Home / Socio-political / مذاکرات سے پہلے مکالمات

مذاکرات سے پہلے مکالمات

          ہندو پاک کے درمیان کچھ ہی دنوں بعد اعلیٰ سطحی مذکرات متوقع ہے ۔ لیکن یہ کیا کہ مذاکرات سے پہلے ہی اتنے متضاد بیانات آرہے ہیں  کہ پوری فضا مکدر ہوگئی ہے ۔سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ اس مذاکرے کی نوعیت کیا ہوگی اور اس کے کچھ دور رس نتائج بھی سامنے آئیں گے یا نہیں ؟ابھی تو یہ بات بھی ختم نہیں ہوئی کہ ہندستان عالمی دباؤ میں آکر ا س مذاکرے کے لیے تیار ہے ۔ اسی لیے پاکستان کے زیادہ تر سیاست داں یہ مان کر چل رہے ہیں کہ ہندستان اپنی مجبوری کےسبب یہ سب کچھ کر رہا ہے ۔ اسی لیے بعض انتہائی ذمہ دار سیاست دانوں اور وزیروں نے یہ تک کہہ دیا کہ ہم نے ہندستان کو شکست دے دی ہے ۔اسی لیے پاکستانی وزیر داخلہ نے اپنی ایک تقریر میں بہت اونچی آواز میں یہ کہا کہ ہم نے آخر بھارت کو مجبور کر دیا ہے اور وہ اسی مجبوری کے سبب ہمارے سامنے جھکنے کو تیار ہے ۔لہٰذاہم اس مذاکرے میں  اپنی شرطوں پہ بات کریں گے۔ پاکستان کا یہ رویہ ابھی سے ظاہر کر رہاہے کہ وہ جس انداز سے سوچ رہا ہے اور اپنے عوام کو ورغلا رہا ہے اس سے کچھ نتیجہ نکلنے کو نہیں ہے ۔

          لیکن پاکستان کے اس رویے کے جواب میں یہ ضرور پاکستان کو یاد دلانا چاہیے کہ ہندستان نے ہر مشکل وقت کا سنجیدگی سے سامنا کیا ہے اور پورے خطے میں امن بحالی کے لیے اپنی جانب سے پہل کی ہے۔ کیونکہ ہندستان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے ۔  ہندستان کے سامنے ایسی کوئی وجہ ہی نہیں ہے کہ وہ عالمی دباؤ میں آئے ۔ پاکستان کو یہ بھی یاد دلانے کی ضروت ہے کہ جب کارگل کی جنگ ہوئی تھی اس وقت ہندستان کے سامنے کون سی مجبوری تھی ؟  کارگل کے واقعے کے بعد ہندستان مسلح جد و جہد بھی کر سکتا تھا لیکن اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کشمیر کی سرزمین سے پاکستان کی جانب دوستی کا پیغام دیا تھا ۔ یہ ہندستان کی فراخدلی ہے کہ اس نے  خطے کی بھلائی اور امن کے لیے ہمیشہ پہل کی ہے ۔ہندستان کے سامنے کوئی ایسی مبجوری نہیں کہ وہ پاکستان کے آگے جھکے ۔مجبوری تو پاکستان کے ساتھ ہے کہ اس ملک کو امریکہ رفتہ رفتہ اپنے قبضے میں کر رہا ہے ۔امریکی ڈرون طیارے جب چاہتے ہیں پاکستانی شہری پہ بم باری کر دیتے ہیں ؟ یہ کیسا ملک اور کیسی آزادی کے اپنے ہی شہریوں کو نہیں بچا پاتے ۔یہ انھیں کہ شہری ہیں جو دہشت گردی میں مبتلا ہوکر نہ صرف پاکستان کو بلکہ اسلامی ممالک کو بدنام کر رہے ہیں ۔ پاکستان ان پر کنٹرول تو کر ہی نہیں پارہا ہے او ر اسی کمزوری کو دیکھ امریکہ پاکستان پر حاوی ہوتا جا رہا ہے ۔  پاکستان کو اگر اپنے ملک کی اتنی ہی فکر ہے تو پہلے وہ امریکی شکنجے سے خود آزاد کرائے ۔ بلا وجہ بھارت پر الزام اور بھارت کے خلاف کاروائیوں میں اپنی طاقت جھنوکنے سے اسے کچھ نہیں ملے گا۔ دانشمندی تو یہی ہے کہ ہندستان کی مثبت پیشکش اور امن کی کوششوں کا پاکستان خلوص کے ساتھ جواب دے ۔ مگر جب انداز ایسا ہو تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان مذاکرات کا کیا ہوگا۔

          پاکستان کی جانب سے اس مذاکرے کو  ناکام کرنے کا یہ رویہ صرف پاکستانی سیاست دانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ اس میں پاکستان  کے صحافی حضرات بھی پیچھے نہیں ہیں ۔ ہم ذیل میں چند اخباری کالم کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے صحافی اور سیاست داں کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں ۔روزنامہ القمر پاکستان ، میں شاہین اختر اپنے کالم میں لکھتی ہیں کہ ’’پانی کا مسئلہ بھی اب سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ بھارت نے چناب اور جہلم دریائوں پر 70سے زائد ڈیم بناکر اور دریائے سندھ کا پانی سرنگ کے ذریعے چوری کرکے لاکھوں ایکڑ اراضی کو زرعی پیداوار سے محروم کردیا ہے۔ وطن عزیز کے لہلہاتے کھیتوں کو صحرا میں تبدیل کرنے کا یہ منصوبہ 18کروڑ پاکستانیوں کی شہ رگ پر خنجررکھنے کے مترادف ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے زیاہ اتحاد، زیادہ یک جہتی اور زیادہ ہم آہنگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کے دکھوں، پریشانیوں اور مصائب کے ازالے کے لئے مربوط اور جامع کوششیں کی جانی چاہئیں۔ اس مرحلے پر مزید مسائل پیدا کرکے قوم کی مشکلات میں اضافہ نہیں کیا جانا چاہئے۔‘‘ اس کالم میں وہ مزید لکھتی ہیں کہ بھارت پر اس مذاکرات میں اس حوالے سے دباؤ بنانا چاہیئے ۔ اب  پاکستان کے ایک وزیر کا بیان سنیئے ’’آزاد کشمیر کے وزیر اطلاعات، ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سردار محمد فاروق احمد طاہر نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے اپنا مضبوط موقف کھل کر پیش کرنا چاہیے۔ مذاکرات کے نام پر پہلے بھی پاکستان کو دھوکہ دیا جاتا رہا۔ لیکن اب مذاکرات کے میز پر ہم اپنے تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو کمزور سمجھنے والے اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ دنیا یہ جان لے اور مان لے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔ جس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی دباؤ کی وجہ سے اب بھی وہ جو مذاکرات کی میز پر آیا ہے۔ رسمی بات چیت سے غیر رسمی بات چیت پر آگیا ہے۔ لیکن ہمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کے حل اور آبی ذخائر کے معاملات پر کھل کر اپنے مضبوط موقف کو پیش کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میدان جنگ ہو یا مذاکرات کی میزدونوں صورتوں میں پاکستان کا موقف مضبوط ہے۔ دنیا کا امن مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا اس وقت تک امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ بھارت باقاعدہ منصوبہ بندی اور منظم سازش کے تحت پاکستان کے آبی ذخائر پر قبضہ کر کے اسے ریگستان بنانا چاہتا ہے۔ لیکن ہم بھارت کو اس کے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس وقت پاکستان اور آزاد کشمیر میں جتنی بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس میں بھارت بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث ہے۔ وقت آنے پر یہ ٹھوس شواہد بھی دنیا کو بتائے جائیں گے۔‘‘ جی ہاںاس بیان سے ظاہر ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان جوہری طاقت کا حامل ہے ، تو وہ یہ کیوں بھول گئے کہ ہندستان کے پاس ان سے کئی گنا زیادہ طاقت ہے اور وہ بھی جوہری طاقت رکھنے والا ملک ہے ۔ ان کی باتوں سے جو غیر ذمہ ادرانہ سیاست کی بو آتی ہے وہ قارئین خود سمجھ گئے ہوں گے۔اب ذرا سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی بات بھی سنتے چلیں ۔ انھوں  نے کہا ہے کہ ’’بھارت کے ساتھ یہ امید وابستہ کرنا عبث ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرے گا ۔ گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے متعدد کوششیں کی گئیں اور بارہا مذاکرات ہوئے لیکن تمام بے سود رہے ۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت پر واضح کر دیا جائے کہ اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لئے ایک آپشن مسلح جدوجہد بھی ہے ۔ ‘‘ ان کی بات سے بھی یہی اندازہ ہورہا ہے کہ وہ بھی ہندستان کے ساتھ جنگ کے ہی خواہاں ہیں ۔

          جی ہاں مذاکرات سے پہلے اس طرح کی بیان بازی اور وہ بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کسی بھی طرح سے پاکستان کو زیب نہیں فیتی ، یہ تو ہم نے صرف چند بیانات نقل کیے ہیں خود پاکستان کے وزیر اعظم بھی پیچھے نہیں ۔ اس رویے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان نے ہندستان کی پیشکش کو صرف دنیا کو دیکھانے کے لیے قبول کیا ہے ورنہ پاکستان کیس بھی طرح سے ان مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے ۔اسی لیے مذاکرات سے پہلے ہی اس طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں ۔

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

4 comments

  1. صفیر انصاری

    پاکستان میں سنجیدہ لوگ ہیں بھی یا نہیں اگر ہیں تو کس خول میں بند ہیں؟ انہیں چاہیے کہ ایسے موقے سے کچھ پھوٹیں جب ان دونو ملکوں کے آپسی تعلقات کو نیے سرے سے بحال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ وہاں تو ایسے ایسے غیر سنجیدہ لوگ ہیں کہ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ ہندوستان بھلا کیوں کر مجبور ہونے لگا پاکستان سے مذاکرے کے لیے۔ ارے یہ تو اس کا بڑکپن ہے کہ اتنے دہشت گرد حملوں، اتنی گھٹیا سازشوں کے باوجود پاکستان سے بات کرنے کا جگر رکھتا ہے۔

  2. یہ بات شروع سے ہی دیکھی گئی ہے کہ جب بھی کسی نے پاکستان کے حوالے سے کوئی اچھی پہل کی ہے تو اس کو پاکستان کے لوگوں نے ہی نہیں کامیاب ہونے دیا ہے۔خدا جانے ان کا کیا مقصد ہوا کرتا ہے لیکن ایک بات صاف ہے کہ ان کی نیت کبھی ٹھیک نہیں رہتی۔ حالاں کہ عوام کی خواہش کچھ اور ہوا کرتی ہے۔ اس معاملے میں پاکستان واحد ملک ہوگا جہاں عوام کا رتی بھر بھی خیال نہیں کیا جاتا بس سیاست داں اپنی اور صرف اپنی مرضی سے جو کرنا چاہتے ہیں وہ کرتے رہتے ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں بکے ہوئےچندلوگ اپنی علمی لیا قت کا ڈنکا بجا کر عوام کو الٹی سیدھی ورغلا تے رہتے ہیں۔

  3. رابعہ ریحٰن

    نہیں لگتا یہ مذاکرہ بھی کامیاب ہوگا۔ کیوں کہ ادھر کے لوگ اسی زعم میں رہیں گے کہ ہم نے تو ہندوستان کو شکست دے دی۔ ہم نے ہندوستان کو مجبور کر دیا ۔ کبھی خلوص ملیں گے ہی نہیں تو بات کیسے ہوگی؟ یہ ہندوستان کی وسیع القلبی ہی ہے کہ وہ بات کرنے کے لیے پہل کرتا رہتا ہے۔

  4. یہ مذاکرہ ایسے وقت میں ہونے جا رہا ہے جب پونے میں ایک درد ناک بم دھماکہ ہوا، جب پاکستان میں سکھوں پر ظلم کی انتہا پار کر ہو گئی، جب 26/11 کو کچھ ہی دن پہلے یاد کیا گیا۔ ان سب میں پاکستان کا منفی رویہ بالکل جگ ظاہر ہے۔ اس پہ طرہ یہ کہ پاکستان کے کچھ ذمہ دار حضرات اس مذاکرہ کو ہندوستان کی ہار کہ کر پتہ نہیں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ لیکن ایک بات بالکل صاف ہے کہ ہندوستان نے کبھی اس قسم کے رویے پر کوی رد عمل نہیں کیا اور نہ ہی کوئی سخت بات کہی۔ اس بات سے ظاہر ہے کہ ہندوستان کی طرف سے بہت اہم ذمہ داری نبھائی جا رہی ہے۔

Leave a Reply to علی انظار Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *