حضرت داتا گنج بخش کو ساری دنیا میں تصوف اور صوفیانہ روایات کے سبب جانا جاتا ہے ، ان کا دربار بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کے لیے روھانی فیوض و برکات کا مرکز ہے ۔ حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ( 1009ء تا 1079ء400ھ تا 465 ( شروع میں غزنین کے دو گاﺅں ہجویر اور جلاب میں آپ کا قیام رہا اس لیے ہجویری اور جلابی کہلائے۔ سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمة اللہ علیہ سے پائی۔ مرشد کے حکم سے 1039ء میں لاہور پہنچے کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔عوام آپ کو گنج بخش (خزانے بخشنے والا) اور داتا صاحب کہتے ہیں اور آپ انہی القابات سے مشہور ہیں۔لاہور شہر جو صوبہ پنجاب پاکستان کی راجدھانی اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔ اسے پاکستان کا دل بھی کہتے ہیں۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ شاہی قلعہ، شالامار باغ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں مغل دور کی یادگار ہیں۔ سکھ اور برطانوی دور کی بھی تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ لیکن روحانی دنیا میں داتا کے دربار کی وجہ یہ شہر کافی مشہور ہے۔ دنیا بھر کے زائرین یہاں آتے ہیں اور داتا کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ کبھی کسی نے یہ خیال نہیں بھی نہیں کیا ہوگا کہ جو دربار مرجع خلائق ہے اور جہاں سے لوگوں کو روھانی سکون ملتا ہے ، اسی دربار میں ایک دن ایسا بھی آئے گا جب دہشت گرد خون کی ہولی کھیلیں گے۔ جمعرات کی شب عام طور مزارت پر لوگ بڑی تعداد میں حاضری کے لیے جاتے ہیں ۔ اس دربار میں بھی جمعرات کو لوگوں اک ہجوم تھا ۔ کہیں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی ۔ میں نے خود ایک سال قبل اس دربار میں حاضری دی تھی تو وہ ظہر کا وقت تھا اور جمعرات کے علاوہ کوئی اور دن تھا ۔ لیکن اس وقت بھی اس مزرا پر اتنی بھیڑ تھی کہ پورے احاطے میں کوئی کالی جگی نظر نہیں آئی تھی ۔ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ جمعرات کی شب کو کتنی بھیڑ رہے ہوگی ۔ اسی بھیڑ کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں نے بڑی تعداد میں لوگوں کو شہید کیا۔ ان دہشت گردوں کو کیا کہا جائے ، ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے ۔ یہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اسلام کو سر بلند کرنے کے لیے سر پر کفن باندھے تیار رہتے ہیں ۔ جبکہ اسلام میں کہیں جبر اور ظلم کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔یہ کس طرح کا اسلام پھیلانا چاہتے ہیں اور کس طرح کا معاشرہ چاہتے ہیں ۔ ان کی کرتوتوں سے دنیا واقف ہے کہ یہ کسی بھی طرح اسلام کے ماننے والے نہیں ہوسکتے ۔بعض اخباروں میں یہ روپورٹیں شائع ہوئی ہیں کہ کچھ لوگ ایک عرصے سے کچھ لیٹریچر اور کتابچے بانٹ رہے تھے جن میں داتا کے دربار میں حاضری کو بدعت اور شرک کہتے تھے ۔
قیاس یہ لگایا جا رہا ہے کہ ایسے ہی لوگوں کے یہ ناپاک منصوبے کے تحت داتا دربار میں خود کش حملے ہوئے ۔اس حملے میں 43 افراد جاں بحق جبکہ 175 کے قریب زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق دونوں دھماکے خود کش تھے۔پہلے خودکش حملہ آور نے بیس منٹ مکے وضو خانے میں دھماکہ کیا ۔ لو گ اس آوازس ے کوفزدہ ہوگئے کیونکہ لاہور شہر نے اس طرح کی دھماکوں سے کنتی ہی ہلاکت خیزیاں دیکھی ہیں ۔لیکن سیکورٹی کے ذریعے لوگوں کو یہ بتایا گیاکہ بیس منٹ میں جنریٹر پھٹنے کی آواز ہے ۔ لیکن اس کے کچھ ہی دیر بعد مزار کے صحن میں ایک شخص نے خودکو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا جبکہ دوسرے خود کش حملہ آور نے خود کو مسجد کے گیٹ پر اڑایا۔کمشنر لاہور خسرو پرویز کے مطابق دونوں خودکش حملہ آوروں کے سر مل گئے ہیں۔دھماکے کے وقت داتا دربار میں دو سے ڈھائی ہزار زائرین موجود تھے۔ دونوں دھماکے عشاء کی نماز کے بعد ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے بعد علاقے سے فائرنگ کی آوازیں سنی جا رہی تھیں۔جمعرات کی وجہ سے داتا دربار میں زائرین کا کافی رش تھا اور زائرین دربار کے احاطے میں دعا مانگ رہے تھے۔ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ خودکش دھماکوں کے بعد لاہور میں سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے ۔دھماکوں کے بعد علاقے کے عوام نے احتجاج کرتے ہوئے مظاہرہ کیا اور پتھراؤ کیا،گاڑیوں کو نزر آتش کیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیئے طاقت کا استعمال کیا ہے۔خود کش حملوں کے ضمن میں ایسے مقدس مقام کو نشانہ بنانا حیرت کا مقام ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے ملک کی خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی کا نظام قطعی ناکارہ اور بے عمل ہو چکا ہے۔لیکن دوسری طرف یہ بھی بات تھی کہ کسی نے سوچا نہیں تھا کہ اس دربار کو بھی دہشت گرد اس طرح کی ناپاک منصوبوں کا نشانہ بنائیں گے۔
داتا دربار میں خود کش حملے کے بعد پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ اب پاکستان میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہ گئی ہے ۔ مدرسہ ، خانقاہ ، مزار، تاریخی مقامات اور یہاں تک کہ مسجد یں دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں ۔ ایسا ملک جس میں صرف مسلمان رہتے ہیں وہاں ایسی مقدس جگہیں اگر محفوظ نہیں تو اس سے بڑھ کر حیرت اور افسو س کا اور کیا مقام ہو سکتا ۔کیا اب بھی یہ کہنے کو باقی ہے کہ دہشت گرد وں کا کوئی مذہب ہے ۔ کیا اب بھی پاکستان کی حکومتیں ایسے دہشت گردوں کی مدد کرتی رہے گی جس نے ملک کی سلامتی کو تارتار کردیا ہے اور جس نے پوری دنیامیں اسلام کے نام لینے والوں کو شرمسار کیا ہے ۔
اس حملے کے بعد پاکستان میں غم وغصے کی ایک لہر دوڑ گئی ہے لوگ حکومت کی ناکامیوں کے خلاف مشتعل ہو اٹھےہیں۔ حکومت دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑنے میں ناکام ہے ۔ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کا بڑا نیٹ ورک موجود ہے جس کے خلاف وفاقی یا صوبائی حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ کراچی میں سنی اتحاد کونسل نے حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر دہشت گردوں کے حملہ کے خلاف کل ہفتہ کے روز ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کر دیا ۔ سنی اتحاد کونسل کے اجلاس کے بعد اتحاد کے رہنماؤں صاحبزادہ فضل کریم اور حاجی حنیف طیب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص طبقہ تحریر، تقریر اور لٹریچر کے ذریعے معروف بزرگان دین کے خلاف سرگرم عمل ہے اور ان کے مزارات پر حاضری دینے کو بدعت قرار دینے کے علاوہ اسے ایسا عمل قرار دے رہا ہے جس کیلئے الفاظ ادا کرنے کی زبان اجازت نہیں دیتی ۔سنی اتحاد کونسل کی ملک ہڑتال کی اپیل پر سنی تحریک اور متحدہ قومی موومنٹ نے یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے جبکہ جامعہ کراچی نے کراچی یونیورسٹی کے تحت ہونے والے امتحانات ملتوی کردیئے ہیں۔ عوام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری ، جن کے لیے ملک گیر ہڑتال اوراحتجاج ہوئے ، اب ان سے یہ مطالبہ کررہی کہا دہشت گردی کے نیٹ ورک کے پیچھے کارفرما ہاتھوں کو کٹہرے میں لانے کے لئے از خود نوٹس لیں اور جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے روحانی مرکز پر دہشت گردی کرنے والے ملزمان اور ان کو تعاون فراہم کرنے والوں کو لاہور کے بھاٹی چوک میں پھانسی دی جائے ۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے احباب نے اس موقع پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اکثریت کا کہنا ہے کہ حکومت کی ترجیحات بالکل مختلف ہیں اور انہیں عوام کی جان و مال کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ عوامی نمائیندوں کا کہنا ہے کہ اب تک کسی بھی حملہ آور کو قرار واقعی سزا نہیں ملی جسکی وجہ سے حملہ آوروں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ فوج کا یہ دعویٰ کہ شدت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ حکمران خود محفوظ قلعوں میں بند ہیں جبکہ عوام کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔انہوں نے داتا دربارلاہور میں ہونے والے خود کش دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جانی و مالی نقصان پر انتہائی دکھ اور گہرے رنج کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ معصوم شہریوں کی جانوں سے کھیلنا غیرانسانی فعل ہے۔انہوںنے شہداء کے لواحقین اور زخمیوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔عمران خان نے کہا کہ عوام آئے روز کے خود کش دھماکوں سے عاجز آ چکے ہیں حکومت اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
ایک طرف عوام کو غم و غصہ ہے تو دوسری جانب حکومت بھی پریشان ہے کہ ملک میںبڑھتی دہشت گردی کو کیسے روکا جائے ۔لیکن حکومت کی یہ فکر محض چند دنوں کے لیے ہے ۔ کچھ ہی دن کے بعد حکومت بھول جائے گی اور اپنی الجھنوں میں شکار ہوکر ملک و عوام کی فلاح و بہبود کی فکر بھی جاتی رہے گی ۔ اب تک حکومت نے سنجیدگی سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے اسی لیے آئے دن اس کی طاقت بڑھتی جارہی ہے اور حکومت ان کے آگے سر نگوں ہو رہی ہے ۔ کہنے کو حکومت نے دہشت گردوں کی کمر ٹوڑ دی ہے ۔ اگر کمر توڑ دی ہے تو اس ٹوٹے ہوئے کمر والوں کی اگریہ طاقت ہے تو اس سے بھی حکومت کو ہشیار رہنا چاہیئے اور ملک کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں مسلمانوں کو بد نام کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی جلد از جلد کاروائی کرنی چاہیے۔