Home / Literary Articles / جاپان کا یادگار سفر

جاپان کا یادگار سفر

ڈاکٹر خواجہ اکرام

27 مئی کی شام جب ہم جاپان کے لیے روانہ ہوئے تو ذہن میں کئی طرح کے سوالات تھے ۔ پہلے تویہ بات بار بار ذہن میں آرہی تھی کہ جاپان بر صغیر کے مقابلے تہذیبی اعتبار سے کئی معنوں میں مختلف ہے ، ان کے کھانے پینے اور طرز زندگی سب کچھ ہم سے مختلف ہے ۔ ہمارے وہ دوست جو اکثر جاپان آتے جاتے رہتے ہیں ، ان سے یہ معلوم ہو ا تھا کہ جاپان کی تہذیب یہ ہے کہ وہ آپ سے جس قدر بھی قریب ہوں اور جتنا بھی گہرا رشتہ ہو ، وہ کبھی اپنے گھر پر مدعو نہیں کرتے ۔اولاٍ￿وہ ان قدروں کے حامل نہیں ہیں اسی لیے وہ ملنے ملانے میں وقت صرف نہیں کرتے ،فون پر گفتگو اور خیریت مل جانا ان کے لیے کافی ہے۔وہ جب بھی کسی دوست یا مہمان کی ضیافت کرنا چاہتے ہیں تو وہ کسی ریسٹورینٹ میں چائے پر ملاقات کرتے ہیں جو ان کے لیے بڑی بات ہے ۔ ان کی معاشرتی زندگی کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے بھی ملنے جلنے کا سلسلہ نہیں رکھتے یہاں تک کہ کسی کی موت یا شادی بیاہ میں جب اپنے رشتہ داروں کے یہاں شرکت کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ ان کے گھروں میں رکنے کے بجائے قریبی ہوٹل میں قیام کرتے ہیں اور تقریب میں شرکت کرتے ہیں جوظاہر ہے کسی ہوٹل میں یا ہال میں ہوتی ہے ۔ لیکن موت کے معاملے میں وہ سیدھے اس مقررہ جگہ پر جاتے ہیں جہاں میت کو نذر آتش کیا جانا ہوتا ہے ۔ اسی لیے موت کی خبر دیتے وقت رشتہ داروں کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کہاں اور کتنے بجے آخری رسومات ادا ہونی ہے۔خوشی کے موقعوں پر اپنے انتہائی قریبی رشتہ داروں کو ہی پوچھا جاتا ہے ۔ ہماری طرح پورے محلے اور پڑوسیوں کو نہیں پوچھتے ۔ خیر یہ ان کی طر ز زندگی ہے جو ان کی معاشرتی زندگی کی قدریں ہیں ۔ اگر ہم انھیں مشرقی طرز کی عینک سے دیکھیں گے تو مایوسی ہوگی ۔ان کی زندگی اور بھی بہت سے پہلو ایسے ہیں جو ہمارے لیے بالکل نئے ہیں ، جن کا تذکرہ آنے والے سطور میں کیا جائے گا۔
جناب ناصر ناکاگاوا ، چیف ایڈیٹر اردو نیٹ کی دعوت پرہم جاپان کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ اردو نیٹ آئن لائن نیوز پیپر اور جاپان میں مقیم پاکستانیوں کا بہت ہی اعلیٰ پائے کا ترجمان ہے ۔ یہ ترجمان گذشتہ دو برسوں سے نیٹ پر شائع ہو رہا ہے ۔حیرت اس بات کی ہے کہ ان دو برسوں میں اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ یہ تقریبا￿ پچاس ممالک میں پڑھا جاتا ہے اور جاپان میں اس کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ ہر شخص اگر چہ مصروف ترین زندگی گزار رہا ہے لیکن ہر صبح وہ نئی تحریروں کا انتظار کرتا ہے اور لوگ اس پر تبصرہ کرتے ہیں ، فون پر اپنے احباب کو بتاتے ہیں کہ آج کیا خاص بات نیٹ پر موجود ہے۔میں تقریبا￿ ڈیڑھ برس سے اس اخبار کو پابندی سے پڑھتا ہوں اور اس کے لیے اپنے کالم بھیجتا ہوں ۔اب تک میرے بے شمار کالم اس اخبار میں شائع ہو چکے ہیں ۔ اسی تحریری لین دین کے حوالے سے ناصر ناکاگاوا صاحب سے ہماری فون پر ملاقات رہی ۔ فروری دو ہزرگیارہ میں انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی اردو نیٹ جاپان اپنی دوسری سالگرہ کی تقریب منانے جارہاہے اور ہماری خواہش یہ ہے کہ اس تقریب میں آپ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوں ۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد ان کا یہ میل بھی آیا کہ ادراہ ارونیٹ ، جاپان نے آپ کو 2010 کے بہترین لکھاریوں میں شامل کیا ہے اور آپ کو جیوری ممبرس نے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے۔ان کی پُر خلوص دعوت اور بار بار فون کو میں نظر انداز نہ کرسکا اور جاپان جانے کا پروگرام بنا لیا ۔اتفاق یہ ہے کہ اس پروگرام کو28 مارچ کو ہونا تھا اس لیے ہم نے ویزا کے لیے پہلے ہی اپلائی کر دیا لیکن ￿￿ مارچ کو جس دن ہمیں ویزا ملا اسی دن وہاں سونامی کی تباہی آئی ۔ لہذا ہمارا پروگرام ملتوی ہوگیا ۔اور یہ پرگرام 28 مئی کو منعقد ہوا۔
JPN2

JPN45

JPN49

jpn75

jpn163

jpn193
28 مئی کی صبح ہم ٹوکیو کے نریتا ائیر پورٹ پہنچے ۔ بھائی ناصر نے ہمیں دہلی سے روانگی کے وقت ہی بتا دیا تھا کہ جناب اصغر حسین صاحب جو جاپان میں غیر مقیم پاکستانیوں میں انتہائی معزز اور محترم شخصیت کے مالک ہیں وہ آپ کے استقبال کے لیے ہوں گے ۔انھوں نے ان کا فون نمبر بھی ہمیں دیا ۔ میں نے دہلی سے ہی ان سے بات کی کہ آپ زحمت نہ کریں لیکن ان کی خواہش تھی کہ دہلی سے آنے والے مہمانوں کا ہم استقبال کریں ۔ ہماری فلائٹ موسم کی خرابی کی وجہ سے ایک گھنٹے لیٹ ہوچکی تھی اور اصغر صاحب وقت سے پہلے ہی وہاں موجود تھے ۔جیسے ہی ہم باہر نکلے ان کو میں نے اس لیے پہچان لیا کہ اردو نیٹ جاپان میں ان کی تحریریں پڑھی تھیں اور ان کی تصویر یں بھی دیکھی تھی۔ اصغر صاحب ہم سے اس طرح گلے ملے جیسے صدیوں کی ملاقات رہی ہو۔ان کا والہانہ انداز دیکھ کر ہم بہت خوش ہوئے اور وہیں سے اجنبیت کااحساس ختم ہونے لگا۔ جب ہم پارکنگ میں پہنچے تو وہاں پرفیسر منجو شری چوہان سے ملاقات ہوئی ، وہ ہمیں دیکھ کر اور ہم ان کودیکھ کر حیرت وخوشی میں ڈوب گئے ۔ پرفیسر منجو شری جے این یو میں جاپانی زبان کی استاذ ہیں اور ہمارے پڑوس میں رہتی ہیں ۔ ان کے جاپان آنے کی وجہ تو ہمیں معلوم تھی کہ وہ اکثر یہاں آتی جاتی رہتی ہیں کیونکہ وہ یہاں کی زبان اور تہذیب سے جڑی ہیں ۔ لیکن جب ہم نے اپنی آمد کی وجہ بتائی تو وہ اپنی حیرت کو چھپا نہیں سکیں کہ جاپان میں بھی اردو کی بستی ہے اور اتنی مقبول ہے ۔ ان سے ملاقات کے بعد ہم اصغر صاحب کی شاندار گاڑی میں بیٹھ کر ٹوکیو کے لیے روانہ ہوئے ۔ موسم بہت خوشگوار تھا ۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی اور ہوا میں خنکی تھی۔ ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی جس شاہراہ پر ہماری گاڑی دوڑ رہی تھی اس کی خوبصورتی ہمارے جاذب نظر تھی کیونکہ جس طرح کی ہریالی تھی وہ ہم نے اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھی تھی۔ سڑکیں کشادہ اور ہر جانب بہت ہی سلیقے سے لگائے گئے درخت تیز ہواؤں کے ساتھ جھوم جھوم کر گویا ہمیں دعوت نظارہ دے رہے تھے ۔سڑکیں اتنی صاف ستھری تھیں کہ کہیں بھی بغیر بستر بچھائے آرام کیا جاسکتا ہے۔ اصغرصاحب نے بتایا کہ ایک ایک درخت اور پھول کے پودے سب کے سب کمپیوٹرائزڈ ہیں ۔ بلدیہ کے پاس ہر ایک کا ریکارڈ موجود ہے اس لیے اگر کبھی تیز ہواؤں میں کوئی درخت سڑک پر گر گیا تو اسے ہٹانے میں کوئی تاخیر نہیں ہوتی۔نریتا سے ٹوکیو شہر کی دوری ایک گھنٹے کی ڈرائیو تھی ۔ ہم ان خوشنما مناظر کو دیکھتے ہوئے ٹوکیو شہر کے وسط میں واقع اَپا ہوٹل پہنچ گئے ۔ اس وقت جاپان میں دن کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے اور ہندستان میں صبح کے آٹھ بجے تھے ۔ چونکہ ہم دہلی سے شام کے سات بجے نکلے تھے اور نو بجے رات ہماری فلائٹ پرواز بھر چکی تھی ۔لہذا پوری رات ہم سفر میں رہے ۔آنکھوں میں نیند اتری ہوئی تھی۔ سوچا کچھ دیر ہوٹل میں آرام کر لیں گے اس کے بعد شام کے فنکشن میں شریک ہوں گے ۔ لیکن ہوٹل کے ریسیپشنسٹ نے بتایا کہ ہم تین بجے سے پہلے چیک اِن نہیں کرسکتے ۔ وہاں ہوٹلوں میں گیارہ بجے چیک آؤٹ کا ٹائم ہوتا ہے اس لیے شام کو تین بجے کے بعد سے ہی نئے مہمانوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔لہذا ہم نے سامان وہیں کاؤنٹر پر رکھا اور اصغر صاحب نے یہ کہا کہ ہم شہر کے کسی ریسٹورینٹ میں کھانا کھائیں گے اور واپس آئیں گے ۔ لیکن ہوٹل سے باہر نکلتے ہی ان کا ارادہ بدل گیا انھوں نے ہمیں بتایا کہ ہوٹل کے سامنے سڑک کی دوسری جانب جو شانداز اپارٹمنٹ ہے اسی میں ان کا فلیٹ اور آفیس بھی ہے ۔ اس لیے ہمیں وہ اپنے آفیس لے گئے ۔ارادہ یہ تھا کہ ہم یہاں فریش ہونے کے بعد شہر کی جانب جائیں گے۔ خیر ہم ان کے ساتھ ان کی پانچویں منزل پر واقع ان کی آفیس پہنچے ۔ پہلے ہمیں یہ خیال آیا تھا کہ آفیس میں کیسے فریش ہوسکتے ہیں ۔ لیکن آفیس میں ہر طرح کا انتظام تھا ۔اور آفیس کے بالکل سامنے ہی ان کاگھر بھی تھا۔ ہمیں پہلے سے معلوم تھا کہ جاپان میں عموما چھوٹے چھوٹے گھر ہوتے ہیں ۔ بالخصوص ٹوکیو شہر میں ۔ آفیس دیکھ کر بھی اندازہوا۔ لیکن اصغر صاحب نے بتایا کہ ٹوکیو میں اتنی بڑی آفیس بھی شاید باید ہی کسی کے پاس ہوتی اور اگر کوئی کورپوریٹ ادار ہ ہو تو اور بات ہے لیکن ذاتی آفیس ہونے کے لحاظ سے یہ کافی کشادہ جگہ تھی۔ جیسے ہی ہندستانی طرز میں ہم منہ ہاتھ دھو کر بیٹھے وہ چائے اور لوازمات کے ساتھ آفیس میں داخل ہوئے ۔ یہ لوازمات بھی دوپہر کے کھانے سے زیادہ تھے۔ مجھے اندر سے یہ احسا س بھی ہو رہا تھا کہ اصغر صاحب بھی پچھلے ستائیس سال سے جاپان میں رہ رہے ہیں ، انھیں جاپانی شہریت بھی مل چکی ہے اور ان کی اہلیہ بھی جاپانی ہیں تو ان کے یہاں بھی جاپانی قدریں در آئی ہوں گی ۔ لیکن انھیں اس کے بر عکس پایا ۔بنیادی قدریں ابھی بھی ان کے اندر موجود تھیں ۔ میں ان خیالات میں غلطا ں ہی تھا کہ ان کے صاحبزادے ابراہیم مزید کھانے پینے کی چیزیں لے کر آگئے ۔ ابراہیم دیکھنے میں اور ملنے جلنے میں بالکل جاپانی نظر آئے ۔ مشکلوں سے اردو میں ہم سے بات کی اور اپنے بارے میں بتایا۔جاپان میں یہ ہماری پہلی ضیافت تھی جو ہمارے ذہن میں موجود تصورات سے بالکل بر عکس تھے ۔اس کے بعد یہ ارادہ ہو اکہ ہم تھوڑی دیر بعد کھاناکھانے باہر جائیں گے ۔ لیکن کھانے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی ۔ اس لیے بیٹھے گفتگو کرنے لگے ۔ لیکن ہم اپنی نیند نہیں چھپا سکے تو انھوں نے اسی آفیس میں ہمارے سونے کا انتظام کردیا ۔ہم بہت تھکے ہوئے تھے اس لیے فورا￿ ہی سو گئے ۔دو گھنٹے بعد جاپان میں پاکستانی طرز کی چائے پی اور ہوٹل منتقل ہوگئے ۔
شام چھ بجے اصغر صاحب ہوٹل آئے اور ہم ان کے ساتھ سائتاما پری فیکچر کو روانہ ہوئے جہاں اردو نیٹ کی یہ تقریب ہونی تھی۔جاپان میں جیسا کہ پہلے عرض کیا کوئی بھی کسی کو اتنا وقت نہیں دیتا اور نہ ہی یہ رواج ہے کہ کوئی آپ کو اپنی گاڑی میں گھمائے ، یہاں تک کہ جاپان میں مقیم ہندستانی اور پاکستانی بھی اسی رنگ میں رنگ چکے ہیں ۔ لیکن یہ اصغر صاحب کی مہمان نوازی تھی کہ جب تک ہم جاپان میں رہے وہ ہمارے ساتھ صبح سے شام تک رہے اور انھیں کی بدولت بہت کم وقت میں زیادہ سے زیادہ جاپان شہر کی ترقیات اور تہذیب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔سائتاماکے جے یو ہال میں جب ہم پہنچے تو ناصر صاحب نے بڑا پر تپاک خیر مقدم کیا۔ان سے مل کر یہ نہیں لگا کہ ہم پہلی دفعہ ان سے مل رہے ہیں یا ان کو دیکھ رہے ہیں ۔کچھ ہی دیر میں پروگرام شروع ہوا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پورا ہال کچھاکچھ بھرا تھا ۔جن کوہال میں کھڑے رہنے کی جگہ نہیں ملی وہ باہر ہی کھڑے رہے ۔ بہت دوردور سے لوگ شرکت کے لیے یہاں آئے تھے۔کچھ لوگ تو چار سو پانچ کیلو میٹر کی دوری بھی طے کر کے آئے تھے۔ یہاں موجود سب کے سب پاکستانی حضرات تھے ۔جو مختلف بزنس سے جڑے ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تر وہ حضرات تھے جو گاڑیوں کے بزنس سے وابستہ تھے ۔ انھیں دیکھ کر یہ انداز ہ ہوا کہ یہ لوگ آپس میں بہت متحد ہیں اور ان کو آپس میں جوڑنے کا کام اردو نیٹ جاپان بھی انجام دے رہا ہے۔ کئی معمر اور بزرگ شخصیات بھی اس پروگرام میں موجود تھیں ۔ان کے اندر بھائی چارگی اور جو دینی جذبہ دیکھا وہ قابل رشک تھا۔ ان تمام حضرات نے کھلے دل سے ہمارا ستقبال کیا ۔ ہر شخص نے یہ کوشش کہ معانقہ اور مصافحہ ضرور کریں ۔ اس پروگرام میں پاکستان شو بز کی مشہور شخصیت جناب تنویر جمال صاحب اور پاکستان ایمبیسی کے ڈپٹی چیف آف مشن جناب امتیاز صاحب اور کئی اہم شخصیات نے شرکت کی ۔اس تقریب میں چار اہم شخصیات کو ایوارڈ سے نوازا گیا ، جناب رفاقت شاہ کے ہاتھوں یہ مجھے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا اور اعزازی سند چیف ایڈیٹر اردو نیٹ جاپان نے دی۔ تقریب کے اختتام پر شاندار عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔کراچی طرز کی بریانی کا احباب نے خوب لطف اٹھایا۔
دوسرے دن ہمیں جیو نیوز، اخبار جہان اور جنگ کے سنئیر صحافی عرفان صدیقی نے سائتاما پر فیکچر کے شہر یاشیوکے مشہور کراچی ریسٹورنٹ میں ظہرانے پر مدعو کیا تھاجس میں پاکستان کے مشہور فلم ساز تنویر جما ل کے علاوہ چیف ایڈیٹر اردو نیٹ جاپان، سینئر پاکستانی نژاد جاپانی اصغر حسین ،نشی ٹریڈنگ اور وہاں مقیم نامور ہستیوں نے شرکت کی ۔ یہاں ہم دیر تک ہند و پاک کے رشتے ، ہندو پاک کی فلمیں اور صحافتی رویے پر بات چیت کرتے رہے ۔اس کے بعد الکرم ریسٹورینٹ میں لذیز چائے پینے کے بعد رخصت ہوئے ۔ رات کو جاپان میں مقیم انتہائی سینئر حضرات اور اعلیٰ تعلیمِ یافتہ طبقے نے ہمارے اعزاز میں ٹوکیو کے کراچی ریستوران میں عشائیہ کا اہتمام کیا تھا ۔ ٹوکیو کے معروف علاقے شِنجوُکو میں واقع یہ وہی مشہور کراچی ریستوران ہے۔جہاں سینئر پاکستانی حضرات ہر جمعہ کے روز اپنی دینی و درسی نشست کا اہتمام کرتے ہیں ۔عشائیہ میں اسلامک سینٹر جاپان کے سابق ڈائریکٹر اور ٹوکیو کی چووؤ یونیورسٹی میں عربی کے لیکچرار حافظ سلیم الرحمٰن خان ندوی، بین الاقوامی شہرتِ یافتہ اور اسلامک اسکالر حسین خان، جاپان میں اردو کے معروف ادیب و شاعر محمد مشتاق قریشی، سینئر پاکستانی سائینسدان ڈاکٹر سید مطلوب علی، سینئر پاکستانی نژاد جاپانی شہری اور نِشی ٹریڈنگ کے صدر اصغر حسین ، ٹوکیو یونیورسٹی مطالعاتِ خارجی میں شعبہ ٔ اردو کے پروفیسر عامر علی خان نے شرکت کی، اردونیٹ جاپان کے چیف ایڈیٹر ناصر ناکاگاوا اور شاہد رحمان بھی موجود تھے۔
جاپان میں مقیم پاکستانی حضرات کے خلوص اور بھائی چارگی کو میں سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے ہر طرح سے ہماری دلجوئی کا خیال رکھا ۔ اکثر ہمیں شرمندگی کا احساس بھی ہوا کہ ہم چھوٹے لوگوں کو اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے اور اس قدر عزت افزائی کی جارہی ہے۔ جاپان میں مسلمانوں کی کئی تنظیمیں ہیں ۔تعلیمی ، اصلاحی اور سیاسی ۔ تمام تنظیموں نے ہماری دعوت کرنی چاہی مگر ہمارے پاس وقت کم تھا ۔اگر ان تمام دعوتوں کو منظور کرتا تو ہمیں وہاں ایک مہنے سے بھی زیادہ رہنا پڑتا۔ اس لیے میں نے ناصر صاحب اور اصغر صاحب کے حوالے یہ کام چھوڑ دیا کہ وہ جہاں چاہیں ہمیں لے جائیں ۔ہم ان تمام میزبانوں سے معذرت کا اظہار بھی کرتے ہیں جن کی دعوت قبول نہیں کرسکا۔30 جون کو ہم مہناج القرآن انٹرنیشنل ، کی دعوت پر ایبارا پری فیکچر کے باندو شہر پہنچے ۔جہاں زیر تعمیر مسجد میں نماز عشا ادا کی اور ناظم اعلیٰ محمد انعام الحق، صدر محمد سلیم خان ، حضرت حسین ، حنیف مغل کی ضیافت سے سرفراز ہوئے۔جاپان سفر کی آخری شام کو پاکستان ایسوسی ایشن ، جاپان نے کھانا گاوا پریفیکچر کے مشہور شہر کاواساکی میں ہندستانی ریسٹورنٹ میں عشائیہ کا اہتمام کیا۔ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری الطاف غفارکے علاوہ کئی معزز ہستیوں سے ملنے کا موقع ملا۔اس طرح ہمیں بالکل ایسا نہیں لگا کہ ہم ہندستان سے دور کسی اجنبی شہر میں میں ہیں ۔ جاپانی کھانوں سے پہلے سے ڈرا ہوا تھا اس لیے ہم نے کچھ کھانے کی چیزیں بھی ساتھ رکھ لی تھیں جو اسی طرح واپس لے کر آیا۔
اس سفر میں جو سب سے اچھی چیز ہمیں لگی وہ یہ کہ اپنے ملک سے دور پاکستانی احباب جو بڑی تعداد میں جاپانی شہریت حاصل کر چکے ہیں وہ اسلام اور اسلامی تہذیب سے بڑی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں ۔جاپان میں آج کی تاریخ میں ایک سو مسجدیں اور ساٹھ مصلے موجود ہیں ۔ ان تمام مسجدوں میں نمازی بھی موجود ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اسلام کے حوالے سے ہی آپس میں اتنے متحد ہیں ۔ معلوم یہ ہواکہ 80 کی دہائی سے پہلے ایک دو مسجدیں تھیں ۔ جاپان میں سب سے پہلے ترکو ں نے1936 میں ایک مسجد بنائی تھی ۔جو کچھ دنوں بعد عمارت کے کمزور ہونے کے سبب حکومت کی جانب سے بند کر دی گئی تھی ۔اس کے بعد پھر پاکستانی حضرات نے کوشش کر کے کئی زمینیں حاصل کیں اور مسجدوں کی تعمیر کی ۔ پرانی مسجد کی جگہ ٹوکیو شہر میں ٹوکیو جامع مسجد ترکی طرز تعمیر کی شاندار مسجد ہے ۔ اس عمارت کی زیب و زینت کے سبب جاپانی لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں کیونکہ اس طرز کی عمارتیں جاپان میں کہیں موجود نہیں ہیں ۔جس وقت ہم اس کی زیارت کو گئے وہ ظہر کا وقت تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد دیکھا کہ تقریبا￿ بیس پچیس خواتین کاگروپ مسجد میں داخل ہوا۔ یہ بڑی حیرت سے مسجد کے نقش ونگار کو دیکھ رہی تھیں ۔ اور اسلام کے بارے میں سوالات کر رہی تھیں ۔ اصغر صاحب ہمارے ساتھ تھے جنھوں نے جاپانی زبان میں ان کو اسلام اور مسجد کے بارے میں بتایا اور وہ بڑے غور سے اس کو نہ صرف سنتی رہیں بلکہ کئی سوالات بھی کیے ۔ بعد میں اصغر صاحب نے بتایا کہ اس طرح کے گروپ یہاں مسجد دیکھنے آتے رہتے ہیں ، ان میں کئی لوگ اسلامی سینٹر بھی جاتے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ مسلمان بھی ہورہے ہیں۔ ہم یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں ایک خاتون مسجد میں داخل ہوئیں ۔ پہلے تو یہ خیال آیا کہ وہ کوئی پاکستانی یا ترکی خاتون ہوں گی ۔کیونکہ وہ حجاب میں تھیں ۔ لیکن جب ان سے ہماری ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ اسلام قبول کرنے کے عمل سے گزر رہی ہیں ۔
جاپان میں اس وقت تقریبا￿ پندرہ ہزار پاکستانی ہیں جن کو جاپان کی شہریت ملی ہوئی ہے ۔ ان میں سے 90 فیصد یا اس سے بھی زیادہ لوگوں نے جاپانی خواتین سے شادیاں کی ہیں اور انھیں مشرف بہ اسلام کیا ہے۔ان کے بچے جاپانی طرز زندگی کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذب کو بھی اپنا رہے ہیں ۔انھوں نے اس مقصد کے لیے اسلامی سینٹر کا قیام بھی کیا ہے اور کئی مسجدوں میں بھی اسلامی تعلیم کا اہتمام کر رکھا ہے۔ دنیا کے مہنگے شہروں میں جاپان اور انگلینڈ کا نام آتا ہے ۔یہاں زمینیں جتنی مہنگی ہوتی ہیں اس سے زیادہ عمارت کی تعمیر پر خرچ آتا ہے ۔ کیونکہ جاپان میں زلزلے سے بچنے کے لیے جس طرح کی عمارتیں بنائی جاتی ہیں وہ قابل دید ہیں ۔ ظاہر ہے مسجد بھی انھیں اصولوں کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی ہیں۔معلوم یہ ہوا کہ کئی صاحبان ایسے ہیں جنھوں نے تنہا اپنے پیسوں سے زمین بھی خریدی اور مسجد بھی بنائی ۔خدا کا شکر ہے کہ یہ حضرات بڑے متمول ہیں ۔اللہ ان کی روزی میں اور برکت عطا فرمائے ۔
جاپانی لوگوں کی کئی ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری قوموں میں نہیں ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ کچھ اچھی خصوصیات ان کے اندر بھی در آئی ہیں۔جاپانی قوم صبر و تحمل کی حامل ہیں ۔ ان کے اندر ایمانداری بھی ایسی پائی جاتی ہے جسے دیکھ کر اور سن کر ہمیں رشک آیا ۔ اصغر صاحب نے ہمیں بتایا کہ ہم آپ کو جاپان کی ایک ایسی چیز دیکھانے لے جارہے ہیں جسے دیکھ کر آپ کو حیرت ہوگی۔ ہم ان کے ساتھ شہر کے بیرونی علاقوں میں گئے ۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں ہر عمر کے لوگ کام کرتے ہیں ،یہاں نوکر چاکر کا تصور نہیں ہے ۔ سارا کام لوگ خود کرتے ہیں ۔بڑے بڑے لوگوں کے پاس بھی ڈرائیور نہیں ہوتے ۔بڑی بڑی کمپنیوں میں بھی چپراسی اور پیون نہیں ہوتے ۔ اگر کمپنی کے مالک یا مینیجر کو پہچاننا ہو تو بہت آسان ہے ، جسے آپ دیکھیں کہ سب سے پہلے آفس میں آتا ہے ۔ آفس اور ٹوائلیٹ کی صفائی کرتا ہے ۔ تمام میزیں اور کرسیاں صاف کرتا ہے سمجھ لو یہی مالک یا یہی مینیجر ہوگا۔ یہ سن کر حیرت کی انتہا نہیں رہی لیکن یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ اس کے علاوہ مساوات کا جو تصور ان کے یہاں ہے وہ شاید کم ہی ممالک میں ہو۔ ایک طرح کے مکانات اور ایک طرح کی طرز زندگی ۔ آپ کے ساتھ چلتے ہوئے یا میٹرو میں سفر کرتے ہوئے لوگوں کے لباس سے آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کون کس رتبے کا ہے ۔
آپ کے برابر بیٹھا شخص کسی ریسٹورینٹ میں کام کرنے والا بھی ہوسکتا ہے یا کسی بڑی کمپنی کا مالک بھی ہوسکتا ہے ۔ یہاں سڑک صاف کرنے والوں کے پاس بھی چمچاتی گاڑیاں ہیں اور بڑے لوگوں کے پاس بھی ۔ یہاں کسی فری فیکچر کا گورنر بھی کسی جگہ آپ کے ساتھ آئس کریم کھانے کے لیے لائن میں کھڑا ہوسکتا ہے ۔ یہ وہاں کی زندگی کے لیے کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے ۔ یہاں سب برابر ہیں ۔ یہاں بڑے عہدے اور سیاسی لوگ کسی طمطراق میں نہیں رہتے وہ بھی عام شہری کی طرح کہیں بھی کسی جگہ کوئی کام کرتے یا لائن میں کھڑے ہوں۔ یہ پہلو جاپان کی زندگی کا ایسا پہلو ہے جو اس کی ترقی کا ضامن ہے اور تمام شہریوں کو زندگی میں اطمینان و سکون عطا کرتا ہے ۔یہاں کوئی اور کسی طرح کا کام کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ ہاں ہمیں اس بات پر بہت تعجب ہوا جو اصغر صاحب نے ہمیں دیکھایا۔ شہر کے بیرونی علاقوں میں لوگ خود سے کھیتیاں کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جو معمر ہیں اور ضعیف ہیں وہ اپنے کھیتوں سے پھل سبزیاں توڑ کر لاتے ہیں اور اس کی آس پاس کسی ٹھلیے پر سب کچھ رکھ کر چلے جاتے ہیں اور ساری چیزوں کے سامنے اس کی قیمت لکھ کر رکھ دیتے ہیں اور پاس ہی ایک باکس رکھا رہتا ہے ۔ لوگ آتے ہیں اور اپنی ضرورت کی چیزیں لیتے ہیں اور اس کی قیمت اس باکس میں ڈال جاتے ہیں ۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ بغیر قیمت دئے کوئی سامان لے گئے ہوں یا کبھی ایسا ہوا ہو کہ ان کے پیسوں کا باکس کسی نے غائب کر دیا ہو۔ہم لوگوں کو یہ دیکھ کرمکے اور مدینے کی زندگی کے واقعات یاد آگئے جب لوگوں میں اس قدر ایمانداری ہوا کرتی تھی ۔ میں دیر تک سوچتا رہ گیا کہ جو خصوصیت مسلمانوں میں ہونی چاہیے تھی وہ ان جاپانیوں میں موجود ہے۔
اسی طرح ایک اور بات ہمیں بتائی گئی کہ یہاں اگر کسی جگہ آپ کی کچھ بھی اور کتنی ہی قیمتی چیز غلطی سے چھوٹ گئی تو آپ مطمئن رہیں وہ کبھی غائب نہیں ہوگی۔ یہاں کچھ فاصلے پر ایسی پولیس چوکیاں بنی ہوئی ہیں جہاں لوگ اس طرح کی کھوئی ہوئی چیزوں کو جمع کراتے ہیں ۔ فرض کریں اگر آپ کا پیسوں سے بھرا پرس بھی غلطی سے کہیں گر گیا تو جس شخص کو وہ پرس ملے گا وہ اسے اسی طرح پولیس کے پاس جمع کرادیتا ہے ۔ پولیس کے سامنے ہی اس پرس کو کھولا جاتا ہے اور اس میں موجود رقم کی تفصیلات لکھ لی جاتی ہے جس کی ایک کاپی پانے والے کے پاس رہتی ہے اور دوسری کاپی پولیس کے پاس۔ اس کے بعد اس میں اگر فون نمبر موجود ہوا تو رابطہ کیا جاتا ہے اور اگر نہیں ہوا تو چھ مہینے تک انتظار کیا جاتا ہے ۔ کھونے والے شخص کو اگر ذرا بھی یاد آجائے کہ یہ فلان جگہ کھوئی ہوگی تو وہ اس طرح کی چوکیوں میں معلوم کرتا ہے اور اس طرح اسے اپنی کھوئی ہوئی چیز مل جاتی ہے۔ وہاں کا یہ قانون ہے کہ کھوئی ہوئی چیز حاصل کرنے والا اس میں موجود جو بھی رقم یا چیز ہوگی اس کا بیس فی صد پانے والے کو دے گا۔ لیکن معلوم یہ ہو اکہ کوئی شخص معاوضہ لیتا نہیں ہے ۔ اور اگر کھونے والے کا پتہ نہیں چل سکا تو چھ مہینے کے بعد وہ چیز پانے والے کی ملکیت بن جاتی ہے۔جاپانی تہذیب کی یہ خصوصیت ایسی ہے جو ان کی ایمانداری پر دلالت کرتی ہے ۔ اسی طرح وہ حکومت کو ٹیکس ادا کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور خود سے ملک کی چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ہمارے دوستوں نے یہ بتایا کہ سونامی کے بعد جب جاپان میں بجلی کی قلت ہوئی تو حکومت نے لوڈ شیڈینگ کا اعلان کیا ۔ منصوبہ یہ تھا کہ تین مہینے میں اگر تین تین گھنٹے کی لوڈ شیڈینگ ہوگی تو ہم بجلی کی کھپت پر قابو پاسکتے ہیں ۔ حکومت کے اعلان کے بعد لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں اس طرح بجلی کی بچت کی کہ صرف بیس دنوں میں بجلی سر پلس ہوگئی اس کے بعد حکومت کو لوڈ شیڈینگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔یہ اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جن کو دیکھ کر رشک آیا۔
ٹوکیو شہر اپنی عمارت سازی اور شہر کی خوبصورتی کے لحاظ سے بھی دنیا کے خوبصورت شہروں میں سے ایک ہے بلکہ سر فہرست
ہے ۔ جاپان جزیرے پر واقع ہے ۔ لیکن سمندر کو جس طرح انھوں نے عبور کیا ہے وہ مثالی ہے جا بجا سمندر میں ٹنل بنے ہوئے ہیں ۔ سمندر کی وجہ سے جو ڈھائی سو کیلو میٹر کی دوری تھی اسے صرف پچیس کیلو میٹر میں تبدیل کردیا ہے ۔ سمندر میں دس کیلو میٹر تک سرنگ اس کے بعد سمندر کے درمیان ایک کار پارکنگ اور اس تفریح گاہ بنائی ہے۔ اسے اکو الائن کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے بعد سمندر میں پندرہ کیلو میٹر تک پل بنایا گیا ہے۔آمد و رفت کو اتنا آسان بنایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا ذریعہ بن گیا۔ ایک ایک سڑک پر چار منزلہ پل اور کشادہ سڑکیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ان سے کتنے پیچھے ہیں۔ایمانداری اور دیانتداری سے کام کرنا اور کام کے وقت کوئی بہانہ نہ کرنا اور بلاوجہ چھٹی نہ لینا یہ وہاں کی تہذیب ہے ۔
٭٭٭

About admin

Check Also

کمال ہے یہ اردو ہے

Prof. Krishna S. Dhir, PhD Research Professor of Management Science, Szechenyi Istvan University of Gyor, …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *