Home / Socio-political / ہندستان کی فراخ دلانہ پیشکش پر پاکستان کا منفی رویہ

ہندستان کی فراخ دلانہ پیشکش پر پاکستان کا منفی رویہ

 

            ہندوستان نے پاکستان کو سکریٹری سطح کی بات چیت کی پیش کش کیا کردی کہ پاکستانی قائدین نے اسے ہندوستان کی شکست اور پاکستان کی فتح سے تعبیر کرنا شروع کردیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تال ٹھونک کر یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ ”وہ لوگ جو کل تک ہمارے اوپر حملے کی بات کرتے تھے، آج وہی ہم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔“ دوسری جانب پاکستانی میڈیا نے بھی یہ راگ الاپنا شروع کردیا ہے کہ ہندوستان عالمی دباوٴ کے نتیجے میں پاکستان سے بات چیت کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ پاکستان کی یہی محدود ذہنیت ہے جو اسے تباہی کے دہانے تک پہنچا رہی ہے۔ حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب وزیر خارجہ جیسے اہم عہدہ پر فائز شخص بھی ایک معمولی شہری کے جیسی سوچ رکھتا ہے اور اپنی نادانی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ہند و پاک مذاکرات کے لیے اس وقت جو فضا تیار کی جا رہی ہے ، اس پر ان کے اس حالیہ بیان کا کتنا منفی اثر پڑے گا۔ ان کے اس بیان کو یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ پاکستانی قیادت ہندوستان سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر سنجیدہ ہوتی تو پھر وزیر خارجہ کی زبان پر لگام نہ لگایا جاتا۔

لیکن دوسری جانب یہ ہندوستان ہی ہے جو بڑے بھائی کی طرح پاکستان کی ہر غلطی کو معاف کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قریشی کے اس بیان کا ہمارے قائدین کی جانب سے اب تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ حالانکہ ہندوستانی عوام حیران ہیں کہ آخر ہماری حکومت اس معاملے پر خاموش کیوں ہے۔ لیکن یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے کہ بیوقوف کی نادانی کو نظر انداز کردیا جائے کیوں کہ یہ معاملہ ہم سب کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔

اب پاکستانی قیادت کی جانب سے ایک دوسرا شوشہ یہ چھوڑا جا رہا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کے موضوعات میں سب سے اوپر کشمیر کا ایشو ہوگا۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پاکستان کشمیر سے متعلق ہندوستان سے کیا بات کر نا چاہتا ہے۔ اگر بات ہی کرنی ہے تو پاکستان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آخر اسے ہزاروں لاکھوں کشمیری عوام کا خون بہانے میں کیا مزہ آرہا ہے اور اس کی یہ پیاس آخر کب تک بجھے گی؟ اگر اس سے صرف اس کے قبضہ والے کشمیر کے بارے میں جواب طلب کیا جائے تو وہ کوئی جواب نہیں دے پائے گا۔ اور اگر موازنہ کرنا ہی ہے تو پھر یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہندوستانی کشمیر کے لوگ جتنے خوش حال ہیں اتنے پاکستانی قبضے والے کشمیر کے نہیں۔ اور اب تو یہ بات کشمیریوں کو بھی اچھی طرح محسوس ہونے لگی ہے کہ انھوں نے پاکستان کا ساتھ دے کر بہت بڑی بھول کی ہے۔ اپنے لاکھوں نوجوانوں کو گنوا دینے کے بعد انھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات قمر زماں کیرا علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کے ایجنڈے میں کشمیر سرفہرست ہوگا۔ دونوں جانب سے جب جب دوستی کی کوشش کی جاتی ہے اور زیر التوا معاملوں کو سلجھانے کی بات کی جاتی ہے تب تب اس قسم کی ذہنیت رکھنے والے لوگ ان کوششوں پر پانی پھیر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض دفعہ آپسی تکرار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ دونوں ممالک جنگ کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی بھی عوام کا بھلا نہیں سوچ سکتے، پھر بھلا وہ کشمیریوں کے حق کی بات کرنے میں سنجیدہ اور ایماندار کیسے ہو سکتے ہیں؟ پاکستانی قیادت کی جانب سے وقت وقت پر دیے گئے اس قسم کے بیان کو سننے کے بعد اب خود کشمیری بھی خود کو ٹھگا ہوا سا محسوس کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھی کے کھانے کے دانت الگ اور دکھانے کے دانت الگ ہوتے ہیں۔ تبھی تو پاکستان کی جانب سے ان کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز ہر بار کھوکھلی ثابت ہوتی ہے۔

پاکستان کے لیے یہ بڑا اچھا وقت تھا کہ وہ مذاکرات کی میز تک پوری گرم جوشی کے ساتھ آتا اور ہندوستان کی جانب سے کی گئی پیش کش کا والہانہ خیر مقدم کرتا، لیکن اس نے اسے بھی ہندوستان کی کمزوری سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ جب کہ خود پاکستان کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ کون کس پہ بھاری پڑے گا۔ کل تک پاکستان یہ کہتا آرہا تھا کہ ممبئی حملے کے بعد ہندوستان نے پوری دنیا میں اس کا حقہ پانی بند کر دیا ہے، اب وہی یہ بھی کہہ رہا ہے کہ عالمی دباؤ کی وجہ سے ہندوستان پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے مجبور ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے اوپر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے بلکہ ہندوستان تو چاہتا ہے کہ اس پورے خطے میں ہمیشہ امن و سکون رہے اور جنوبی ایشیا کے تمام باشندے خود کو ہر طرح سے محفوظ سمجھیں۔ لیکن جب جب دہشت گردی کی بات ہوتی ہے تو انگلی صرف اور صرف پاکستان ہی کی طرف کیوں اٹھتی ہے؟ پاکستان کو اب تو یہ سمجھ میں آ ہی جانا چاہیے کہ دہشت گردی خود ان کے لیے کتنی نقصاندہ ہے۔ اور عقل مندی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے پڑوس کے تمام ممالک کے ساتھ بیٹھ کر سنجیدگی سے غور وفکر کی جائے ، ورنہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہندوستان کا نقصان کم اور دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کا نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ آج خود امریکہ ڈروں طیاروں سے پورے پاکستان میں دہشت گردوں کو چن چن کر مار رہا ہے۔ لیکن پاکستان کی جانب سے ڈرون حملوں کی مخالفت یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ اپنے دل میں ان شدت پسندوں کے تئیں کوئی نہ کوئی نرم گوشہ ضرور رکھتا ہے۔ گیلانی صاحب کچھ کہتے ہیں اور قریشی صاحب کچھ اور۔ جب خود قائدین کے درمیان دہشت گردی کو لے کر اتفاق رائے نہیں ہوگی تو پھر اس کا مقابلہ وہ بھلا کیسے کر پائیں گے؟

پاکستان کو چاہیے کہ وہ باہمی مذاکرات کی جانب جاری موجودہ کوشش کے لیے تمام راہیں ہموار کرے اور ان مذاکرات کو ایک اطمینان بخش نتیجے تک لے جائے تاکہ دہشت گردی کا صفایا ہو سکے اور دونوں خطوں کے عوام چین کی سانس لے سکیں۔ اس کے بعد ہی پاکستان ترقی کی راہ پر مائل ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان ان باتوں پر غور کرے گا اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پرامن زندگی کی راہ ہموار کرے گا۔

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

3 comments

  1. آپ کی بات سو فیصد صحیح ہے کہ پاکستان ہمیشہ چھوٹی ذہنیت کا شکار رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے قسم قسم کی نادانیاں کرتا رہتا ہے۔ اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ ہندوستان نے اکثر اس کی نادانیوں کو معاف کیا ہے۔ اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر وہاں کے سیاسی رہنماؤں کے پلے کوئی سیدھی بات بھی کیوں نہیں پڑتی؟ایک تو کشمیر کا معاملہ اب پاکستان کے ہاتھ سے باہر جا چکا ہے دوسرے اگر پاکستان کے معاملے پر اگر بات ہی کرنی ہے تو کیا بات کرنی ہے؟ کیا کشمیر کو لوگ پاکستان کی بات سننے کو اب تیار ہیں؟ پاکستان عالمی برادری کے سامنے کیوں ذلیل و خار ہونا چاہتا ہے؟
    واقعی پاکستان کی بھلائی تو ابھی اسی میں ہے کہ چپ چاپ مل جل کر کوئی حل نکالے ۔ عالمی برادری کے سامنے جو عزت بچی ہے اس کو بھی نہ لٹائے۔

  2. رابعہ ریحٰن

    واقعی آپ نے درست کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ باہمی مذاکرات کی جانب جاری موجودہ کوشش کے لیے تمام راہیں ہموار کرے اور ان مذاکرات کو ایک اطمینان بخش نتیجے تک لے جائے تاکہ دہشت گردی کا صفایا ہو سکے اور دونوں طرف کے عوام چین کی سانس لے سکیں۔ اس کے بعد ہی پاکستان ترقی کی راہ پر مائل ہو سکتا ہے۔ ابھی پونے دھماکہ کا بھی سراغ اگر پاکستان میں نکلا تو واقعی ہندوستان مجبور ہو جائے گا کچھ سخت قدم اٹھانے کو ۔ اب تک تو دنیا کے سامنے پاکستان کی اصلیت آ ہی چکی ہے اب تو بس پاکستان کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ میں ایسا نہیں سوچتی تھی۔ مجھے اکثر ہمدردی رہی ہے اور اب بھی ہے لیکن یہ کیا کہ پاکستان اپنی چھوٹی حرکتیں دکھانے میں ذرا بھی موقعہ نہیں گنواتا ۔ آخر صبر کی بھی حد ہوتی ہے ! اور پاکستان ساری حدوں کو پار کرنا جانتا ہے۔ ممبئی حملے کے بعد تو جب تک پاکستان کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا ہندوستان کو اس سے سیدھی بات ہی نہیں کرنی چاہیے تھی ، لیکن اگر سیکریٹری سطح کی بات کے لیے یہاں سے پہل ہوتی ہے تو یہ عظمت ہے ہندوستا کی اور اس کی قدر کرنی چاہیے پاکستان کو۔

  3. سر! آپ کی باتیں بالکل درست ہیں کہ پاکستان کے لیے یہ بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ مذاکرات کی میز تک پوری گرم جوشی کے ساتھ آتا اور ہندوستان کی جانب سے کی گئی پیش کش کا والہانہ خیر مقدم کرتا، لیکن اس نے اسے بھی ہندوستان کی کمزوری سمجھنا شروع کر دیا ہے۔
    در اصل وہاں کے لوگ ایک حد تک باتوں کو سمجھنے لگے ہیں لیکن جو حکومت کے ذمہ دار حضرات ہیں وہ انہیں سمجھنے نہیں دینا چاہتے۔ بلکہ اور گمراہ کرتے ہیں۔
    ایسے میں وہ دن دور نہیں جب عالمی برادری کی جانب سے پاکستان کا رشتہ ہی ٹوٹ جائے اور پاکستان بھیک تک مانگنے کے لایق نہ رہے۔
    ویسے پاکستان کی سلامتی کی دعا کرتی ہوں کہ اللہ وہاں کے حالات کو پر امن بنا دے!
    آمین!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *