عباس ملک، پاکستان
ہر سیاسی پارٹی کی تخلیق کا سبب کوئی نہ کوئی اہم مقصد ہوتا ہے ۔مسلم لیگ کا قیام اگر عمل میں آیاتو اس کا مقصد تحریک پاکستان کو منزل سے ہمکنار کرنا تھا ۔اس کے بعد بھی جتنی سیاسی پارٹیاں قیام عمل میں آئیں وہ دوسری پارٹیوں سے سیاسی او رعملی اختلافات کے سبب بنی۔اگر کوئی سیاستدان کسی سیاسی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتا ہے تو اس یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس کا سابقہ رستہ اور اس کے پیشرو غلط تھے یا اب وہ مزید راہ گم کر بیٹھا ہے ۔سیاسی اختلافات کا سبب یا تو نظریاتی ہو سکتاہے یا پھر ان نظریات پر عمل نہ کرنے کے سبب کوئی ممبرسیاسی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتاہے ۔پاکستان میں نظریاتی عملی سیاست کے کتنے ستارے افق سیاست پر جگمگا رہے ہیں یہ تو ایک نظر دیکھ کر اندازہ ہو جاتاہے۔دوسروں کی مستعار روشنی سے جگمگانے والے ستاروں سے سیاسی افق اٹا پڑا ہے ۔کوئی قائد اعظم کے افکار کی تقلید کے نعرے کی آڑ میں تو خدائی تقسیم روٹی کپڑا مکان کا وسیلہ ہونے کا دعویدار بن کر فرعونیت کے منصب کو چھونے کی تمنا میں گرفتار ہے ۔عمل ان کی زندگی میں ضرور داخل ہے لیکن اپنی ذات کے حصار سے باہر ان کی سوچ معدوم ہو جاتی ہے ۔دیکھا جائے تو ایک عام کارکن سے عوامی نمائیندگی کے منصب پر فائز کئی نامور سیاستدان اپنے قول و فکر سے دور ہو گئے ۔کارکن تھے تو ملک اور قوم کی خاطر موسم کی سختیوں سے بے نیاز اور اپنے اہل خانہ کی قربانی ،مال ومعاش سے بے نیاز ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کیلئے کوشاں رواں دواں تھے ۔اس وقت پاکستان کی طرف کینہ پرور نگاہ انکی دشمن اور زبان گدی سے کھینچنے کے لائق کے تھی ۔کل تک انہیں نمود ونمائش سے کراہت تھی۔کل وہ شادیوں کو سیاسی اجتماع بنانے کو گناہ قرار دیتے تھے ۔وقت بدل گیا کارکن کا چہرہ لیڈر کے روپ میں ڈھل گیا ۔آج وہ دشمن کی کینہ پرور نگاہ کو دوست کی ناراضگی اور اس کی لن ترانیوں کو سڑیجک معاملات قرار دیتا ہے ۔آج اسے پسینے سے بو آتی ہے اور شادی کیلئے 25000کے مجمع کو اپنی مقبولیت اور حلقہ کے ووٹر کو خوشی میں شرکت کی منطق سے تعبیر کرتا ہے ۔جو کوئی بھی کسی شعبے کو انتخاب کرتا ہے تو یقینا وہ اس کے فوائد و نقائص سے کچھ نہ کچھ اگاہ ہوتا ہے ۔فوج ،عدلیہ ،صحافت ،پولیس ،تعلیم وصحت ،سیاست ایسے ادارے ہیں جن میں انسان کو کئی طرح کے خطرات واضح طور پر نظر آرہے ہوتے ہیں ۔ان میں جان و مال کے خطرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ایسے میں اگر کوئی شخص ان اداروں میں شمولیت اختیار کرتا ہے اور حلف اٹھاتا ہے کہ وہ اپنی مقدور بھر ہمت اور کوشش سے ملک اور قوم کا دفاع او رخدمت کرے گا ۔اس کے بعد اگر وہ کسی بھی خوف کے زیر سایہ اپنے فرائض کی انجام دہی سے غفلت کا مرتکب ہوتا ہے تو اس میں قصور ملک و قوم ہے یا پھر وہ گنہگار ہے ۔گولی کھانے کا حوصلہ نہیں تو فوج اور پولیس کو جوائن ہی کیوں کیا ؟بھوک او رمفلسی کا ڈر ہے تو تعلیم اور صحافت کے شعبہ میں کیوں آئے ؟اگر حوصلہ نہیں دھمکیوں سے مرعوب ہوتے ہو تو سیاست اور انصاف کی گدی کا انتخاب کیوں کیا ؟اگر ان شعبوں کے فوائد ہیں تو یہ شعبے قربانی بھی مانگتے ہیں ۔عوامی خدمت کے براہ راست اداروں کے ذمہ داران کو مشنری جذبے کے تحت کا م کرنا پڑتا ہے ۔ ان کے نزدیک ان کامشن ان کی اپنی ذات سے بھی اہم ہوتاہے ۔حضرت قائد اعظم اس کی زندہ مثال ہیں ۔اسکے علاوہ بھی کئی ایسے تابیندہ ستارے ہیں جو ا س کہکشاں کی رونق کو بڑھاتے ہیں ۔عصر حاضر میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے عدلیہ کیلئے مثال قائم کی کہ وہ دھونس دھمکی سے مرعب ہو کر یا دولت سے مغلوب ہو کر اپنا منصب نہ بھولے ۔اگر عدلیہ کے جج اور وکلا برادری حق و باطل کے معرکہ میں حقیقی کردار ادا کرے تو یقینا ہر طرف انصاف اور عدل کی فراوانی ہو سکتی ہے ۔ہمارے مشنری جذبے سرد اور ہم مشینی انداز میں نوٹ بنانے کے مشن کو اصل جان کر دل وجان سے سے اس پر عمل پیرا ہیں ۔ ذوالقرنین کو جان اتنی عزیز ہے کہ وہ صرف دھمکی پر گھبرا کر قومی پرچم پھینک کر میدان سے بھاگ گیا ۔اب اسے وزیر داخلہ اپنی پناہ میں دوبارہ وطن لے آئے ہیں تو اس سپوت کا کیا کرنا ہے ۔وہ ملک کا سپاھی تھا جنگ میں پاکستان کی طرف سے لڑرہا تھا بھاگ گیا ۔ بھگوڑے اور وہ بھی میدان جنگ سے بھاگنے والے کو غدار کہا جاتا ہے ۔اگر اسی طرح غداروں کو وزیر پناہ میں لیتے رہے تو یہ وطن بھگوڑوں کی جنت بن جائے گا۔آستین کا سانپ جب ڈس لے تو اس کو دودھ پلانے کی تمنا کس لیے ۔ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے ہر اس شخص کو پناہ دے رکھی ہے جو ملک اور قوم سے اپنے مفاد کو عزیز جانتاہے ۔جب وطن کو اسکی ضرورت محسوس ہو ئی وہ پانی جان و مال کے تحفظ کی خاطر لندن میں سیاسی پنا ہ کی درخواست دینے والوں کی لائن میں کھڑا نظر آیا ۔شاید اسی لیے اخلاقیات اور اس کے اصول اپنی خواہشات کے تابع رکھنا ہی کامیاب انسان کی معراج قرار پایا ہے ۔ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے دھوکا ،رشوت ،سفارش کے استعمال کو تکنیک کا درجہ حاصل ہو گیا ہے ۔ہماری اخلاقیات کی معراج یہی ہے اور اس میں ہمارے اکابرین کا درجہ کمال حاصل ہے ۔خزانے کو اگر لوٹا تو اس کا کوئی سراغ نہیں ۔عدالتیں مجبور ہیں کہ کوئی ثبوت لائے لیکن ثبوت کون دے ،گواہی کون دے ۔سب کو عزت اور جان کا خوف ہے ۔اس ملک اور قوم کے مال و عزت کی رکھوالی کون کرے ۔اگر حق کی بات کہی جائے یا لکھی جائے تو غائب ہونے ،اندھی گولی کا شکار ہونے ،ایکسڈنٹ میں جان سے جانے کا خطرہ ہر کوئی مول نہیں لیتا ۔بیوی بچوں اور بیٹیوں کے بے آبرو ہو جانے کے خوف سے قلم کی سیاہی تو خشک نہیں ہوتی لیکن خون خشک ہو کر ہاتھوں کو بے جان کر دیتاہے۔پھر بھی کانپ
تے ہاتھوں اور اکھڑی سانسوں سے صدائے حق بلند ہو تو جان لینا چاہیے کہ ندائے انسانی نہیں بلکہ ترجمانی ونیابت حقیقی فریضہ جو جو آدم کو ودعیت کیا گیا ہے ۔ہاشمی صاحب کو اگر ضیا کی کابینہ میں شمولیت پر شرمندگی ہے تو انہیں ضیا کے مشن کی تکمیل کرنے والوں کا ساتھ نبھانے پر ندامت بھی ہونی چاہیے ۔شاہ محمود کو حق کہنا ہے تو بتائیں کہ حکمران کس طرح ڈالر کی غلامی اختیار کر چکے ہیں ۔ڈرون اسی کا تحفہ ہیں ۔عمران کو آج دھرنا یاد آیا اچھی بات ہے لیکن الیکشن کی تیاری کیلئے ہو م ورک کرنے کی بجائے ایک پاکستانی عوامی لیڈر کی طرح اگر وہ پہلے یہ قدم اٹھاتے تو کتنا اچھا ہوتا ۔پاکستان کو آبائی جائیداد کی وراثت جان کر تقسیم کرنے کے خواب دیکھنے والوں اور اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کرتے کیوں گھبراتے ہیں ۔مہنگائی ،لوڈ شیڈنگ ،اور ہر طرف قتل عام کے خلاف دھرنا دینے کا خیال کیوں انہیں نہیں آیا ۔خان اگراپنے چند رفقاء کے ہمراہ اسمبلی کے باہر لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے خلاف دھرنا دیتے ، تحریک کے نام کی لاج رکھ کر انصاف کی صدا بلند کرتا تو اسمبلی چوک التحریر سکوائر کا منظر پیش کر سکتا ہے ۔قلا بازیاں تو بندر بھی بہت پھرتی سے لگاتا ہے لیکن حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا ۔سیاسی قلاباز اپنے بیانات سے ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کے دعویدار ہیں اور ہر کوئی یہی دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اس ملک کیلئے جان و مال کی قربانی دی ہے ۔پھر نتیجہ اس کے برعکس کیوں ؟اگر حقیقت دیکھی جائے تو اس ملک اور قوم سے سیاستدانوں نے جان و مال کی قربانی لی ہے اور انکی تقدیریں نسل در نسل عروج کی منازل طے کر چکی ہیں ۔یہ ملک آج بھی اسلام ،جمہوریت و فلاح کی راہ دیکھ رہا ہے ۔منظر نامہ بدلنے کی خبر ہے لیکن کیا ہوگا اور کیسے ہو گا اس کی خبر نہیں ۔