Home / Socio-political / ہندوستان میں بڑھتی غریبی اور اقتصادی معاشرے کی بے حسی

ہندوستان میں بڑھتی غریبی اور اقتصادی معاشرے کی بے حسی

عابد انور

گزشتہ ایک ہفتے کے اندر ملک میں دو اہم خبریں آئیں لیکن دونوں ایک دوسرے سے متضادہیں، ایک خبر جہاں سر اٹھانے والا تھی وہیں دوسری خبر شرمسار کرنے اور نام نہاد ترقی کی پول کھولنے والی تھی۔ ایک خبر میں یہ بتایا گیاکہ ہندوستان میں دنیا کاسب سے مالدار ترین فرد رہتا ہے تو دوسری خبر نے اسی کے ساتھ یہ بھی بتادیا کہ یہاں سب سے غریب ترین افرادبھی رہتے ہیں۔ مکیش امبانی دنیا کے سب سے مالدار ترین شخص ہیں اور اسٹیل کنگ سنیل متل دوسرے نمبر پر، دونوں ہی ہندوستانی ہیں اول الذکر کا قیام ہندوستان میں ہے جب کہ دوسرے کا لندن میں۔ دونوں نے صنعت کے میدان میں کافی بلندیوں کو چھوا ہے اور تمام دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے ۔ مکیش امبانی ممبئی میں مسلم یتیم خانے کی زمین پر اپنی عالیشان محل بنوایا ہے جو دنیا کے صنعت کاروں کی رہائش گاہوں میں مہنگا ترین ہے۔ جس میں دنیا کی تمام آشائش کی چیزیں موجود ہیں یہاں تک ہیلی پیڈ بھی ۔یہ اس صنعت کار کامحل ہے جس شہر کی نصف آبادی کے پاس اپنا مکان نہیں ہے اور دنیا کی سب سبے بڑی جھونپڑ پٹی اسی شہر میں ہے۔ لوگ اپنی راتیں، پلیٹ فارم، فٹ پاتھ اور پارکوں میں گزارتے ہیں۔ اس ترقی کا المیہ یہ ہے ملک کی ساری دولت دو ‘ڈھائی فیصد تک سمٹ گئی ہے اور ہر آدمی یہ سوچنے لگا ہے کہ جب وہ لوٹ رہا ہے تو میں کیوں نہ لوٹوں، کسی سے بھی ایمانداری برتنے کی بات کہیں تو آپ کو یہی جواب ملے گا۔ ہندوستان صحیح معنوں میں کبھی بھی فلاحی ریاست کا درجہ حاصل نہیں کرسکا ہمیشہ سے ہی اس پر ایک طبقہ حاوی رہا ہے۔ آزادی سے پہلے یہ طبقہ انگریزوں کے ساتھ تھا اور آزادی کے بعد حکومت کے ساتھ ہے ۔ اس کا عمل دخل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ حکومت اس کے بغیر سانس تک نہیں لیتی۔ بجٹ ہو یا دیگر پالیسی یہی حضرات طے کرتے ہیں۔ حکومت کا ان لوگوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے جس طرح چاہیں جس قیمت پر چاہیں ہندوستانی عوام کو لوٹیں، جم کر ذخیرہ اندوزی کریں اور اپنی مصنوعات کو خواہ دس گنا منافع پر فروخت کریں کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں تیار کردہ مصنوعات پر تاجر کس قدر عوام کی کھال نکالتے ہیں اس کو سمجھنے کے لئے دونوجوان صنعت کار کے درمیان ہونے والی بات چیت کا ایک واقعہ بتانا چاہتا ہوں۔ بات سرنچ اور اسی طرح کی کوئی چیز بنانے کی چل رہی تھی یہ واقعہ تقریباً دس سال پہلے کا ہے۔ ایک نے کہا کہ اس کی مارکیٹنگ کافی اچھی ہوگی دوسرے نے پوچھا اس پر کیا خرچہ آئے گا، پہلے نے ایک بس ایک یا ڈیڑھ روپے کے درمیان، دوسرے نے کہا بازار میں کتنے میں فروخت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ کم از کم دس روپے میں ۔

اقوام متحدہ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے 2 نومبر کو دنیا میں غریبی سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس ملک میں کتنی غربت بڑھی ہے، کتنی کمی آئی ہے، ہندوستان نے ایک بار پھر بازی ماری ہے اور یہاں کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ غربت زدہ زندگی گزار رہا ہے۔ یہ رپورٹ جس قدر افسوسناک اتنی ہی اقتصادی معاشرے کی بے حسی کو بیان کرتا ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک کے صنعت کار ملک کے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ‘ اسکول ‘کالج اور دیگر خیراتی ادارے چلاتے ہیں لیکن بیشتر ہندوستانی صنعت کار اگر اسکول ‘ کالج‘ اسپتال یا ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کرتے ہیں تو صرف پیسے کمانے کی غرض سے۔ امریکہ کے صنعت کار بل گیٹس کی مثال دی جاسکتی ہے جنہوں نے اپنا نصف سرمایہ اپنی فلاحی تنظیموں کو دے دیا جو کئی ممالک میں فلاحی کاموں میں سرگرم ہیں لیکن ہندوستان کے کتنے صنعت کار ہیں جنہوں نے اس سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق جن لوگوں کو روزانہ 1.25 ڈالر سے کم پر گزر بسر کرنا پڑ رہا ہے وہ خط افلاس سے نیچے ہیں۔اگر کسی شخص کی پہنچ مناسب غذا ، کپڑے اور بنیادی ضرورت کی دیگر سامان تک نہیں ہے ، تو اس کی شناخت ایک غریب کے طور پر کی جائے گی۔ غریب لوگ اپنی آمدنی کا تقریبا 80 فیصد حصہ کھانے پر خرچ کر دیتے ہیں اس لئے دیگر ضروریات کے لئے ان کے پاس روپے بچتے ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم‘ علاج و معالجہ اور دیگر ضروریات زندگی پر خرچ کریں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں 61 کروڑ غریب ہیں۔ یہ تعداد ہندوستانی حکومت کے اعداد و شمار سے میل نہیں کھاتی کیوں کہ حکومت نے گاؤں میں 26 روپے اور شہر میں 32 روپے چرخ کرنے والے افراد کو غریب تسلیم نہیں کیا ہے ۔ ہندوستان میں یو این ڈی پی کی ڈائریکٹر کیٹلن وائزن کے مطابق 1980سے 2011کے درمیان یہاں میں انسانی ترقی کی شرح میں 69 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن ترقی کا فائدہ سب کو برابر نہ پہنچنے کی وجہ سے یہ صور ت پیدا ہوئی ہے۔ اس عرصہ میں امیروں کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جب کہ غریبی اس سے کہیں رفتار سے بڑھی ہے کیوں کہ تمام ضروری اشیاء کی آسمان چھوتی قیمتیں اس تعداد کی سب سے بڑی ذمہ دار ہیں۔ اس سے پہلے ایس ڈی تندولکر کمیٹی نے خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 37 فیصد بتائی تھی۔ یہ بھی حکومت کے اعداد و شمار سے زائد ہے ۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد تقریباََ 27 فیصد ہے۔ ہندوستان میں غربت کے پیمانے پر کافی عرصہ سے بحث چل رہے ۔ حکومت کی ہمیشہ سے ہی یہ کوشش رہتی ہے کہ اصل تعداد کا عام لوگوں کو پتہ نہ چل سکے اور وہ مختلف موقعوں پر اس کی علاحدہ علاحدہ پیمانے مقرر کرتی ہے۔ ایس ڈی تندولکر کی صدارت قائم کمیٹی نے ملک میں غربت کا جائزہ لیا تھا ۔ اس کمیٹی نے کہاکہ خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی میں مزید 11 کروڑ لوگ جڑ گئے ہیں۔

غربت پر بحث اس وقت شدت اختیار کرگئی تھی جب منصوبہ بندی کمیشن نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے کہا کہ حکومت انہیں انتہائی غریب کے زمرہ شامل نہیں کرتی جن کی شہر میں 32 روپے یومیہ خرچ کرنے صلاحیت ہے۔ اس پر میڈیا میں کافی ہنگامہ ہوا تھا اور منصوبہ بندی کمیشن کے چیرمین مونٹیک سنگھ اہلوالیہ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ 32روپے یومیہ میں کچھ دن گزار کردکھائیں۔اگر ان اعداد و شمار کو مان لیا گیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ کروڑوں لوگوں کو غربت کی بنیاد پر تیار کی گئی سرکاری اسکیموں کا فائدہ نہیں مل سکے گا۔خود کو عام آدمی کی حکومت بتانے والی منموہن سنگھ حکومت کے اس رویہ نے کافی تنازعہ کھڑا کر دیاتھا۔کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی نگرانی میں کام کرنے والی قومی مشاورتی کونسل کے رکن ہرش مندر اور ارونارائے نے مونٹیک سنگھ کو چیلنج کیا ہے کہ وہ 32 روپے میں ایک دن گزارکر دکھائیں۔ ان لوگوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر حکومت ہمیشہ صرف اقتصادی ترقی کی ہی بات کرتی رہی تو اس کا انجام وہی ہوگا جو انڈیا شائننگ ‘والی بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط حکومت کا ہوا تھا۔ بالآخر حکومت کویہ اعتراف کرنا پڑا تھا کہ غربت کی یہ تشریح صحیح نہیں ہے ۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ یہ اس کا پیمانہ نہیں ہے بلکہ تندولکر کمیٹی کا پیمانہ ہے۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے نے غربت کا پیمانہ مقرر کرنے میں آمدنی کے علاوہ حفظان صحت، تعلیم اور معیار زندگی کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور اس بنیاد پر غربت کا کثیر جہتی انڈیکس یا اشاریہ تیار کیا ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس انڈیکس سے ملک میں غربت کی ایک واضح تصویر ابھر کرسامنے آتی ہے جو صرف آمدنی کی بنیاد پر ممکن نہیں ہے۔اس انڈیکس کے مطابق دنیا کے دس سب سے غریب ممالک تو افریقہ میں ہیں لیکن اگر کسی ایک ملک میں کل تعداد کی بات کی جائے تو دنیا کے سب سے زیادہ غریب جنوب ایشیائی ممالک(ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش) میں رہتے ہیں۔اس رپورٹ میں 187 ممالک کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں ہندوستان نمبر 134واں ہے حریف اور پڑوسی ملک پاکستان 147 ویں نمبر پر ہے اور جس طرح چین نے تمام شعبہائے حیات میں اپنی بہترین کارکردگی پیش کی ہے اس میں بھی اس کی بہتری نظر آرہی ہے اور وہ 101 ویں مقام پر ہے۔ جب کہ ناروے پہلے نمبر پر‘ آسٹریلیا دوسرے نمبر پر اور نیدرلینڈ تیسرے نمبر پرہے ۔ امریکہ چوتھے ا ور جاپان بارہویں نمبر پر ہے اس سال کے اوائل میں آنے والی سونامی کا اثر یہاں بھی دیکھا جارہے۔ امریکہ میں امیری اور غریبی کے فرق کو شامل کرلیا جائے تو امریکہ بھی چوتھے نمبر سے پھسل کر 34 ویں نمبر پر پہنچ جائے گا۔

گجرات کو ہندوستان میں تمام ریاستوں میں ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ خصوصا وہاں کے وزیر اعلی نریندر مودی کی قیادت میں ترقی کے نغمے ہندوستانی میڈیا گاتے ہیں لیکن یو این ڈی پی کی رپورٹ میں اس ریاست کو نقص تغذیہ کا شکار ملک گردانا گیا ہے۔ تغذیہ کے معاملے میں ہندوستان کی سرفہرست ریاستوں میں1 کیرل2. دہلی3. ہماچل پردیش4. گوا5. پنجاب شامل ہیں۔ ان ریاستوں نے صحت ، تعلیم اور فی کس آمدنی کی بنیاد پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گجرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ فی کس آمدنی زیادہ ہونے کے باوجود بھوک اور نقص تغذیہ یہاں سب سے زیادہ ہے۔ اس میں بھی درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی خواتین سب سے زیادہ نقص تغذیہ کا شکار ہیں۔یہ بات پلاننگ کمیشن سے منسلک ‘انسٹی ٹیوٹ آف اپلاڈ مین پاور ریسرچ’ کی جاری کی گئی انسانی ترقی کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔اس رپورٹ میں سال 1999-2000 سے 2007-2008 کے درمیان آئے تبدیلی کو شامل کیا گیا ہے۔

ترقی پذیر ممالک اور خصوصاََ ہندوستان کے حوالے سے یو این ڈی پی کی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ پائیدار اور متوازن ترقی کے لیے ’جراتمندانہ اقدامات‘ کی ضرورت ہے ۔رپورٹ میں مزید لکھا ہے ’ماضی کی رپورٹوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کئی دہائیوں سے دنیا کے زیادہ تر ممالک میں معیار زندگی بہتر ہو رہی ہے۔نئے اعداد و شمار کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان کی حکومت کو اس طبقے کو غذائی سیکورٹی پر زیادہ پیسہ خرچ کرنا ہوگا۔ دیہی ترقی کی وزارت کی ایک کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں آدھی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار تی ہے۔ 2007 میں قائم ارجن سین گپتا رپورٹ میں یہ تعداد 77 فیصد بتائی گئی تھی۔ چین میں گزشتہ چار دہائیوں میں فی کس آمدنی میں 21 گنا اضافہ ہوا ہے جس سے کروڑوں لوگ خط افلاس سے باہر آئے ہیں لیکن ہندوستان غربت کیوں بڑھی ہے یہ غور کرنے مقام ہے۔ تھوڑی سی بھی فکر رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ جان بوجھ کر ایک طبقہ مفلوک الحال رکھا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت اس کا استعمال‘ استحصال اور اس کا فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ ہم ہر معاملے میں چین کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن غربت اور دیگر معاملوں میں کیوں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں ترقی زیادہ ہوئی ہے اس لئے مہنگائی بڑھ رہی ہے لیکن چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اور گزشتہ ایک عشرے میں اس نے یہ مقام حاصل کیا ہے۔

1991کے بعد سے ہندوستان کی معاشی ترقی میں زبردست اضافہ ہوا ہے خاص طور پر 2004 میں جب کانگریس کی قیادت میں ترقی پسند اتحاد حکومت کی تشکیل ہوئی تھی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم بنائے گئے اس وقت معاشی ترقی دن دوگنی رات چوگنی ہوتی گئی اور ہندوستان کا شمار تیز ترین معاشی ترقی کرنے والا ملک میں شمار ہونے لگالیکن اسی حساب سے غربت میں بھی زبردست اضافہ ہوا کیوں کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔ عام آدمی پہنچ سے اشیاء ضروریہ کا خریدنا دور ہو گیا۔ اس سے پہلے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد27 فیصد تھی لیکن اب حکومت کے ہی اعداد وشمار کے مطابق 38 فیصد ہے۔ ہندوستان میں غربت محض ایک غریبی نہیں بلکہ ایک لعنت بھی ہے ۔یہاں کی آبادی کی 70 فیصد آبادی اب بھی بھر پیٹ کھانا نہیں ملتا۔ ہندوستان کی پوری دولت کا ایک تہائی حصہ صرف تیس خاندانوں کے ہاتھوں میں ہے ۔اگر یہ تیس خاندان اپنی دولت کے ساتھ امریکہ یا یورپ میں بس جائیں تویہاں کی 7.9 شرح نمو کم ہوکر 6 فیصد رہ جائے گی۔غربت بڑھانے میں بدعنوانی کابھی اہم رول ہے۔ حکومت کی فلاحی اسکیمیں بدعنوانی کی نذر ہوجاتی ہیں۔

ہم جتنی ترقی کر رہے ہمارے اندر اتنی بے حسی درآتی جارہی ہے ۔ اسی لئے ہم اپنے ارد گرد پیش آنے والے واقعات بے خبر رہتے ہیں ۔ اگر باخبر ہوتے بھی ہیں جب اخبارات میں خبریں آجاتی ہیں۔ اتنا غیر حساس اور غیر انسانی معاشرہ شاید ہی دنیا میں کسی جگہ ہو جتنا بے معاشرہ ہندوستان میں بنتا جارہا ہے۔ مادیت کی وجہ سے اخلاقی قدریں‘ خاندانی روایات اور انسان کے تئیں ہمدردانہ رویہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔یہاں کے صنعت کار‘ متمول افراد اور رضاکار تنظیمیں اگر چاہیں تو اپنے فلاحی کاموں کے توسط سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے لیکن اقتصادی معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے نصف سے زائد آبادی کو پیٹ بھر کھانا میسر نہیں ہوتا۔ وہ لوگ اپنے کتوں پر تو بے دریغ روپے خرچ کرتے ہیں لیکن گھروں میں کام کرنے والے اپنے نوکروں کا خیال نہیں رکھتے۔ اس لئے مالکان کے ساتھ نوکروں کا رویہ جارحانہ ہوتا جارہا ہے۔ غربت کا خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ ہندوستان کچھ جرات مندانہ اور انسانی لحاظ سے حساس قدم اٹھائے اور گوداموں میں سڑتے ہوئے اناج کوتقسیم کرنے اور غذائی سیکورٹی قانون کے تحت سستے اناج کا حق آزادانہ دے۔

ڈی۔ 64 فلیٹ نمبر 10, ابوالفضل انکلیو‘ جامعہ نگر‘ نئی دہلی۔ 25

abidanwaruni@gmail.com

9810372335

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *