Home / Socio-political / لندن میں ڈاکٹر نگہت نسیم کی دو تازہ کتابوں کی تقریب رونمائی

لندن میں ڈاکٹر نگہت نسیم کی دو تازہ کتابوں کی تقریب رونمائی

رپورٹ ماخوز از عالمی اخبار

لندن میں ڈاکٹر نگہت نسیم کی دو تازہ کتابوں کی تقریب رونمائی

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم معروف افسانہ نگار،نظم کی شاعرہ،کالم نگار اور عالمی اخبار کی نائب مدیر اعلیٰ ڈاکٹر نگہت نسیم کی دو تازہ کتابوں کی تقریب اجراء 17 دسمبر بروز ہفتہ لندن کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی جس میں  لندن کی اردو ادب کی دنیا کے منتخب خواتین و حضرات نے شرکت کی اور اہل قلم نے انکی شخصیت اور فن پر گفتگو کی انکی نظموں کی پہلی کتاب”سفید جھیل” اور کالموں کا پہلا مجموعہ ” یہی دنیا ہے اور یہیں کی باتیں ہیں ”شائع ہو کر منظر عام پر آیا ہے
اس تقریب کی صدارت معروف شاعر،دانشور،ادیب،براڈکاسٹر،مرثیہ نگار اور عالمی اخبار کے مدیر اعلیٰ صفدر ھمدانی نے کی جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹر نگہت نسیم کی والدہ محترمہ رقیہ بیگم تھیں اس منفرد تقریب کی نظامت معروف افسانہ نگار اور شاعرہ محترمہ بانو ارشد نے اپنے منفرد انداز میں کی ۔تقریب کا آغاز کلام پاک کی تلاوت سے ہوا جسکا شرف جاوید نسیم کو حاصل ہوا
ڈاکٹر نگہت نسیم کی نظم نگاری اور کالم نگاری کے علاوہ انکی شخصیت پر گفتگو کرنے والوں میں  بانو ارشد کے علاوہ جناب شاکر قریشی،محترمہ ستارہ انجم،سید اکمل حسین،سیمیں برلاس،سائرہ بتول،فرخندہ رضوی،رقیہ بیگم اور صدر محفل جناب صفدر ھمدانی شامل تھے۔مقالہ نگاروں نے ڈاکٹر نگہت نسیم کی نظموں کی انفرادیت اور کالم نگاری کی آفاقیت کے ساتھ ساتھ انکی شخصیت کی مختلف جہتوں کا احاطہ کیا۔
ڈاکٹر نگہت نسیم کی والدہ اور تقریب کی مہمان خصوصی رقیہ بیگم نے نہایت مختصر گفتگو میں نہایت جزباتی انداز میں اپنی بیٹی کے تخلیقی سفر پر فخر کیا اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا ڈاکٹر نگہت نسیم نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ انکے اس ادبی سفر کا تمام کریڈٹ اس ساری ٹیم کو جاتا ہے جسمیں انکے شوہر محمد آفتاب، تینوں بچے،والدین،بہنیں،بھائی اور بھابھیوں کے علاوہ قلمی خاندان کے احباب شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ آج اس تقریب میں میرے دو خاندان شامل ہیں ایک میرا وراثتی خاندان اور دوسرا میرا قلمی خاندان۔ انہوں نے ہر ایک کا نام بنام شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر مجھے محمد آفتاب کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو شاید میں آج اس مقام پر نہ ہوتی۔ انہوں نے جناب صفدر ھمدانی کو اپنا ادبی مرشد قرار دیا۔ واضع رہے کہ ڈاکٹر نگہت نسیم کی نظموں کی کتاب ”سفید جھیل” کا انتساب جناب صفدر ھمدانی کے نام ہے۔صدر تقریب جناب صفدر ھمدانی نے اپنی صدارتی اور نہایت فکر انگیز گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ قلم اور کتاب کا رشتہ ہی دراصل دائمی رشتہ ہے اور ڈاکٹر نگہت نسیم نے رشتوں کی تکون میں اس رشتے کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ انہوں نے اپنے جامع خطاب میں کتاب اور فکر سے دوری کو عالمی اسلام کے انحطاط کی وجہ قرار دیا اور شرکا تقریب پر زورد یا کہ وہ ابھی بھی کتاب اور قلم سے اپنا تعلق بحال کر لیں۔ انہوں نے ڈاکٹر نگہت نسیم کے تازہ کتابوں کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ لندن میں  انکی تین کتابوں کی تقریب رونمائی ہو چکی ہے جو لندن والوں کے لیئے اعزاز ہے لیکن جس شہر سڈنی میں وہ میقم ہیں وہاں شاید قلم قبیلے کو ابھی تک یہ خبر نہیں کہ ڈاکٹر نگہت نسیم لکھاری ہیں اور صاحب کتاب لکھاری ہیں۔

اس تقریب میں فرخندہ صاحبہ نے اپنے تاثرات کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے جو ایک مکمل تعارف ہے قارئین کے لیے عالمی اخبار کے توسط سے اسے یہاں شائع کر رہا ہوں۔

سفید جھیل میں تیرتے لفظوں کے کنول۔

از۔فرخندہ رضوی۔لندن

جیساکہ آپ سب جانتے ہیں یہ تقریب آسٹریلیا سے آئی ہو ئی ایک خوبصورت شاعرہ،افسانہ نگار اور کالم نگار ڈاکٹر نگہت نسیم صاحبہ کی دو کتابوں ایک شعری مجموعہ ،اور کالم نگاری کی رَسمِ اجرأ کے سلسلے میں منعقد کی گئی ہے۔سب سے پہلے تو اس بات کا اعتراف کرتی چلوں کہ نگہت نسیم سے میری دوستی دنوں پر نہیں پچھلے کئی سالوں پر محیط ہے۔لمحوں کو دن اور دنوں کو سال بنتے کتنا عرصہ درکار ہوتا ہے۔جب جب وقت کی گرفت سالوں پر حاوی ہوتی ہے تب تب تعلق مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

میں نے ڈاکٹر نگہت نسیم صاحبہ،کے افسانے پڑھے،شاعری و کالم نگاری کا سلسلہ بھی نظروں سے گزرتا ہی رہا۔مجھے یہ فیصلہ کرنے میں کافی دشواری ہوئی کہ کیا مصنفہ اچھی افسانہ نگار ،شاعرہ یا پھر کالم نگار ہیں ۔آج اس حق کو پوری ایمانداری سے استعمال کرؤں گی۔قلم کو امانت سمجھتے ہوئے آج بھی لفظوں کی حُرمت کی پاسداری کرتے ہوئے کہ نگہت نسیم صاحبہ سب سے پہلے تو بہت اچھی انسان اور اچھی دوست ہیں ۔نہیں چاہتی کہ دوستی کا قصہ بیان کرتے ہوئے نگہت نسیم کی ادبی و فنی خوبیاں میرے لفظوں کی قرض دار ہو جائیں بلاشبہ نگہت صاحبہ کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جسے علم و ادب وراثت میں ملا۔خدمت خلق
کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔

نگہت کی شاعری بھی انہیں خصوصیت سے لبریز ہے۔زبان صاف ستھری،سادہ ،ادبی ماحول میں تربیت پانے کی وجہ ہی سے زبان پر مکمل طور پر دسترس حاصل ہے۔ہراچھے اور حقیقی شاعر کی طرح نگہت ایک مخصوص فضا پیدأ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو اسے ہر دوسری شاعرہ سے ممتاز کرتی ہے ۔کسی شاعریا شاعرہ کو پڑھنا ،پسند کرنا اور اس کے کلام سے زندگی کے رویے سیکھنا الگ بات ہے لیکن کسی شاعرہ میں ایسی قوت کا ہونا جو قاری کو اپنے خوابوں میں شریک کر لے۔یہ ایک الگ منطق ہے۔نگہت نسیم صاحبہ بنیادی طور پر مجھے نظم کی شاعرہ زیادہ لگیں نظمیں بھی ایسی کہ ذہن و دل کے دریچے کُھلتے چلے جاتے ہیں۔

۔نگہت نسیم صاحبہ کی شاعری ہو،کالم نگاری یا پھر افسانے ۔ان کی تحریر کے مطالعے سے مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ انہیں حقیقت نگاری کرنے کا بڑا شوق ہے اور کہانی ،کالم میں ابلاغ کو ضروری سمجھتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر کالم میں زندگی کے مسائل کی ترجمانی کی گئی ہے۔پَل پل گزرتی حیات کی لمحہ لمحہ کہانیاں اشعاروں میں ڈھلتی ہی جاتی ہیں ۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے والوں کے لفظ حقیقت کی جب ترجمانی کرنے لگتے ہیں تو پڑھنے والوں کا دل چاہتا ہے کہ اُس لکھاری کو کم از کم یا تو قریب سے دیکھیں یا پھر اس کی شخصیت کو لفظوں سے پہچان پائیں ۔المیہ کہانیاں لکھنے والے اپنے کرداروں کی طرح محبت،عقیدت ،آہوں و خوشیوں میں ویسے ہی مبتلأ ہوتے ہیں ۔میرا دل بھی کچھ ایسا ہی چاہنے لگا کہ اس مصنفہ پر کچھ لکھوں ۔نگہت کی شخصیت کا عکس اُس کی ہر کہانی ،اشعار اور کالم میں جگہ جگہ نظر آتا ہے ۔جب وہ نظروں سے دیکھے خوشی و غمی کے واقعات کو دل ودماغ کے دریچوں سے صفحہ قرطاس پربکھراتی ہے تو بھول جاتی ہے کہ لفظوں میں محبت کے ساتھ آنسوؤں کی نمی بھی ساتھ اُترتی چلی آتی ہے۔کسی کی خوشی پر اُس کے قہقہے اس بات کی ضمانت ہوتے ہیں کہ وہ اُن کی خوشی میں کتنی خوش ہے۔وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تو ہیں ہی۔
ہر مریض کا درد اپنا لیتی ہیں ۔پھر انہیں کے درد لفظوں میں پروہنے لگتی ہیں ۔وہی لفظ کبھی نظموں اور کبھی غزلوں میں ڈھلتے جاتے ہیں ۔اسے کہانی لکھنے کا فن آتا ہے۔اس کے کردار خود قاری کو کہانی سناتے محسوس ہوتے ہیں ۔انہوں نے زندگی کے ہر مسل�ۂپر قلم اُٹھایا ہے۔ان کی زندگی کا محور صرف عورت نہیں ،اپنے ملک کی ہروہ تکلیف ہے۔ان کی یہ کالم نگاری کی کتاب ان کے قلم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہی جداگانہ اسلوب انہیں صرف منفرد لفظیات ہی نہیں بلکہ خیال اور سوچ کا مختلف انداز ترکیب کے ساتھ یکجا ہو کر احساس کی شدت پیدا کرتا ہے۔اور پھر یہی شدت قاری کے دل پر راج کرنے لگتی ہے۔

ان کی شاعری کے مختلف رنگ مختلف مناظر پیش کرتے ہیں کہ جن تک کوئی جذبہ حساس ،ہی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔نگہت نسیم اردو ادب کا وہ پھول ہیں کہ جو کبھی مُرجھا نہیں سکتا ۔

آج کے اس چھوٹے سے مضمون میں نگہت نسیم صاحبہ کے تمام کارنامے سمیٹنا ممکن تو نہیں۔
ایسے مواقع پر ہمیشہ ساتھ رہنے والے لفظ میرا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔آج مجھے اس لائق احترام ،بہترین ،بے غرض انسان دوست کے لئے لکھنا کم از کم بے حد دشوار لگا ۔

ڈاکٹر نگہت نسیم صاحبہ نے بے شمار تحریریں وجود میں لانے کا بوجھ اپنے توانا کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ایسا جیتا جاگتا اور زندہ رہنے والا ذہن جس کی مثال کوئی نہیں ۔بے حد حساس ہونے کی وجہ سے اپنے معاشرے کے تمام مسائل کو اپنے پر پوری طرح حاوی کر لیتی ہیں ۔

نگہت نسیم اچھی شاعرہ،اچھی افسانہ نگار ،کالم نگار ،یا پھر اچھی دوست ہیں میں تو فیصلہ کر ہی نہیں پائی ۔میں چاہتی ہوں ان کی کتابوں سے یہ استفادہ حاصل کیا جائے۔ان کی ایک خوبصورت نظم کی چند سطریں آپ سب کے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔

میری نظر سے جب تُم خود کو دیکھتے ہو گے۔

سنو اک بات کہوں

تمھارے لبوں سے جب میں خود کو پکارتی ہوں
تُم جیسا کہنے لگتی ہوں
تُم جیسا ہونے لگتی ہوں
لیکن جانے کس لیے۔۔۔حیران ہے یہ دنیا
اور کیوں دوست آپس میں یہ کہہ رہے ہیں
ہمارے لہجے رویئے سب ایک ہو رہے ہیں ۔
میری تمام دعائیں نگہت نسیم کے لیے اللہ تعالیٰ اسی طرح انہیں کامیابی و کامرانی سے نوازے
افسانہ نگاری ،شاعری،کالم نگاری ،دوستی ان چار رنگوں کی دھنک ہمیشہ یونہی اپنی شناخت بنائے رہے۔سفید جھیل میں تیرتے لفظوں کے کنول یہونہی مہکتے رہیں ۔

******

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *