سمیع اللہ ملک
گولیوں کی تڑاخ تڑاخ، بموں کا دھواں، دھماکوں کا شور اور جلتے مکانوں سے اپنے پیاروں کو سنبھالے، بچوں کو گود میں لئے کسی پناہ گاہ کی طرف بھاگتے ہوئے لوگ، آنسو، آہیں، چیخ و پکار، چہروں پر خوف اور لفظوں سے عاری ہونٹ، یہ وہ مناظر ہیں جو گزشتہ۱۸سالوں سے ہم لمحہ بہ لمحہ اپنے گھروں کے خوبصورت آرام دہ کمروں میں بیٹھے ٹیلی ویژن سکرین پر دیکھتے رہے، چائے کی گرم گرم پالیاں یا پھر مشروبات کی ٹھنڈی بوتلیں ہاتھ میں پکڑے ان پر تبصرے کرتے ہیں اور پھر جب ان موضوعات سے دل بھر جاتا تو ریموٹ سے ٹی وی بند کرکے کسی اور خوبصورت موضوع کی طرف گفتگو کا رخ موڑ دیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے لمحہ بہ لمحہ انسانوں کی بے بسی کا تماشہ ہم نے پہلی عراق جنگ میں دیکھنا شروع کیا تھا جب کویت پر عراقی قبضے کے بعد امریکی افواج دندناتی ہوئی وہاں جا گھسی تھیں۔ جہاں کہیں ڈش انٹینا موجود تھے وہاں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ صاحب خانہ نے طعام کا انتظام کیا اور یاروں دوستوں نے خوب دیر تک یہ تماشا سکرین پر دیکھا، تبصرے کئے اور گھروں کو لوٹ گئے۔ پھر ٹیکنالوجی نے ترقی کی، میڈیا کی پہنچ گھر گھر تک ہونے لگی اور ہم نے اگلے سارے مناظر اپنے گھروں کی آرام دہ نشست گاہوں میں دیکھنے شروع کر دئیے۔ کبھی چیچنیا کے شہر گروزنی کی تباہی کو دیکھا تو کبھی کو سوو میں سروں پر سامان لادے اپنے بچوں کی انگلیاں پکڑے آنکھوں میں آنسو لئے پناہ کی تلاش میں عورتوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا۔
بغداد، فلوجہ، بصرہ اور پھر بیروت تک ہمارے ہم زبان صحافی ہمیں انسانوں پر ہونے والے ظلم پررواں تبصرہ اور تصاویر ہمیں بھیجتے رہے۔ ادھر ہم تھے کہ یہ سب ایسے دیکھتے رہے جیسے بالی ووڈ کے کسی سٹوڈیو سے تھوڑے تھوڑے وقفے بعد فلم برآمد ہو رہی ہو اور ہم جیسے تماش بینوں کی لذت گفتگو اور گرما گرم بحث کی پیاس بجھا رہی ہو۔ یوں تو یہ لمحہ بہ لمحہ مناظر ہم سے کوسوں دور تھے لیکن پھر بھی ہمارا رویہ ایسا تھا جیسے مرغیوں کے ڈربے سے ذبح کرنے کے لئے ایک مرغی نکالی جاتی ہے اور باقی ساری اطمینان کا سانس لیتی ہیں کہ چلو اپنی جان بچ گئی۔ ہم نے صرف سکھ کا سانس ہی نہیں لیا بلکہ قصاب نے جس مرغی کی طرف اشارہ کیا ہم نے دھکے مار کر اسے پنجرے سے باہر قصاب کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ کبھی معلومات کے تبادلے (Intelligence Sharing)کے نام پر اور کبھی خود کئی سو کی تعداد میں انسانوں کو پکڑ کر حوالے کرتے ہوئے قصاب کی خوب مدد کی اور اپنے لئے جان کی امان مانگی اور خوش ہو گئے کہ ہمارا تورا بورا نہیں بن سکے گا۔
لمحہ بہ لمحہ مناظر ہماری سرحدیں پار کرتے ہوئے ہمارے گھروں اور آنگنوں کے سامنے آ پہنچے۔ ہماری فلم بینی کی حس کی تکمیل کے لئے گولوں کی گن گھرج، بارود کے دھوئیں اور معصوم بچیوں اور عورتوں کی چیخیں ہمارے شہر بے مثال اسلام آباد کے عین مرکز میں گونجتی رہیں اور ہم گھروں کے آرام دہ کمروں میں لمحہ بہ لمحہ دیکھتے، سنتے اور تبصرہ کرتے رہے۔ ہم نے اپنی اعلیٰ ترین شخصیتوں کے یہ فقرے بھی آرام و سکون اور اطمینان سے سن لئے کہ ” کون کہتا ہے ہزاروں عورتیں یا بچیاں مریں، وہاں تو صرف ایک سونوے لوگ موت کی آغوش میں گئے “۔ ہم نے ان ایک سو نوے لوگوں کو یوں سمجھ لیا جیسے بند وق کی مشق کرنے والا ائیر گن سے غبارے پھوڑتا ہے۔ ہمیں یقین ہی نہیں تھا کہ یہ سب انسان مر رہے ہیں اس لئے کہ ان چیختی، روتی، بلبلاتی بچیوں میں کوئی ہماری بیٹی شامل نہ تھی۔
ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ یہ کوئی ہالی ووڈ کی فلم ہے جس میں لوگ بھی دکھاوے کے لئے مرتے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ مناظر ہماری زندگی میں بڑھتے گئے، وزیرستان میں بچوں، جوانوں یا بوڑھوں کی لاشوں کے پرخچے ہوں یا پھر بارہ مئی کو کراچی میں چیف جسٹس کے استقبال کیلئے آنے والے لوگوں کی خوش آلود لاشیں اور مدد کو پکارتے لوگ ، ۱۸/اکتوبر کی ریلی ہو، وزیرستان یا سوات کے جلے ہوئے مکانات، ہماری لمحہ بہ لمحہ دیکھنے کی حس کی تسکین ہو تی رہی ہمیں احساس تک نہ ہو سکا کہ اب مرغیوں کے ڈربے میں قصاب کا ہاتھ ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور اس کی آنکھیں ویسی ہی بے رحم ہیں اسی طرح بے حس ہیں جیسی ہم سے پہلی مرغیوں کو ذبح کرتے وقت ہوا کرتی تھیں ۔ اپنی طرف بڑھتے ہوئے اس عتاب کو ملاحظہ کرنا ہو تو آج امریکہ اور یورپ کے تمام اخباروں اور چینلوں کو بغور دیکھ لیں۔
ان کے تمام کے تمام تھنک ٹینکوں کی رپورٹیں پڑھ لیں ان کے حکمرانوں کی شعلہ اگلتی گفتگو سن لیں۔ مائیکل چوسدوو سکی نے اپنے مضمون میں ان تمام رپورٹوں تمام تبصروں کو جمع کر دیا ہے جس کا نام ہے ، پاکستان کا عدم استحکام۔ سی آئی اے کی رپورٹوں اور پینٹا گون کے علاقوں کو تقسیم کرنے کے نقشوں سے لے کر ایٹمی اثاثوں کی بے چینی تک سب موجود ہے ،ہماری آپس کی نفرتوں کی کہانیاں بھی ہیں اور ہمارے حکمرانوں کی کاسہ لیسیاں اور کمزوریاں بھی، یوں لگتا ہے کہ یہ سب کے سب چاہتے ہیں کہ اگلے مہینوں میں بوسنیا،بغداد، لیبیا یاکابل کی طرح پاکستانی بھی آگ و خون کے دریا سے گزریں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں۔ ہمارے مکان اور محلے بموں اور گولیوں کی زد میں ہوں۔ہمارے بچے اور عورتیں پناہ کی تلاش میں دربدر بھاگتے پھریں۔ دنیا بھر کے صحافی ان مظالم کی کہانیاں قلمبند کرنے یہاں پہنچیں اور پھر ہم سے ہزاروں میل دوران عکس بند فلمبندی کی بنیاد پر کسی بڑی عمارت کے بڑے سے ہال میں دنیا کے ملک بیٹھے اول تو قراردادیں پاس کریں پھر دنیا کی طاقتیں ہمیں بچانے، یہاں امن قائم کرنے اور ہمارے لٹے پٹے اور بچے کھچے گھروں کو بچانے یہاں اتر آئیں۔
مظلوموں کے شہر میں بے کسوں کی بستیوں میں ، پہلے امن قائم کریں، پھر اپنی مرضی کی حکومت بنوائیں اور یہاں مدتوں مستقل ٹھکانہ بنا لیں۔ یہ ہے وہ منظر نامہ جو یوں لگتا ہے اگلے مہینوں کے لئے ترتیب دے دیا گیا ہے تاکہ آئندہ امریکی انتخابات کونئے عنوانات مہیاکئے جاسکیں۔امریکی عوام یقینا عراق اورافغانستان کاحساب مانگے گی جس نے امریکی معیشت کوتباہی کے کنارے پہنچادیاہے اوراس ساری تباہی کاملبہ اب کس پرگرے گا؟اسامہ بن لادن تورخصت ہوگئے اوران کی باقیات کوتباہ کرنے کے دعوے بھی کئے جارہے ہیں،کیاحقانی گروپ کوپاکستان کے ساتھ نتھی کرکے کسی نئے طوفان کی پیش بندی کی جارہی ہے؟ہلیری کلنٹن کے حالیہ دورے میں ایک مرتبہ پھرپاکستان کے توسط سے ملاعمرکے ساتھ بات چیت کی شدید خواہش کااظہارکیاگیاہے لیکن اگرپاکستان اپنے ہمسائے افغانستان کے ساتھ مستقل امن کیلئے اپنے مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی کی پیش بندی کرتا ہے تو قصرسفیدکے فرعون کے ماتھے پرکئی بل پڑجاتے ہیں اوراس کودنیاکے امن کے منافی قراردیکرڈرانے دھمکانے کاعمل شروع ہوجاتاہے۔
یہ ترتیب اور یہ پلاننگ اپنی جگہ، اس طوفان کی آمد اور اس کی وارننگ اپنے طور پر بجا لیکن اس طوفان اور اس عتاب کی گن گرج میں کیا ہم ایک لمحے کو بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ سب عذاب ہم پر کیوں نازل ہو رہا ہے ۔ ہمیں کس بے حسی کی سزا ملنے والی ہے ہم کس جرم میں پکڑے جانے والے ہیں۔ ستارہ شناسوں کی پیشن گوئیاں بھی ہمارے خلاف ہیں اور اہل نظر کی پریشانیاں بھی ہمارے اوپر مسلط ہونے والے عذاب کا پتہ دے رہی ہیں۔ کیا ہم اس طوفان میں بھی لمحہ بہ لمحہ مرتے ہوئے انسانوں کی فلمیں دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ اس سے پہلے کہ بار ود اور گرد کا غبار ہمیں گھیرلے۔اس سے پہلے کہ ہمارے حکمرانوں کی سزا ہمیں ملنے لگے اس سے پہلے کہ ہماری خاموشی اور بے حسی پر ہماری پکڑ آجائے کون ہے جو پکارے کہ آؤ اس رب کائنات سے مدد کے طالب ہو جائیں آنسوؤں میں ڈوبی آنکھوں کے ساتھ سجدہ ریز ہو جائیں، اپنے اعمال پر استغفار کے لئے بے چین ہو جائیں، ظالموں، جابروں اور اپنے اوپر مسلط ہونے والوں کا ہاتھ روک لیں کہ اب تو یہی ایک راستہ ہے دشمن طاقتور ہے، بلا کا ظالم ہے اور میرا اللہ قادر بھی ہے، رحیم بھی اور بخشنے والا بھی۔
****