ہندوستانی معاشرہ پر مجالس سماع کے اثرات
نورین علی حق٭
یو ں تو ہندوستان میں اسلام کی آمد کافی پہلے ہو چکی تھی محمد بن قاسم اور دیگر تجار عرب ہندوستان آچکے تھے اور تبلیغ دین کا بیش بہا کا ر نامہ بھی انجام دیا تھا ان کی خدمات سے سرمو انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ان کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ بہر حال یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی مزاج وطبعیت کو سمجھنے اور اس کے ادراک میں جو طبقہ سب سے کامیاب ہوا وہ بلا شبہ صوفیہ کا طبقہ تھا اور اس میں بھی چشتی بزرگوں کو اہمیت حاصل ہے۔جنہوں نے یقینی طور پر اسلام کو”الاسلام یسرلاعسر “بنا کر پیش کیا ۔اور اپنی ذات کو بے ضرر ثابت کرنے میں وہ حد درجہ کامیا ب بھی ہوئے۔انہوں نے انسانیت کی تفہیم کو اصل سرمایہ حیات قرار دیتے ہوئے عوام وخواص کے دلوں پر اپنی حکومت قائم کی اور تخت و تاج کو آنکھ نہیں لگایا۔یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بزرگان چشتیہ یکے بعد دیگرے آج بھی عوام الناس کے دلوں میں موجود ہیں۔حضرت خواجہ غرےب نواز ،حضر ت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی،حضرت خواجہ بابا فریدالدین گنج شکر،حضرت خواجہ نظام الدین اولیائ،حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی،حضرت خواجہ کلیم اللہ شاہ جہاںآبادی،حضرت مولانا فخرالدین چراغ چشت یکساں طور پر مقبول و مو¿ثر ہوئے ہیں۔آج بھی ان کی بارگاہوں میں پہنچ کر مذاہب کی تفریق لا یعنی محسوس ہوتی ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی ہندوستان آمد ہوئی تو ہندوستانی زمین تبلیغ و اشاعت اسلام کے لےے مسطح اور ہموار تھی۔اور انہوں نے بلا کسی جدو جہد کے کلمہ اسلام پڑھانا شروع کر دیا۔اس کے بر عکس کتابوں کے اوراق ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ خواجہ کو حد درجہ جدو جہد کرنی پڑی ہے۔انہوں نے وضو کرنا چاہا تو انہیں وضو سے روک دیا گیا۔نماز ادا کرنی چاہی تو اس سے بھی منع کیا گیا۔جادو گروں کا سہارا لیا گیا۔طرح طرح سے انہیں پریشان کیا گیا۔لیکن انہوں نے باشندگان ہندوستان کے عذر کو عذر لنگ محسوس نہیں کیا اور وہ اپنے مشن میں ثابت قدم رہے۔اپنے پیغام محبت کو عام کیا۔بھید بھاﺅ سے کام نہیں لیا،نہ ہی کسی پر جبر کیا۔”ادع الی سبیل ربک با لحکمة و الموعظتہ الحسنة“کو نمونہ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔پہلے اپنے اعمال وافعال سے عوام الناس کو متاثر کیا پھر اسلام کے قوانین کو ان کے ذہن ودماغ میں بتدریج بسایا۔ا حکامات اسلام کو مانوس بنا کر پیش کیا۔حضرت خواجہؒ نے فرمایا”انسان کو دریا کی سی سخاوت،زمین کی سی تواضع،اور سورج کی سی شفقت اختیار کرنی چاہئے۔“یہی پیار کے دو بول تھے جس نے ہندوستانیوں کی زندگیاں بدل دیں۔انہوں نے ستی کے رواج سے خود کو پاک کر لیا۔گناہ کو گناہ سمجھنے لگے۔ان بزرگوں کے خلاف دلوں میں جو کد ورتیں پائی جاتی تھیں وہ بتدریج ختم ہوتی گئیں بزرگوں کی نفرت سے دل پاک ہو گئے۔اور آج ہمارے سامنے نتیجہ یہ ہے کہ بے شمار تخت و تاج کے مالک و بادشاہ ہندوستانیوں کے اذہان سے محو ہو گئے۔اور خود ان کی کارستانیوں اور غیر مصلحت پسندانہ رویوں کی وجہ سے وہ لائق مذمت ٹھہرے مگر اب بھی ہندوستان میں بلا تفریق مذہب ودھرم بزرگوں کو چاہنے والی اکثریت موجود ہے۔
ان بزرگوں کے بے شمار اعمال و افعال آج بھی ہندوستان میں رائج اور مقبول ہیں جن میں ایک مجلس سماع یا صوفیانہ قوالی ہے۔آیئے جانتے ہیں مجلس سماع یا صوفیانہ قوالی کی حقیقت و اہمیت کیا ہے۔ہندوستان مین سب سے پہلے سماع یا صوفیانہ قوالی کو چشتی بزرگوں نے رائج کیا۔مجلس سماع کے انعقاد کے بے شمار مقاصد کے حصول کے ساتھ یہ بھی مقصد مسلم تھا کہ ہندوستانی بھجن اور کیرتن کے عادی رہے ہیں۔لہذا جس طرح عرب میں اسلام کے ظہور کے ساتھ شراب کی حرمت کا اعلان نہیں کیا گیا۔اسی طرح یہاں بھی ان کے اعمال کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔بھجن اور کیر تن کا قبلہ ما سوا اللہ سے اللہ کی طرف موڑ دیا۔مزامیر میں تخفیف کی آداب و شرائط نافذ کئے۔اس کے انعقاد کا مقصد رضائے الہی قرار دیا اسلام کے پاور ہاﺅس حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال سے کسب فیض کیا۔روشنی حاصل کی۔ہجرت کے واقعہ کو اپنے لئے نظیر بنایا کہ ہمارا عمل اسلام مخالف بھی نہ ہو اور ہندوستانی مزاج و آہنگ کو زک بھی نہ پہنچائے۔
جواز سماع کے بے شمار دلائل میں بزرگان دین نے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے تو مدینہ کے بچے بچیاں اپنی چھتوں پر بے قراری کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پران کی نظر پڑی تو وہ جذبہ شوق میں دف بجا بجا کر استقبالیہ کلام پڑھ رہے تھے۔
طلع البد ر علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
ما دعا للّہ داع
ایھاالمبعوث فینا
جئت بالامرالمطاع
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دف پر اس کلام کو ملاحظہ فرمایا۔ان بچے بچیوں کو روکا نہیں۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تین قسمیں ہیں۔جس کا حکم فرمایا،یا کہا اسے حدیث قولی کہتے ہیںاور جسے کر کے دکھایا اسے حدیث عملی کہتے ہیںاور جسے نہ کیا نہ کہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام نے کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اس سے باز رہنے کی ہدایت نہیں فرمائی اسے حدیث تقریری کہتے ہیں۔مجلس سماع بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور حدیث تقریری ثابت ہے۔
سماع کو سب سے زیادہ ہندوستان میں رواج ملا،چشی بزرگوں نے اسے بعض شرائط کے ساتھ عام کیا۔روحانی غذا کے حصول کا ذریعہ بنایا۔خانقاہوں نے ایسے شعرا ءپیدا کئے جنہوں نے خالص ہندوی زبان میں شاعری کی۔خسرو ،بلہے شاہ،بابا فرید گنج شکر،بیدم وارثی وغیرہ کے نام نا قابل فراموش ہیں۔انہوں نے عشق حقیقی میں رنگی شاعری کی۔پھر وہ شاعری مجالس سماع یا صوفیانہ قوالیوں میں پیش کی گئی جس سے نہ صرف عشق حقیقی کی چنگاریاں شعلہ بنیں بلکہ قومی یکجہتی کی فضا بھی قائم ہوئی۔انسانوں کو مذہبی چشمہ لگا کر نہ دیکھنے کا رواج عام ہوا۔انسان کو انسانیت کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ہر ہندوستانی بھائی بھائی ہو گیا۔بزرگوں کی بار گاہوں سے تمام کے مسائل حل کئے جانے لگے۔
ہندوستانی تاریخ کو جب ہم کتابوں کے اوراق پر دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر بڑا ہی افسوس ہوتا ہے کہ جب سے خانقاہوں میں زوال و انحطاط کی بساط پھیلنے لگی تبھی سے ہندوستان میں فرقہ واریت،تشدد،نسل پرستی،انتہا پسندی پھیلنی شروع ہوئی۔خانقا ہوں میں پیغام الفت و محبت عام کرنے والے نہ رہے اور ہندوستان میں اختلاف و انتشار کی بیج بونے والے بے شمار منافقین آگئے۔جنہوں نے نہ صرف ہمیں اپنا غلام بنایا بلکہ ہندو مسلم ایکتا کو بھی پارہ پارہ کر دیا۔
آج بھی خانقاہیں احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔وہ اسلحے جن سے اسلامی پیغامات عام کئے جا سکتے ہیںوہ خانقاہیوں کے پاس موجود ہیں اور وہی امن وامان کی فضا بحال کر سکتے ہیں آج بھی ہندوستانیوں کے دلوں میں اسلام کے تئیں نرم گوشہ موجود ہے۔شرط یہ ہے کہ انانیت سے چور کوئی لہجہ انہیں نہیں چاہئے۔کوئی بوریہ نشین چاہئے جو انہیں سمجھ سکے اور یہ ان کے سامنے اپنا درد دل رکھ سکں پورے ہندوستانی آج پریشان حال ہیں۔یہ غریب ہیں انہیں کوئی غریب نواز چاہئے۔
اپنے دور میں گرو نانک جی نے حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے حضرت ابراہیم فرید ثانی سے تعلیم وتربیت حاصل کی تھی۔ان سے بابا فرید کے ۵۲۱ دوہے حاصل کر کے انہیں اپنی مذہبی کتاب گرو گرنتھ میں شامل کیا تھا۔اور آج بھی سکھوں کے یہاں جس انداز میں کیرتن کا رواج ہے اور اس میں جس انداز کے کلام پڑھے جاتے ہیں وہ سب مجلس سماع سے مستفاد ہے۔ہندوستانیوں نے بزرگوں کے بہت سارے اعمال کو رواج دیا ان میں ایک لنگر کا بھی رواج ہے۔جسے سکھ قوم نے لنگر ہی کہا۔ہمارے ہندو بھائیوں نے اسے بھنڈارے کا نام دیا۔آج بھی ہندوستان میں بے شمار جوگی جے پال اور گرو نانک موجود ہیں حرماں نصیبی یہ ہے کہ کوئی معین الدین،قطب الدین ،فریدالدین،نظام الدین نہیں ہے۔
گذشتہ ۷اکتوبر ۰۱۰۲ئ کو جشن دلی کے تحت چاندنی چوک کے ٹاﺅں ہال میں قوالی کا انعقاد کیا گیا تھا۔جس میں زیادہ تعداد برادران وطن کی تھی۔جب عتیق حسین خاں بندہ نوازی نے عربی وفارسی کلام شروع کیا تو میں یہ دیکھ کر محو حیرت رہ گیا کہ عربی وفارسی نہ سمجھنے کے باوجود برادران وطن کی اکثریت وجد کی کیفیت میں تھی۔بعض جوان تک فارسی کے کلام
نمی دانم چہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم بایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
پر جھوم رہے تھے۔اور اس کا ترجمہ معلوم کرتے دکھائی دے رہے تھے۔اطلاعاًیہ بھی عرض ہے کہ کوئی کلام اس پروگرام میں ایسا نہیں پیش کیا گیا جس میں فلمی بول ہوں یا فلمی گانے سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہو۔زیادہ تر کلام مذہبی نوعیت کے پڑھے گئے۔اور مجمع اخیر تک جوں کا توں ٹکا رہا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفیانہ قوالی آج بھی قومی یکجہتی اور امن و امان کی بحالی کے لئے موثر ثابت ہو سکتی ہے۔اور آج بھی اس کے اثرات عوام پر مرتب ہیں۔
٭alihaqnrn@yahoo.com,9210284453