Home / Socio-political / ۔۔،۔ زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں ۔،۔۔

۔۔،۔ زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں ۔،۔۔

۔۔،۔ زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں ۔،۔۔

طارق حسین بٹ( چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)

چند روز قبل ۱۸ مئی کو کراچی میں تحریکِ انصاف کی سینئر نائب صدر زہرہ شاہد کے قتل نے پرانی نفرتوں کو ایک دفعہ پھر ہوا دے دی ہے۔ تحریکِ انصاف کے چیر مین عمران خان نے اس قتل کی برائے راست ذمہ داری قائدِ تحریک الطاف حسین کے سر ڈال دی جس پر ایم کیو ایم سیخ پا ہے۔ تحریکِ انصاف کو اس کا حق حاصل تھا کہ وہ جسے اپنے کارکن کا قاتل تصور کرتے ہیں اس کا نام بر سرِ عام لے لہذا کسی کو بھی برا منانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔کیا اس سے پہلے بھی قتل کی کئی وارداتوں کی ذمہ داری الطاف حسین پر نہیں ڈالی گئی تھی ؟ بالکل ڈالی گئی تھی اور اسی وجہ سے وہ ملک واپس نہیں آ رہے وگرنہ اپنی حکومت میں کون ہے جو وطن واپس نہیں آنا چاہتا ؟ الطاف حسین کو قتل کے ان بے شمار مقدمات کا خوف ہے جو ان کی وطن واپسی کی راہ میں پائوں کی زنجیر بنا پ ہوا ہے وگرنہ وہ کب کے گن گرج کے ساتھ وطن آ چکے ہوتے ۔سندھ کے سابق وزیرِ داخلہ ذولفقار مرزا کے بیانات کو اگر یہاں پر نقل کیا جائے تو مقدمات کی ایک ضحیم کتاب مدون ہو جائے گی ۔ذولفقار مرزا نے جس دھڑلے سے ایم کیو ایم کی پر تشدد سر گرمیوں کو بے نقاب کیا تھا ا س نے ایم کیو ایم کی مقبولیت کو کافی حد تک متاثر کیا ہے ۔اپنے سر پر قرآنِ مجید اٹھا کر ذولفقار مرزا نے جن واقعات کے رخ سے نقاب ا ٹھا یا تھا اس پر پاکستان کے اکثر حلقوں نے یقین کر لیا تھا ۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ان الزامات کی روشنی میں ایم کیو ایم کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاتی لیکن حکومت چھن جانے کے خوف سے پی پی پی  نے کاروائی کرنے سے اجتناب کیا ۔ آصف علی زرداری ویسے بھی مفاہمتی سیاست کا علم تھامے ہوئے تھے لہذا ان کے دورِ حکومت میں کسی کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا امکان نہیں تھا۔یہ مفاہمتی سیات بھی کیا خوب تھی کہ جس کے جی میں جو آئے کرتا جائے کیونکہ کسی سے کوئی باس پرس نہیں ہونی تھی ۔اسی اندازِ سیاست نے پی پی پی کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔لوگ ا حتساب چاہتے تھے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا دیکھنا چاہتے تھے لیکن افسوس صد افسوس اس امید کا گلہ گھونٹ دیا گیا۔سچائی جب نقش بر آب ثابت ہونے لگ جائے تو معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں اور انھیں تباہی سے بچانے کی ذمہ داری اربابِ اختیار کی ہو تی ہے۔ میاں محمد نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں فوجی اپریشن اور پھر جنرل نصیرا للہ بابر کے ہاتھوں دوسرا فوجی اپریشن ایم کیو ایم کی حقیقت بتانے کیلئے کافی ہے۔میں تو اسے جمہوری عمل کا سقم ہی کہوں گا کہ اپنی حکومتوں کی تشکیل کیلئے کبھی کبھی ان عناصر سے بھی ہاتھ ملا نا پڑتا ہے جن کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ ان کی سر گرمیاں ملک و قوم کے مفادات کے منافی ہیں۔ایم کیو ایم اپنی چند نشستوں کی بنیاد پر اپنا وجود منواتی رہی ہے وگرنہ اس کے اندازِ سیاست سے دوسر ی جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں ۔اب انہی چند نشستوں کے حصول کی خاطر ایم کیو ایم وہ  سب کچھ کرنے پر مجبور ہو چکی ہے جس نے پورے کراچی کی فضا کو مسموم کر رکھا ہے اور جس سے کراچی پوری دنیا میں دھشت گردی اور قتل و غا رت گری کی علامت بنا ہوا ہے ۔ ٹھپہ ازم نے جسطر ح  ایم کیو ایم کے جمہوری تشخص کو مجروح کیا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے یہی وجہ ہے کہ الطاف حسین کو نئی تنظیم سازی کرنی پڑی لیکن یہ بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔۔

 میڈیا کی یلغار کے ذریعے عوام میں اس احسا س نے جنم لیا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ اور دھشت گردی کراچی کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں لہذ عوام ان گروہوں اور جماعتوں سے خو د کو علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں جن کی بنیاد پر تشدد نظریات پر ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت اب وہ نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ لوگ دوسرے نعم البدل کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں جس نے انھیں اس عذا ب سے نجات دلانے کا وعدہ کیا ہے ۔اپنی مقبولیت کا بھرم رکھنے اور اقتدار میں اپنی آواز کو توانا رکھنے کیلئے ایم کیو ایم کو اس راہ کا انتخا ب کرنا پڑا جسے د ھا ندلی سے منسوب کیا جاتا ہے۔لیاری میں بھی اسی طر ح کا انداز اپنایا گیا تھا لیکن وہاں پر چونکہ جرائم پیشہ لوگ سر گرمِ عمل ہیں اور دوسرے ان گروہوں کا باقی ماندہ کراچی میں کوئی اثرو رسوخ نہیں ہے اس لئے لوگوں کی ساری توجہ ایم کیو ایم پر مرکوز تھی ۔ زہرہ شاہد کے قتل پر عمران خان کے الزامات پر الطاف حسین نے جسطرح کا ردِ عمل دیا ہے اس نے ہر محبِ وطن پاکستانی کو شرمسار کر دیا ہے۔ننگی گالیوں کی جسطرح عمران خان پر بو چھاڑ کی گئی اس سے ہر پاکستانی کاسر شرم سے جھک گیا۔ہمارے سیاسی قائدین اس سطح تک بھی گر سکتے ہیں عوام کے تصور سے بالاتر تھا ۔ اس طرح کی نازیبا زبان تو سکول کے لونڈے بھی استعمال نہیں کرتے جو الطاف حسین نے استعمال کی ہے۔ اس طرح کی گندی گالیوں اور مغلات کی پاکستانی تاریخ میں مثال ملنا ناممکن ہے ۔میڈیا  کے اینکرز کو گالیاں دینا،اپنے سیاسی مخا لفین کی ماں بہن ایک کرنا اور انھیں سرِ عام ذلیل و رسوا کرنا ایم کیو ایم کا تازہ ہتھیار ہے ۔اس نئے کلچر سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ۔سوشل میڈیا نے اس کی سنگینی میں مزید ا ضا فہ کر دیا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کوئی اپنے جذبات کو قابو کرے اور دوسروں کی عز ت و احترام کرنا سیکھے۔۔

عمران خان ان انتخا بات میں ایک نئی قوت بن کر ابھرا ہے۔اس کے بارے میں سب کی متفقہ رائے ہے کہ وہ دیانت دار اور کھرا انسان ہے۔وہ لگی لپٹے بغیر وہ سب کچھ کہہ جاتا ہے جسے عام سیاستدان کہنے کی جرات نہیں کرتے۔اس کے اسی کھرے پن نے نوجوانوں کو اس کی جانب راغب کیا ہے اور وہ گروہ در گروہ اس کی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ کراچی کا نوجوان بھی تبدیلی چاہتا ہے۔وہ ایک ایسا پاکستان چاہتا ہے جس میں امن و امان ہو سب کے جان و مال محفوظ ہوں اور کوئی بندوق کی طاقت سے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش نہ کر ے ۔لاکھوں لوگوں کا عمران خان کی جماعت کو ووٹ ڈالنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ کراچی میں امن چاہتے ہیں اور ا سلحہ بردار جماعتوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن دھاندلی کے عنصر نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں ناکہ بندیوں اور خوف و ہراس کے باوجود  لوگھوں کا ووٹ کیلئے باہر نکلنا اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ کراچی بھی تبدیلی کی گرفت میں آ چکا ہے ۔یہ پہلا حملہ ہے جو نوجوانوں نے ایم کیو ایم  کے ووٹ بینک پر کیا ہے ۔اس حملے میں مضبوط قلعوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ہل گئے ہیں جبکہ اگلے حملے میں ان کا صفایا ہو جائیگا کیونکہ اگلے حملے میں نوجوان نئی حکمتِ عملی سے میدان میں اتریں گئے جسے دھاندلی اور اسلحے کے زور پر ناکام نہیں بنایا جا سکے گا۔عمران خان کو خوب علم ہے کہ اس نے جس جماعت پر ہاتھ ڈالا ہے وہ انتہائی منظم،بے رحم اور طاقتور ہے اور اس سے ٹکر لینا لوہے کے چنے چبانے کے مترا دف ہے لیکن اس نے پھر بھی بیک فٹ پر جانا مناسب نہیں سمجھا۔اس نے فرنٹ فٹ پر آ کر اسے للکارا ہے اور اس للکار کو عوام نے پسند کیا ہے ۔عمران خان نے اپنے کرکٹ کے کیرئر میں بڑے دبائو دیکھے ہیں ، بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں لہذا اس کیلئے اس نئے مرحلے سے نکل جانا قطعی مشکل نہیں ہو گا ۔ اسے دبائو میں بھی اپنی فتح کی راہ تراشنا خوب آتا ہے۔ حلقہ ۲۵۰ میں ۴۳ پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخا ب عمران خا ن کی پہلی فتح ہے اور اس فتح کا سہرا بھی ان نوجوانوں کے سر جاتا ہے جھنوں نے کئی دنوں تک دھرنا دئے رکھا۔ا س دھرنے میں کچھ بھی ہو سکتا تھا لیکن جوانوں کی جرات اور عزمِ مصمم نے ایسے تمام حربے ناکام بنا دئے اور امن کی جیت کو یقینی بنا دیا۔ایک روشن صبح بالکل سامنے کھڑی ہے لہذا اس وقت صبر و تحمل اور حوصلے کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں زندگی ابتلا و آزمائش کا نام ہے اور جی دار لوگ ہی ان آزمائشوں میں سر خرو ہوتے ہیں۔جو دل چھوٹا کر جائیں منزل ا انھیں کبھی نہیں ملتی۔تا ریخ باجرات انسانوں کی داستان ہے۔ان کی بے مثال جراتیں ہی تاریخ کا حسن ہیں جسے پڑھ کر کروڑوں انسان متاثر ہوتے ہیں اور سرفروشی کی اسی راہ کے راہی بنتے ہیں جن کی بنیادیں جی داروں نے اپنے لہو سے رکھی ہوتی ہیں۔کرا چی میں ہوائیں اپنا رخ بدل چکی ہیں ۔زنجیریں ٹو ٹنے والی ہیں اور ان زنجیروں کو توڑنے کا اعزا ز عمران خان کے مقدر میں لکھا جانے والا ہے،خوف کے سائے گہرے ہوسکتے ہیںسفاکیت کا بھر پور مظا ہرہ ہو سکتا ہے مخالفین کا جینا دوبھر کیا جا سکتا ہے اور انھیں جی بھر کر ہراساں بھی کیا جا سکتا ہے لیکن تبدیلی کے اس پر امن اور پر جوش کارواں کو روکنا اب کسی کے بس میں نہیں ہے۔۔۔۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *