عابد انور
گجرات میں قتل عام کے د س سال پورے ہورہے ہیں ۔ان دس برسوں کے دوران قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی نریندر مودی حکومت پر زبردست تنقید، مذمت اور انسانیت دشمن قرار دیا گیالیکن مودی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔سپریم کورٹ نے بارہا مودی پر سخت تبصرے کئے لیکن مودی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ تمام ہدایات اور ضابطوں کو انگوٹھا دکھاتاآیا۔اب تک کسی خاطی کو سزا نہیں دی گئی ۔ جتنے پولیس افسران نریندر مودی کے حکم کو بجانے لانے میں ملوث تھے وہ ترقی کرتے رہے۔جن افسران نے بھی تھوڑی سی سچ بات بولنے کی کوشش انہیں زنداں میں ڈال دیا گیا۔ آج درجنوں افسر مودی کے عتاب کے شکار ہیں۔ گجرات قتل کے دوران اور اس کے بعد جن لوگوں نے بھی رضاکارانہ طور پر متاثرین کوراحت پہچانے کی کوشش کی مودی حکومت ان کا کافیہ تنگ کردیا گیا۔ مثال کو طور پر مولانا عمر خاں آئی پی ایس افسر سنجیو اور سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ ‘ جنہیں مودی حکومت نے تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مولانا عمر کو تو گودھرا ٹرین حادثہ کا اہم ملزم بناکر طویل عرصہ تک جیل میں بند رکھا اور کچھ عرصہ قبل ہی بری ہوئے ہیں۔ سنجیو بھٹ کو بھی معطل کرکے ایک معمولی کانسٹبل کی شکایت پر جیل میں ڈال دیاگیا لیکن جب سنجیو بھٹ نے نریندر مودی کے سیاہ کارنامے اور گجرات قتل عام میں مودی کے کردار پر ثبوت پیش کیا تو اس کو تسلیم کرنے بجائے عدلیہ اور حکومت کی مشنری اپاہج بن گئی۔ تیستا سیتلواڈ پر مقدمہ قائم کرنے پریشان کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ وہ مظلومین کے لئے حصول کی انصاف کی جنگ ترک کردیں۔ جس پر سپریم کورٹ نے بھی مودی حکومت کو سخت سست اور پھٹکار لگائی ہے۔ سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں میں کہا ہے کہ گجرات کی حکومت 2002 کے فسادات سے متعلق ’سو فیصدی فرضی کیس میں‘ سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ کو نشانہ بنا رہی ہے۔جسٹس آفتاب عالم اور جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی پر مشتمل بنچ نے یہ ریمارکس تیستا سیتلواڈ کی ایک پٹیشن پر سماعت کے دوران دیے۔ تیستا سیتلواڈگجرات کے فسادات کے متاثرین کو انصاف دلوانے کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہی ہیں ۔ گجرات کی حکومت نے تیستا پر 2002 کے فسادات میں مارے جانے والے کچھ افراد کی لاشوں کو غیر قانونی طور پر قبریں کھودوا کر نکلوانے کا الزام لگایا تھا ۔عدالت عظمی سخت تبصرہ کرتو ہوئے کہا کہ یہ سو فیصد فرضی کیس ہے جو درخواست گزار کو ہراساں کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ یہ لاشیں ان لوگوں کی تھیں جو فسادات کے دوران ہلاک گئے تھے اور کوئی قانونی کارروائی کئے بغیر ثبوت مٹانے کے لئے اجتماعی قبروں دفنا دیا تھا۔
اس قتل عام کو دس سال پورے ہورہے ہیں لیکن ان دس برسوں اب تک مظلوم حصول انصاف سے کوسوں دور ہیں۔ ان دس برسوں میں گجرات کو نریندر مودی نے مسلمانوں کے لئے ایک بڑے جیل میں کی شکل میں ضروری تبدیل کردیا۔ ناناوتی کمیشن کچھوے کی چال سے تحقیقات کر رہی ہے۔ دس سال عرصہ میں کسی کو سزا نہیں ملی ہے اور نہ متاثرین کے زخم پر مرہم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پر بھی عدالت عظمی کو پھٹکارلگاتے ہوئے متاثرین مناسب معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے۔ گجرات کے متاثرین اور عام لوگوں سے بات کی جاتی ہے تو عام طور پر سب ہی ناانصافی کی شکایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ نہیں بدلا نہیں ہے جس طرح مسلمانوں کے تئیں تعصب عام تھا وہ اب بھی ہے۔مسلمانوں کو اب بھی کسی پاش کالونی مکان خریدنا دوبھر ہے‘ امتیاز ی سلوک عام بات ہے‘ مرکز نے گجرات کے مسلمانوں کو انصاف دلانے میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا۔ مسلمان مشترکہ آبادی میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں پاتے وہ ان ہی علاقوں میں گھرلینا پسند کرتے ہیں جہاں مسلمان رہتے ہیں۔حکومت کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب اور ناروا سلوک عام بات ہے۔گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے ڈبے ایس چھ جلائے جانے کے الزام میں نوے سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا جس میں سے تریسٹھ افراد گزشتہ ایک برس پہلے اس لیے رہا کردیے گئے تھے۔ اکتیس افراداب اس الزام میں جیل میں ہیں۔ جن افراد کو رہا کیا گیا ہے ان کے نو سال برباد ضرور ہو گئے۔ اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔ 63 خاندان جس کرب میں متبلا رہا اور جس تکلیف سے ان خاندانوں کو گزرنا پڑا اس کا حساب کون دے گا۔گودھر کے مسلمان میڈیا سے بے حد ناراض دکھائی ہیں بار بار درخواست کیے جانے کے بعد ایک ہی جواب دیتے رہے کہ ’ہمیں میڈیا سے کوئی بات نہیں کرنی، میری تصویر نہ کھینچنا، مجھے بالکل بات نہیں کرنی۔ان گرفتار شدگان اور رہا ہونے والے اپنی گزروبسر مزدوری کرکے کرتے ہیں۔ جب یہ جیل میں تھے ان کی بیویاں اپنا گزارہ مزدوری کرکے کرتی تھیں۔ گودھرا ٹرین حادثہ میں گرفتار کئے گئے گیارہ افراد کا تعلق غریب طبقہ سے ہے۔ جن کی عورتیں گھروں میں برتن مانجھتی ہیں۔
ان دس برسوں میں مودی حکومت کے خلاف عدالت عظمی، بین الاقوامی انسانی حقوق تنظمیوں اور دیگر پلیٹ فارموں پر کئے تبصرے بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ مودی نے فسادیوں کو سزائے دلانے کے بجائے انہیں بچانے میں اپنا سارا وقت گزارا ہے۔ گجرات مظلومین کی مودی کی بے حسی سے تنگ آکر سپریم کورٹ نے مودی کو جم کر پھٹکاا اور سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اگر انصف نہیں دے سکتے تو گدی چھوڑ دیں“۔ جسٹس وی این کھرے جسٹس برجیش کمار اور جسٹس ایس پی سنہاپرمشتمل بینچ نے گزشتہ کچھ برس ٰقبل ایک کی سماعت کرتے ہوئے گجرات کے چیف سکریٹری اور ڈائرکٹر جنرل پولیس کو عدالت میں طلب کرکے پوچھا تھا کہ ماتحت عدالت میں ملزمان کے بری کئے جانے کے خلاف ہائی کورٹ میں آنکھ میں دھول جھونکنے والی اپیل کیسے دائر کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2004 کی اپنی سالانہ رپورٹ میں فسادیوں کو سزا نہ دینے پر مودی کو جم کر لتاڑا تھا۔ اس تنظیم نے مودی کو اس کے لئے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا کہ انفرادی طور پر درج کرائے جانے والے 4252 شکایات میں سے 2032 پر کارروائی کیوں بندی کردی گئی۔امریکی کانگریس کی جانب سے قائم بین الاقوامی آزادی مذہب کمیشن نے آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت پر سخت ضرب لگاتے ہوئے حکومت ہند سے مطالبہ کیا تھا کہ 2002 کے گجرات فسادات کے ذمہ اروں کو سزا دے کر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایت کوزندہ رکھے۔اس کمیشن میں ہندوستان میں مذہبی آزادی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے مذہبی مقامت پر ہونے ہندو انتہا پسندوں کے حملے کو موجب تشویش قرار دیا تھا۔ اس کمیشن نے بی جے پی حکمرانی والی ریاست کی صورت حال کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔اسی طرح کا سامنا نریندر مودی کو اس وقت بھی کرنا پڑا تھا جب وہ برطانیہ کے دورے پر گئے تھے لیکن وہ اس طرح کے ہر سوال کو بے شرمی سے ٹال گئے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے گجرات فسادات میں خواتین بطور حکمت عملی جنسی تشدد کے استعمال پر بھی تشویش کا اظہار کیاتھا۔بین الاقوامی برادری ان تنظیموں نے اپیل کی تھی کہ اس پر جلد از جلد روک لگائی جائے اور اس کے خلاف قانون وضع کیا جائے۔ دہلی یونیورسٹی پروفیسر اوما چکرورتی نے گجرات فسادات میں مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ فسادات کے دوران فسادیوں نے عورتوں کے چھاتیوں پر ضرب لگائیں ان کے جنسی اعضا کو نشانہ بنایا اور حاملہ عورتوں کے پیٹ تک چاک کئے گئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اتنے بڑے پیمانے مسلم خواتین کے ساتھ اس طرح کے واقعات بغیر ملی بھگت نہیں ہوسکتے۔
گجرات فسادات کے بعد مسلمانوں کو نہ صرف مخصوص اور چند علاقوں تک محدود ہونے کے لئے مجبور کیا گیا بلکہ ان پر روزگار کے دروازے بھی بند کئے گئے۔سرکاری اسکیموں کے تحت ملنے والے فوائد یکسر مسلمانوں کو دور رکھاگیا۔ اس رویہ پر 2006 میں قومی اقلیتی کمیشن اور مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے آواز بلند کی تھی۔ سی پی آئی ایم نے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خط لکھ کر اس کے خلاف شکایت کی تھی وہیں قومی اقلیتی کمیشن نے گجرات حکومت کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیاتھا۔ ابھی متاثرین کا پورا خاندان اپنے گھر نہیں لوٹ سکا ہے۔ 2007گجرات میں حکومت گجرات نے اعتراف کیا تھا کہ تین ہزار 600 مسلم خاندان عارضی کیمپوں میں مقیم ہے۔ بہت سے خاندان اب بھی اپنے گھروں کو واپس نہیں ہوسکے ہیں کیوں کہ انہیں خوف ہے ان کے ساتھ تعصب یا زیادتی کی جائے گی۔ جو خاندان خوش حال سے انہوں نے اپنا ٹھکانہ کسی دوسری جگہ منتقل کرلیا لیکن جو لوگ خستہ حالت میں ہیں وہ گٹھن بھری زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ ابھی بیشتر خاندان کو معاوضہ تک نہیں ملا جس پر گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے مودی حکومت جم کر پھٹکار لگائی ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ بہت خاندان کو اب تک موت کی سرٹی فیکٹ بھی نہیں ملا ہے جس سے معاوضہ اور دیگر سہولت کی کارروائی آگے بڑھتی ہے۔ نرودا پاٹیا میں جہاں نوے (۹۰) افراد کا قتل کیاگیا تھا اور بیشتر مکانات جلادیے گئے تھے، بہت سے مکینوں کا کہنا ہے خوف کے سائے میں رہنے کو مجبور ہیں۔ بہت سے خاندان کو ان علاقوں میں مجبوراً واپس آنا پڑا جہاں ان کا سب کچھ لٹ گیا تھا۔ان دس برسوں کے دوران گواہوں کو ڈرانے دھمکانے اور انصاف کی راہ میں مودی حکومت کے روڑے اٹکانے کے علاوہ دوسرا کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔
یہ بات اب پوری طرح صاف ہوگئی ہے کہ گجرات میں ہوئے فسادات ، فسادات نہیں تھے بلکہ یہ مسلمانوں کی منصوبہ بند اور پہلے سے طے شدہ نسل کشی اور نسلی تطہیر تھی۔اس کا مقصد مسلمانوں کا مکمل صفایا تھا جس کی نہ صرف ہندوستان کے انصاف ، امن پسند، انسانیت نواز افراد نے بلکہ بین الاقوامی برادری نے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے لیکن جب حد سے زیادہ ظلم و ستم جبرواستبداد میں اضافہ ہوا اور خواتین کے ساتھ بڑے پیمانے پر اجتماعی عصمت دری ہو تو دشمنوں کو بھی مجبور کردیتاہے کہ وہ اس کی مخالفت اور مذمت کرے ۔ بین الاقوامی برادری نے بھی یہی کیا ہے۔ جب انہوں نے مظالم حیوانیت وحشیت بربریت کے تمام ریکارڈ ٹوٹے ہوئے دیکھا تھاتو وہ بھی اس کے خلاف بولنے پر مجبور ہوئے تھے اور ہندوستان کے بی جے پی حکومت پر سخت تنقید کی۔جس کی وجہ سے پر مرکزی حکومت چراغ پا ہوگئی اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیا تھاش۔گودھرا سانحہ کے بعد گویا سنگھ پریوار ( آر ایس ایس) کو مسلمانوں کے قتل عام کا لائسنس مل گیا تھااور انہوں نے نریندر مودی حکومت اور بی جے پی کی مرکزی حکومت کی رضامندی سے اپنی انسانیت اور ثقافتی تنظیم ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے محلوں، سوسائٹیوں کے ساتھ مکینوں کو ساتھ زندہ جلا ڈالا۔جس طرح منظم طریقہ سے یہ فساد ہوا تھا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی تھی اور نریندر مودی نے پولیس اور انتظامیہ کی کاروائی کو اطمنان بخش بتلایا تھااور اس سے صاف واضح ہوتاہے کہ سنگھ پریوار کو مسلمانوں کے قتل عام کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی اور فسادی آرام سے چن چن کر مسلمانوں کو قتل کرتے رہے تھے۔گجرات سانحہ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس بار پڑھے لکھے لوگ گاڑیاں لیکر آتے تھے اور دکانوں، مکانوں کو لوٹ کر اس میں آگ لگادیتے تھے ۔
ملک کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کو پارلیمنٹ میں جائز تھہرایاگیا تھاور ظلم کو ظلم نہیں کہا گیا تھابلکہ اسے جائز ٹھہرانے کے لئے بہانے تلاش کئے گئے تھے اور اس موقع پر نام نہاد سکولر جمہوریت پسندپارٹیاں بے نقا ب ہوگئی تھیں۔ حالانکہ ہندوستان کے ہر محب وطن نے جس طرح سنگھ پریوار اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو موردالزام ٹھہرایاتھا وہ بی جے پی اور نریندر مودی کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی تھا۔ لیکن جو فاشسٹ حکومت ہوتی ہے وہ ان آواز وں کی پرواہ نہیں کرتی۔یہی ریاستی اور اس وقت کی مرکزی حکومت کیا تھا جس میں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار بھی شامل تھے۔فاشسٹ کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ کسی مخالفت کو برداشت نہیں کرتے اور ہر وقت انتقامی کاروائی پر آمادہ ہوتے ہیں۔سنگھ پریوار کے شاکھاؤں کے زہریلے ماحول، نفرت کرنے کی تعلیم و تربیت اور مسلم دشمنی و مسلم کشی کی بھٹی سے نکلے بی جے پی کے وزراء کیوں کر مسلمانوں کے ہمدرد ہوسکتے تھے اور یہ امید رکھنا کہ اپنے شاکھاؤں کے پروردہ کے خلا ف کوئی کاروائی کریں گے احمقوں کی جنت میں رہنے کے مثل ہے۔ چاہے ساری دنیا شور کیوں نہ مچاتا پھرے۔ یہی اس وقت گجرات میں ہے اور اس وقت این ڈی اے کی حکومت میں تھی۔
اس پر یقین نہیں ہوتا لیکن یہ سچ ہے کہ یہ بی جے پی کے کچھ ممبران پارلیمنٹ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کو انصاف پر مبنی بتایا تھا۔ ان ممبران پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ فساد ہندوؤں کے ردعمل کا ہی ایک حصہ ہے۔ کئی بھاجپا ممبران پارلیمنٹ نے بات چیت کے دوران کہا تھاکہ کیونکہ گودھرا کیس سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اس لئے وہ غصے میں سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گودھرا میں ۵۸ ریل مسافروں کے قتل پر ہی ہندوؤں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے۔بی جے پی کی اس وقت کی ممبر پارلیمنٹ جیابین ٹھاکرے نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر گودھرا کیس کی مذمت کرنے میں بھی ناکام ہے ‘ جس سے ہندوؤں کے جذبات کو اور دھکا پہنچا۔ انہو ں نے کہا کہ جب بے قصور ریل مسافروں کو بے رحمی سے جلا کر مار دیا گیا تو گجرات کا جلنا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فساد ہندو رد عمل کا ہی مشتعل روپ ہے۔ ہندو اپنے بھائیوں اور بہنوں کو زندہ جلتے ہوئے کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔ اترپردیش سے اس وقت کو بی جے پی ممبر پارلیمنٹ سوامی چمیانند نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ اپوزیشن لیڈر وی ایچ پی اور اس کے کارکنان کو ہی ہر واقعہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ایسے میں ہندوؤں کے جذبات کو دھکا لگتا ہے انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا تھاکہ سرکار مشتعل بھیڑ کو بھلا کیسے کنٹرول کرسکتی ہے۔ راجیہ سبھا میں اس وقت کے بی جے پی کے لیڈر اننتر ے ڈی دوے نے مسلمان مخالف فساد کو ہندوؤں کے جذبات کا اظہار بتایا۔ انہوں نے کہا کہ گودھرا معاملے نے ملک کے ہندو عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
گجرات میں جو کچھ ہو ا تھا اور جو کچھ اس وقت ہورہا ہے اس کی پیش بندی کئی دہائیوں سے کی گئی تھی خاص طور پر ۱۱/ستمبر 2001کے بعد جب مسلمانوں کو دہشت گرد اور اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دینے کی ناپاک کوشش کی جارہی تھی اس وقت بھی ہندوتو کے علمبردار مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی میں پیچھے نہیں تھے جہاں کوئی واقعہ پیش آتا اسے مسلم مخالف زاویہ سے دیکھا جانا ۔ہر واقعہ کو مسلمانوں سے جوڑ کر فرقہ پرست تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف پورے ہندوستان میں ماحو ل بنایا اور نفرت کی دیوار کھڑی کی تھی ۔جس کا نتیجہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام سے سامنے آیا تھا۔آر ایس ایس جس کی ۲۴/ذیلی تنظیمیں ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس کا سیاسی بازو ہے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کر کے اقتدار پر قابض ہوئی تھی اس کے قابض ہونے میں کچھ نام و نہاد پارٹیاں اور کچھ سابق سوشلسٹ رہنماؤں نے نمایاں کردار ادا کیا تھا-گودھرا سانحہ کے بعد ۲۸ فروری کو گجرات بند کے دوران وی ایچ پی بجرنگ دل اور ہندوجاگرن منچ جیسے سنگھی تنظیموں کو مسلمانوں کے قتل عام کا بہانہ مل گیا ۔ ان تنظیموں نے کھل کر مسلمانوں کو چن چن کر ان کے مکان دوکان ہوٹلوں وغیرہ سمیت زندہ جلایا۔ دوردور تک کہیں پولیس کا نام ونشان تک نہیں تھی جہاں کہیں پولیس موجود تھی وہاں انہوں نے مسلمانوں کے قتل میں برابر کا حصہ لیا تھا۔ان دہشت گرد تنظیموں کے دفاع میں رہی مسلمان ان سے حفاظت درخواست کرتی رہی لیکن پولیس ان کو بچانے کے لئے نہیں پہنچی تھی۔ ۲۸ فروری کے شام میں ہی فوج پہنچ چکی تھی لیکن فوج کے تعینات کرنے میں میں مودی سرکار نے غیرمعمولی تاخیر سے کام لیا تھا۔گجرات حکومت کی طرح مرکز کی واجپئی سرکارنے بھی فرقہ وارانہ فساد بلکہ نسلی کشی روکنے میں لاپرواہی برتی تھی ۔ ۲۸روری کو ہی مرکزی حکومت کو گجرات میں فسادات کی اطلاعات مل گئی تھی لیکن نہ اس وقت وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور نہ ہی وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی نے فسادیوں سے سختی سے نمٹنے کا حکم دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ لوک مورچہ جس میں سماجوادی پارٹی کے سابق جنرل سکریٹری مسٹر امر سنگھ رکن لوک سبھا راج ببر‘ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر سیتارام پچوری اورسابق ممبر پارلیمنٹ شبانہ اعظمی شامل تھیں۔انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھاکہ فساد زدہ علاقوں میں پولیس خاموش تماشائی بنی رہی تھی اور اس نے احمد آباد میں لوٹ مار کے سلسلے کو بند کرانے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کی۔انہوں نے الزام لگایا کہ فسادیوں کو ہتھیار اور پیٹرول پولیس کی گاڑیوں سے فراہم کیا جارہا تھا۔
گجرات اور خاص طور پر گودھرا میں کوئی مسلمان لب کھولنے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن ان کی آنکھیں بہت کچھ کہہ جاتی ہیں اور ان کے انداز بیان ہاؤ بھاؤساری تکلیفیں بیان کردیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بہت سارے لوگ تو یہاں آپ سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔گودھرا بٹا ہوا شہر ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کے علاقے واضح طور پر بٹے ہوئے ہیں۔مسلم آبادی والے پلون بازار علاقے میں کیسری چوک ہے وہاں 2005 کے بعد ہردن ترنگا پرچم لہرایا جاتا ہے۔ جھنڈا لہرانے کا کام فاروق کیسری کرتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیر اعلی نریندر مودی کے زبردست حمایتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’ادھر لوگوں کا نام بہت بدنام تھا تو 2005 میں یہاں کے ضلع کلکٹر نے کہا یہاں ہر دن ترنگا پرچم لہراوٴ تاکہ یہاں کے لوگوں کو یہ پیغام دے سکو کہ آپ بھی ہندوستانی ہیں‘۔گودھرا کے ایک مسلمان نے کہاکہ اصل بات یہ ہے کہ یہاں کا مسلمان بہت ڈرا ہوا ہے۔ اتنا ڈرا ہوا ہے کہ کچھ بولے گا نہیں۔
گجرات میں اگرانصاف کاپرچم بلند کرنا ہے تو سب سے پہلے نریندر مودی کو ان کی اصل جگہ جیل میں ڈالنا ہوگا۔ جب تک بی جے پی کی حکومت وہاں نہیں بدلتی اس وقت انصاف ملنا تو دور کی بات اس کے بارے میں سوچنا بھی دیوانے کے خواب کی مانند ہے۔ ان دس برسوں نے مودی نے گجرات کو مکمل طور پر تعصب، نسلی امتیاز اور ناانصافی کے وائرس میں مبتلا کردیاہے اور یہ اس طرح کا خطرناک وائرس ہے کہ اسے فارمیٹ کئے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔گجرات جب بھی انصاف کی امید تھوڑی سی پیدا ہوئی اسی لمحہ انصاف کے سر میں سر ملانے والے مودی کے گود میں نظر آیا ۔ گجرات کی آئی پی ایس افسر گیتا جوہری جب سپریم کورٹ کی ہدایت پر نریندر مودی کے خلاف تحقیقات کر رہی تھیں اس وقت لگا اب مودی کو سزا سے کوئی نہیں بچاسکتا لیکن جوں جوں تحقیقات آگے بڑھی گیتا جوہری کو پریشان کیا جانے لگا، ان پر طرح طرح کے الزاما ت عائد کئے جانے لگے۔ انجام کار نے انہوں نے مودی کو کلین چٹ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ ادیب شاعر اور دانشور طبقہ ان سب چیزوں سے خود الگ تھلگ رکھتے ہیں۔ مودی کا وائرس ان طبقوں پر صاف نظر تا ہے۔گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ ادیب راجندر شاہ نے بھی گجرات فسادات کو جائز ٹھہرایا تھا۔ انہوں نے گجرات فسادات کو منصفانہ قرار دیا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی افسر اپنے حاکم کے خلاف نہیں جاسکتا۔ یہی حال گجرات کا ہے۔ کتنے افسران مودی کے خلاف میدان میں آئے لیکن انتظامی سطح پر کوئی تعاون نہ ملنے پر ان کی آواز نقار خانے میں دب کر رہ گئی۔ اگر ان افسران تحقیقاتی ٹیم کو ثبوت بھی پیش کئے تو اسے دیدہ دلیری کے ساتھ نظر انداز کردیاگیا۔ کچھ افسران نے ہمت دکھائی تو یا انہیں عضو معطل کی طرح ایسی جگہ ڈال دیا جہاں جو ان کے لئے سب سے بڑی سزا ثابت ہوئی یا انہیں معطل کیا انہیں برخاست کردیا گیا۔ جب تک گجرات سے مودی نامی وائرس کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت ہندوستان کے خوبصورت ماتھے گجرات قتل عام کا کلنگ نہیں مٹے گا اور اس کو نہیں روکا گیا تو وہ پورے ہندوستان میں پھیل جائے گا اور پھر ہندوستان میں جو بدامنی پھیلے گی جس سے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی وہیں بین الاقوامی طور پر ہندوستان سر بھی جھکے گا اس لئے ہندوستان کے لئے باعث شرم بننے والے ہراس چیز سے ہندوستانیوں کو چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا جب ہی ہم ترقی یافتہ ملک بن سکیں گے۔گجرات قتل عام کے خلاف انصاف کی آواز بلند والی اہم شخصیتوں میں شبنم ہاشمی، تیستا سیتلواڈ، مکل سنہا ، دیگر اور سنجیو بھٹ کا رنامہ بھی قابل اعتراف ہے۔ ان لوگوں کی محنت اور جہدوجہد کی وجہ سے گجرات کے حالات سے دنیا کو آگاہی ہوئی ورنہ ان فاسشٹوں نے میڈیا کو اپنا غلام بنارکھا ہے۔
ڈی۔ 64 فلیٹ نمبر 10، ابوالفضل انکلیو ،جامعہ نگر،اوکھلا،نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni@gmail.com