Home / Socio-political / ہندستان کے عام انتخابات

ہندستان کے عام انتخابات

سیکولر اور جمہوری جماعتوں کا اتحا د یا سیاسی فریب؟

             یہ پہلا موقع ہے کہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہی سیاسی پارٹیوں میں ہلچل پید اہونے لگی تھی ۔ بہت کم وقت میں پُرانے دوست دشمن بن گئے اور پُرانے دشمن دوست ۔۱۲/مارچ کو اس سیاسی فریب کی ایک خوبصورت نمائش کا اہتمام کیا گیا ۔منتظم کار ہندستان میں سیکولرزم کا نعرہ لگانے والی بائیں بازو کی پارٹی تھی۔ اس محاذ کی پہلی ریلی بنگلور میں منعقد کی گئی تھی۔ اس کا مقصد تھا ملک میں کانگریس اور بی جے پی کا متبادل ڈھونڈھنا ، چنانچہ بہت کم عرصے میں سیکولر پارٹیاں بھی ڈھونڈ لی گئیں ۔اس محاذ میں شامل وہی سیاسی پارٹیاں ہیں جو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی سیاسی اقدار کی پاسداری کی قائل نہیں ۔ان میں جو بڑے نام ہیں ان میں ایک چندر بابو نائیڈو کا ہے ۔یہ وہی سیاسی بازیگر ہیں کو جو کبھی سیکولر پارٹی کے اتحاد میں نمایاں مقام رکھتے تھے ۔ لیکن جب این ڈے اے کی حکومت بنی تو اس میں رابطے کا کام انہی کے سپرد کیاگیا ۔ اور پورے پانچ سال تک حکومت میں رہنے والی بی جے پی کے قریبی رہے ۔یہ وہ دور تھ اجب چندر بابو نائیڈو کو این ڈے اور بی جے پی کا دست راست سمجھاجاتا تھا۔لیکن جب ۲۰۰۳کے انتخاب میں این ڈے کو ناکامی ملی تو یہ بھی سیاست کی میدان میں باؤنڈری پر آگئے ۔معاملہ یہ ہے کہ ابھی تک اوپر اٹھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے لہٰذا انھوں نے این ڈے سے اپنا رشتہ ختم کرکے کسی تیسرے متبادل کی تلاش میں نکل آئے ۔

یہی حال سابق وزیر اعظم اور جنتا دل سیکولر کے سربراہ ایچ ڈی دیوے گوڑا کا ہے ۔ یہ وہ صاحب ہیں جنھیں اتحاد کی مجبوری نے ملک کا وزیر اعظم بنایا ۔ان کے وزیر اعظم بننے کے پیچھے صرف یہی وجہ تھی کہ ملک کو فرقہ پرستوں سے بچانا ہے۔چنا نچہ وہ ملک کے وزیر اعظم بنے اور گمنام زندگی گزارنے والے راتوں رات ملک کے نقشے پر چھا گئے لیکن وزرات عظمیٰ کی کرسی ختم ہوتے ہی ان کی سیاسی شخصیت بھی غروب ہونے لگی۔ کسی طرح اپنی ساکھ بچاتے ہوئے کرناٹک میں اپنی پارٹی کو تھوڑی بہت کامیابی دلائی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بی جے پی کے ساتھ مل کرکرناٹک میں حکومت بنائی۔ اگر جنتا دل سیکولرنے بی جے پی کے ساتھ اتحاد نہیں کیا ہوتا اور اسمبلی الیکشن میں سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرتے تو آج کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہوتی۔ سوال یہی ہے کہ جب ریاست میں اسبملی الیکشن ہوتا ہے تو اس وقت سیکولر پارٹیوں کا خیال نہیں آتا لیکن آج جب پارلیمانی انتخاب ہور ہاہے تو سیکولر جماعتوں کی یا د ستانے لگی ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پھر سیکولر پارٹیوں کو ہرانے کے لیے یہ سارے ڈرامے سیکولرزم کے نام پر کیے جارہے ہیں۔

            تیسری شخصیت مایاوتی کی ہے ۔ یہ مایا جی بھی سیاست کی مایا جال میں ایسی گھری ہوئی ہیں کہ انھیں وزرات عظمیٰ کی کرسی کے علاوہ کچھ پسند ہی نہیں ہے ۔ انھوں نے بھی اپنی سیاسی ساکھ بڑھانے اور سیاسی فائدے اٹھانے کے لیے کبھی بھی بی جے پی سے ہاتھ ملانے میں کوئی تکلف نہیں کیا ۔لیکن اب سیکولر پارٹیوں کے اتحاد میں بھی شامل ہوکر خود سیکولر کہلانے اور سیکولر اتحاد کے ساتھ حکومت بنانے کا اعلان کرکے ملک کو فریب دینے میں یہ سب سے آگے نظر آرہی ہیں۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی انھوں نے اس محاذ میں شامل ہونے کی شرط بھی یہ رکھی ہے کہ انھیں وزیر اعظم بنایا جائے ۔ ان کی اس خواہش نے اس اتحاد میں ابھی سے درار ڈالنے کی ابتد اکر دی ہے کیونکہ کچھ پارٹیوں کو یہ گوار انہیں اور کچھ پارٹیاں بغض معاویہ میں سب کچھ کرنے کوتیار ہیں ۔

            یہ تو ان شخصیات کا حال ہے ۔ ا ب ذرا سیکولر زم کے چمپئنز کی بھی بات سنیں ۔ پرکا ش کرات، مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری جو اس کے روح روان ہیں ۱۲/تاریخ کی ریلی میں محاذ تشکیل دیے جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سبھی جمہوری، سیکولر اور بائیں بازو جماعتوں کا تیسرے محاذ کے لیے ایک ساتھ ہونا ایک تاریخی موقع ہے۔جی ہاں تاریخی اس لیے کہ ان میں کوئی بھی سیکولر نہیں ہیں ، سب کے سب سیکولر زم کے نام پر ملک و قوم کو فریب دینے والے ہیں ۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ تیسرا محاذ عوام کے لیے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف سیکولرزم کی لڑائی کے لیے کھڑا رہے گا اور غریب طبقے کے لیے لڑے گا۔یہ آپ بھی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جس اتحاد میں ایسے لوگ شامل ہوں گے اس اتحاد کے لیے یہی پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ اگر انھیں موقع ملا تو سب سے پہلے بی جے پی سے یہی ہاتھ ملائیں گے۔

اب جیسے جیسے الیکشن قریب آر ہا ہے آپس کے اتحادی ایک دوسرے کے دشمن بنتے جارہے ہیں نجانے ان کی اخلاقیات کو کیا ہوگیا ہے ؟ اور یہ کس مٹی کے بنے ہیں کہ تمام تر احسانات کو بھول کر لوگ ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں ۔

          اس رسہ کشی سے خطرہ اس بات کا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کی قیادت لا ل کرشن اڈوانی کر رہے ہیں ،ان تمام جھگڑوں کا فائدہ انھیں کو ہوگا اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک با ر پھر دہشت پسند جماعت ملک پر حکمرانی نہ کرے۔ پھر اس ملک کا بھی خدا ہی حافظ  

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *