Home / Socio-political / ہند مخالف فکر پاکستان کی مجبوری

ہند مخالف فکر پاکستان کی مجبوری

ہند مخالف فکر پاکستان کی مجبوری

                بہت پہلے نظیر اکبرآبادی نے  دنیا اور انسان  کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشا‘‘ نظیر کی یہ شعری ترکیب اب ہند وپاک تعلقات پر صد فی صد بر محل اور صادق  ہوتی دیکھ رہی ہے  کیونکہ ہند وپاک  کے درمیان جب بھی خوشگواری کے آثار نظر آتے ہیں  اور دونوں جانب کروڑوں لوگوں کے  دل دھڑکنے لگتے ہیں تب تب کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ، حادثہ یا وقوعہ ہوجاتا ہے کہ خوشگواری  سے زیادہ دونوں ملکوں کے تعقات میں کشیدگی  پیدا ہوجاتی ہے۔اس نشیب و فراز کی ایک طویل  داستان ہے ۔اسی کی ایک تازہ مثال سر حد پر پیش آنے والا  انسانیت سوز واقعہ ہے  جس میں ہندستانی فوجی کو بر بریت کے ساتھ شہید کیا گیا ۔ اس واقعے کے بعد اب تک  خوشگوار تعلقات کی سمت میں جو پیش رفت ہوئی تھی وہ ترقی معکوس کی شکار ہوگئی ۔

بر صغیر کی تقسیم کے بعد ہند و پاک تعلقات ویسے تو کبھی بھی ایسے نہیں رہے کہ انہیں بہتر کہا جا سکے تاہم پچھلے کچھ مہینوں میں جو پیش رفت ہوئیں اس سے لوگوں کے دلوں میں یہ بات گھر کرنے لگی تھی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بالآخر ایک مثبت دور میں داخل ہوئے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان ویزا سمجھوتہ اس کی پہلی سیڑھی ہے۔ پھر ہندوستان کو انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کی بات جو پاکستان کی طرف سے آئی تھی اس نے بھی دونوں اطراف کے لوگوں کو ایک روشن مستقبل کی راہ دکھائی۔ دونوں اطراف کے ہزاروں لوگوں کو لگنے لگا کہ اب وہ اپنے پیاروں سے مل پائیں گے۔ امن کی آشا کے نام سے جو مہم دونوں اطراف کی میڈیا نے چلائی اس نے لوگوں کے دلوں پر جمی دھول کو صاف کیا ۔  یہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک طریقے سے چل رہا تھا کہ اچانک سرحد پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا اور اتنے دنوں کی محنت یک لخت کافور ہو گئی۔

                عام طور پر ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ چشم زدن میں ہوا لیکن ایسا نہیں ہے۔  پاکستان میں انتہا پسندوں کا ایک ایسا گروپ ہمیشہ متحرک رہا ہے جو ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو نا قابل قبول مانتا ہے۔ جنرل حمید گل، زید حامد اور حافظ سعید اس کی محض چند مثالیں ہیں۔ پاکستان میں ہندوستان مخالف یہ لوگ بے حد با اثر   ہیں اس کی معمولی مثال پارلیمنٹ میں ہندوستان کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی قرارداد پاس ہو جانے کے باوجود اس کی التوا ہے۔  یہ اسی طبقے کی کار گزاریاں ہیں جس نے پاکستانی سرمایہ داروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر نشانہ لگا یا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اس بات سے کافی بر ہم بھی رہیں لیکن سب بیکار۔ یہ لوگ ایک مدت سے  اپنے ارادوں کو عملی شکل دینے کے لئے کوششیں کر رہے تھے اور مسئلہ کشمیر کی آڑ میں حکومت کو بھی اپنی ان کوششوں میں شریک کرتے رہے ہیں۔ جب پاکستان میں جیو ٹیلی ویژن پر امن کی آشا سے متعلق مثبت رپورٹ دی جارہی تھی اس وقت کسی دوسرے ٹیلی ویژن چینل پر ہندوستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا اور اسے عنوان دیا جاتا تھا  امن برابری کے ساتھ۔ حکومتی  ٹی وی چینل نے بھی کبھی ہندوپاک کے درمیان بدلتے تعلقات کا اثر قبول نہیں کیا اور سرد جنگ کے دوران ترتیب دئے گئے  کشمیر ڈائری   جیسے پروگرام دکھاتے رہے جس میں ہندوستان اور ہندوستانیوں کے خلاف زہر افشانی اپنے عروج پر ہوتی تھی۔ کشمیر ڈائری یا اسی طرح کے دوسرے پروگرام دیکھائے جائیں تو ان میں مسئلہ کشمیر کا ذکر تو برائے نام ہوتا ہے، در اصل اس میں اپنے لوگوں میں ہندوستان کے خلاف نفرت کے بیج بونے کا کام زیادہ ہوتا ہے۔ ہندوستان میں رہ رہے مسلمانوں کا ذکر اس پروگرام میں ایسے ہوتا ہے جیسے یہ انسان نہ ہوں بلکہ کسی مزبح میں بندھے جانور ہوں اور حکومت قصائی جس کا مقصد  مسلمانوں کو ذبح کرنا ہے۔  یہ تمام پروگرام پاکستانی حکومت کی سر پرستی میں نشر کیے جاتے ہیں اور جواز یہ دیا جاتا ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ در اصل یہ سب اس انتہا پسند گروپ کے ذریعے حکومت کو بے وقوف بنانے کا حربہ ہے جسے وہ ہمیشہ استعمال کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ پاکستان کی حکومت اگر یہ کہتی ہے کہ وہ ہندوستان سے اپنے رشتے استوار کرنے میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے اسے اپنے درمیان ان لوگوں پر قابو پانا ہوگا جو ہندوستان کے خلاف شدید ترین نفرت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں  اور اس وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں جب دونوں ملک کے مذاکرات کسی نتیجہ خیز موڑ پر پہونچیں اور وہ اسے سبوتاژ کریں۔  دوسری وجہ ہندوستان کے خلاف نفرت کے بیج بونے کی یہ بھی ہے کہ اس مسئلے کو ہوا دے کر باقی تمام مسئلوں سے لوگوں کے ذہن کو بھٹکایا جا سکتا ہے۔ ابھی پاکستان میں جس قدر انتشار پایا جاتا ہے ہندوستان میں بیٹھ کر اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ساتھ ہزارہ برادری کے پچاسی لوگوں کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ وہ واقعہ تھا جس نے ٹھٹھرتی سردی میں لوگوں کو اپنے پیاروں کی لاش لئے کھلے آسمان کے نیچے شب بسری پر مجبور کر دیا  اور جس نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی کہ پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے شاید اسی لئے انہوں نے اپنی ایک مانگ رکھی کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جائے اور موجودہ رئیسانی حکومت کو فوراً برخواست کیا جائے۔  پاکستان کے ہر شہر میں سڑکوں پر ٹائر جلاتے لوگ مل جائیں گے جو کبھی بجلی، کبھی پانی اور کبھی کسی اور حکومتی نا اہلی کے خلاف احتجاج پر مجبور ہیں۔  حکومت جانتی ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ان کی مانگ پوری کر سکے اور نہ ہی اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ ان احتجاجی سرگرمیوں کو کچل سکے لہذا اسے ایک راستہ ان اذہان کو کسی اور جانب منتقل کرنے کا نظر آتا ہے اور اس کے لئے آزمودہ نسخہ ہند مخالف پرپیگنڈہ کی صورت میں موجود ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *