Home / Dr. Khwaja Ekramddin / ۲۰۲۰ نئے خدشات اور نئے عزائم سال

۲۰۲۰ نئے خدشات اور نئے عزائم سال

پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین

۲۰۲۰ نئے خدشات  اور نئے عزائم سال

یوں تو ہر دن ایک  جیسا ہے  لیکن وقت شماری کے لیے  دنیا نے کئی طرح کے کلینڈر بنائے ہیں تاکہ  مہ و سا ل  کا تعین کیا جاسکے ۔ دنیا میں عام طور پر عیسوی کلینڈر کو ہی  مانا جاتا ہے ۔ عالمی سطح پر اسی کلینڈر کو  تسلیم کیا جاتا لہٰذا تمام سرکاری اور عالمی کام کاج کے لیے اس تقویم کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ اس تقویم کے مطابق یکم جنوری سال کا پہلا دن ہے  اس لیے اس دن کو نئے سال کے طور پر دنیا مانتی ہے اور ہر ملک میں اپنے اپنے انداز سے  جشن بھی منائے جاتے ہیں ۔ ہندستان میں بھی اس کلینڈر کے مطابق سال کا پہلا دن جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ۲۰۲۰ کاہمارے ملک میں بھی  ہر جگہ استقبال کیا گیا ۔لیکن اس سال کا ہندستان نے کچھ نئے انداز سے استقبال کیا۔اسے استقبال کہنے  کے بجائے احتجاج  کہنا زیادہ درست ہے کیونکہ  ملک کے طول عرض میں  حکومت کے ذریعے لائے گئے  شہریت ترمیمی قانون اور شہریت کے اندارج  کے لیے نئے اصول و ضوابط جسے  کیبینٹ  نے  منظوری دی ہے ۔یہ  قانون  بنیادی طور پر این آر سی کی آمد کی دستک ہے ۔ اس قانون سے  ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو کئی طرح کی پریشانیاں لاحق ہیں ۔ اسی لیے اس نئے سال کو اکثر جگہ احتجاج کے طور پر منایا گیا ۔ دہلی شہر  جو ہمیشہ نئی تاریخوں اور نئے انقلابوں کا  گواہ رہا ہے ، شاید اس شہر نے پہلی دفعہ نئے سال کو اس طرح دیکھا ہوگا کہ ٹھٹرتی سرد رات میں بھی   شہر کے لوگ سڑکوں پر جشن منانے کے بجائے احتجاج  کر رہے تھے ۔ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ کہ  جامعہ کے علاقے میں خواتین نے اس انقلاب کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے ۔ قوم کی ان  ماؤوں اور بہنوں کو سلام جو عزم مستحکم کے ساتھ احتجاج میں حصہ لے رہی ہیں ۔یہ احتجاج جو اب ایک تحریک کی شکل لے چکی ہے اس میں بلا امتیاز مذہب و ملت ہر طبقے کی  نمائندگی ہے اور بھر پور نمائندگی ہے ۔

 دہلی کے علاوہ  دوسرے شہروں  کا بھی یہی حال ہے کہ لوگ اپنے ملک کے آئین  کے تحفظ کئے لیے  سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں ۔اس احتجاج کو بین الاقوامی سطح پر حمایت بھی حاصل ہے  مگر افسوس کا مقام یہ ہے  کہ ملک کی میڈیا    کو اس احتجاج سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ سوائے ایک دو کے تمام میڈیا ہاؤس نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور یوپی  جیسے صوبے میں تو  سرکاری سطح پر جس طرح کے جبر و تشدد کو  روا رکھا گیا ہے وہ ہمارے ملک کے لیے لمحہٴ فکریہ ہے ۔ایک جمہوری ملک میں عوام کی آواز نہ سنی جائے اور عوامی رائے کا احترام نہ کیا جائے تو اسے جمہوری اقدار کے منافی کہا جائے گا۔ جمہوری نظام میں حکومتیں  عوامی رائے سے بنتی بھی ہیں اورختم بھی ہوتی ہیں ۔ ان  تمام حقائق کے باجود اگر حکومت  ان مسائل کی جانب توجہ نہ دے تو لا محالہ انقلاب اور احتجاج کی راہیں خود بخود کھلتی ہیں ۔

ان حالات میں حکومت کو چاہیے کہ کہ عوامی رائے  کو سنے ، عوام بلاوجہ سڑکوں  پر نہیں ہیں ، کچھ تو ان قوانین کے پس پردہ ایسا ہے کہ لوگ متفکر ہیں اور تشویش میں مبتلا ہیں ۔ ایوان حکومت میں بیٹھے افراد کو ذاتی ضد اور کسی بھی ذاتی مفاد کے لیے اپنی آنکھیں اور کان بند کرنا بلاشبہ  جمہوری اقدار کے منافی ہے ۔ اس ملک میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہے ۔ این آر سی سے سب سے زیادہ نقصان اسی قوم کو ہونے والا ہے ۔اس لیے مسلمانوں کا احتجاج  بجا ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے صرف مسلمانوں کا  نقصان نہیں ہے اس ملک کے ہر شہری کا نقصان ہونے والا ہے اس لیے وہ  افراد جو خود محفوظ سمجھ رہے ہیں وہ خیال خام میں ہیں ۔جب  شہریت ثابت  کرنے کے لیے کاغذات طلب کیے جائیں گے تو مسائل کا سامنا انھیں بھی کرنا پڑے گا  کیونکہ سب جانتے ہیں ملک کی اکثریت گاؤں میں رہتی ہے اکثر لوگو ں کو اپنی تاریخ ولادت بھی یاد نہیں  اور جہاں تک زمین جائیداد کے دستاویز کی بات ہے تو دستاویز لکھنے والوں کا بھی یہی حال تھا کہ انھو ں نے من مانے طریقے سے نام درج کیے ایک ہی گھر میں  ولدیت کے نام میں بھی تبدیلی ہے کہیں املا کی غلطی ہے تو  کہیں نام  میں سابقے اور لاحقے کے سبب والد کا نام ہی بدل گیاہے ایسے میں صرف مسلمان ہی نہیں دوسری قوم کو بھی انھیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے یہ باور ہونا چاہیے کہ یہ مسائل ہند و اور مسلمان کے نہیں ہیں بلکہ سارے ہندستانیوں کے لیے یکساں ہیں ۔ایسے میں تمام شہریوں کو چاہیے کہ اس ترمیمی قانون کے خلاف  جمہوری نظا م کے تحت جو حقوق حاصل ہیں اس دائرے میں رہ کر اپنی اپنی جگہ سے صادئے احتجاج بلند کریں تاکہ حکومت اس قانون کو  تبدیل کرنے پر مجبور ہو۔ اسی لیے میں ۲۰۲۰کو نئے عزائم کا سال کہتا ہوں ۔ ہم سب  کو اپنے ملک کی حفاظت اور جمہوری نظام کے بقا کے لیے مشترکہ اور متحدہ طور پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ خدا کرے یہ نیا سال ہندستان کی خوشحالی کا سال ہو جس میں تمام شہریوں کو  جمہوری ملک  کے طور پر یکساں حقوق اور مراعات حاصل ہوں ۔

About admin

Check Also

اردو غزل کے چند نکات

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین  اردو غزل  کے چند  نکات دنیا کی تمام زبانوں میں …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *