۔۔،۔ مہم جوئی ۔،۔۔
کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔چودہ سالوں کے بعد ایک دفعہ پھر میاں محمد نواز شریف وزیرِ اعظم پاکستا ن ہیں اور ان کے سامنے اسی طرح کی صورتِ حا ل ہے جیسی صورتِ حال۱۹۹۷ میں تھی۔ اس وقت بھی فوج کی برتری کو زیرِ دام لانے کی خواہش تھی اور وہ حواہش اب بھی اسی طرح جوان ہے۔وہ سارے لوگ جھنوں نے میاں برادران کو فوج کے خلاف چڑھائی کی ہلہ شیری دی تھی ان کا تو کچھ بھی نہیں بگڑا تھا کیونکہ جیسے ہی جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تھا وہ ایک ہی جست میں پار ٹی کو خیر باد کہہ کر جنرل مشرف کی گود میں بیٹھ گئے تھے اور میاں برادران کیلئے جلاوطنی اور جیلوں کی سختیاں رہ گئی تھیں۔ وہی عناصر ایک دفعہ پھر سر گرم ہو گئے ہیں اور اسی طرح کا ماحول تخلیق کرنا چاہتے ہیں جس طرح کا ماحول ماضی میں تخلیق کیا تھا ۔آج کل یہ ٹولہ ایک دفعہ پھر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکا ہے اور میاں برادران کو اپنی وفا داریوں کا یقین دلا رہا ہے ویسا ہی یقین جیسے انھوں نے جنرل ہرویز مشرف کو دلایا تھا۔یہ لوگ کسی کے بھی دوست،سجن اور یار نہیں ہوتے انھیں صرف اپنے اقتدار سے دلچسپی ہو تی ہے ۔جنرل پرویز مشرف کے ساتھ محبت کی قسمیں کھانے والے اب جنرل پرویز مشرف کا ذکر سننا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ اس کا کا نام سن کر طیش میں آ جاتے ہیں کیونکہ اب جنرل پرویز مشرف کے پاس انھیں خو ش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اب ان کی ساری امیدیں میاں برادران کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ میاں برادران کی اسی طرح خوشامد کرنے میں جٹے ہوئے ہیں جس طرح وہ جنرل پرویز مشرف کی خو شامد کیا کرتے تھے اور اسے سو دفعہ وردی میں صدر منتخب کرنے کا اعلان کیا کرتے تھے۔ میں نے اس مخصوص سیاسی ٹولے سے زیادہ طوطا چشمی کا مظا ہرہ اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔راتوں رات وفاداریاں بدلنے کی اس روائت نے پاکستان کی ساری اجلی اقدار کا خون کر رکھا ہے اور پھر ان عناصر کو اپنی نوجوان نسل سے یہ امید بھی ہوتی ہے کہ وہ ذاتی مفادات سے بلند تر ہو کر اقدار کا علم بلندکریگی حالانکہ اس طرح کی انتہائی پست حرکات کے بعد نئی نسل سے اعلی کردار کے اظہار کی خواہش کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ پھر بھی اس طرح کی امیدوں سے اپنے دل کو آباد رکھتے ہیں کیونکہ سیاست میں امید کا دامن نہیں چھوڑا جاتا ۔۔۔
جنرل پرویز مشرف ۲۳ مارچ ۲۰۱۳ کو موجودہ انتخا با ت میں شرکت کیلئے پاکستان تشریف لائے تو سر منڈا تے ہی اولے پڑے کے مصداق انھیں منہ زور عدلیہ سے واسطہ پڑا اور عدلیہ نے ان پر تا حیات الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی لہذا ان کی مسلم لیگ اڑنے سے پہلے ہی لڑھک گئی ۔آج کل جنرل پرویز مشرف چک شہزاد میں واقع اپنے محل میں قید ہیں اور ان پر غداری کے مقدمے کی تیاریاں زورو شور سے جاری ہیں۔قومی اسمبلی کے پہلے میں جسطرح کی تقا ریر کی گئی تھیں اس نے اس خیال کو تقویت بخشی کہ کچھ عناصر ایک دفعہ پھر میاں محمد نواز شریف کو تصادم کی اسی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں جس نے ان کا بیڑہ غرق کیا تھا اور انھیں سالہا سال جلا وطنی کا زہر پینا پڑا تھا۔ میاں محمد نواز شریف ایک دفعہ پھر انہی عناصر کے نر غے میں آچکے ہیں اور انھوں نے اسمبلی کے فلور پر اعلان کر دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلا یا جائیگا کیونکہ انھوں نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ور ۳ نومبر ۲۰۰۷ کو دو دفعہ آئین شکنی کی ہے جس کا انھیں خمیا زہ بھگتنا پڑیگا ۔ان کے خلاف کارگل اپریشن پر بھی میاں محمد نواز شریف کو تحفظات ہیں اور وہ ا نھیں اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیںلہذا اس سمت میں بھی کاروائی کو خا اج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ملکی حالات اس بات کے متقاضی نہیں تھے کہ اس طرح کی کاروائی شروع کی جاتی لیکن انسان کی انا پرستی اسے کسی ایسی راہ پر ضرور ڈال دیتی ہے جس سے اسکی ہلا کت یقینی ہوتی ہے اور میاں محمد نواز شریف اسی راہ پر چل نکلے ہیں ۔اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چائیے کہ جنرل پرویز مشرف فوج کے سابق آرمی چیف ہیں اور سابق صدرِ پاکستان بھی ہیں لہذا ان کے خلاف غداری کی کاروائی کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔فوج اتنی آسانی سے اپنے سابق آرمی چیف کی تذلیل برداشت نہیں کریگی۔فوج میں اب بھی ان کے چاہنے والے بہت سے جرنیل ہیں جو ساری بازی پلٹ سکتے ہیں لہذا مہم جو عناصر کو صبر و تحمل سے کام لینا ہو گا ۔ خو اب د یکھنا اور خواہشات پالنا اچھی بات ہے اور اس پر کوئی پابندی بھی نہیں ہو تی لیکن انسان کو سوچ سمجھ کر خوابوں کی دنیا آباد کرنی چائیے۔جو خواب زندگی بھر کا روگ بن جائیں ان سے دور رہنا دانشمندی ہو تی ہے اور میاں برادران کو اسی دانشمندی کا ثبوت دینا ہو گا ۔ہم سب کو علم ہے پاکستانی سیاست میں فوج کی حیثیت مسلمہ ہے اور جس نے فوج کو جھکانے کی کوشش کی اس کا انجام بہت برا ہوا۔ یہ بات آصف علی زرداری نے اپنے پلے باندھ لی تھی تبھی تو اس نے پانچ سال کی آئینی مدت پوری کر لی تھی(جاری ہے)