Home / Socio-political / ہند و پاک مذاکرات اور کرکٹ ڈپلومیسی

ہند و پاک مذاکرات اور کرکٹ ڈپلومیسی

30 مئی کو موہالی میں کھیلے گئے ہنو پاک کے درمیان کرکٹ میچ کی اہمیت ہار جیت  کے اعتبار سے عارضی تھی کیونکہ کسی  بھی کھیل کے مقابلے میں کوئی ایک ٹیم ہی جیت حاصل کرتی ہے اور کسی ایک کو ہار نصیب ہوتی ہے ۔ یہ کھیل کا اصول ہے اوراسی میں کھیل کا لطف آتا ہے ۔ لیکن اسے کیا کہیں کہ ہم ہندستانی اور پاکستانی اپنے ممالک کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے کسی بھی میچ کو ہند وپاک کی جنگ سے کم نہیں سمجھتے ۔ لیکن میں اتنا دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ سوچ اور یہ نظریہ  عوام میں نہیں تھا یہ  الیکٹرونک میڈیا کی کارستانیاں ہیں کہ وہ اس طرح کے میچ کی کوریج کرتے ہوئے جس طرح کے غیر ذمہ دارانہ  سرخیاں لگاتے ہیں اور جس انداز سے سنسنی خیز بناتے ہیں کہ عوامی جذبات مشتعل ہونے لگتے ہیں ۔ میں ہندستانی چینلوں کی بات کروں تو آپ کو حیرت ہوگی کہ ہر چینل نےا سے جنگ کانام دیا کسی نے اسے مہا یودھ کیا تو تو کسی نے اسے برتری کی جنگ ثابت کرنے میں  کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی میڈیا  بھی اس معاملے میں ہندستان سے پیچھے نہیں رہی ، اس نے بھی خوب خوب نمک مرچ لگا کر ہندو پاک کے درمیان ہونے والے سیمی فائنل کے میچ کو پیش کیا اور اسے عوامی جذبات سے بڑھ کر ملکی جذبات سے جوڑ دیا۔ اس کا اثر کسی نہ کسی حد تک کھیلاڑیوں پر بھی پڑتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہم دو پڑوسی ملکوں کو اس  کی کیا ضرورت ہے کہ اس عوامی تفریح کے کھیل کو کھیل سے زیادہ  سیاست اور قومی جذبے کو پروان چڑھائیں۔کسی اور ملک سے جب کسی بھی کھیل کا مقابلہ ہوتا ہے تو اس طرح کے جذبات کیوں سامنے نہیں آتے ؟ اور اس وقت میڈیا کہاں ہوتا ہے ؟ میرا خیال ہے کہ عوام کو اس معاملے میں سامنے آنا ہوگا تاکہ میڈیا  کی  گمراہی کا جواب دیا جاسکے ۔میں یہاں ایک نامور اخبار کی رپورٹنگ کا ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں‘‘ کرکٹ ڈپلومیسی۔ محرکات اور اثرات’’ کے عنوان سے  نصرت مرزا نے جنگ میں اپنے کالم میں جو لکھا ہے وہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ کھیل کو سیاست بنانے کی جانب ایک قدم ہے ۔وہ لکھتے ہیں :‘‘ ہمارا یہ کہنا ہے کہ ہندوستان سے تعلقات نارمل کرنا اچھی ڈپلومیسی ہے مگر اس میں بہت احتیاط لازم ہے۔ ہندو برہمنوں کے بارے میں یہ جملہ مشہور ہے ”بغل میں چھری منہ پر رام رام“ اس لئے انتہائی تدبر کے ساتھ معاملات چلانا چاہئے اور اب تو سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ انڈیا کو امریکہ کی آشیرباد بھی شامل ہے جو زیادہ خطرناک ہے اور ممبئی دھماکوں جیسے واقعات کرا دیتی ہے اور بھارتی وزیر خارجہ کرشنا کا دورہٴ پاکستان، انڈین سیکریٹری داخلہ سے بیان دلا کر ناکام بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔’’حقائق سے دور اس طرح کی بیان بازیاں ظاہر ہے دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے ۔

اسی طرح ایک اور رپورٹ ملاحظہ کریں  جس میں  کھیل ، کھلاڑی کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے وزیر اعظم کے ملنے کو بھی شکست کا سبب بتا یا گیا ۔ اسی اخبار  کے کالم کے مطابق :‘‘ ہمارے نزدیک انڈیا اپنی بالادستی کے تصور کو کئی طریقوں سے ہم پر واضح کرنا چاہتا ہے۔ میچ میں شاید ان کو کامیابی کی امید تھی انہوں نے اپنے معاملات ٹھیک کر لئے تھے۔ پاکستان کی ٹیم پر نفسیاتی دباؤ بڑھایا تھا اسی وجہ سے پاکستان کی ٹیم وہ کھیل پیش نہیں کرسکی جو اُس کو کرنا چاہئے۔ جس کے نتیجہ میں اخباری اطلاعات کے بموجب 40/ارب روپے بھارت منتقل ہوگئے۔ بڑی رقم دبئی چلی گئی۔ جنگ کے معتبر نمائندے کی اطلاع کے مطابق بعض سیاستداں، سرکاری افسران اور بعض کھلاڑی انڈر ورلڈ بزنس کلب کے ممبر ہیں۔ اس پر کسی کو توجہ دینا چاہئے۔ پاکستان کا ہر ادارہ اگر ٹوٹ پھوٹ گیا، احتساب کا کوئی نظام باقی نہیں بچا تو ملک کی سلامتی کو خطرات بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ یہاں تک کہ وہ قابو میں نہ رہیں۔ کھلاڑیوں پر تنقید بھی ہورہی ہے اور الطاف حسین کہتے ہیں کہ اُن کی حوصلہ افزائی ہونا چاہئے مگر کہاں تک۔ جب وہ جیت کر آتے ہیں تو اُن سے صدر، وزیراعظم تک ملنے کو اعزاز سمجھتے ہیں، اُن کو انعام و اکرام سے نوازتے ہیں۔ جناب شہباز شریف نے کچھ زیادہ ہی کردیا کہ ہاری ہوئی ٹیم کو پانچ پانچ لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا۔ یہ شاہانہ انداز ہے، عوامی جذبات کے خلاف، ان کو اپنی دولت میں سے پیسے دینے چاہئیں، پنجاب کے غریب عوام کے خزانے سے نہیں۔ اس لئے کہ دنیا میں نظام خوف و امید کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ شاہانہ طرز عمل سے نراجیت پیدا ہوتی ہے۔ ہم صرف یہ کہیں گے کہ پاکستانی ٹیم کو نفسیاتی دباؤ میں لا کر ہرایا گیا۔ خود وزیراعظم پاکستان کا دورہ سیاسی طور پر مفید رہا مگر ٹیم کی ہار کا سبب بھی بنا۔’’

اس اقتباس کے جملے اسی حقیقت کا انکشاف کرتی ہیں جو پاکستان کی شکست سے ایک نفسیاتی دباؤ پیدا ہوا۔ ساتھ ہی اس اقتباس میں اس کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح کھیل کو کالے دھندے کا آلہ بنایا جاچکا ہے ۔ لیکن یہ کہنا کہ گیلانی صاحب کے آنے پاکستانی میچ ہار گئے ہہ درست نہیں ۔ بلکہ ایک ذمہ دار صحافی ہونے کے ناطے اس بات کو ہائی لائٹ کرنے کی ضرورت تھی کہ کھیل ہار اور جیت کے اصول کے  تحت انجام پذیر ہوا لیکن اس کا مثبت پہلو یہ نکلہ کر سامنے آیا کہ دونوں ممالک اپنے رشتوں کی تلخیاں کم کرنے کی سمت میں ایک دو قدم اور آگے بڑھی ہیں۔ کیونکہ اس کھیل کے بہانے پاکستان کے وزیر اعظم ایسے وقت میں ہندستان آئے جب سیکریٹری  سطح کے مذاکرات ہورہے تھے ۔ ان دونوں کی ملاقات محض میچ دیکھنے تک نہیں رہی بلکہ انھوں نے اس وقت کافائدہ اٹھایا اور آپسی تعلقات کی خوشگواری  اور مستقبل میں ممکنہ اقدامات کی جانب غور و فکر کیا۔ یہ اچھی بات ہے اسی لیے تو عالمی برادری نے اس ملن کو دونوں ملکوں کے لیے خوش آئند بتایاا ور پاکستان کے دوست چین نے بھی اس ملن کو بہتر بتایا ہے۔ہمیں بھی اسی مثبت فکر کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضروت ہے کیونکہ سیکریٹری سطح کے مذاکرات جسے دنوں ملک کامیاب مان رہے ہیں ، کے بعد  دونوں وزرائے اعظم کا میڈیا کو بیان اور مشترکہ اعلامیے میں جو باتیں کی گئی ہیں ان جانب اگر عوامی سطح پر دونوں ملکوں کے عوام اپنے ملکوں پر دباؤڈالیں  تو کوئی نتیجہ نکل کر سامنے آئے گا ۔ کیونکہ جو لوگ بھی پاکستان سے اس میچ کو دیکھنے آئے انھوں نے بھی  میڈیا سے یہی کہا کہ دنوں ملکوں میں آمد و رفت میں آسانی ہونی چاہیے اور اس ملاقات میں یہی باتیں ہوئیں کہ ویزا معاملے میں آسانی پید اکی جائے ۔اس کے ساتھ تجاارتی اور سفارتی تعلقات کو مزید خوشگوار کیا جائے ۔ خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ہندستان کے وزیر اعظم کو پاکستان آنے  کی دعوت دی جسے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے قبول بھی کر لیا ہے۔یہ بھی اس کھیل سے نکل کر آنے والا ایک مثبت پہلو ہے ۔ ہمیں ایسے ہی پہلوؤں پر بات کرنی چایئے اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر جو کچھ دلوں میں ان کدورتوں کو بھی بھولنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔جب ہمارا یہ رویہ ہوگا تو یقیناٍ ً ہندو پاک کے درمیان روبط میں استحکام آئے گا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب جب ہند وپاک ے درمیان مذاکرات کی ابتدا ہوئی ہے کوئی نہ کوئی ایسا معاملہ سامنے آیا جس کے سبب یہ سبوتاژ ہوا ہے ۔ اب کے حالات میں جو طویل تعطل کے بعد  مذاکرات شروع ہوئے ہیں اسے انجام تک پہچانے میں ہمارا بھی کردار ہونا چاہیے اور یہ کردار یہی ہوسکتا ہے کہ ہم مثبت فکر کو اور خوشگوار  پہلوؤوں کو اپنی تحریروں میں جگہ دیں ۔مجموعی طور پر ہم یہی کہیں گے کہ اس کرکٹ دپلومیس سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ۔ بس یہ دعا ہے کہ اسی طرح کے دیگر مواقع بار بار آئیں اور ہم قریب ہوتے جائیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *