Home / Articles / لندن میں افغان کانفرنس : مسائل و امکانات

لندن میں افغان کانفرنس : مسائل و امکانات

مغربی ممالک کو اب یہ بات بڑی شدت سے ستانے لگی ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ ان کی اسی تشویش کا منظر 28 جنوری، 2010 کو لندن میں منعقد ہونے والی افغان کانفرنس میں دیکھنے کو ملا جس میں دنیا کے تقریباً 70 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ لیکن یہ بڑی عجیب و غریب صورت حال ہے کہ جب دنیا کے ممالک ایک مسلم ریاست کے اندر امن و امان کو یقینی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہیں چند ایسے دیگر مسلم ممالک بھی ہیں جو نہیں چاہتے کہ وہاں امن قائم ہو۔ ایران نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرکے تو دنیا کو یہی عندیہ دیا۔ وہیں دوسری جانب پاکستان کی شروع سے ہی یہی کوشش ہے کہ افغانستان کی بازآبادکاری کے کاموں سے ہندوستان کو دور رکھا جائے۔ پاکستان کو ہندوستان سے نہ جانے کس قسم کا بیر ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ ہندوستان کسی قسم کی تعمیری سرگرمیوں میں ملوث ہو اور دنیا کے سامنے اس کی شبیہ بہتر بنے۔ لیکن ہندوستان کو بین الاقوامی سطح پر یوں نظر انداز کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آج جب امریکہ جیسے سرفہرست ترقی یافتہ ملک کو بھی یہ خوف لاحق ہونے لگا ہے کہ اگر ہندوستان اور چین جیسے دو بڑے ایشیائی ممالک میں ترقی کی رفتار یوں ہی جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان اور چین دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ کچھ اسی قسم کے اندیشے کا اظہار حال ہی میں امریکی صدر براک حسین اوبامہ میں امریکی کانفرنس کے سامنے کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اپنے سب سے بڑے اور قریبی پڑوسی ملک ہندوستان کی اس تیز رفتار ترقی سے کچھ سبق حاصل کرتا اور اس کے ساتھ دوستی کاہاتھ ملا کر اس سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرتا، لیکن اس کے برعکس اس نے ہندوستان کی اس ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔

یہ بات اب پوری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان نے ماضی میں مختلف دہشت گرد تنظیموں کی جس طرح پشت پناہی کی اور انھیں اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف انھیں استعمال کیا، اب وہی دہشت گرد تنظیمیں خود پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہیں۔ پاکستان میں ہر روز ہونے والے بم دھماکے اسی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ہندوستان نے بارہا پاکستان کو دوستانہ لہجے میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے تربیتی مراکز کا خاتمہ کرے، لیکن پاکستان نے اس کی ایک نہ مانی اور اب پاکستانی رہنما علی الاعلان یہ قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ ممبئی جیسے حملے تو پاکستان میں ہر روز ہوتے ہیں۔ خود صدر آصف علی زرداری چند دنوں قبل ایک عوامی پلیٹ فارم سے یہ بات کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی جیسے کینسر میں ان کا ملک مبتلا ہے جس سے گلوخلاصی حاصل کرنے کے لیے انھیں عالمی تعاون و حمایت کی ضرورت ہے۔

جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو طالبان جیسی شدت پسند تنظیم نے افغانستان پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد ایسا کوئی تعمیری کام نہیں کیا جسے تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا، بلکہ انھو ں نے افغانستان کی قدیم ثقافتی و تہذیبی روایت سے ہی کھلواڑ کرنا شروع کردیا اور اسلام کے نام پر ایسا ننگا کھیل کھیلا کہ خود مذہب اسلام کو شرمسار ہونا پڑا۔ کبھی گوتم بدھ کے مجسمے زمین دوز کرنے کی کوشش کی گئی، کبھی مسلم عورتوں کو گھر کے اندر قید کرنے اور مسلم لڑکیوں کو علم سے دور کرنے کی کوشش کی گئی، تو پھر کبھی غیر مسلموں کو زبردستی ایک مخصوص رنگ کے کپڑے پہننے پر مجبور کیا گیا۔ حالانکہ اسلام میں ایسا کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ مسلم یا غیر مسلموں کے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنایا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ خدائی عتاب ان پر نازل ہوا اور امریکی و ناٹو افواج کو پورے ملک کو اپنے قبضے میں لے لیا اور وہاں پر آج بھی کشت و خون کا دور جاری ہے۔

لیکن اب دنیا کے مختلف ممالک کے ذریعے اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغانستان جیسے جنگ سے خستہ حال ملک میں ترقی کی بہار لائی جائے اور اس کے لیے ہندوستان وہاں پر اپنی تعمیری سرگرمیوں میں دل و جان سے لگا ہوا ہے۔ پاکستان کو یہ بات راس نہیں آر ہی ہے اور وہ بار بار جھوٹے الزامات کے ذریعے ہندوستان پر الزام لگا رہا ہے کہ وہ افغانستان کو مرکز و محور بنا کر بلوچستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں پاکستان مخالف سرگرمیاں چلا رہا ہے۔ جب دنیا پاکستان سے اس سلسلے میں شواہد پیش کرنے کے لیے کہتی ہے تو پاکستانی حکمرانوں کو گویا سانپ سونگھ جاتا ہے۔

لندن میں ہونے والی افغان کانفرنس کے ذریعے اس بات کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ طالبان سے تعلق رکھنے والے وہ جنگجو جن کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر وہ اسلحہ ترک کرنے اور خود کو افغانستان کے آئین کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں تو حکومت انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے تیار ہے۔ اقوام متحدہ نے اسی ضمن میں ایک مثبت پہل کرتے ہوئے گذشتہ طالبان حکومت میں وزیر خارجہ کے عہدہ پر فائز رہ چکے وکیل احمد متوکل سمیت پانچ طالبان لیڈروں کے نام ’بلیک لسٹ‘ سے ہٹا دیے ہیں۔ دوسری جانب حکومتِ افغانستان نے بھی اعلان کیا ہے کہ طالبان سے تعلق رکھنے والے جو جنگجو اپنے اسلحے چھوڑ دیں گے اور تشدد سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے حکومت انھیں ملازمت، زمین اور پنشن دینے کے لیے تیار ہے۔ لیکن پاکستان سے پشت پناہی حاصل کرنے والے بعض ایسے شدت پسند بھی موجود ہیں جو امن کی اس پہل کو امریکہ و برطانیہ کا ایک فریب قرار دے رہے ہیں اور افغانی عوام کو یہ سمجھانے میں مصروف ہیں کہ وہ ان باتوں پر دھیان نہ دیں اور قتل و غارت گری کا ماحول گرم رکھیں۔لیکن افغانستان کے عوام کو چاہیے کہ وہ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ان تمام باتوں پر عمل کریں جو ان کے اپنے ہی مفاد میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جنگ کی راہ پر چل کر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ امن ہی وہ واحد راستہ ہے جس میں دنیا کے تمام لوگوں کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ ایسے میں افغانستان میں جاری ان تمام تعمیری سرگرمیوں کی حمایت کی جانی چاہیے جس سے وہاں کے لوگوں کا مستقبل روشن ہو سکے اور وہ جنگ کی تاریکی سے نکل کر 21 ویں صدی کی روشنی سے اپنے مستقبل کو روشن کر سکیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے سبھی ممالک اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان اور چین کی مدد کے بغیر افغانستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا ایسے میں پاکستان کی دلیلوں سے کسی کو مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ بھی یہ بات جان چکا ہے کہ افغانستان میں وہ بری طرح پھنسا ہوا ہے اور اس جنگ کا کوئی کامیاب حل ممکن نہیں ہے۔ واحد راستہ یہی بچتا ہے کہ وہاں پر ہندوستان اور چین جیسے ممالک کو تعمیری سرگرمیوں میں شامل کرکے افغانستان میں ایک مضبوط جمہوری حکومت قائم کی جائے، پھر آہستہ آہستہ وہاں سے غیر ملکی افواج کو باہر نکال لیا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان پر ہونے والی لندن کانفرنس افغانستان کے لیے ایک بہتر مستقبل کی ضامن بنے گی اور افغانستان کے بہی خواہ تمام ممالک اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اسی سے جنوبی ایشیا میں امن و امان قائم ہوسکے گا۔

###

 

 

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

4 comments

  1. سر! میری تو سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ ناٹو
    ( (North Atlantic Treaty Organization
    کے لوگوں کا عمل دخل اپنے اس علاقے میں کیوں کر قبول کیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ صورت حال اتنی غیر ہو گئی تھی کہ ہم سے نہیں سمبھل پا رہی تھی۔ امیریکہ کی من مانی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہی صحیح ہی ناٹو کی پیش قدمی کو قبول کیا لیکن کیا فایدہ ہوا۔ اب اگر لندن میں کوئی کانفرینس ہوئی ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف افغان میں امن کی بحالی ہی ہے۔ اس کے پیچھے ان ترقی یافتہ ملکوں کا کوئی مفاد نہیں پوشیدہ ہے؟ مجھے تو دال میں کچھ کالا لگتا ہے۔

  2. یہ بات قابل ستائش ہے کہ ۷۰ ممالک نے مل کر افغان کی دیگر گوں حالت کو بہتر بنانے کے لیے چرچا کیا۔ اگر جلد ہی کوئی حل نکل جایے اور سب مل جل کر افغان کو ترقی کی راہ پر چلا دیں تو کتنا اچھا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان ہمیشہ ہی دوسروں کی بھلائی کے لیے کوشاں رہا ہے۔ ہاں پاکستان کا اپنا مفاد اسی میں ہے کہ ہندوستان کو کم از کم افغان کی ترقی سے دور رکھا جائے تاکہ اپنی من مانی سے اپنا الو سیدھا کر سکے۔

  3. سچ مچ یہ بہت اچھی کوشش ہے کہ افغان کی بہتری کے لیے ممالک آپس میں باتیں کر رہے ہیں، کانفرنس منعقد کر رہے ہیں۔ اگر اللہ نے چاہا تو جلد ہی کوئی حل نکال لیں گے اور افغانیوں کو ایک ذلت کی زندگی سے نجات ملے گی۔

  4. یہ تو واقعی بہت نیک کوشش ہوگی کہ اگر طالبان سے تعلق رکھنے والے جنگجو اپنے اسلحے چھوڑ دیں گے اور تشدد سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے حکومت انھیں ملازمت، زمین اور پنشن دے۔اور تب تو یہ بات بھی یقینی ہے کہ افغان کی حالت دیگر پڑوسی ملکوں سے بہتر ہوگی، اور وہاں کا معیار زندگی بھی مختلف ہو جائے گا۔ میں دعا کرت۔۔ ہوں کہ للہ جلد ایسی کوششوں کو کامیاب کرے۔ آمین!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *