Home / Litrature / یونیورسٹیز میں تصوف  کی تعلیم و تدریس : ایک جائزہ

یونیورسٹیز میں تصوف  کی تعلیم و تدریس : ایک جائزہ

ہندستان  میں اعلیٰ تعلیمی ادراےبا لخصوص  یونیورسیٹیز   خود مختار ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں تعلیم و تدریس کے  حوالے سے اپنے اپنے نصابات اور لائحہ ٔ عمل ہیں ۔ ہر یونیورسٹی اپنے علاقے اور  معاشرے  کے علاوہ  اپنےعہد  کے تقاضے کو ملحوظ رکھتےہوئے   نصاب مرتب کرتی ہے اور بڑی  پابندی سے اس بات کا بھی اہتمام ہوتا ہے کہ نصاب میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی  رہیں ۔ ان تمام تبدیلیوں کے باوجود  آج بھی یونیورسیٹیز میں  کئی مضامین Subjects))  ایسے ہیں جہاں تصوف کی تعلیم ، ہندستان میں صوفیا کی آمد کی تاریخ ،  سماجی ہم آہنگی میں صوفیوں بالخصوص خانقاہوں کے رول  کو   خصوصی طور پر  تاریخ  اور سماجیات  کے نصابات میں شامل کیا گیا ہے ۔ اردو اور فارسی میں خصوصی طور پر  ایک مضمون کی حیثیت سے اور کہیں تخصص کے طور پر تصوف کے مضمون کو پڑھایا جاتا ہے۔

            تصوف کو بطور موضوع اور مضمون شامل کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہندستان کی  تعمیر و تشکیل میں  صوفیا کا اہم کردار رہا ہے ۔   ہندستان  کی تاریخ  لکھنے والے مورخوں نے  اور ماہر سماجیات نے ا  س بات کا اعتراف کیا ہے کہ قدیم ہندستان میں سماجی روابط بحال کرنے ، لوگوں کے اندر جذبہ ٔ اخلا  ص و ہمدردی  پیدا کرنے اور ایک دوسرے کے  نہ     صر ف کام آنے بلکہ  ساتھ رہتے ہوئے بھائی چارگی کو بڑھاو ا دینے کی تعلیم   صوفیوں کے ذریعے ہی رائج ہوئی ۔ بلکہ اس کو عملی طور پر نافذ کرنے میں بھی صوفیا ہی پیش پیش رہے۔اسکے علاوہ ایک  بڑی وجہ یہ  بھی  رہی ہے کہ   صوفیا کے دربار ہی مرجع خلائق تھے ۔ صوفیا کے دربار جو بعد میں خانقاہ کہلائے ، ان کی قدیم ہندستان میں جو خدمات رہی ہیں ان کا اعتراف اگرچہ بہت بعد میں کیا گیا مگر صوفیا کی ان خدمات نے قدیم ہندستان کے معاشرتی نظام میں بہتوں کو  زندگی کا اصل مفہوم سمجھایا اور ان کی زندگی کو عذاب  بننے سے بچایا ۔ چونکہ قدیم ہندستان میں نہایت شد ومد کے ساتھ اونچی ذات ، نیچی ذات  کا تصور تھا ۔ چنانچہ ہندستان کی ایک بڑی  آبادی  جس کا تعلق نیچی ذات سے تھا وہ  زندگی کی   نہ صرف  تمام سہولتوں سے محروم تھی بلکہ انھیں بڑی ذات کے لوگوں نے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ انسان بھی ہیں ۔ ایسے میں اس طبقے کے جن افراد نے صوفیا کے درباروں کا رخ کیا ان کی زندگی ہی یکسر تبدیل ہوگئی۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ صوفیا کے دربار جہاں نہ کسی کی ذات پوچھی جاتی تھی اور نہ کسی کا مذہب ، نہ رنگ و نسل اور نہ ہی زبان اور علاقہ ۔ صوفیوں کے ان کٹیوں سے جو پیغام ہندستان  کی سر زمین میں پہنچا وہ ایک ایسا پیغام تھا جس نے  ایک انقلاب  پیدا کیا۔ہندستان جہاں معاشرے کی بنیاد ہی ذات پات پر تھی اور اسی پر ان کی زندگیوں کا انحصار تھا  وہاں  ایک ہی صف میں کھڑے  ہونے کو جو پیغام  صوفیوں کے ذریعے ہندستان کی سرزمین کو ملا وہ آج بھی زریں حروف میں تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں ۔ مگر اسے اپنی کوتاہی کہیں یا خود سے اوڑھی ہوئی ستم ظریفی کہیں کہ   ہم  نے خود تاریخ کے ان صفحات کو اختلافات کے دبیز چادر میں لپیٹ رکھا ہے اور ایک محدود حصار میں خود قید بھی کر رکھا ہے۔بہر کیف  ہندستانی صوفیا  کی  یہی وہ اہم خدمات  ہیں جس کے سبب آج بھی ہندستان  کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کو پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ رفتہ رفتہ اب یہ تاریخ بھی مسخ ہوتی جارہی ہے اور وہ جن کا کہیں ان سلاسل اور  رسم و راہ  ِسلوک سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ، آج نصابات میں وہی پڑھے اور پڑھائے جارہے ہیں، اور جن کو پڑھایا جانا چاہیے تھا وہ  مختلف طرح کے رسوم ور واج میں  الجھے ہو ئے ہیں ۔نتیجہ یہ ہے اب  اصل میں جو صوفیا تھے ان کی تاریخ تو نصابات سے  مٹتی جارہی ہے  اور ان کی پہچان محض زیارت گاہوں  میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔

خیر بڑی سچائی یہ کہ ہندستانی صوفیانے ملک و قوم کے لیے ایسی خدمات انجام دی ہیں جن کی مثال دوسری قوموں کے صوفیوں میں نہیں ملتیں۔  ہندو اور عیسائی صوفیاء کے برعکس مسلم صوفیاء نے جنگلوں میں چھپ کر زندگی گزارنے کی بجائے معاشرے کے بیچ میں رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ’ابتدائی صدیوں میں فقہ اور حدیث کی تدوین اور کلامی و فلسفیانہ بحثوں میں مشغولیت کے باعث اہل علم کی بڑی تعداد عوام الناس کی اخلاقی تربیت نہ کر سکی تھی۔ صوفیاء نے اس خلا کو پر کیا۔ انہوں نے انسانی نفسیات میں گہری مہارت حاصل کی اور اس کو اپنے نظریات پھیلانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اخلاقی تربیت کے لئے استعمال کیا۔مسلمانوں کے علماء میں بالعموم عوام سے دوری کا رجحان رہا ہے۔ انہوں نے عام طور پر دین کو دلوں میں اتارنے کے لیے سختی سے کام لیا۔ اس کے برعکس مسلم صوفیاء نے عوام سے قربت اختیار کی۔ انہوں نے اپنے لباس، رہن سہن اور نشست و برخاست کو عوامی بنایا۔ علماء نے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا طریقہ اختیار کیا۔ برصغیر کے علماء نے عام طور پر مقامی زبانوں کی بجائےعربی و فارسی کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس طریقے سے وہ پڑھے لکھے طبقے تک تو اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گئے مگر عوام الناس  تک ان کی رسائی ممکن نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس صوفیاء نے عوامی طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے عوامی ذوق کے مطابق مقامی زبانوں میں اپنا پیغام پیش کیا‘۔ اس حوالے سے یہاں  میں مخدوم بہاری کا  عقتمندوں سے  اجنبیت دور کرنے کا یہ انداز پیش کرنا چاہوں گا جب وہ بہار کی سرزمین میں جلوہ گر ہوئے اوراسلامی تعلیمات کو عوام تک پہنچانے کے لیےعملی قدم اٹھایا تو انھوں نے اس وقت اور وہاں کے حالات کے مدنظر  رہن سہن  کے علاوہ زبان اور اسلوب بھی وہی اپنایا۔ تاریخ بہار کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں ۔ یہ کتاب در اصل بہار میں اردو زبان کی ابتد کے سلسلے میں لکھی گئی ہے لیکن انھوں نے مخدوم بہاری کی زبان کا نمونہ پیش کیا ہے ۔ یہ در اصل ایسے ماحول کی زبان ہے جب لوگ صوفیا کے پاس اپنا دکھ درد لے کر حاضر ہوتے تھے اور دعا پڑھوانے اور دم کرانےکا رواج بہت تھا۔ ایسے موقعے پر مخدوم بہاری  نے جو اسلوب اپنایا اسے دیکھیں:

’’جو کچھ فلانے کے پنڈ پران  میں ہوئے ، راہ کا باٹ کا ، کُوّے کا ، پوکھر کا ، اندھیاری کا ، اجیالی کا ، چوٹ کا پھیٹ کا ، کیے کا ، کرائے کا ، بھیجے کا ، بھیجائے کا ،لانگھے کا ، اُلکہین کا ، دیو ، دانَو ، بھوت پریت، راکس بھوکس،ڈائن ڈکن، سب دور ہوئے بحق لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ‘‘

اسی طرح خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت بختیار کاکی اور حضرت نظام الدین اولیا کے درباروں میں ایسے طریقے اورتدابیر  اور رسم وراہ تھے  جو لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے تھے ۔ اسی لیے ان بزرگان دین نے کبھی شہنشاہوں کے دربار کا رخ نہیں کیا بلکہ شہنشاہ خود ان کے دربار میں آتے تھے ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان صوفیا کے دربار اس زمانے میں  سماجی ادارے  کی حیثیت رکھتے تھے ۔ یہ دربار مرجع خلائق اس لیے تھےکہ شہنشاہی دور میں ہر کس و ناکس دربار میں اپنی فریادیں لے کر جانے کی سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن صوفیا کے دربار ایسے تھے جہاں بے روک ٹوک جاسکتے تھے ۔ ان درباروں سے ان کے دکھ کا مداوا بھی ملتا تھا اور دین کی روشنی بھی ۔ یہی وہ دربار تھے جنھوں نے ہندستان کی نہ صرف تعمیر و تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا بلکہ ان درباروں نے ہندستان کو پوری دنیا میں ایک الگ شناخت دی۔ انھیں صوفیا کے فیض سے آ ج بھی ہندستان میں رواداری ، اخوت ، محبت اور امن قائم ہے ۔ یہ آج کے دور کی بڑی ضرورت اس لیے بھی ہیں کہ یہاں من وتوکا امتیاز نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھید بھاؤ کا دخل ہے اس دربار میں سب آسکتے ہیں ۔

خیر بات  کہیں اور چلی گئی ۔ میں در ا صل یونیورسیٹیز میں تصوف کی تعلیم کے سلسلے میں بات کر رہا تھا ۔ تاریخ اور سماجیات  کے مضامین تصوف ضمنی طور پر داخل نصاب ہے اور  اردو اور فارسی ادب کے میں اب یہ محض شعر  و شاعری  تک محدود ہوتی جارہی ہے ۔ زیادہ تر  یونیورسیٹیز میں ’’ اردو شاعری میں تصوف کی روایت  ‘‘کے حوالے سے ہی پڑھا اور پڑھا جارہاہے ۔ تصوف چونکہ فارسی اور اردو شاعری میں ایک حاوی موضوع رہا ہے  اور اس  مضمون کو  اتنا برتا گیا ہے کہ تنقید نگاروں کو یہ کہنا پڑا کہ ’’ تصوف برائے شعر گفتن خوب است ‘‘ اس جملے کے پیچھے بھی ایک بڑی روایت پوشیدہ ہے۔ بات یہ ہے کہ اردو شاعری کے اولین دور میں  حسن و عشق  کے علاوہ تصوف یہی دو ایسے موضوعات رہے ہیں جن کو شعرا نے خوب خوب برتا ۔ ایسے شعرا جنھیں محض شعر گوئی پر عبورحاصل تھا مگر وہ فکر عالی اور تخیل سے عاری تھے تو انھوں نے تصوف کا سہار الے کر شعر کہا ، چونکہ تصوف کے متعلقات میں اخلاق، کردار سازی ،  نیک و بد اور حق و باطل جیسے ناصحانہ پہلو  ہیں ، اس لیے اس طرح کے اشعار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ لیکن اس کی دوسری توجیح یہ بھی ہے کہ تصوف کو صرف شعرمیں ہی برتا جا سکتا ہے  عمل کرنا مشکل ہے ۔ بہر کیف جو بھی وجہ رہی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ تصوف کے مضامین تب بھی فارسی اور اردو کی شاعری میں برتتا جاتا تھا اور آج بھی برتا جا رہا ہے ۔ لیکن اس میں ایک اور پہلو داخل ہو گیا کہ اگر تصوف کے اشعار کہنے تو   بقول غالب:

                                    ہر چند ہو مشاہدہ ٔ حق کی گفتگو                        بنتی نہیں ہے ساغر و مینا کہے بغیر

اس  کے بعد (اور کسی حد تک اس سے پہلے بھی   ) اردو شاعری میں تصوف  کے مضامین ایسے پامال ہوئے کہ کہ خمریات کی شاعری کو بھی اکثر احباب اور نقاد  نے تصوف  ہی سمجھا ۔

ظاہر ہے یونیورسیٹیز کے نصابات میں پڑھایا جانے والا ’تصوف ‘ وہ تصوف نہیں ہے جہاں خالص تصوف کو پڑھایا جائے اسی لیے اکثر یہ ہوتا ہے کہ یونیورسیٹیز میں کبھی بھگتی اور تصوف کو ایک  ہی چشمے کے دو آبشار سمجھ لیا جاتا ہے اور تصوف ایک ملغوبے کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ یونیورسیٹیز میں اکثر جگہ ایک ہی پرچے میں پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے یا   شاعری کے ایک ہی باب میں ذیلی عنوان کے تحت تصوف اور اردو شاعری کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ تصوف کو یونیورسیٹیز میں متعارف تو ضرور کیا گیا ہے مگر اس سے  تصوف کی صحیح تفہیم ممکن نہیں۔ ہاں اردو زبان کی تاریخ پڑھا تے ہوئے  اردو زبان کی ابتدا ور ارتقا  کے حوالے سے صوفیا کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے ۔ بابائے اردو  مولوی عبد الحق  کی ایک کتاب ’’ اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کاحصہ‘‘ اس بات کی دلیل ہے ۔ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جس میں صوفیا کے ملفوظات ، اقوال اور ان کی شاعری کو پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اردو کے ابتدائی نقوش یہی ہیں ۔ لیکن میں خود کو شامل کرتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ آج تک اس میں اضافہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ البتہ اردو زبان کی تاریخ لکھتے ہوئے  جمیل جالبی   نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ تاہم اس  اہم موضو ع  پر پروجیکٹ کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

یونیورسیٹیز کے نصابات کا اگر جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر زور  وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کو سمجھنے پر دیا جاتا ہے اور  شاعری کی مستحکم اور طویل  روایت  کے طور پر  ہی تصوف کو ضمناً پڑھایا جاتا ہے ۔ ساتھ ساتھ تصوف کے حوالے سے فنا، بقا، موت ، زندگی ، دنیا اور وسائل دنیا، جزا و سزا، جبر و قدر ، عشق حقیقی و مجازی ، وغیرہ جیسے مضامین کو متصوفانہ شاعری میں جگی دی گئی ہے۔  ذیل میں ہم اردو شاعر ی سے چند مثالیں پیش کرنا چاہیں گے جس اندازہ ہوگا کہ اردو  کے شاعروں نے تصوف کے موضو ع کو کس طرح برتا ہے اور ساتھ ساتھ ہی تصوف کے ذریعے پیام امن کو کس طرح عام کرنے کی کوشش کی ہے۔

ولیؔ

ہر ذرہ  عالم میں ہے خورشید حقیقی

یوں بوجھ کے بلبل ہوں ہر اک غنچہ وہاں کا

ولی جنت میں رہنا نہیں درکار عاشق کوں

جو طالب لامکاں کا ہے اسے مسکن سوں کیا مطلب

جس کو تجھ حسن کی نہیں ہے خبر

بے گماں وہ جہاں میں غافل ہے

سراجؔ

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی                  

نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا

کہ نہ آئینہ میں رہی جلا ،نہ پری کوں جلوہ گری رہی

میرؔ

اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور

شمع حرم ہو یا ہو  دیا سومنات کا

تھا مستعار حسن سے اس کے جونورتھا

خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہورتھا

دردؔ

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا

توہی آیانظر جدھر دیکھا

باوجود یکہ پر و بال نہ تھے آدم کے
واں یہ پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہی اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بوکریں

کیاہمیں کام ان گلوں سے اے صبا!
اک دم آئے ادھر ، ادھر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تواس جینے کے ہاتھوں مرچلے

شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن ترچلے

آتشؔ

نہیں دیکھا ہے لیکن تجھ کو پہچانا ہے آتش نے

بجا ہے اے صنم جو تجھ کو دعویٰ ہے خدائی کا

ماسوا تیرے نہیں رہنے کا کچھ یاں باقی

جو ہے فانی ہے ،تیری ذات ہے الاّ باقی

غالبؔ

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود                        

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خد اتھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نہ  ہوتا میں تو کیا ہوتا

دہر جز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں

ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں !

جلوہ از بس کہ تقاضائے نگہ کرتا ہے

جوہر آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

کثرت آرائی وحدت ہے پرستاری وہم

کر دیا کافرانِ اصنام خیالی نے مجھے

ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

ہیں کواکب کچھ ،نظرآتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

اقبالؔ

اس کی امیدیں  قلیل اس کے  مقاصد جلیل

اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز

نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز!

محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا

یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

اصغرؔ

جو نقش ہے ہستی کا دھوکہ نظر آتا ہے

پردے پر مصور بھی تنہا نظرآتا ہے

انتہا دید کی یہ ہے کہ نہ کچھ نظر آئے نظر

کیف بے رنگیٔ حیرت ہے نظر کی معراج

فصل گل،جوش نمو،طلعت زیبائے بہار

عرض دیدار پہ یک جلوۂ مستور ہے آج

اظہار ؔسلیم

منکشف ہوگیا خدا مجھ پر

جب ہوئی ذات کی نفی مجھ میں

ان مثالوں کے علاوہ اردو میں کچھ شعرا ایسے بھی ہیں جو واقعتا ً صوفی تھے ان کے یہاں تصوف کو وہ  رنگ دیکھنے کو ملتا ہے جو تصوف کے اس پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ تصوف صرف یہ نہیں کہ خودکو   خدا کی راہ میں فنا کرنا ہے   بلکہ تصوف  یہ بھی ہے کہ حقو ق اللہ کے ساتھ ساتھ حقو ق العباد کو بھی نبھانا ہے ۔یہاں سراج اورنگ آبادی کی ایک غزل  کے چند اشعار پیش کرتے ہوئے  تصوف کے اس رنگ کو دیکھانا چاہتا ہوں جو  عشق کی سرمستی اور بے خودی  کے حوالے سے  اپنے آپ میں ایک منفرد آواز ہے۔

سراج اورنگ آبادی

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی

نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی

نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا

مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں

کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا

کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا

کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو

      نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی

یونیورسیٹیز کے نصابات میں تصوف اور بھگتی تحریک میں مماثلتیں اور تضادات کو بھی دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یقینا ً  یہ ایک اہم پہلو ہے اب تک اس حوالے سے بہت ریسرچ ہوئے ہیں   جو بہت وقیع  ہیں لیکن  اس سے بھی آگے ریسرچ کی ضرورت  ہے تاکہ طلبہ  تصویر کے ایک رخ کی دھندلی تصویر دیکھ   کر نا آسودہ نہ رہیں بلکہ انھیں ایک مکمل  اور صحیح تصویر نظر آئے ۔ اس سمت میں میں اقدام  کرنا  وقت کی بڑی ضرورت ہے ۔ چونکہ آج دنیا میں جہاں  امن  وامان کی باتیں کی جاتی ہیں اور مداوا ڈھوندنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لا محالہ تصوف  کی طرف ذہن جاتا ہے ، ایسے میں اصل تصوف   کی تصورات و نظریات کو عام کرنا ہم سب کی اہم ذمہ داری بن جاتی ہے۔

امید کرتا ہوں اس سیمنار کے ذریعے ہی کوئی راہ نکل آئے ۔

***

About admin

Check Also

کمال ہے یہ اردو ہے

Prof. Krishna S. Dhir, PhD Research Professor of Management Science, Szechenyi Istvan University of Gyor, …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *