ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم ایک بڑامسئلہ بنا ہوا ہے۔ ہندوستان حالانکہ اس کی نفی کرتا رہا ہے کہ یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ ہے جو دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان مستقبل میں جنگ کا باعث بن سکتا ہے، لیکن پاکستان میں موجود جماعت الدعوة جیسی چند انتہا پسند تنظیمیں اس مسئلہ کو اسی زاویے سے پیش کرتی رہی ہیں، بلکہ ان تنظیموں نے بارہا پاکستانی حکومت کو یہاں تک مشورہ دے ڈالا کہ اگر ’ہندوستان آبی جارحیت سے باز نہیں آتاتو پاکستان کو ہندوستان پر جنگ مسلط کر دینی چاہیے۔‘ ابھی حال ہی میں جماعت الدعوة کے ترجمان یحییٰ مجاہد نے پاکستانی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ ’اگر ہندوستان ناجائز طریقے سے پاکستان کے حصہ کے پانی کو روکنا بند نہیں کرتا تو پاکستان کو اُس کے خلاف طاقت کے استعمال کے آپشن کو کھلا رکھنا چاہیے۔‘ چونکہ پاکستانی حکومت کے ذریعے ہند مخالف ان عناصر کی زبان پر لگام لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے، لہٰذا ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہند مخالف ان دھمکیوں کو پس پشت پاکستانی قیادت کی حمایت بھی حاصل ہے۔
لیکن چونکانے والا پہلو یہ ہے کہ ’آبی جارحیت‘ کے اس موضوع کو ایک بار پھر ایسے وقت میں اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جب ہند و پاک کے وزرائے خارجہ کے درمیان گذشتہ دنوں دیر تک ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہندوستانی وزیر خارجہ 15 جولائی، 2010 کو اسلام آباد کا دورہ کریں گے اور وہاں پر اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے مذاکرات کریں گے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ گذشتہ ماہ بھوٹان کی راجدھانی تھمپو میں جب ہندوستانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان 29 اپریل کو میٹنگ ہونی طے پا گئی تو پاکستان کے حکومتی اہل کاروں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہند و پاک کے درمیان آئندہ ہونے والی کوئی بھی بات چیت شرم ال شیخ کی طرز پر ہونی چاہیے۔ واضح ہو کہ شرم ال شیخ میں باہمی ملاقات کے بعد منموہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا اس میں خاص طور سے دو باتوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اول یہ کہ دہشت گردی کے موضوع کو باہمی مذاکرات کے عمل سے الگ رکھا جائے گا اور دوسرے یہ کہ ہندوستان بلوچستان میں مبینہ طور پر شرپسندی کو ہوا دینے سے متعلق پاکستان کی تشویشوں پر غور کرے گا۔ یہ دونوں باتیں پاکستانی قائدین اور وہاں کی میڈیا کے لیے کسی سونے کے تمغے حاصل کرنے سے کم نہیں تھیں۔ لیکن بعد میں ہندوستان نے بین الاقوامی برادری کے سامنے یہ بات پوری طرح واضح کردی کہ دہشت گردی سے متعلق ہندوستان کی تشویشوں کو دور کیے بغیر پاکستان سے کوئی بھی بات چیت ممکن نہیں ہوسکتی۔ ہندوستان نے پاکستان پر یہ دباوٴ ڈالنا بھی شروع کردیا کہ اس کے ساتھ جامع مذاکرات کا سلسلہ اس وقت تک دوبارہ شروع نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ وہ 26/11 ممبئی دہشت گردانہ حملے کے قصورواروں کو قانون کے کٹہرے تک نہیں لاتا اور انھیں قرار واقعی سزا نہیں دیتا۔ بعد میں دنیا نے دیکھا کہ جب پاکستان نے عملی طور پر ہندوستان کو یہ یقین دلانا شروع کردیا کہ وہ ممبئی حملے کے قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے، تبھی ہندوستان نے پہلے خارجہ سکریٹری کی سطح پر بات چیت کے سلسلہ کو شروع کیا اور اب اس نے وزیر خارجہ کی سطح پر بات چیت کو شروع کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ لیکن ایسے میں جب کہ دونوں ممالک میں اعتماد بحالی کی کوششیں جاری ہیں اور باہمی بات چیت کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے، چند عناصر کی جانب سے ہندوستان پر ’آبی جارحیت‘ کا الزام لگانا اور پھر ہندوستان کو جنگ کی دھمکی دینا درحقیقت باہمی بات چیت کے اس پورے عمل کو سبو تاژ کرنے کی کوشش ہے۔
اس بات سے ہم سبھی انکار نہیں کر سکتے کہ عالمی آبی وسائل بڑی تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اس کو لے کر مزید تناوٴ پیدا ہوتا جارہا ہے۔موسمیاتی تبدیلی جیسے اسباب کی بناپر پانی کی سپلائی پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ پانی چونکہ ایک قیمتی وسیلہ ہے، اس کی کمی گہری تشویش کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے عوام میں بے چینی کا عالم ہے۔ لیکن چونکہ پانی ہمارے لیے بہت قیمتی شے ہے، لہٰذا اس کے شدید بحران اور اس میں تیزی سے ہونے والی کمی سے عوام کو آگاہ کرتے رہنا نہایت ضروری ہے، تاکہ ہم خود اپنے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے پانی کے تحفظ کو یقینی بنانے کی سمت میں صحیح لائحہ عمل تیار کر سکیں۔
ہندوستان اور پاکستان کے مابین پانی کی تقسیم کا مسئلہ 1947 میں پیدا ہوا تھا، لیکن اسے 1960 کے سندھ آبی معاہدہ کے نفاذ کے بعد حل کر لیا گیا تھا۔ اس معاہدہ کو دونوں فریقین نے رضاکارانہ طور پر قبول کر لیا تھا اور اسے ایک اچھا اور مساوی معاہدہ قرار دیا تھا۔ اس میں سندھ کی ندیوں کے پانی کی تقسیم سے متعلق دونوں فریقین کے حقوق اور ذمہ داریوں کو بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اس میں وہ تجویز بھی شامل تھی جس کے تحت باہم معاون طریقے سے، ان تمام سوالات، تضادات یا تنازعات کو حل کیا جائے گا جو اس معاہدہ کے نفاذ کے دوران پیدا ہو سکتے ہیں، جس میں سب سے پہلے باہمی طریقوں یا ذریعوں کو استعمال کیا جائے گا، اور اگر ضرورت پڑتی ہے تو اس میں کسی اعتدال پسند ماہر یا ادارہ کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
جو لوگ پاکستان کے تئیں سندھ آبی معاہدہ پر سوال اٹھا رہے ہیں انھیں یہ بات جاننی چاہیے کہ اس معاہدہ کے تحت پاکستان کو سندھ ندیوں کے نظام کا 80فیصد حصہ پانی مل رہا ہے۔ اس معاہدہ نے ہندوستان کو مشرقی ندیوں (ستلج، بیاس اور راوی) کے 33 ایم اے ایف پانی کے بہاوٴ کو استعمال کرنے کا حق دیا تھا، جب کہ پاکستان کو مغربی ندیوں (سندھ، جھیلم اور چناب) کے 136 ایم اے ایف پانی کے بہاوٴ کو استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ چونکہ پاکستان 15 اگست 1947 تک مشرقی ندیوں سے پانی کی سپلائی پر انحصار کرتا تھا، لہٰذا ہندوستان نے پاکستان کو اس کے عوض میں اسے 62 ملین پاوٴنڈس اسٹرلنگ کی رقم ادا کی تھی تاکہ وہ مشرقی ندیوں اور دیگر آبی وسائل سے اس کے بدلے میں نہروں کی تعمیر کر سکے۔ ایسا بالکل نہیں ہے، جیسا کہ آج کچھ لوگ الزام لگارہے ہیں کہ بلندی کے مقام پر واقع علاقے کی جانب سے نیچے کی جانب بہنے والے پانی کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ہندوستان مغربی ندیوں کے پانی کو ندی کے ہائڈروالیکٹرک پروجیکٹوں میں استعمال کر سکتا ہے ، اور پانی کے ذخیرہ والے کام کے ہائڈروالیکٹرک پروجیکٹوں میں بھی استعمال کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مغربی ندیوں کے پانی کو صرف اسی حد تک استعمال کر سکتا ہے جس کی ہندوستان کو اجازت دی گئی ہے۔ سندھ آبی معاہدہ ہندوستان کو مغربی ندیوں کے 3.6 ایم اے ایف پانی کو جمع کرنے کی اجازت فراہم کرتا ہے، ساتھ ہی اسے اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ اس معاہدہ کے نافذ ہونے سے پہلے ان ندیوں پر جتنا پانی جمع رکھتا تھا وہ بھی کر سکتا ہے۔ ان میں سے 1.25 ایم اے ایف جنرل اسٹوریج ہے۔ پانی کی بقیہ مقدار کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جن میں سے ایک یعنی 1.6 ایم اے ایف پانی کا استعمال ہائڈروالیکٹریسٹی کی پیداوار میں جب کہ 0.75 ایم اے ایف کا استعمال سیلاب پر قابو پانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ندیوں کے معاملے میں، سندھ پر 0.4 ایم اے ایف، جھیلم پر 1.5 اور چناب پر 1.7 ایم اے ایف پانی کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔
ہندوستان کے ذریعے مغربی ندیوں کے پانی کے اس محدود استعمال کی شرائط معاہدہ میں درج ہیں جس کا مقصد دونوں ممالک کے مفادات کا تحفظ ہے۔ تاہم، ہندوستان نے ابھی تک مغربی ندیوں کے پانی کو پوری طرح استعمال نہیں کیا ہے۔ ہندوستان کو 3.6 ایم اے ایف پانی کو جمع کرنے کی جو اجازت دی گئی تھی اس کے لیے اس نے ابھی تک کوئی بھی اسٹوریج بھی نہیں بنایا ہے۔ کاشت کاری کے لیے 1.34 ملین ایکڑ کے جس علاقہ کی اجازت ہندوستان کو دی گئی تھی اس میں سے وہ اس وقت صرف 0.792 ملین ایکڑ اراضی پر ہی کاشت کاری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان ندیوں پر ہندوستان کو 18653 میگاواٹ کی ہائڈروالیکٹریسٹی کاجو حق دیا گیا تھا اس نے اس میں سے صرف 2324 میگاواٹ کے پروجیکٹ کو پورا کیا ہے اور 659 میگا واٹ کے پروجیکٹ پر ابھی کام چل رہا ہے۔ معاہدہ کی رو سے اگر ہندوستان مغربی ندیوں کے پانی کے اپنے حصہ کو پوری طرح استعمال کرنا شروع کردیتا ہے تو بھی کسی بھی حالت میں نچلے حصے میں پانی کے بہاوٴ میں 3 فیصد سے زیادہ کی کمی نہیں آئے گی۔
لہٰذا ہندوستان پر ’پانی کی چوری‘ کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگانا اور ’آبی جنگ‘ کی دھمکی دینا پوری طرح غلط ہے ۔ ان الزامات کا حقیقت اور زمینی سچائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان سندھ آبی معاہدہ کے مطابق پاکستان کے حصہ کے پانی کو ہمیشہ چھوڑتا رہا ہے۔ ہندوستان نے 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران اور رشتوں میں کڑواہٹ کے دیگر ایام میں بھی ان پانیوں کو نہیں روکا ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کا اس کا کوئی ارادہ ہے۔ جو لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان کے حصہ کے پانی کو روکنے کی صلاحیت پیدا کر رہا ہے، وہ اس حقیقت کو پوری طرح نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر اسٹوریج اور پانی کے رخ کو موڑنے والی نہروں کے ایک بڑے نیٹ ورک کی ضرورت پڑے گی۔ اس قسم کا کوئی بھی نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔
سندھ آبی معاہدہ ہندوستان سے یہ نہیں کہتا کہ وہ مغربی ندیوں کے پانی کی کسی معینہ مقدار کو پاکستان کے لیے چھوڑے۔ بلکہ وہ ہندوستان سے یہ کہتا ہے کہ وہ ان پانیوں کو پاکستان کی طرف بہنے دے جو ان ندیوں میں موجود ہیں، علاوہ اس پانی کے جس کے محدود استعمال کی اجازت معاہدہ نے ہندوستان کو دے رکھی ہے، جس کے لیے پاکستان سے پہلے سے کوئی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت وقت پر پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کی سطح میں کمی ہندوستان کے ذریعے سندھ آبی معاہدہ کی مخالفت یا ہندوستان کی طرف سے ان ندیوں کے پانی کے رخ کو موڑنے کی کسی کوشش یا مغربی ندیوں سے اپنے حصہ کے پانی سے زیادہ پانی کے استعمال کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ندیوں میں پانی کے بہاوٴ کی سطح کا مکمل انحصار برف کے پگھلنے اور بارش کی مقدار پر ہے۔ ہندوستان نے خود 2009 میں سخت قحط کا سامنا کیا تھا، جب اس کے تقریباً 250 اضلاع خشک سالی میں گرفتار ہوگئے تھے۔ مانسون کے موسم میں پورے ملک میں بارش عام دنوں سے 20 فیصد کم ہوئی، اور شمالی ہندوستان کی بہت سی ریاستوں میں بارش اس سے بھی کہیں کم ہوئی۔ یہاں تک کہ سردی کے موسم میں ہونے والی بارش بھی معمول سے کہیں کم ہوئی۔ مغربی ندیوں میں بہنے والے پانی کی مقدار، جیسا کہ سبھی ندیوں کے ساتھ ہوتا ہے، ہر سال الگ ہوتی ہے، کسی سال تو پانی کا بہاوٴ بہت اچھا ہوتا ہے اور کبھی پانی کی سطح کافی کم ہو جاتی ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ ’آبی جارحیت‘ سے متعلق ہندوستان پر بے بنیاد الزام لگانا بند کرے اور اب جب کہ دونوں ممالک میں باہمی مذاکرات کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کی ابتدا ہو چکی ہے، اس میں پوری دیانت داری سے ہندوستان کا ساتھ دے اور اعتماد کی کمی کو دورہ کرے، تبھی کوئی مثبت نتیجہ سامنے آسکتا ہے ورنہ ساری کوششیں لاحاصل ہیں۔
یہ پاکستان کے لوگ کچھ عجیب سی سوچ رکھتے ہیں۔ اگرپاکستان ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑ ہی دے گا تو نقصان کس کا ہوگا؟ کیا پاکستان ہندوستان کی صلاھیت سے واقف نہیں؟ یہ بات پاکستان کو سمجھنی چاہیے کہ ایسے موقع پر پاکستان کے دوست ممالک اس کا ساتھ نہیں دیں گے، جن کے دم پر پاکستان اتنا اچھل کودرہا ہے۔ یہ جماعت الدعوة جیسی تنظیمیں شاید کچھ دیگر ممالک سے پیسے لیتی ہیں ہندوستان کے خلاف شوشے چھوڑنے کے لیے۔ اس میں نقصان پاکستان کا ضرور ہوتا ہے لیکن وہ تنظیمیں چند پیسے لے کر اپنے آپ کو مالدار بنا نا چاہتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وطن پرستی کا ڈھونگ رچ لیتی ہیں۔ یہ بات پاکستانی عوام کو سمجھنی ہوگی کہ ایسا کرعوام کو اور حکومت کو گمراہ کر رہی ہیں۔
آپ نے صحیح کہا کہ ہندوستان پر ’پانی کی چوری‘ کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگانا اور ’آبی جنگ‘ کی دھمکی دینا پوری طرح غلط ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بات پاکستان کے عوام سمجھتے بھی ہیں لیکن افسوس کہ وہا کے رہنما قسم کے لوگ ان باتوں کو کیوں غلط موڑ دے کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔