کیا آپکواب بھی یقین نہیں آیا؟
تحریر:انعام الحق
پاکستان امریکہ کا اس حد تک غلام بن چکا ہے کہ اب امریکہ کے بغیر پاکستان کا سانس لینا بہت مشکل ہے۔یہ اےک کڑوی مگر حقیقت پر مبنی بات ہے کہ ہم پھر سے انگریزوں کے غلام بن چکے ہیں،اُنہی کے حکم پر ہی ہم چل رہے ہیں اوراُنہی کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔پہلے تو انگریز ہم سے اُس دشمنی کا بدلہ لیں گے یعنی جب مسلمانوں نے ان سے جان چھڑائی اور ان کے خلاف تحریکیں چلائیں۔اسی لئے ہمارے ملک کی عوام کاایسا حال کیا جا رہا ہے جو قید خانوں میں سنگین مجرموں کا کیا جاتا ہے۔ہمیں مان لینا چاہےے کہ ہمارے حکمران ہمیں بیوقوف بنا رہے ہیں اور ہم خاموشی سے اُن کی بلند آواز اور جھوٹے وعدوں پرمجبوراً” واہ واہ“ کررہے ہیں۔مجبور اس لئے کہ اب عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے،حکومت نے عوام کو اُٹھنے جوگا چھوڑانہیں چھوڑا۔عوام سٹرکوں پر آئے حکومت کے خلاف آواز اُٹھائے اس کے لئے عوام کے پاس وقت نہیں کیونکہ اب عوام کی اکثریت اُن میں سے ہے جو سارا دن محنت کریں تو اُن کے گھر کا چولہا جلتا ہے،اُن کے بچے روٹی تبھی کھاتے ہیں جب وہ خود سارا دن مشقت کریں بشرطیہ کہ اُنہیں کام ملے۔ایسی صورتحال میںغریب کیسے احتجاج کا سوچ سکتے ہیں۔جبکہ حکومت غریبوں کو دینے کی بجائے اُن سے لے رہی ہے۔حکومت کی یہ خاص مہربانی ہے کہ عوام پر اپنے انداز سے رحم کرنے سے باز نہیں آرہی یعنی عوام کو کھانے کو کُچھ ملے یا نہ ملے بیرون ملک پاکستانی مال فروخت کرنے میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ تیزی آئی ہے۔دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کی غیرت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی امریکی جیلوں میں سزا کاٹ رہی ہے اور پاکستان میں امریکی رےمنڈ ڈیوس کے تین پاکستانیوں کو قتل کرنے پر احتجاج کرنےوالوں پر لاٹھیاں برسائی جاتی رہیں۔ایک امریکی جو پاکستان میں جدید اسلحہ لے کر پھر سکتا ہے کیا وہ دہشت گرد نہیں ہوسکتا؟اُس شخص نے اُس جدید اسلحے سے جس میں ایسی ساخ کی گولیاں استعمال کی گئیںجو انسانی ہڈی کو لگنے کے بعدایسے ختم کرتی ہے کہ ہڈی کا نام ونشان نہیں ملتا۔کیااس قسم کا اسلحہ اور بغیر لائسنس اور پرمٹ کے بغیر لے کر پھرنے والا دہشت گرد نہیں ہوسکتا؟سُننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ ڈیوس ایف بی آئی کا خفیہ جاسوس ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ امریکی سفارتکاخانے کا ممبر ہے۔کہیں امریکہ اپنی عزت بچانے کے لئے اس بات سے منکر تو نہیں کہ اُس کا امریکی حکومت یاکسی تصدیق شدہ ادارے سے تعلق نہیں؟اگر ڈیوس اےک عام اور پُرامن شہری ہوتا تو یوں بھرے حجوم میں قتل عام نہ کرتااور جس طرح اُس نے گولیاں چلائیں اس سے ثابت ہے کہ وہ تربیت یافتہ ہے۔شرم کی بات تو یہ ہے کہ جب امریکہ کی جانب سے ڈیوس کی رہائی کا مطالبہ آیا اُس وقت ہمارے حکمرانوں کے منہ سے عافیہ صدیقی کے بارہ میں کوئی بات کیوں نہیں نکلی۔حکومت کو چاہئے تھا کہ امریکی حکومت کو جواب میں کہتے کہ عافیہ تو قصور وار بھی نہیں تھی اُسے کس چیز کی سزا دی گئی؟یعنی عافیہ صدیقی پر الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے۔ڈیوس کے تین پاکستانیوں کو قتل کرنے پر امریکی اور پاکستانی حکمران مل کر حل نکالنے اور ڈیوس کو بچانے کی کوششوں کے بارہ میں تحقیق کر رہے ہیں مگر اس موقع پر یاد رہے کہ عافیہ صدیقی کی بار کیا ہوا تھا؟اُس وقت ان حکمرانوں کو خیال کیوں نہ آیا کہ اس بارہ میں کوئی حل نکالیں؟عوام سڑکوں پر چلاتی رہی ہے عافیہ کو رہا کیا جائے مگر کسی نے نہ سُنی اور حکومت کو بھی غیرت نہ آئی۔تو اب ایسا کیوں؟کیا یہ اس بات کی تصدیق نہیں کہ ہمارے حکمران امریکہ کے آگے گٹنے ٹیک چکے ہیں۔