Home / Socio-political / کیا کرکٹ امن کا پیغام لے کر آئے گا؟

کیا کرکٹ امن کا پیغام لے کر آئے گا؟

ہندو پاک کے درمیان کرکٹ میچ کسی جنگ سے کم حیثیت  نہیں رکھتا ۔ اب خدا کا فضل ہے کہ لوگوں میں کھیل کا شعور بالیدہ ہورہا ہے اس لیے ہند و پاک کے درمیان ہونے والے میچ میں فرقہ وارانہ فسادات  نہیں ہوتے ۔ ورنہ کچھ برسوں پہلے حال یہ تھا کہ اس میچ کا نتیجہ جو بھی ہو کہیں نہ کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی ہو ہی جاتی تھی۔اس کی وجہ سب کو معلوم ہے کہ یہ بلا وجہ کی ایک  نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے اس طرح کے ناخوشگوار واقعات پیش آتے تھے ۔اس سیاہ باب کے خاتمے سے ایک بات تو یہ ضرور ہوئی ہے کہ لوگ اب ہندستان اور پاکستان کے درمیان میچ کو ایک کھیل کے اسپرٹ میں لیتے ہیں ، با وجود اس کے ان دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے  میچ میں دیکھنے والوں کا اشتیاق کچھ زیادہ  ہی  بڑھ جاتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے شائقین  یہ چاہتے ہیں کہ ان کی ٹیم فتح حاصل کرے۔اور کہیں نہ کہیں دونوں ممالک کے کرکٹ شائقین کے جوشِ وطنیت میں بھی بے حد اضافہ ہوجاتاہے اورایسا لگتا ہے کہ جو ٹیم کرکٹ میچ جیت گئی گویا اسی کے سہارے اس کے ملک کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے ۔ یہ عارضی سرخروئی اتنی اہم ہوجاتی ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے کام کاج چھوڑ  کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ ہندستان میں تو کم ازکم یہ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ سڑکیں خالی ہوتی ہیں ۔ دلی اور تمام بڑے شہروں کی سڑکیں جو گاڑیوں کی بوجھ سے سانس بھی نہیں لے سکتیں کم از کم اس دن انھیں سکون میسر آتا ہے۔ صرف بات ٹریفک کی نہیں  بیشتر دفاتر یا تو  غیر اردای طور پر بند ہوجاتے ہیں یا بہت سے آفسوں میں میچ دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان میں بھی اس سے الگ صورت حال نہیں ہوتی ہوگی بلکہ وہاں کی سڑکیں اور آفیس بھی خالی رہتی ہوں گی۔  اس دن کسی کا کوئی فائدہ ہو نہ ہو ٹیلی ویژن والوں کی چاندی ہوجاتی ہے کیونکہ ان کی ٹی آر پی اسکے علاوہ اور کم ہی ایسے موقعے ہوتے ہیں جب اس قدر بڑھتے ہوں گے ۔ ہندستان اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ہندستانی اور پاکستانی بستے ہیں ۔ وہاں بھی یہی حال ہوتا ہے ۔ ایک عام جائزے کے مطابق اس دن اقتصاد کا بڑ انقصان ہوتا ہے کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں لوگ اپنے کام سے دور رہتے ہیں ۔ ایک میچ میں کماز کم معمولی طور پر کروڑوں کا خسارہ درج کیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ عوامی دلچسپی کی بات ہے اس لیے ہر شخص اہتمام کے ساتھ اس میں شریک ہوتا ہے ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ میچ ختم ہوتے ہی یہ نشہ نہیں اترتا بلکہ ہفتوں تک اس پر تبصرے ہوتے رہتے ہیں ۔ تیس تاریخ  کو موہالی میں ہونے والے ہندو پاک کے میچ کی تیاریاں شباب پر ہیں  او ر اس کا بھی یہی حال ہونے والا ہے۔

اس کر کٹ کی ایک اور کہانی ہے جو اس سے بھی دلچسپ ہے اور وہ یہ کہ جب سے سیاست دانوں نے اس کی مقبولیت کا اندازہ کیا ہے تب سے انھوں نے سیاسی حربے کے طور پر اس کو استعمال کرنا  شروع کر دیا ہے ۔سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ فلمی ہستیاں بھی اپنے گلیمر کے ساتھ یہاں موجود ہوتی ہیں اس طرح ان کا بھی اشتہار ہوجاتا ہے اور عوام میں سرخرو بھی ہوجاتے  کہ وہ بھی میچ میں شریک ہوئے ، اس میں بڑی ہستیوں کی شرکت کسی بڑے کام سے کم اہمیت نہیں رکھتی ۔ اسی لیے کرکٹ کو سب سے زیادہ سیاست داں ہی اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

تقریباًٍ دو سال کے وقفے سے ہونے والے اس میچ کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ ممبئی حملے کے بعد جو کشیدگی دونوں ملکوں میں تھی وہ اب آہستہ آہستہ زائل ہونے لگی ہے اور اسی کی ایک کوشش یہ بھی ہے کہ اس میچ کے لیے ہندستانی وزیر اعظم نے پاکستان کے وزیر اعظم اور صدر کو موہالی میں ہونے والے میچ کو دیکھنے کی دعوت دی ہے جس کی رپوٹنگ روزنامہ جنگ نے اس  طرح کی ہے ‘‘بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے امن کا چھکا لگاتے ہوئے پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین 30 مارچ کو کھیلے جانیوالے ورلڈکپ کے دوسرے سیمی فائنل کو دیکھنے کیلئے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ہندوستان آنے کی دعوت دی ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کو علیحدہ علیحدہ خط ارسال کیے ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’میں پاکستان اور بھارت کا سیمی فائنل دیکھنے کیلئے بھارتی پنجاب کے شہر موہالی جاوٴنگا، میچ میں ہر کسی کی بہت دلچسپی ہے ، عوام میں بھی جوش وخروش پایا جاتا ہے اور امید ہے کہ دونوں ٹیموں کے مابین شاندار مقابلہ ہوگا جو اس کھیل کی کامیابی ہوگی اورمجھے آپ کو یہ میچ دیکھنے کی دعوت دیتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے‘کیونکہ دونوں ممالک کے لاکھوں مداحوں بھی اس میچ کے منتظر ہیں۔بھارتی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ یہ دعوت نامے ایک خط کے ذریعے پاکستانی رہنماؤں کو بھیجے گئے ہیں جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھیجے گئے الگ الگ دعوت نامے وصول ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمعہ کی شام وزارت خارجہ کو یہ دعوت نامے وصول ہوئے جن پر غور کیا جارہا ہے۔’’امید قوی ہے کہ دونوں میں سے کوئی نہ کوئی سربراہ میچ دیکھنے کے لیے ہندستان آئیں گے۔

کرکرٹ سفارتکاری کا آغاز جنرل ضیا الحق نے کیا تھا۔ انیس سو ستاسی میں دونوں ملکوں کے تعلقات کافی کشیدہ تھے، سرحد پر فوجیں جمع تھیں۔ اس وقت راجیو گاندھی ہندوستان کے وزیر اعظم تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ضیاالحق نے انڈیا پاکستان کا میچ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور پھر ایک بڑے وفد کے ساتھ ہندوستان آئے۔اس کے بعد صدر مشرف سن دو ہزار پانچ میں ایک روزہ سیریز کا فائنل میچ دیکھنے ہندوستان آئے تھے جو دلی کے فیروز شاہ کوٹلہ میدان پر کھیلا گیا تھا۔

اس حوالے سے قابل غور پہلو یہ ہے کہ اس سے دو دن پہلے دونوں ملکوں کے سکریٹری سطح کے مذاکرات شروع ہونے والے ہیں ۔ بہت امکان اس بات کا ہے کہ اس دعوت نامے کا اثر اس پر بھی مرتب ہوگا اور عارضی ہی سہی  دونوں ممالک کے تعلقات اس حوالے خوشگوار ہونے کی امید کی جارہی ہے۔ابھی کچھ دنوں پہلے ہی بھوٹان میں سارک سربراہی اجلاس کے دوران وزیر اعظم من موہن سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب کے درمیان ملاقات میں تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔جس  کا عملی پہلو یہ ہے کہ ممبئی حملے کے بعد یہ پہلا مذاکرہ ہوگا۔ امید یہ کی جانی چاہیے کہ جس طرح دونوں ٹیموں کو فتح کی امید ہے اسی طرح دونوں ممالک کے لوگوں کو دونوں ملک میں امن کے قیام کے حسرت ہے ۔ خدا کرے کہ اس بہانے دونوں ملکوں میں امن کی راہیں ہموار ہوں اور یہ کرکٹ ڈپلومیسی کامیاب ہوجائے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *