Home / Socio-political / اروندکیجریوال، کانگریس، بی جے پی اور گجرات اسمبلی انتخابات

اروندکیجریوال، کانگریس، بی جے پی اور گجرات اسمبلی انتخابات

اروندکیجریوال، کانگریس، بی جے پی اور گجرات اسمبلی انتخابات
عابد انور

ہندوستان میں جب جب انتخابات ہوتے ہیں خواہ وہ اسمبلی کے ہوں یا پارلیمنٹ کے، الزامات، جوابی الزامات ، کردارکشی اور فرضی کہانیاں گڑھنے کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ ہندوستان کا بے ضمیر اور فسطائی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بننے والا میڈیا روز ’دور کی کوڑی ‘لے آتا ہے جس کا کوئی سرپیر نہیں ہوتا۔ جس ملک میں اکثریتی فرقہ کے لئے جواب دہی کا کوئی تصور نہ ہو وہاں ایسی کوڑی لانے والو کو سراہا جاتا ہے اور اس کے اتباع کرنے والوں کی تعداد بے شمار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاف ستھرے شبیہ اور اقدار کے حامل افراد سیاست کو اچھوت سمجھتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ یہاں کی سیاست اس قدر پراگندہ اور خرابیوں سے آلودہ ہوچکی ہے کہ کوئی ایماندار آدمی اس میں ٹک نہیں سکتا۔ یا تو وہ اس آلودہ سیاست کا حصہ بن جائے گا یا پھر اس سے کنارہ کشی اختیارکرلے گا۔آج کل سیاست میں وہی آرہے ہیں یا ہیں جنہوں نے سیاست کو ترقی کا زینہ بنایا ہے اور وہ اس کے سہارے اپنے اور اپنے خاندان کو بلندیوں پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں سیاست داں بننے کا آغاز بیشتر وہ افراد کرتے ہیں یا کر رہے ہیں جو لچے لفنگے تھے، گاؤں میں پہلے چھوٹی موٹی چوریاں کرتے تھے ، پنجایت کے رکن بنے اور سرکاری اناج جو غریبوں میں تقسیم کے لئے آتا ہے اس کا بندر بانٹ کیا ، پھر ٹھیکداری کرنے لگے اور پیسہ آیا تو سیاست میں کود گئے۔ بہار میں بی جے پی کے ایک ایسے ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا آغاز پہلے سائیکل چوری سے کی ، ترقی ہوئی تو موٹر سائیکل چوری کرنے لگے اور یہاں تک وہ آج ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ ایک وقت تھا جب سیاست میں منجھے ہوئے ، معاشرہ میں بے پناہ خدمات انجام دینے والے،عوا می حقوق کے لئے گالیاں برداشت کرنے والے، لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے پولیس کی لاٹھیاں کھانے والے، ٹوٹی پھوٹی چپل اور موٹے جھوٹے کھدر کے کپڑے پہننے والے اور اعلی اخلاقی معیار کے ہر سانچے میں ڈھل کر سیاست میں قدم رکھتے تھے،رکھتے نہیں تھے بلکہ انہیں عوام سیاست میں دھکیل دیتے تھے اور وہ اپنے لوگوں کی امیدوں پر کھرے اترنے کی حتی الامکان کوشش کرتے تھے۔ وہ اپنے عوام کی بھلائی کے لئے ہر لمحہ تیار رہتے تھے۔ کوئی بھی شخص ان سے کسی بھی وقت مل سکتا تھالیکن اب وقت بدل گیا ہے طریقے بدل گئے ہیں۔یہ باتیں ہندوستانی سیاست میں اب داستان پارینہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ہندوستانی سیاست سے اخلاقیات عنقا ہوتی جارہی ہے،سیاستدانوں کا زبان پر کنٹرول نہیں رہا۔ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس کا کیا مطلب نکلتا ہے۔ ذاتی حملے اور کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنا اتنا آسان ہوگیا ہے کہ اس سے سہل کوئی چیز اب نہیں رہی۔ کسی بھی پارٹی کے لیڈر اس معاملے میں دودھ کے دھلے نہیں،فرق صرف اعلی، اوسط اور ادنی کا ہے۔ سردست اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کا معاملہ ہے جس نے بدزبانی میں تمام ریکارڈوں کو ملیامیٹ کردیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار سے کیادور ہوئی تمام اخلاقی اور سیاسی قدریں بھی اس سے روٹھ گئیں ۔ یہ بات اپنی جگہ سچ ہے اس میں اخلاقی یا سیاسی قدریں تھیں ہی کہاں وہ صرف میڈیا کے سہارے ڈیفرنس پارٹی کا دعوی کرتی تھی۔ بی جے پی اروند کیجریوال کے سہارے اپنی سیاسی نیا پار لگانے کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔ پہلے ٹیم انا کی شکل میں بی جے پی کو کانگریس کو شکست دینے کے لئے ایک دھار دار ہتھیار ملا تھا لیکن ٹیم انا جس طرح سیاسی پارٹی بنانے کے نام پر بکھر گئی اس سے بی جے پی امیدیں بھی خاک میں ملتی نظر آئیں۔ اس کے بعد کیجریوال نے اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو جہاں دہلی میں کانگریسی خوش ہوئے کہ ۲۰۱۳ میں دہلی اسمبلی کے الیکشن میں اروند کیجریوال کے کودنے سے اسے فائد ہ ہوگا بی جے پی کو محسوس ہوا کہ یہ تو اسی کے گھر میں سیندھ لگانے کی تیاری کررہا ہے۔ اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ٹیم انا کے نشو و نما میں بی جے پی نے خون پسینہ بہایا تھا اور یہ سوچ کر بہایا تھا کہ ۲۰۱۴ کے عام انتخابات میں اسے زبردست فائدہ پہونچے گا۔ لیکن جیسے ہی ٹیم کے رکن اروند کیجریوال نے ایک نئی پارٹی کا بنانے کا اعلان کیا اسے پریشانی ہونے لگی۔ بی جے پی حسب عادت تمام سیاسی اقدار کو روندتے ہوئے وہ ذاتیات ، شخصیات اورذاتی حملے کرنے میں جٹ گئی۔ اس کا اروند کیجریوال نے خوب ساتھ دیا۔ ان کا حملہ بدعنوانی پر کم ذاتی نوعیت کا زیادہ رہا ہے۔ وہ کسی بھی موضوع کو سنجیدگی کے ساتھ اٹھانے اور اس پر مکمل کام کرنے کے حق میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ پارٹی بنانے کا اعلان کرتے ہی انہوں نے قومی راجدھانی میں بجلی کا معاملہ اٹھایا اور بجلی کمپنیوں کی من مانی سے عوام کو نجات دلانے کا وعدہ بھی کیا اور کٹے ہوئے بجلی کنکشن کو جوڑ بھی دیا لیکن ایک سیاست داں کی طرح پھر اس موضوع کو پست پشت ڈالتے ہوئے آگے بڑھ گئے یہ الگ بات ہے کہ کٹی ہوئی بجلی کی لائن جوڑنے کی پاداش میں اس شخص پر مقدمہ درج ہوچکا ہے جس کی بجلی کی کٹی ہوئی لائن جوڑی گئی ہے۔ اس کا اب کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوانی آج ہندوستانی سماج میں اس طرح دوڑ رہی ہے جس طرح انسان کے جسم میں خون۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق ۷۵ فیصد ہندوستانی بدعنوانی میں ملوث ہیں خوہ وہ دیتے ہوں یا لیتے ہوں۔ اروند کیجریوال نے صرف کانگریسیوں کو بدعنوانی کے دائرے میں کیوں سمیٹ رکھا ہے؟۔ کیا گجرات میں بدعنوانی نہیں ہے، مدھیہ پردیش میں جہاں بدعنوانی کا بول بالا ہے جہاں ایک کلرک کے پاس کروڑوں کی جائدادیں ملتی ہیں، چھتیس گڑھ، بہار، کرناٹک جہاں کے ریڈی برادان جیل میں ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ معاملے میں جہاں کانگریسیوں کا دامن کالا ہے وہیں بی جے پی لیڈران بھی اس سے اچھوت نہیں ہے تو یہ الزام لگنا فطری تھا کہ اروند کیجریوال بی جے پی کے اشارے پر کام کر رہے ہیں کیوں کہ اروند کیجریوال نے بدعنوانی کے جتنے بھی معاملات اٹھائے ہیں وہ ان میں کانگریسی یا اس کی حکومت میں شامل حلیف پارٹیاں شامل ہیں۔ بی جے پی کے کسی لیڈر یہاں تک کے ریڈی برادران تک کو شامل نہیں کیاگیا۔ بدعنوانی اور کرپشن کا سیاست دانوں سے چولی دامن کا رشتہ رہاہے۔ ایسا سسٹم ہے جہاں اس کے بغیر مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔ اس میں اس وقت شدت اس لئے آئی ہے کیوں کہ گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی کے انتخابات اگلے دو ماہ میں ہونے والے ہیں۔ جہاں بی جے پی اپنی حکومت بچانا چاہتی ہے وہیں کانگریس اس سے اقتدار چھیننا چاہتی ہے۔ گجرات کا انتخاب خاص طور پر موضوع بحث ہے کیوں کہ اگر گجرات میں بی جے پی کامیاب ہوتی ہے تو یہ مودی ہیٹ ٹرک ہوگی۔ گجرات کے عام لوگوں کی رائے کے بارے میں پھر ایک بار بحث چھڑ سکتی ہے کیوں کہ مودی فاشزم کیلئے پوری دنیا میں بدنام ہیں یہی وجہ ہے کہ کئی ملک میں ان کے داخلے پر پابندی ہے۔ گجرات قتل عام کا انہیں ذمہ دار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اروند کیجریوال کی اس مہم کو گجرات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے نظریے سے بھی دیکھا جارہا ہے۔
گجرات انتخابات کے اعلان ہوتے ہی جس طرح ذاتی نوعیت کا حملہ شروع ہوا وہ نہ صرف ہندوستانی سیاست کا شرمناک پہلوہے بلکہ ہندوستانی عوام کویہ سوچنا چاہئے کہ ایسے لیڈروں اور رہنماؤں کے لئے ہندوستانی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے جس طرح عوام کو مشتعل کرنے ،سونیا گاندھی کو بدعنوانی میں ملوث اور سرکاری خزانہ لوٹنے والی قرار دینے کے لئے بے سر پیر کے الزامات لگانا شروع کئے اس سے بی جے پی لیڈروں کے دماغی دیوالیہ پن ظاہر ہوتا ہے۔ نریندر مودی نے عوامی جلسہ میں کہا تھا کہ سونیا گاندھی نے اپنے علاج پر ۸۸۸ کروڑ روپے سرکاری خزانہ سے خرچ کیا ہے اور اپنی باتِ ثابت کرنے کیلئے ایک آرٹی آئی کارکن اور اس کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا جس کی تردید اگلے ہی دن آگئی تھی اور آرٹی آئی کارکن نے وضاحت کردی کہ ایسی کوئی خبر نہیں ہے اور نہ ہی اس نے اس ضمن میں کبھی کسی میڈیا سے بات کی ہے۔ حالانکہ مودی نے کہا تھا کہ اگر ان کی بات جھوٹی نکلی تو عوامی طور پر معافی مانگیں گے لیکن انہوں نے کوئی معافی نہیں مانگی۔ ایسا نہیں ہے کہ مودی نے پہلی بار اس طرح بدزبانی کی ہو اس سے پہلے الیکشن کے دوران گاندھی خاندان کے افراد کے خلاف غیر سائشتہ الفاظ کئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف نتن گڈکری یا مودی نے ہی اس طرح کا بیان دیا ہے۔ بی جے پی کے رہنماؤں کو مسلم مخالف مسلم دل آزاری والا بیان دینے میں مہارت حاصل ہے۔ کچھ سالوں قبل سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے سینئر رہنما اٹل بہاری واجپئی وارانسی کے ایک جلسہ عام میںیہ کہہ چکے ہیں کہ بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔اسی طرح بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کے بیانات جگ ظاہر ہیں۔گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے کانگریس کی صدر محترمہ سونیا اور ان کے بیٹے اورکانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی کے بارے میں نازیبان الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں یہاں کوئی مکان کرایہ پر بھی نہیں دے گااور راہل گاندھی کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا تھاکہ انہیں یہاں کوئی ڈرائیور بھی رکھنا پسند نہیں کرے گا۔ سنت کبیر نگر کے خلیل آباد کے چوراہے پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی ممبر پارلیمنٹ اور فائر برانڈ لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ واضح لفظوں میں کہا تھا کہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لینا چاہئے۔ورون گاندھی اور بی جے پی کی زہریلی سی ڈی لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہوا ہوگا۔ جس کی پاداش میں ورون گاندھی کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی۔
اس وقت اروند کیجریوال اور کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا دور عروج پر ہے۔ جہاں اروند کیجریوال طر ح طرح کے الزامات لگا رہے ہیں وہیں دگ وجے سنگھ جہاں ان پر بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم ہونے کا الزام لگارہے ہیں وہیں ان کی نوکری، این جی او اور دیگر چیزوں پر سوالات اٹھارہے ہیں۔ دگ وجے سنگھ نے خط میں کیجریوال کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں ہٹلر کی جھلک نظر آتی ہے۔ اپنے سوالوں میں کیجریوال سے پوچھا ہے کہ اپنی 20 سال کی نوکری میں ان کا تبادلہ دہلی کے باہر کیوں نہیں ہوا؟ یہی سوال ان کی بیوی کے بارے میں پوچھا گیا ہے کہ ان کا بھی تبادلہ دلی سے باہر کیوں نہیں ہوا؟ کیا انہوں نے اپنے غیر سرکاری تنظیم کو شروع کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت لی تھی اور کیا ان کی تنظیم میں غیر ملکی پیسہ لگا ہے؟۔اس کے علاوہ دگ وجے سنگھ نے سونیا گاندھی کے صدارت والی نیشنل ایڈوائزری کونسل میں شامل ہونے کے لئے ان سے رابطہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں اروند کیجریوال کے دیگر احباب نے یہ کہکر جواب دینے سے انکار کردیا کہ یہ سوال جواب دینے کے لائق نہیں ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر اروند کیجریوال اور ان کے ساتھیوں کو کسی پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر وہ ہندوستانی سیاست میں کودنا چاہتے ہیں تو تیز و تند اور گرما گرم سوال و جواب کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا۔ قانون توڑنے اور چوراہے پر ہنگامہ کرنے سے کوئی لیڈر نہیں بنتا۔ بنتا ہے تو وہ صرف راج ٹھاکرے یا اس قبیل کے دوسرے لیڈر۔
نتن گڈکری کے بارے میں اروند کیجریوال نے جو الزامات لگائے وہ کس حد صحیح ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس واقعہ نے بی جے پی کی بولتی بند کردی ہے ۔ اروند کیجریوال کے تمام بیانوں اور الزاموں کو بی جے پی گیتا کی طرح مقدس تسلیم کرتی رہی ہے لیکن جیسے ہی نتن گڈکری پر الزام لگایا ہے اسے چھوٹا قرار دینے میں ایک منٹ کا وقت نہیں لگایا۔ اب بی جے پی کو بدعنوانی کے بارے میں بولنے کا کوئی حق نہیں رہ گیا ہے کیوں کہ جب اس کے قومی صدر ہی اس میں ملوث ہیں تو دوسروں کا کیا کہنا۔ نتن گڈکری بدعنوانی کے معاملے میں بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے یہاں تک انہوں نے نہ کانگریسی لیڈروں بلکہ گاندھی خاندان پر راست ذاتی نوعیت کے حملے کئے اور بیان بازی میں کسی تہذیب کی پاسداری نہیں کی۔ اروند کیجریوال کے الزامات کی تصدیق بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ رام جیٹھ ملانی نے بھی کردی ہے اور کہا ہے کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں اس پر اب بی جے پی کیا قدم اٹھائے گی؟۔ماضی میں دئے گئے بیانات بھی شاہد ہیں کہ وہ سیاسی اقدار میں کہیں نہیں قیام کرتے۔ بدزبانی، بدتمیزی، بدخلقی، دل آزادی اور نسلی امتیاز کے حق میں بیان دینے کی سزا ن لیڈران کونہیں ملتی اور کبھی یہ اپنی سزا کے منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔یہی وجہ ہے کہ یہ رہنما خود کو قانون سے بالاتر گردانتے ہیں۔جو دل میںآتا ہے بولتے ہیں جو من کرتا ہے کرتے چلے جاتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑے گابلکہ سیاست میں اس کا قد اونچا ہی ہوگا ۔ بی جے پی میں درجنوں ایسے لیڈر ہیں جو اشتعال انگیزی کے سہارے ہی اپنی لیڈری چمکا رہے ہیں نہ ہندوستان کا قانون اور نہ ہی الیکشن کمیشن اس کا کچھ بگاڑ سکا۔جس دن ایسے لیڈروں کو سزاملنی شروع ہوجائے گی اسی دن سیاست میں غیر شائشتہ بیان بازی کا دروازہ اپنے آپ بند ہوجائے گا۔ معاملہ اس وقت صرف گجرات انتخابات کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے مستقبل کا ہے۔ گجرات انتخابات یہ طے کرے گا کہ ہندوستان سیکولر رہے گا یا فاسشٹ طاقتوں کا گہوارہ بنے گا۔ کیوں کہ ۲۰۱۴ میں بی جے پی کی طرف سے نریندر مودی کو بطور اعظم امیدوار اتارنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ گجرات کے عوام کو کرنا ہے گجرات پر لگے فاشزم کے داغ کودھونے میں وہ کس حدتک کوشش کرتے ہیں اور گجرات کو بدنام ہونے سے بچانے کے لئے کس پارٹی کا انتخاب کرتے ہیں۔ معاملہ صرف مودی کا نہیں بلکہ گجرات کی عزت و وقار کا ہے۔تاریخ بار بارموقع نہیں دیتی۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *