سمیع اللہ ملک
چلئے آج لمبی چوڑی کہانی کو چھوڑ دیتے ہیں‘جو ہوگا دیکھا جائے گا۔پچھلے دنوں میں نے جو کچھ پڑھا اور سنا‘آپ سے کہہ سن لیتا ہوں۔جرأت بھی دل سوزی‘شفقت اور رحم دلی کی طرح انسانی معراج کا ایک زینہ ہے۔آج تک کوئی جرأت اور بہادری کے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکا۔جرأت اس تین منزلہ مکان کا نام ہے جس کے اندر انسان بستا ہے۔انسانی وجود کے تین حصے ہیں :پہلا جسمانی‘دوسرا ذہنی اور تیسرا روحانی۔ان تینوں حصوں یا منزلوں کا ہو نا بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسان کی زندگی کا آگے بڑھنا‘اس کا نشوونما پانا ناممکن ہے۔جرأت آپ سے تقاضہ کرتی ہے کہ آپ اپنے اور دوسروں کے حقوق کیلئے کھڑے ہو جائیں اور انہیں منوانے کیلئے سینہ سپر ہو جائیں۔جرأت آپ کو مجبور کرتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو‘اپنے معاشرے کو‘اپنے ملک کوتعمیر کرنے کیلئے سختی اور شقاوت کی بجائے محبت اور شفقت سے کام لیں‘تشکیک کی بجائے ایمان کے اندر زندہ رہیں۔مایوسی کے مقابلے میں امید کے سہارے‘مشکلات کے نیچے دبنے کی بجائے ان پر حاوی ہو کر خود اعتمادی کی جرأت پیدا کریں۔غلطیاں تسلیم کرنے کی جرأت اور خود کو کامل نہ پا کر رونے بسورنے سے احتراز کریں۔یہ ہیں صحیح جرأت کے مظاہر․․․․․․․․․․․․!
باوجود اس کے کہ آپ اپنے اندر ایک جزیرہ ہیں‘لیکن یہ جزیرہ انسانوں کی دنیا میں آباد اور ان کے درمیان واقع ہے۔کسی نے کہا ہے کہ ہم فکر مند نہیں ہوں گے تو بھوکے مر جائیں گے‘اور اگرفکر کرتے رہیں گے تو پاگل خانے میں جا کرفوت ہو جائیں گے۔ زندگی ان دنوں اس قدر مشکل ہو گئی ہے کہ ہمیں ڈھنگ سے فکر کرنا بھی نہیں آتا۔ہم بھارتی حملہ آوروں کی فکر کرتے رہیں گے اور اپنے پڑوسی کی کار کے نیچے آکر دب کر مر جائیں گے۔ہم ہوائی جہاز کے کریش سے خوفزدہ رہیں گے اور سیڑھی سے گر کر فوت ہو جائیں گے۔ہم دوسروں سے ورزش نہ کرنے کی شکائت کرتے رہیں گے اور گھر کے سامنے لگے ہوئے لیٹر بکس میں خط ڈالنے کیلئے گیراج سے کار نکالیں گے۔ہم فکر مندی کے فن سے بھی نا آشنا ہوگئے ہیں اور ہم صحیح فکر کرنا بھی بھول گئے ہیں۔فکر کرنا ایک اچھی بات ہے اور اس سے بہت سے کام سنور جاتے ہیں۔بچے پل جاتے ہیں‘گھر چلتے ہیں‘دفتر کا نظام قائم ہوتا ہے‘بزرگوں کی نگہداشت ہوتی ہے۔فکر مندی ایک صحت مند اقدام ہے‘یہ کام کرنے پر اکساتی ہے‘لیکن سب سے ضروری فکر اپنی روح کی ہونی چاہئے اور سب سے اہم فیصلہ یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنا ابد کہاں گزار رہے ہیں اور کیسا گزار رہے ہیں۔یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ہمیں ساری دنیا کی دولت مل جائے اور ہماری روح میں گھاٹا پڑ جائے‘تو پھر یہ کیسا سودا ہے؟
انسان ضرورت سے زیادہ فکر کیوں کرتا ہے؟ یہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان خود کو خدا سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔وہ یہ سمجھنا شروع کردے کہ اب ہر شئے کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے۔انسان خدا کا بوجھ بھی اپنے کندھے پر اٹھانا چاہتا ہے جو وہ کبھی بھی نہیں اٹھا سکتا۔اس فکر مندی کے وجود میں آنے کی وجہ ایک چھوٹا سا لفظ”اگر“ہوتی ہے۔اگر یہ ہو گیا‘اگر وہ ہو گیا‘اگر اس نے یہ کہہ دیا ‘اگر لوگوں نے باتیں بنانا شروع کر دیں!!! ایک اعلیٰ عہدے پر فائز اپنے اندیشوں اور فکر مندیوں کی ڈائری لکھا کرتے تھے جن سے وہ خوفزدہ رہتے تھے۔سال بعد جب ڈائری دیکھتے تو ان ہزارہا اندیشوں اور فکروں میں سے کوئی ایک آدھ ہی ان کو چھو کر گزرے تھے۔اس کے مقابلے میں ایک دنیاوی طور پر ان پڑھ عورت‘جو بھرپور جوانی میں بیوہ ہو گئی۔چھ معصوم بچوں کا بوجھ‘کام نہ کاج․․․․․․․․․!کہنے لگی کہ میں نے صرف دو روپے کے کاغذ پر اپنے اللہ سے شراکت نامہ کر لیا۔ایک بھوکے آدمی نے صدا لگائی ‘جیب میں دو ہی روپے تھے ‘نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔اس طرح میرے رب سے میری شراکت شروع ہو گئی اور کہا کہ کام میں کرتی جاوٴں گی‘فکر میری جگہ تم کرنا۔میرا کریم و رحیم رب راضی ہو گیا‘بس اسی دن سے ہمارا شراکت کا کاروبار بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔
رات کو سونے سے پہلے میں یہ ضرور دعا کرتا ہوں :یا اللہ!دن میں نے پورا زور لگا کرتیری مرضی کے مطابق گزار دیا ‘اب میں سونے لگا ہوں ‘رات کی شفٹ اب تو سنبھال‘بڑی مہربانی ہوگی۔جب ہم ایسا کچھ کرتے ہیں کہ ہمارا اندر بتاتا ہے کہ یہ تو گناہ ہے ‘تو ہم اپنی عزتِ نفس سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔پھر اپنے ساتھ رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے پھر ہم ندامت کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے ۔زندگی مشکل ہو جاتی ہے‘ضمیر ہر وقت ملا مت کرتا رہتا ہے۔اب ہم تو یا اس کو بھول جائیں‘یا اسے دماغ سے نکال دیں ‘لیکن یہ دونوں کام ہی مشکل ہو جاتے ہیں۔اس کے برعکس ایک فعلِ ندامت‘پشیمانی‘اور توبہ ہے۔جب ہم اپنے کریم رب کے سامنے اپنی تمام بے بسی ‘ندامت کے احساس کے ساتھ سجدے میں گر کر توبہ کی درخواست اپنے آنسووٴں کی تحریر کی شکل میں ‘اس کی عدالت میں اس کی رحمت کا استغاثہ دائر کرتے ہیں ‘تو نہ صرف توبہ قبول ہوجاتی ہے بلکہ اگر اس مناجات میں اخلاص بھی ہو تو ہم بھی قبول ہو جاتے ہیں۔پھر زندگی آسان ہو جاتی ہے۔بابا اقبال نے تو اپنی منظوم زندگی کا آغاز ہی اس پہلے شعر سے کیا تھا:
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
دوستی کیا ہے؟اگر میں تمہارا دوست ہوں اور تم میرے دوست ہو‘تو یہ ہمارے لئے ایک بڑا اعزاز ہے کہ ہم نے دنیا کے بڑے بڑے مشہور‘لائق فائق“اعلیٰ درجے کے لوگوں کو چھوڑ
کر ایک دوسرے کو پسند کیا۔کیا پاکیزہ رشتہ باندھا‘واہ واہ۔دوستی کا رشتہ عمر بھر چلتا ہے۔جوان ہوئے تو شادی ہو گئی۔بہن بھائی‘عزیز رشتہ دار‘گھر‘محلہ‘شہر چھوٹ گیا۔بوڑھے ہوئے تو اولاد چھوڑ گئی‘لیکن دوستی میں یہ تبدیلی نہیں آئی‘دوستی کا رشتہ بے لوث ہوتا ہے‘یا یوں کہئے کہ یہ روحانی ہوتا ہے۔دیگر رشتوں میں تو کچھ جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنا پڑتا ہے ‘ مگر دوستی میں صرف روح کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا تقاضہ ہوتا ہے۔روحیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آغوش ہو جاتی ہیں اور جسمانی تقاضہ ایک بھی نہیں ہوتا۔والدین بچپن میں ملتے اور پھر ساتھ رہتے ہیں۔پھر وہ ہمیں یا پھر ہم ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔بیوی یا شوہر جوانی کی عمر میں ملتے ہیں۔بچے شادی کے بعد کی عمر میں نصیب ہوتے ہیں۔اسی طرح بہن بھائی بھی ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ میں مگن ہوجاتے ہیں۔
بدن کے شور میں گم تھی سماعت نہ سمجھی روح کی فریاد ہم نے
تلاش شادمانی میں شب و روز رکھاخود کو بہت ناشاد ہم نے
لیکن دوستی کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں۔آپ ۸ کے ہوں یا ۸۰ کے‘۹ کے ہوں یا ۹۰ کے‘۱۶ کے ہون یا۶۰ کے․․․․․․․․․․آپ میں اگر اخلاص ہے‘اور اگر آپ دوستی کا مطلب جان گئے ہیں تو پھر آپ کسی بھی عمر میں دوستی کر سکتے ہیں‘دوست بن سکتے ہیں۔ایمان کیا ہے؟ایک اختیار ہی تو ہے۔ایک (Choice)ہی تو ہے۔کوئی مباحثہ یا مکالمہ نہیں‘یہ ایک فیصلہ ہے‘ قطعاًمباحثہ نہیں ہے۔ایک کمٹمنٹ ہے‘کوئی زبردستی نہیں ہے۔یہ ہمارے دل کے خزانوں کو بھرتا ہے اور ہماری ذات کو مالامال کرتا رہتا ہے۔بالکل ایک پر خلوص دوست کی طرح۔ پھر دوستوں میں تحائف کے تبادلے بھی ہوتے ہیں۔یادیں ایک بہترین اور خوبصورت تحفوں کی طرح ہر دم آپ کو گھیرے رکھتی ہیں‘اور وہ تحفہ جس میں کچھ قربانی شامل ہو جائے‘وہ تحفہ جس نے آپ کو جینے کا ڈھنگ سکھایا ہو‘جس نے آپ کو سر اٹھا کر چلنے کا فخر عطا کیا ہو‘وہ تحفہ تو پھر سرمایہ حیات بن جاتا ہے۔ پھرایسے تحفے کی حفاظت کیلئے ایک جان تو بہت کم محسوس ہوتی ہے ۔اگر ربّ کریم دوست ہیں تو پاکستان اس رحیم دوست کا سب سے بڑا قیمتی اور نایاب تحفہ ہے۔ایک ایسا انمول ہیرا ہے جس نے آپ کے سر پر رکھے ایمانی تاج کوباقی دنیا سے ممتاز کر رکھا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آج کسی کمہار کے ہاتھ لگ گیا ہو اور وہ اس کی قدر نہ پہنچانتے ہوئے اس کو ا پنے گدھے کے گلے کی زینت بنا دے؟جلدی کریں‘وقت بہت کم ہے۔اپنے دوست کے تحفے کی قدر نہ کی تو پھر دوستی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
اجازت دیں۔میں تو منادی کرنے آیا تھا۔ملتے رہیں گے جب تک سانس کی ڈوربندھی ہوئی ہے۔کچھ بھی تو نہیں رہے گا‘بس نام رہے گا میرے رب کا جو الحی القیوم ہے۔
یہ بازی عشق کی بازی ہے‘ جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا‘ہارے بھی تو بازی مات نہیں
بروزبدھ۴ محرم الحرام۱۴۳۳ھ۳۰/نومبر۲۰۱۱ء