طارق حسین بٹ( چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)
جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ اقتدار کے خاتمے کے بعد ان نشانات کا مٹا یا جانا ضروری تھا جن کے سیاہ بادل اس قوم پر نحو ست کی صورت میں چھائے ہو ئے تھے۔امریکہ کی غلامی ،امن و امان کی مخدوش صورتِ حا ل ،قتل و غارت گری،بے گناہوں کا خو نِ نا حق، سیاسی کارکنوں کا قتل،لال مسجد پر دھاوا ، قومی قیادت کی جلا وطنی، نواب اکبر بگٹی کا دن دھاڑے قتل اور عدلیہ کے معزز ججز کی نظر بندی اس عہد کے وہ سیاہ کارنامے ہیں جن پر قوم آج بھی شرمندہ ہے۔چند ڈالروں کے عوض قوم کی بیٹیوں اور سپوتوں کا سودا وہ بد نما داغ ہے جو جنرل پرویز مشرف کی سیاہ پیشانی پراس بری طرح سے نقش ہے کہ لاکھ چاہنے کے با وجود بھی اسے جنرل پرویز مشرف کے چہرے سے دھویا نہیںجا سکتا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ایک ایسی سازش تھی جس کے تانے بانے جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے بنائے تھے۔اتنا گھناؤنا جرم کرنے کے بعد بھی وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ ایک قومی راہنما کے منظر سے ہٹا ئے جانے کے بعد عوام اس کی قیادت پر متفق ہو جائیں گئے اور وہ زیادہ مضبوط ہو کر ابھرے گا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اس کا اقتدار نہ بچ سکا کیونکہ ظلم و عدوان کو ایک دن رسوائی کے کانٹوں کا تاج پہن کر رخصت ہو نا پڑتاہے۔اپنے آمرانہ اقدامات کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف دنیا میں عبرت کی علامت بنا ہوا ہے۔ وہ پوری دنیا میں جان چھپا تا پھر رہا ہے لیکن اسے سکون کی دولت کہیں بھی نہیں مل پا رہی کیونکہ بے گناہوں کے خون کے دھبے اسے چین سے رہنے نہیںدے رہے۔جنرل پرویز مشرف کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح سے خاکِ وطن پر ایک دفعہ اپنے قدم رکھ کر خود کو سکون کی دولت سے ہمکنار کر لے لیکن شائد اس کی زند گی میں ایسا نہ ہو سکے گا کیونکہ اس نے ظلم و جبر کی جوسرخ آندھی اٹھا ئی ہو ئی تھی اس کا فطری نتیجہ اس کی جلا وطنی ہی کی صورت میں نکل سکتا تھا۔اس نے اپنے دورِ حکومت میں وطن کے دروازے مخالفین پر بند کر رکھے تھے لہذا آج واپسی کے سارے دروازے اس کے لئے مقفل ہو چکے ہیں ۔ وہ دھائی دے رہا ہے ، عالمی طاقتوں سے وطن واپسی کیلئے بھیک مانگ رہا ہے لیکن کو ئی اس کی آہ و بکاہ کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہا ۔ اس کا اقتدار ظلم و جبر پر مبنی تھا جس کا اسے حساب دینا ہے ۔ وہ یوں ہی بلکتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہو جائیگا کیونکہ ظلم کی فصل تو اسے بہر حال کاٹنی ہو گی۔اس کا حال شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی سے مختلف نہیں ہو گا جو بے شمار مال و دولت کے باوجود وطن کی مٹی کو ترستا رہا اور غریب الوطنی میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔اس کی اس کیفیت کو آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفرؔ نے اپنے لافانی اشعار میں جس خوبصورتی سے بیان کیا ہے جی نہیں چاہتا کہ اس سے قارئین کو محروم کروں۔۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کاقرار ہوں۔۔جو کسی کے کام نہ آسکے ایک ایسی مشتِ غبار ہوں
موجودہ حکو مت کو ورا ثت میں دھشت گردی کی آگ کے شعلے ملے تھے جنھوں نے وطنِ عزیز کے خوبصورت چہرے کو جھلسا کر رکھ دیا تھا۔خوف و ہراس میں مبتلا قوم امن اور سلامتی کو ترس گئی تھی۔ گھر سے باہر قدم رکھتے ہی اسے ان دیکھی موت کا احساس ہونے لگتا تھا۔ گھر کے مکینوں کو یہ خوف ہمہ وقت دامن گیر رہتا تھا کہ گھر کی دہلیز پار کرنے والال فرد زندہ و سلامت گھر لوٹ کر آئے گا بھی یا کہ نہیں۔ہزا روں انسانی جانوں کا نذرانہ بھی اس آگ کو مدھم نہ کر سکا جس نے ملک کے امن و امان اور سکون کو تبا ہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔دھشت گر دی کی بے تحاشہ وارداتیں علما ، فوجی جوانوں اور سول سوسائٹی کے امن پسند لوگوں کو نگل رہی تھیں اور پوری قوم اس سانحے پر آنسو بہانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس جنگ سے نبر آزما ہو نا اس کے بس میں نہیں تھا۔یہ آگ دن بدن پھیلتی جا رہی تھی اور پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی،رسوائی اور جگ ہسائی کا باعث بن رہی تھی لیکن جنرل پرویز مشرف ڈالروں کی دنیا میں مست اس جنگ کے شعلوں میں جلتے پاکستانیوں کے درد سے نا آشنا ہو کر اپنی ہی ڈگر پر چلتا جا رہا تھا اور اپنے اقتدار کے دوام کی خاطر اپنے ہی لوگوں کو نا حق قتل کرتا جا رہا تھا ۔بد امنی بڑھتی رہی ، آگ کے شعلے تیز تر ہو تے رہے ، امن و امان لٹتا رہا، گلی محلے اور کوچہ و بازار مقتل گاہوں میں تبدیل ہوتے رہے لیکن جنرل پرویز مشرف اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھا نیرو کی طرح بانسری بجا تا رہا۔جیسے جیسے یہ جنگ تیز ہو تی گئی اسی طرح اس کے ظلم و جور میں اضافہ ہو تا رہا۔ لال مسجد پر اپریشن کے بعد وہ نفرت کی علامت بنتا چلا گیا اور دھشت گردی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہو تا چلا گیا ۔ایسے لگ رہا تھا کہ پاکستانی معاشرہ دھشت گردی کے بوجھ میں دب کر اپنا وجود کھو دے گا۔سوات اور مالا کنڈ میں تحریکِ طالبان کے قبضے کے بعدپاکستان کے وجود اور سالمیت پر گہرے سوالات اٹھنے شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان کی یک جہتی اور بقا پر بحث شروع ہو گئی تھی اور اغلب امکان تھا کہ اگر تحریکِ طالبان کی اس پیش قدمی کو نہ رو کا جا تا تو پھراس ملک کا حشر بھی شام ، لیبیا ۔ عراق اور یمن کی طرح ہو جاتا جہاں پر متحارب گروہ اقتدار پر قبضے کیلئے باہمی جنگ و جدل میں مصروف ہیں اور امن و امان قصہِِ پارینہ بن چکا ہے ۔ لیکن پاکستانی افواج اور حکومتِ پاکستان کی جراتوں کو داد دینی پڑتی ہے جھنوں نے ایک اپریشن راہِ راست کا انتہائی مشکل فیصلہ کر کے وطن کی یکجہتی اور سلامتی کو ممکن بنایا ۔۔
۲۰۰۸ میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت کے سامنے بڑے چیلیجزز تھے جن سے اسے نبرد آزما ہو نا تھا۔جب قومیں انتشار اور دھشنت گردی کا شکار ہو جائیں تو پھر باہمی اتحاد و اتفاق اور ایکتا ہی قوموں کو ایسی صورتِ حال سے نجات دلاتی ہے۔اسی اصول کو پیشِ نظر رکھتے ہو ئے جمہوری حکومت نے مفاہمت کی سیاست کا آغاز کیا اورساری سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس حکومت کا سب سے بڑا اکارنامہ یہی ہے کہ اس نے پارلیمنٹ کی قوت کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا۔سب سے پہلے سوات اپریشن سے تحریکِ طالبان کے عزائم کو خاک میں ملا کر پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنایا اور پھر سوات پر پاکستان کا جھنڈا لہرا کر ثابت کیا کہ ملکی سلامتی کی خاطر یہ حکومت کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔اپوزیشن نے اس مشن میں حکو مت کا بھر پور ساتھ دیا اور یوں قومی یکجہتی کی طاقت سے دھشت گردی پرپہلا بھر پور اور کامیاب وار کر کے اس کے عزائم کو خاک میں ملایا۔آج پورے ملک میں دھشت گردوں کی کاروائیاں کافی حد تک کم ہو گئی ہیں اور انکی کمر ٹوٹ گئی ہے جس پر حکومتی پالیسیوں کو سرا ہا جانا ضرور ی ہے۔ کراچی میں آج کل ٹارگٹ کلنگ ایک سنجیدہ ایشو ہے جس کی وجہ سے کراچی میں روز لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور اس کا امن و امان بالکل تباہ برباد ہو کر رہ گیا ہے لیکن کراچی کی صورتِ حال کو ہم دھشت گردی کی جنگ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ دھشت گردی کی جنگ نہیں بلکہ مختلف گروہوں کے مفادات اور بقا کی جنگ ہے جو کراچی کو اپنی مٹھی میں بند کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ کراچی میں بے شمار لسانی، علاقائی اور مذہبی گروہ ہیں جو اس شہر پر اپنا تسلط جمانا چاہتے ہیں۔ ان کی شہ پا کر بہت سے جرائم پیشہ گروہ بھی حرکت میں آ گئے ہیں اور سیاسی اور مذہبی گروہوں کی اسی باہمی رسہ کشی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اپنی مذموم کاروائیوں کا آغاز کر چکے ہیں اور یوں معاشرے کے اندر بد امنی اور انارکی کو ہوا دے رہے ہیں۔بھتہ خوری،اغواہ برائے تاوان، لوٹ مار اور قتل و غا رت گری کے واقعات کراچی کی پہچان بن گئے ہیں اور ان وارداتوں سے کراچی کے شہری سخت اذیت میں مبتلا ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ کراچی ایم کیو ایم کا گھڑھ سمجھا جاتا تھا اور ایم کیو ایم کی مرضی اور منشاء کے خلاف وہاں پر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا لیکن بعد میں دوسرے صوبوں سے نکل مکانی کرکے کراچی میں آباد ہو نے والے لوگوں نے ایم کیو ایم کی اس حاکمیت کو چیلنج کرنا شروع کر دیا جس سے کراچی میں جنگ و جدل کی فضا نے جنم لینا شروع کر دیا۔ پختو نوں کی کراچی میں آمد ایک ایسا عنصر ہے جس نے پورے شہر کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے۔مختلف معاشی ، سماجی اور ثقافتی پسِ منظر کے حا مل ان گروہوں کے دمیان بد اعتمادی کی فضا ہی کراچی کے امن و امان کی تباہی کی ذمہ دارہے۔ایم کیو ایم کراچی کواپنی ریاست اور جاگیر تصور کرتی ہے اور اس ریاست میں کسی غیر کی مداخلت اسے کسی بھی صورت میں گوارہ نہیں ہے۔ایم کیو ایم ایک لسانی جماعت ہو نے کے باوجود انتخابی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور ملکی معاملات میں اس کی اہمیت اسی انتخابی سیاست میں کامیابیوں سے وابستہ ہے لہذا وہ اپنے انتخابی حلقو ں میں دوسروں کی مو جو دگی اور تقویت کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر دوسری لسانی اور علاقائی اکائیاں اس شہر میں تقویت پکڑ گئیں تو پھر ایم کیو ایم کی ساری شان و شوکت خاک میں مل جائیگی اور ملکی معاملات میں اس کی آواز انتہائی کمزور ہو جائیگی لہذا ہر وہ جماعت اور گروہ جو ایم کیو ایم کی کراچی میں بالادستی کو چیلنج کرنے کی کوشش کریگا ایم کیو ایم سے اس کا سیدھا ٹکراؤ ہو گا اور ٹکراؤ میں پھر لاشیں گرنا بڑی معمولی بات ہو تی ہے۔بالغ نظری کا تقاضہ ہے کہ ہر لسانی اور علاقائی جماعت کو امن و امان سے اپنے پروگرام اور منشور کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی اجازت دی جائے اور پھر فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس جماعت کا ا نتخاب کر کے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا تے ہیں۔کھلے دل سے سب کے وجود کو تسلیم کر لیں گئے تو پھر لاشوں کے یہ تحفے بند ہو جائیں گئے نہیں تو وہی کچھ ہو تا رہے گا جو پچھلے چندماہ سے ہوتا چلتا آرہا ہے اور جس کا نشانہ معصوم اور بے گناہ لوگ بنتے رہتے ہیں
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،