Home / Socio-political / ماہ محرم ، خود کش حملے اور علما ء کے فتوے

ماہ محرم ، خود کش حملے اور علما ء کے فتوے

   پاکستان میں خود کش حملے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ۔ ماہ محرم میں خاص طور پر تمام احتیاطی تدابیر اپنائے جاتے ہیں کیونکہ ہمیشہ اس ماہ مبارک کو ناعاقبت اندیش اپنے ناپاک منصوبوں کے تحت بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ گذشتہ سال بھی اسی محرم کے موقعے پر ایک کم عمر بچے نے مسجد کے احاطے میں خود کش حملہ کر کے کئی لوگوں کی جانیں لی تھیں ۔ اس لیے محرم کے شروع ہوتے ہی پاکستان کی انتظامیہ تمام تر اقدامات کرتی ہے تاکہ کوئی نا خوش گوار واقعہ نہ پیش آجائے ۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ماہ محرم جو حرمت کا مہینہ کہلاتا ہے اور اس مہینے کو اس اعتبار سے بھی اہم سمجھا جاتا تھا کہ عرب جیسے جنگ وجدال والے قبائل بھی اس ماہ میں جنگ و جدال کو حرام جانتے تھے ، مگر یہ وہی قوم مسلم ہے جو اسلام کے نام پر بھی اس محرم کے تقدس کو پامال کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے

۔دورسری بات پاکستان کے تناظر میں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ الحمد لللہ ماضی کی جو تلخ تاریخ تھی وہ بہت حد تک ختم ہو رہی ہے ، کیونکہ پاکستان میں ہمیشہ شیعہ سنی فسادت ہوتے تھے اور ماہ محرم میں کئی ایسے علاقے تھے جہاں اس مہینے کی ابتدا سے ہی کئی دفعات لگ جاتے تھے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔شکر ہے کہ اب وہ صورت حال نہیں ہے اور بہت حد تک شیعہ سنی فسادت پر قابو پا لیا گیا ہے ۔ لیکن ابھی بھی یہ مہینہ اعتبار سے حساس مان جاتاہے ۔ابھی محرم کی ابتدا بھی بم دھماکوں سے ہوئی ۔ پہلے اسلام آباد میں اور پھر پشاور میں دھماکے ہوئے ۔اسلام آباد ہائی وے پر راولپنڈی کے علاقے شکریال میں خود کش حملہ ہوا ۔بتایا جاتا ہے کہ خود کش حملہ آور محرم کی مجلس عزا پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔لیکن وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔تفصیلات کے مطابق راولپنڈی کے علاقے شکریال میں خودکش حملے سے چھ سالہ عروج جاں بحق ہو گئی جبکہ بچی کا والد عاطف اور پولیس اہلکاراتفاق زخمی ہو گیا۔ شکریال میں سائیں بوٹا کے دربار کے قریب ایک سولہ سے سترہ سالہ لڑکے نے پولیس چیک پوسٹ سے داخل ہونے کی کوشش کی اورجب وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں نے اسے روکا تو اس نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ پولیس اہلکاروں کو لڑکے پر اس وقت شک ہوا جب اس نے وہاں پر موجود سیکورٹی گیٹ سے گزرنے سے گریزکیا۔ موقع پرموجود پولیس اہلکاروں کے مطابق اس لڑکے نے جلد بازی میں اپنے آپ کو اڑانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے خودکش بیلٹ کا تمام بارود نہ پھٹ سکا۔ خودکش حملہ آور موقع پر ہی ہلاک ہو گیا لیکن اس کا چہرہ بالکل صحیح حالت میں پولیس کو مل گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے شکریال میں حملہ کرنے والے خودکش حملہ آورکی تصویر جاری کردی ہے اور اعلان کیا ہے کہ حملہ آور کی شناخت کرنے والے کو5 لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔وزیر داخلہ نے آئی جی اسلام آباد کو محرم الحرام کے جلوس اورامام بارگاہوں کی سیکورٹی سخت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے واقع کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر رینجرز اور ایف سی بھی طلب کی جا سکتی ہے۔ جی ہاں یہ ایک اسلامی ملک کا حال ہے جہاں محرم میں یہ احتامطی تدابیراپنائے جارہے ہیں جبکہ

اس ماہ میں تمام مسلمان یاد حسین اور شہدائے کربلا کے غم و الم کو ہی یاد کر کے غمزدہ رہتے ہیں ، کہیں مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں تو کہیں ان کی یاد میں جلسوں کا اہتمام کیا جاتاہے ۔یہ شہادت حسین کی زندہ کرامت ہے کہ اس شہادت کو ساری دنیا یاد کرتی ہے ۔ہندستا ن جیسے ملک میں غیر مسلم بھی اس شہادت کو یاد کرتے ہیں اور اسے حق و باطل کے درمیان جنگ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ اسلا م کے نام لیوا ہی اس مہینے کی حرمت کا خیال نہیں کر پاتے ۔

پاکستان کے علاو ہ عراق میں بھی ہر سال اس مہینے کی ابتدا سے ہی جان لیوا دھماکے کی شروعات ہوجا تی ہے ۔ محرم کے چاند نظر آنے سے اب تک عراق میں کئی خود کش حملے ہوچکے ہیں اور دونوں فرقے ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ یہ کیسی قیامت ہے کہ اب لوگوں کے دلوں میں ان مقامات کی زیارت کرتے ہوئے بھی ڈر لگنے لگا ہے ۔ کربلائے معلی کی سرزمین جو ایثار و قربانی اور اسلام پر جان ومال کو قربان کرنے کی سب سے بڑی مثال ہے ، اب اسی سرزمین پر لوگ خود کش حملے کے ڈر سے جاتے ہوئے گھبرارہے ہیں ، اسے قیامت نہ کہیں تو اور کیا کہہ سکتے ییں ۔

عالم اسلام کو اس حوالے سے غو ر و فکر کرنے کی ضروت ہے۔ پاکستانی حکومت نے دیر سے ہی سہی اس کا ادراک کیا کہ ان حملوں کو روکنے کے لیے علما کا سہارا لیا جانا چاہیے ۔ اس لیے لاہور بم دھماکے کے بعد وزیر داخلہ رحمان ملک نے علمائے کرام سے اپیل کی کہ وہ ان خود کش حملوں کے خلاف فتوے جاری کریں۔ اس کے بعد پاکستا ن کے ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے علما نے خود کش حملوں کے خلاف فتوے جاری کیے ۔ان میں قابل ذکر مولانا مفتی تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی، مولانا مفتی سرفراز خان صفدر، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی منیب الرحمان، مفتی فضل کریم، مفتی خالد محمود، مولانا سلیم اللہ خان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا نعیم الرحمان، حافظ ریاض حسین نجفی، مولانا عبدالمالک، ڈاکٹر طاہر القادری، و جماعت اسلامی سمیت تمام علمائے کرام کا متفقہ فتوی ہے کہ ”اسلامی ملک“ پاکستان میں خود کش حملے اور دہشتگردی کی کاروائیاں حرام ہیں ان میں ملوث افراد کو عبرتناک سزائیں دی جائیں۔جہاں تک علمائے کرام کے اس فتوے کا تعلق ہے کہ اسلامی ملک میں خود کش حملے جائز نہیں تو اس کو مانا جا سکتا ہے کیونکہ دین اسلام سلامتی کا دین ہے اور یہ کسی بھی پرامن شہری کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا ،لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اسلامی ملک پاکستان میں خود کش حملے جائز نہیں تو یہ قوم کو گمراہ کرنے والی بات ہے کیونکہ پاکستان اسلامی ملک نہیں۔ بات یہ بھی ہے کہ یہ حملے صرف اسلامی ملک میں ہی کیوں ناجائز و حرام ہیں ، اسے تو ہر جگہ ناجائز و حرام قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ اسلام امن پسند دین ہے اور اسلام میں کسی بھی طرح کے فتنے کوجائز نہیں قرار دیا گیا ہے ۔اس لیے اس پر غور کرنے کی ضروت باقی رہ جاتی ہے۔ رہی بات پاکستان کی تو یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو کہ اس فتوے کے بعد بھی کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی یہ حملے رکے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں اس ملک کی پالیسی میں ہی کوئی کھوٹ ہے یا اس ملک کے چلانے والے ہی کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہیں ۔ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ملک کو ان فتنہ پردازوں سے بچایا جاسکے۔پاکستان کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کالم نگار ڈاکٹر منیب احمد ساحل نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ”جیسے عوام ہونگے ان کے ویسے ہی حکمران ہونگے“۔کیونکہ حکمران آسمان سے نازل نہیں ہوتے وہ معاشرے کے ہی فرد ہوتے ہیں اور اسی کا حصہ ہوتے ہیں اور جب معاشرے میں خرابیاں عام ہو جائیں اور عام آدمی اپنی ذمہ دار پوری نہ کرے تو معاشرے پر فاسق افراد کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے اور معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہونا شروع ہو جاتا ہے ،آج وطن عزیز کی صورتحال دیکھیں تو قیادت کے نام پر ہم پر فرنگیوں کے تلوے چاٹنے والے موروثی جاگیردار، سرمایہ دار،دجالی جمہوریت کے علمبردار، دو قومی نظریے کے منکر، امریکہ کے تنخوا دار و بھارت کے حاشیہ بردار ،سیکولر و لادین لسانی و صوبائی تعصبات کی گندگیوں میں لتھڑے غیر نظریاتی ،امریکی سی آئی اے کے لے پالک تنخواہ دار فرقہ پرست مولوی، ،لاچار عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھینے والے ایوانی لٹیرے ،عوام کو بجلی پانی، دوا اور آٹے سے محروم کر کے خود کشیوں اور خود سوزیوں پر مجبور کرنیوالے قارون و ہامان کے کارندے مسلط ہیں، دوسری جانب پاکستان میں قوم نہیں بستی بلکہ فرقوں، مسلکوں، ذات ،برادریوں ،قبیلوں اور صوبائی و لسانی ٹکڑوں میں منقسم اور منتشر انسانی انبوہ یعنی20کروڑ کا انسانی ہجوم و ریوڑ بستا ہے ،یہاں جاگیرداروں کی چکی میں 63سال سے پستے کسان، صنعت کار کی بھٹیوں میں جھلستے مزدور ،طبقاتی نظام تعلیم میں بٹے طلبا و طالبات ،تھانے و عدالتوں میں دھکے کھاتے ،ذلت و رسوائی کی گہرائیوں میں ڈوبے اپنے حال سے بے خبر اور مستقبل سے بے پرواہ بھوکے ننگے عوام ظلم، استحصال، بھوک و افلاس اور کمر توڑ مہنگائی کو چپ سادھے برداشت کر کے بے حسی و بے چارگی اور بے عملیت کی چادر اوڑھے محو خواب و خرگوش ہیں اور اسی سبب آج ملک مختلف بحرانوں کا شکار ہے اور ملک کی فضاؤں میں بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے آئے دن ہونیوالے پے درپے بم دھماکے خاک نشینوں سے لہو کا خراج وصول کر رہے ہیں۔”کالم نگار کے اسی اقتباس سے سب گوشے مترشح ہوجاتے ہیں کہ کن اسبا ب کے تحت یہ حملے رکنے کا نام نہیں لیتے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. Dear sir
    it is the great tragedy of the last century not only for the people of indian sub continent but specially for the Muslims because that a country which was created on the name of islam it was bifurcated on the name of language. then what happened with islam in this country every aspects of islam is being distorted, in the name of jihad, parda islami nizame adl etc. it became only a problem for muslims not only in pakistan but all over world. ulamas and the other political leaders are so unrealistic and narrow minded that cant save their own interests.

Leave a Reply to hammad afar Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *