھمکیوں کی گونج اورکڑک باقی تھی کہ امریکی افواج کے سربراہ مائیک مولن بھی اپنی خونخوار آنکھوں سے اس میدان میں کود پڑے انہوںنے ہلری کلنٹن کی دھمکیوں کی نہ صرف تائید کی بلکہ کئی اورنئے الزامات کی بارش سے وارآن ٹیرر میں پاکستان کی سب قربانیوں کو یکسر فراموش کرتے ہوئے اس کو دشمنوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی فوجی سربراہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”میں وزیرخارجہ ہلری کلنٹن کے اس بیان کی مکمل تائید کرتا ہوں کہ اسامہ بن لادن اورملا عمر پاکستان میں موجود ہیںاوراگرامریکا پرکسی حملے کے شواہد پاکستان میں ملے تواس کے انتہائی مہلک نتائج برآمد ہوں گے“۔انہوں نے لشکرِ طیبہ کوعلاقے اورعالمی امن کےلئے ابھرتا ہوا خطرہ قراردیتے ہوئے اس کے القاعدہ اوردیگردہشت گردنیٹ ورکس کے ساتھ باہمی تعلقات کا الزام بھی لگایا ہے کہ یہ تنظیم مغربی ممالک‘افغانستان اوردیگر ممالک میں تیزی سے اپنا اثرورسوخ بڑھا رہی ہے اور اس تنظیم کومزیدپھیلنے سے روکنے کے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا لشکرِطیبہ کی نگرانی بھی۲۰۰۸ سے کررہا ہے ۔ مزید انکشاف کرتے ہوئے یہ بھی کہا ”دہشت گردوں کی طرف سے بھارت پر ایک اورحملے کا خطرہ موجود ہے اوراس کے نتیجے میں پاکستان اوربھارت میں جنگ بھی چھڑ سکتی ہے“۔ ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا ” آئی ایس آئی کے تمام اہلکارپاکستانی حکومت کی ہدائت پر کام کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ تمام اہلکارحکومت کے کنٹرول میںہیں یا نہیں؟آئی ایس آئی کے بعض شعبوںکے حوالے سے خدشات موجود ہیںآئی ایس آئی کاسٹرٹیجک انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔“
پہلی دھمکی سے پاکستان کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اسامہ بن لادن کی وجہ سے افغانستان پر حملہ ہوسکتا ہے تو اب تو اسامہ کے ساتھ ملاعمر بھی پاکستان میں موجود ہے اور کھلی دھمکی میں پاکستان کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھی ویسی ہی کاروائی ہوگی جس طرح ۱۰۰۲ءمیں افغانستان کاتورا بورا کردیا گیا تھا لیکن اب فرق صرف یہ ہوگا کہ اس کاروائی میں اس کے اتحادیوں میں بھارت بھی شامل ہوگا جو ایک عرصے سے انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔اب جہاں تک بھارت پر ایک اورحملے کے خدشے کا اظہار انہوں نے پاکستان میں کیا ہے اس سے امریکا اوربھارت کے ان عزائم کا پتہ چلتا ہے جس کے سبب وہ پاکستان پر دباو بڑھا کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ ایسے خدشات کا اس سے پہلے کئی مرتبہ ذکرکیا گیا تھا لیکن اب مائیکل مولن کی طرف سے یہ اطلاع اس لئے اہم ہے کہ یہ اطلاع سے بڑھ کرکسی خطرناک منصوبے کی نشاندہی کرہی ہے جس کےلئے ہمارے ملکی دفاع کے ذمہ داروں کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔
میں نے اپنے ۱۲جولائی کے کالم”سلگتے چناراب جل رہے ہیں“ میں کشمیر کی دہکتی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے مطلع کیا تھا کہ بھارت نے ایک بار پھر کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر امریکا اوربرطانیہ سے مدد کی درخواست کی ہے اورامریکا اوربرطانیہ درپردہ بھارت کی مدد کےلئے فوری سرگرم بھی ہو گئے ہیں۔کیا پاکستان پر دباو بڑھانے کی وجہ یہی تو نہیں کہ مقبوضہ کشمیر اورشمالی وزیرستان میں فوری طور پر اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں؟کیا امریکا پاکستان کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اگر اس نے تعاون نہ کیا تو بھارت میں آسانی کے ساتھ ایسا حملہ”اسٹیج“کرایا جاسکتا ہے جس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی جائے گی؟پاکستان اس حملے سے لاتعلقی ظاہر کرے گالیکن بھارت نہیں مانے گااور امریکا کی شہہ پرپاکستان پر حملہ کردے گا؟اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا موجودہ حکومت میں پہلے سے حاصل اپنی دسترس کے تحت اس بات کو یقینی بنا لے گایا بنانے کی کوشش کرے گا کہ یہ جنگ ایٹمی تصادم میں نہ بدل جائے چنانچہ بھارت کواس بات کی ضمانت دی جائے گی کہ ایٹمی ہتھیار نہیں چلیں گے تاکہ وہ بے فکر ہوکر پاکستان کو سبق سکھائے اوردرپردہ اسے امریکا اوراسرائیل کی بھی پشت پناہی حاصل رہے گی۔
امریکا اورپاکستان کے سارے اخبارات میں یہ خبر چھپ چکی ہے کہ امریکا نے وارآن ٹیرر کے تحت جو جدید طیارے اورجنگی سازوسامان پاکستان کودیا ہے اس کے ساتھ کچھ کڑی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں کہ یہ جنگی طیارے اورسازوسامان صرف دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہوں گے اوربھارت کے خلاف ہرگز استعمال نہیں کئے جا سکتے اوریہ تمام جدید طیارے ایسی ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں کہ امریکا جب چاہے انہیں ریموٹ کنٹرول سے جام کرسکتا ہے یعنی اگر پاکستان چاہے بھی تو بھارت کے خلاف ان جدید طیاروں کو استعمال کرنے سے قاصر رہے گا۔
مہارانی ہلری کلنٹن جونہی اپنے اگلے پڑاو کابل پہنچیں جہاں ستر ممالک کے گروپ ان کے منتظر تھے ۔حیرت انگیز طور پروہاں ان کا رویہ انتہائی مصالحانہ اورلہجہ بے حد نرم تھا۔انہوں نے میڈیا کے سامنے اپنے دورے کی غرض و غائت بیان کرت ہوئے کہا کہ” جولائی ۱۱۰۲ءکی تاریخ دونوں لحاظ سے مناسب ہے ‘یعنی اس سے افغانستان سے جلدی نکلنے اورمعاملے کو حل کرنے کےلئے ہمارا عزم کا بھی اظہارہوتا ہے ‘درمیانی عرصہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ‘اس تاریخ سے نئے دور کا آغاز ہوگالیکن ہماری مداخلت کاخاتمہ نہیں ہوگا۔ “ مہارانی کے اس بیان کو چندماہ پہلے چغہ پوش مسخرے حامدکرزئی کی پیش کردہ تجاویزکے پس منظر میں دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ طالبان کے رہنما ملا عمرکے دونوں مطالبات کے سامنے قصرِ سفید نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں ۔ملا عمر نے مذاکرات سے قبل افغانستان سے تمام غیرملکی قابض افواج کے نکلنے کا نظام الاوقات اورقابض افواج کی تحویل میں ۰۵کے قریب طالبان رہنماوںکی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔مہارانی ہلری کلنٹن نے جولائی ۲۰۱۰ءمیں عالمی کانفرنس میں شریک ستر ممالک کو گواہ بناکرافغانستان سے نکلنے کا اعلان بھی کردیاہے اورطالبان کے دوسرے مطالبے یعنی گرفتارشدہ تمام طالبان رہنماوں کی رہائی پر بھی رضامندی کا اظہار کردیا ہے۔
گویا پاکستان کی موجودہ حکومت کی نسبت حامد کرزئی نے بہتر حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے امریکا سے طالبان کے دوبنیادی مطالبات منواکر گیند کو طالبان کی کورٹ میں پھینک دیا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان کے مستقبل کے تعین کےلئے کوئی لوئی جرگہ بلایا جائے جہاں فائربندی کا کوئی معاہدہ طے پا جائے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف امریکا افغانستان سے اپنی جان چھڑانے کےلئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہا ہے لیکن دوسری طرف افغانستان کو بھارت کےلئے زمینی راہداری کا بونس کیوں دلوا رہا ہے؟امریکا نے اب تک باوجود بے شمار مطالبات کے اپنی منڈیوں میں ہمیں آزادانہ رسائی دینے سے ہمیشہ انکاریا گریز کیا ہے لیکن ہماری مارکیٹوں میں وہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پربھارتی اوردیگر ممالک کی مصنوعات کی یلغار کرکے ہماری زراعت اور صنعت کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔آخر افغانستان میں ایسی کونسی اشیاءہیں جن کو وہ بھارت برآمد کرنا چاہتا ہے؟کیا وہ تورا بورا کے تاریخی پتھروںیا افغانستان میں امریکی فوجوں کے ہاتھوں ہونے والی بربادی کو بھارت برآمد کرنا چاہتا ہے؟
اس معاہدے میں امریکا کی ایسی دلچسپی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اب بھی فغانستان میں مزید ٹھہرنے اوراس سارے علاقے میں اپنے مستقل مفادات کی نگرانی کی فکر میں ہے۔ اتحادی افواج کوپاکستان سے افغانستان لاجسٹک امدادکی فراہمی میں آئے دن کنٹینرکے رسل ورسائل میں ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اورامریکا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کراچی بندرگاہ سے افغانستان کے طویل زمینی فاصلے کو کم کرنے کےلئے آئندہ بھارت کی کوئی قریب ترین بندرگاہ کو استعمال کیا جائے تاکہ پاکستان کے زمینی فاصلے کو کم سے کم استعمال کیا جائے اوردوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکا جب افغانستان سے نکلے تواس کی جنگی مشینری جو اس کےلئے واپس لیجانا ممکن نہیں ‘اسے بھارت منتقل کردیا جائے تاکہ وہ بعد میں کسی بھی صورت میں طالبان یادیگر گروپوںکے ہاتھ نہ لگ سکے جیساکہ سوویت یونین کے چھوڑے ہوئے تمام ہتھیار مجاہدین کے ہاتھ لگ گئے تھے جن کی وجہ سے ان کی جنگی طاقت میں خاطرخواہ اضافہ ہوگیا تھا۔
اب ظاہر ہے اس جنگی مشینری اوردوسرے جنگی سازوسامان کی بھارت منتقلی کےلئے واہگہ سے زیادہ آسان اورسستاراستہ نہیں ہوسکتا ‘اس لئے بھارت نے امریکی دباو سے یہ حقوق حاصل کرلئے ہیں۔اس راہداری کے مفاہمتی نوٹ میں ایک تشویش ناک اورخطرناک شرط یہ بھی شامل ہے کہ افغانستان سے بھارت جانے والے کارگو کو چیک کرنے کا کوئی اختیار پاکستان کے پاس نہیں ہوگااوردونوں ملکوں کے درمیان کسی تنازعے کی صورت میں غیرجانبدار کسی تیسرے ملک سے رجوع کیا جائے گا۔اب ثالث کون ہوگااوروہ کیسے فیصلے کرے گااس کی کوئی تفصیلات موجود نہیں۔
کوئی نہیں کہتا امریکا سے ٹکرا جاولیکن خدا کےلئے ان فکری بالشتیوں اورسامراجی فقیہوںکو قوم کی غیرت سے کھلوار کرنے سے تو روکا جائے۔غیرت و حمیت کاجوہر موجود ہو تو ہم اپنی پرانی بندوقوں‘اپنی زنگ آلود تلواروں‘اپنی لاٹھیوں‘اپنے ناخنوں‘اپنے دانتوںاور اپنی جانوں کے بل پراپنے ملک کی حفاظت کرسکتے ہیں لیکن جن قوموں کایہ جوہر مرجائے تو ان کے ایٹم بم بھی ان کی مردہ رگوں میں مزاحمت کی چنگاری نہیں سلگا سکتے۔اچانک ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی اس راہداری معاہدے کے چھپے ہوئے خطرناک منصوبوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہو سکتی ہے اوراس کے علاوہ کیا آپ یہ نہیں سمجھ رہے کہ آئے دن کے ڈرون حملوں سے پاکستانی قوم کو یہ پیغام دینا بھی مقصود ہے کہ اب تم ہمارے رحم و کرم پر ہو‘جن فولادی ہاتھوں پر تم کو ناز تھا اب وہ ہاتھ موم سے بھی زیادہ نرم اور کانچ سے زیادہ نازک ہو گئے ہیں؟