امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے فرعون اورانسانیت دشمن جارج بش کی حکومت نے شروع کئے جو بارک اوبامہ کے صدر بننے سے لیکرآج تک جاری ہیں بلکہ پاکستان میں زرداری حکومت کے قائم ہونے کے بعد ان حملوں کے تعداد اور شدت میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔بش حکومت نے ۵۲جبکہ اوباما حکومت نے اب تک ۳۱۸ڈرون حملے کئے ہیںگویااب تک ۳۷۰ڈرون حملے ہوچکے ہیں جس میں اب تک ۳۵۴۹/افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری امریکی سی آئی اے کے سپردہے،حملہ کے بعد نہ صرف امدادی کاروائی کرنے والوں پربلکہ مرنے والوں کے جنازہ پر بھی ڈرون حملہ کرتے ہیں۔ ان ڈرون کو امریکی فوجی اور کارندے چلاتے ہیں۔نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی صدر بارک اوبامہ ہر ہفتہ قتل کے لیے افراد خود چنتا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک ادارے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق صرف ۲۰۱۰ء میں۱۲۲/ امریکی ڈرون جملوں سے۹۰۰/افرادہلاک ہوئے ہیں۔اپریل۲۰۱۱ء میں پاکستانی فوجی اور سیاسی حکام نے امریکہ سے ڈرون حملے بند کرنے کے لیے کہا۔زخمیوں کا علاج کرنے والے طبیبوں نے بتایا ہے کہ امریکی خونخواردرندے ڈرون کے ذریعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ڈرون کے قتل و غارت کی مناظروزیرستان کے ایک باسی نے تصویری نمائش میں جمع کی ہے جس کودیکھ کردہشت کے ایسے خوفناک مناظرہیںکہ الامان الحفیظ۔،صرف ڈومہ ڈولہ میں ایک مدرسے پرڈرون حملے میں ۸۵معصوم بچے شہیدکردیئے گئے۔ یہ ڈرون حملے پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری کے خلاف کئے جانے والے امریکی اقدامات میں سر فہرست ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ، ہلاک ہونے والوں کی شہریت اور نسل کے مطابق ڈرون حملوں کی خبر کو اہمیت دیتے ہیں۔
ادھردوسری جانب افغانستان میں امریکی فوج نے آسٹریاکے تمام فوجیوں کیلئے افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے ارزگان سے نکلنے اوراپنافوجی اڈہ بندکرنے کے بعداپنی فوج کا جانی نقصان بچانے کیلئے ڈرون نیٹ ورک کوتوسیع دیناشروع کردی ہے ۔امریکانے اتحادیوں کی جانب سے دسمبرکے بعدانخلاء کے اعلانات اوراس پرعمل درآمدکے بعداپنی فوج کے بڑے پیمانے پرجانی نقصان کوبچانے کیلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں۔امریکی حکام نے اس ضمن میں پینٹاگون کورپورٹ دی ہے کہ اتحادی افواج جوآئندہ فروری یعنی دوماہ بعدبرطانوی فوجیوں سمیت دیگریورپی فوجی بھی انخلاء کیلئے تیارہیں اوران کے اڈوں پرامریکی فوجیوں کی تعیناتی سے نہ صرف یہ کہ امریکی فوجی پورے ملک میں پھیل جائیں گے بلکہ ان کی تعداد طالبان اورحزب اسلامی کے مزاحمت کاروں کے مقابلے میں کم ہوجائے گی کیونکہ زیادہ پھیلاؤ سے حزبِ اسلامی اورطالبان کوامریکی فوج پرحملوں پرآسانی رہے گی جبکہ دیگرممالک کے جہادی بھی شام میں ٹریننگ کے بعدافغانستان کا رخ کرسکتے ہیں۔
سوشل میڈیاکے مطابق شام میں جہادیو ں کی اپنی یورپین دوستوں کوٹوئٹر اورفیس بک پراپنے تجربات شئیرکرنے کے بعدبڑے پیمانے پریورپ سے جہادی شام کاسفرکررہے ہیں اوراب اس بارے میں یہ غورہورہاہے کہ یہ مزیدٹریننگ اوربہترین تربیت حاصل کرنے کیلئے افغانستان کارخ اختیارکرسکتے ہیںکیونکہ شام کی بجائے افغانستان میں جہادی تربیت گاہیں پہلے سے موجود ہیں اس لئے امریکانے خوف اورڈرکے باعث پورے افغانستان سمیت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی ڈرون نیٹ ورک کوتوسیع دینے کافیصلہ کیاہے۔ آسٹریلوی فوج ۲۰۰۵ء سے تقریباً نوسال تک ترین کوٹ میں رہنے کے بعدگزشتہ دنوں واپس جاچکے ہیں۔افغان وزارتِ دفاع کوآسٹریلوی وزارتِ دفاع کی جانب بھیجے گئے بیان میں کہاگیاہے کہ انہوں نے افغانستان میں اپنافوجی مشن مکمل کرلیاہے اورارزگان کے اڈے کوافغان فوج اورپولیس کے حوالے کردیاہے لہذااب اس کی حفاظت افغان فوج اور پولیس کی ذمہ داری ہے۔واضح رہے کہ آسٹریلیاکی نئی حکومت نے اپنے تمام فوجیوں کو کرسمس سے پہلے یہاں سے نکالنے کااعلان کیاتھا،اس وقت تقریباً ۳۰ سے ۹۰کے درمیان فوجی حکام کابل میں ملٹری اکیڈمی میں افغان فوج کی تربیت میں مصروف ہیں اوروہ بھی آئندہ سال چلے جائیں گے۔دوسری جانب جرمنی کی فوج بھی فروری میں افغانستان سے نکل جائے گی جس کے بعدامریکاکیلئے افغانستان میں اکیلے طالبان اورحزبِ اسلامی کامقابلہ کرناممکن نہیں ہوگا۔
امریکاکوافغانستان میں اصل مسئلہ ان کے اتحادیوں کے جانے کاہے کیونکہ اکیلے میںامریکا طالبان کامقابلہ نہیں کرسکتاتاہم امریکی حکام نے اس کایہ حل نکالاہے کہ چونکہ ڈرون حملوں سے امریکی فوج کودوقسم کے فائدے ہورہے ہیں،ایک توپاکستان کے قبائلی علاقوں سے لیکر پورے افغانستان کی نگرانی کی جاسکتی ہے جبکہ دوسری جانب ان سے اپنے اہداف کوبھی نشانہ بنایاجاسکتاہے اس لئے افغانستان کے مشرق میں سیلرنواورشمال میں مزارشریف،مغرب میں شن ڈھنڈہرات،جنوب میں قندھاراورپورے افغانستان کیلئے بگرام سے ہی ڈرون حملوںکوآپریٹ کیاجائے اوراب امریکانے ایرانی سرحدسے لیکرپاکستان کے تمام قبائلی سرحدوں تک نگرانی شروع کردی ہے اوراس بات کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ بارہ سال میں پہلی بار امریکانے مہمند ایجنسی اورافغانستان کے صوبہ ننگرہارکوملانے والے دریائے کابل کے لال پورہ اورجلال آبادکے درمیان کشتی کی آمدورفت جوتقریباًدوسوسال سے جاری ہے ،میں ایک کشتی کواس وقت نشانہ بنایاگیاجب اس میں مقامی طالبان افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔لال پوروہ مقام ہے جہاںسے افغانستان سے پاکستان مویشیوں سے لیکر کرنسی تک اسمگلنگ ہوتی ہے ،امریکی ڈرون کے ذریعے نشانہ بنائے جانے کے بعدیہاں پر گزشتہ کئی دنوں سے نہ صرف سروس بندہوگئی ہے بلکہ دونوں سرحدی علاقوں میں غذائی قلت بھی پیداہونے کاخدشہ ہے۔
ادھرایران کی سرحدکی طرف بھی نگرانی بڑھائی جارہی ہے ۔ امریکی حکام کے مطابق اس میں نہ ہی امریکی فوج کانقصان ہوتاہے اورنہ ہی انہیں تیل اورنیٹوسپلائی جیسی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ چندسو فوجی اس نیٹ ورک کوچلاسکتے ہیں اسی لئے امریکی فوج افغانستان میں معاہدہ بھی ڈرون کیلئے ہی چاہتی ہے، انہوں نے یہ شق شامل کی ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں پر افغان قانون لاگونہیں ہوگاجس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ڈرون حملے غیرقانونی نہیں ہوں گے اوراس کوآپریٹ کرنے والوں پربھی افغان قانون لاگونہیں ہوگا۔امریکاجودس سے پندرہ ہزارفوجی رکھناچاہتاہے اس منصوبے کے تحت ان پانچ اڈوں پرتین تین ہزارفوجی رکھے جائیں گے جہاں سے ڈرون آپریٹ کئے جائیں گے اوریہ فوجی انہیں اڈوں کی حفاظت کریں گے،اسی لئے امریکا جلد سے جلداس معاہدے پردستخط چاہتاہے اوراب بھارتی اورپاکستانی وزرائے اعظم کاکرزئی پردباؤ ناکام ہونے کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کوافغانستان بھجوایاگیااورانہوں نے ارزگان کے قریب ہلمندمیں اپنے فوجی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں ہیں تاہم برطانوی فوج بھی افغانستان سے انخلاء کیلئے پرتول رہی ہے اوراس وقت ۳۸۰۰فوجی افغانستان سے واپس جا چکے ہیں جبکہ ۴۴۶فوجی مارے جاچکے ہیں جبکہ ۵۲۰۰فوجی ۲۰۱۴ء کے فروری و مارچ سے انخلاء کاآغازکریں گے۔
ایک طرف جہاں امریکاکے ڈرون حملوں کے خلاف عوام میں شدیدنفرت پائی جاتی ہے تودوسری جانب امریکااس میں مزیدتوسیع دے رہاہے اوراس توسیع کے ہمسایہ ممالک سمیت افغانستان میں آئندہ دس سال مزیدبدامنی ہوگی۔القاعدہ اورطالبان دن رات مسلسل ڈرون حملوں کے توڑ کی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہیں اوراس سلسلے میں القاعدہ اورطالبان کے انتہائی ذہین افراداپنے رہنماؤں اورلیڈروں کے جعلی آئی ڈی سے دنیابھر کے انجینئرزکے ساتھ اس موضوع پربات چیت کررہے ہیںاوران کی بات چیت کااصل موضوع یہ ہے کہ ڈرون سے بے گناہ افرادمارے جارہے ہیں،اس لئے ان کے توڑ کیلئے ہمیں مشترکہ کوششیں کرناچاہئیں اورجس دن القاعدہ اورطالبان ڈرون کے توڑمیں کامیاب ہوگئے تواس وقت امریکاکانہ صرف افغانستان بلکہ اس خطے میںآخری دن ہوگااوریہ دن دورنہیں۔