کڑی آزمائش
سمیع اللہ ملک
لندن
روس کی شکست وریخت اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے ناتے خود کو پوری دنیا کا حاکم سمجھ بیٹھا۔اس نے کئی ایسے قدم اٹھائے جو اس کی خوش فہمی اور حد درجہ غرور کا پتہ دیتے تھے۔دیگر چھوٹے چھوٹے تنازعات کے علاوہ افغانستان اور پھر عراق پر حملہ ایک ایسی ہی خوش فہمی کا نتیجہ تھے جن کے دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے اور امریکا اب پچھتا رہا ہے۔حالات کہہ رہے ہیں کہ شکست اس کا مقدر بن چکی ہے۔امریکا کے ایک سابق کمانڈر جو عراق میں امریکی فوج کی کمان بھی کرتے رہے ہیں،کا کہنا ہے کہ عراق اورافغانستان میں امریکی فوج اس وقت صرف شکست ٹالنے میں مصروف ہے۔ یہ بیان کسی مسلمان صحافی یا غیر جانبدار تجزیہ نگار کسی دوسرے ملک کے باشندے یا صحافی کا نہیں بلکہ ایک امریکی کا ہے، امریکی بھی ایک فوجی کمانڈر جس نے خود عراقی جنگ کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا،عراقی مزاحمت کاروں کے جذبات،وہاں کے عوام کی امریکا سے نفرت اور امریکی فوج اور اس کے ٹوٹتے ہوئے حوصلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔مجاہدین کے خلاف کارروائی میں خودشرکت کی اور خود ملوث ہو کر ہر زاویے سے اس جنگ کو دیکھا۔ ایسے آدمی کے تجزیے کو جھٹلانا اس پر شک کرنا یقینا مشکل ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں طالبان کی کارروائیاں روز بروز تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔طالبان کی حالیہ کارروائیوں میں افغان و اتحاد ی فوجوں کے نقصان کا تناسب بڑھ گیا ہے۔طالبان عراقی مجاہدین کی طرح اب کامیابی کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اپنی کارروائیوں کی ویڈیو فلمیں بھی بنا رہے ہیں۔ ان کی نئی آنے والی ویڈیو فلموں سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کے طول و عرض میں بے خوفی اور آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ وہ جہاں چاہتے ہیں کارروائیاں کرتے ہیں۔کئی صوبے ایسے ہیں جہاں عملاً ان کی حکومت ہے،بہت سے اضلاع پر وقتی قبضہ کر کے انہوں نے اس بات کا ثبوت بھی مہیا کردیا، لیکن وہ صرف اس وجہ سے منظرعام پر نہیںآرہے ہیں کہ شہروں میں اتحادی افواج ہوائی جہازوں اور بموں کا بے تحاشا استعمال کریں گی جس کی وجہ سے نہتے عوام شہید ہو جائیں گے۔ ایک حالیہ مستند رپورٹ کے مطابق جنوری سے اکتوبر۰۱۰۲ءتک ا دوہزارسے زائدافغان فوجی طالبان سے جا ملے ہیں۔جنگ میں کسی ایک فریق کے ارکان دوسرے فریق سے اُس وقت ملتے ہیں جب انہیں اپنے فریق کی شکست کے آثار واضح طور پر نظر آجائیںاور فریق ثانی کی دہشت اور دھاک ان پر بیٹھ جائے۔ اندھا دھند کارروائیوں اور بمباری سے افغان عوام میں غیر ملکی افواج سے نفرت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔افغانستان بھر میں پانی کی طرح بہایا جانے والا پیسہ بھی امریکا کے کام نہیںآسکا ہے۔ عراق و افغان جنگ امریکا کی دوبڑی حماقتیں تھیں۔ امریکا کی ان دو تاریخی غلطیوں کے پیچھے یہ تصور کار فرماتھا کہ روس کے بعد اب دنیا میں ہمیں شکست دینے والا کوئی نہیں رہا۔امریکا یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ ہر طالع آزما کو بالآخر شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔تاریخ کا علم تو لوگ حاصل کرتے ہیں لیکن اس سے سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ امریکا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اوروہ اپنے ہی جال میں پھنس گیا۔ عراق پر امریکی حملے کے پیچھے صہیونی لابی کارفرما تھی اور امریکا نفع و نقصان کی پروا کئے بغیر حملہ کر بیٹھا۔ امریکا میں صہیونی لابی کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ اس کی کسی بھی چاہت کے آگے نفع و نقصان کی پرواہ کئے بغیر امریکی حکومتیں اپنا سر تسلیم خم کردیتی ہیں،لیکن امریکا افغانستان پر حملہ کرنے کی غلطی اس لئے کر بیٹھا کہ اس پر نائن الیون کے حملے کے وقت ایک ہیجانی کیفیت طاری تھی۔اُس وقت روس اور چین کا خاموش اور کسی حد تک مثبت کردار امریکا کے لئے تقویت کا باعث بنا۔معلوم نہیں یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا یا امریکا کی ناپسندیدہ پالیسیوں کا رد عمل کہ دونوں ممالک اب دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں امریکا کے ساتھ نہیںرہے۔ بلکہ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ ایک اور سرد جنگ چھڑ چکی ہے جس میں چین اور روس شانہ بشانہ ہو کر امریکا کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔اکتوبر۷۰۰۲ءمیں یہ خبر منظر عام پر آئی کہ تائیوان نے امریکا کی مدد سے کروز میزائل تیار کرلیا ہے جو چین کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اگلے روز ہی امریکی ترجمان کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ ایرانی سرحد سے متصل افغانستان کے علاقے میں طالبان سے ایک طویل جھڑپ کے بعد اتحادی افواج کو ایرانی سرحد سے متصل افغانستان کے علاقے میں طالبان سے ایک طویل جھڑپ کے بعد اتحادی افواج کو ایرانی اور چینی ساختہ ہتھیار ملے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چین اب افغانستان میں کود چکا ہے اور امریکی چیرہ دستیوں کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کی ٹھان چکا ہے۔وہ سمجھ چکا ہے کہ اب خاموش رہ کر پس منظرمیں بیٹھنے کا وقت گزر چکا ہے۔یہ ایک سنہری موقع ہے کہ امریکا خود شکست کھانے کے لئے اس کے پڑوس ہی میں چل کر آیا ہے۔امریکا چین کو مسلسل دبانے کی کوشش کرتا آیا ہے لیکن چین نے ہمیشہ وسیع ا لظرفی کا مظاہرہ کیا ہے۔اگست ۷۰۰۲ءمیں ملا عمر کی طرف سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ پڑوسی ممالک غیر ملکی قبضہ کے خلاف مزاحمت میں ان کا ساتھ دیں۔طالبان سپریم کمانڈر کے اس بیان کو اگر اسی تناظر میں لیاجائے توصورت حال اور واضح ہو جاتی ہے۔چین کو فوراً دباﺅ میں لانے کے لئے سابقہ امریکی صدر بش نے تبت کے جلا وطن روحانی پیشوا دلائی لامہ سے ملاقات کا پروگرام بنایا جس پر چین نے سخت تشویش کا اظہار بھی کیا تھااور کوئی ایسا قد] ]>