Home / Socio-political / اکیسویں صدی میں ہند – چین تعلقات: مسائل و امکانات

اکیسویں صدی میں ہند – چین تعلقات: مسائل و امکانات

دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ایشیا کے دو بڑے ممالک ہندوستان اور چین آج کل اپنے سفارتی تعلقات کے قائم ہونے کی 60 ویں برسی منا رہے ہیں۔ 60 سال قبل یکم اپریل 1950 کو ہندوستان نے اپنے سب سے بڑے پڑوسی ملک عوامی جمہوریہٴ چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ 1945 کے بعد کا عالمی نظام ، جو دوسری عالمی جنگ کا نتیجہ تھا، نے ہندوستان اور چین دونوں کی جائز تشویشوں اور مفادات کو تسلیم کرنے میں کافی حد تک پس و پیش کی۔ چین کو سرد جنگ کی سیاست کے نتیجے میں خاص طور پر الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ایشیا کے یہ دونوں بڑے ممالک غلامی کے دور سے گزر رہے تھے۔ غیر ملکی تسلط کا دونوں کو احساس تھا اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنی اقتصادی قوتوں کے زوال کو دیکھا تھا۔ لہٰذا دونوں کے سامنے ایک ہی مقصد تھا کہ آزادی کیسے حاصل کی جائے۔ دونوں نے آخرکار آزادی حاصل کی، البتہ دونوں کے طریقے الگ تھے۔ ہندوستان نے صبرو تحمل اور پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے یہ آزادی حاصل کی جب کہ چین نے اپنی جانب سے، عالمی جنگ کے ذریعے یہ سفر طے کیا اور غیر ملکی تسلط کے چیلنجوں کا سامنا کیا۔ تاریخ کے یہ ایک جیسے واقعات اور پھر ایک جیسے مقاصد نے دونوں پڑوسی ممالک کو ذہنی طور پر ایک دوسرے کے قریب لانے میں کافی اہم رول ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ1954 میں ہندوستان اُن 19 ممالک میں سے ایک تھا جس نے آگے بڑھتے ہوئے عوامی جمہوریہٴ چین کو تسلیم کیا۔ یہی نہیں وہ چینی عوام کے جذبات کے تئیں بھی حساس تھا، اسی لیے اس نے شروع میں ہی ’ایک چین کی پالیسی‘ (One China Policy)اور اقوام متحدہ میں عوامی جمہوریہٴ چین کو تسلیم کیے جانے کی وکالت کی ۔ اس لحاظ سے 1954 میں ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا دورہٴ چین تاریخی اہمیت کا حامل تھا جس نے ہند – چین تعلقات کی بنیاد رکھی۔

ہند – چین تعلقات کی اسی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے آج ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا چین کا اپنا چار روزہ دورہ ایسے وقت میں کر رہے ہیں، جب دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات کے قیام کی 60 ویں برسی بڑے زور و شور سے منائی جارہی ہے۔ آج کا یہ دورہ 21 ویں صدی کی دنیا میں ہند – چین تعلقات کو مضبوط کرنے اور مستقبل کی راہیں ہموار کرنے کی ایک سعی ہے۔ اس دورہ کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ گذشتہ برس دونوں ممالک کے درمیان کچھ ایسے تنازعات کھڑے ہوگئے تھے جن کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہندوستان اور چین ایک بار پھر بڑی تیزی سے باہمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اروناچل پردیش میں چینی افواج کی بڑھتی ہوئی جارجیت اور چین کا یہ اصرار کہ اروناچل پردیش چین کا حصہ ہے، پھر وہاں کے اسمبلی انتخابات اور وزیر اعظم کا ریاست کا دورہ؛ جموں و کشمیر کے لداخ علاقہ میں چینی فوجیوں کے ذریعے کچھ پتھروں پر لفظ ’چین‘ لکھنا اور پھر وہاں کے چرواہوں کو وہاں سے بھاگنے کے لیے مجبور کرنا؛ کشمیریوں کو نئی دہلی میں چین کے قونصل خانہ کے ذریعے اسٹیپل کیا ہوا ویزا جاری کرنا؛ نیپال میں چین کی جانب سے ماوٴنوازوں کی حمایت کرنے کی خبروں کا آنا اور اس قسم کی اطلاعات ملنا کہ یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (اُلفا) کے چند باغی لیڈر اب چین میں اپنے ٹریننگ کیمپ کھولنے کی کوشش کر رہیں یہ وہ موضوعات تھے جنھوں نے پچھلے سال ہندوستان اور چین کے درمیان کافی تلخی پیدا کی۔ لیکن دونوں ممالک نے بے انتہا صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف باہمی جنگ کی طرف جانے سے گریز کیا بلکہ مختلف سطحوں پر باہمی مذاکرات کے ذریعے ان تمام مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کی۔ اس کے لیے دونوں ممالک کے اعلیٰ لیڈران کی تعریف کی جانی چاہیے۔

میرے خیال سے موسمیاتی تبدیلی پر کوپن ہیگن میں ہونے والی کانفرنس نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا سب سے سنہرا موقع فراہم کیا، جب دونوں نے اس موضوع پر ایک جیسے خیالات کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں ایک دوسرے کاتعاون کرنے کا اعلان کیا۔ اس مثبت پیش رفت کے نتیجے میں سرحدی تنازعات سے دونوں ممالک کی توجہ بہت حد ہٹی اور ایک ایسی فضا تیار ہوئی جب دونوں نے اعلیٰ سطحی دوروں پر زور دینا شروع کیا اور دوستانہ ماحول میں باہمی مسائل کو حل کرنے کا تہیہ کیا۔

آج یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہندوستان اور چین دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی اقتصادیات ہیں اور چند دن پہلے امریکی صدر اوبامہ کی ایک تقریر نے تو اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کردی ہے کہ اگر دونوں ممالک کی ترقی کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو آنے والے دنوں میں امریکہ بھی ان کے پیچھے چھوٹ جائے گا۔ ہندوستان اور چین نے اقتصادی ترقی کی اس تیز رفتار کو 1980 میں حاصل کیا تھا جس کی وجہ سے بین الاقوامی برادری کے درمیان انھیں ایک زوردار آواز حاصل ہوئی اور اب ان کی باتوں پر توجہ دی جانے لگی۔ اس کا سارا سہرا اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی اور چین کے ڈینگ ژیاوٴپنگ پر جاتا ہے جنھوں نے اپنے اپنے ملک میں جدیدکاری پر سب سے زیادہ زور دیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ژیاوٴپنگ نے جدید کاری کا جو دور چین میں شروع کیا تھا اس پر عمل کرنے میں ہندوستان کو مزید دس سال لگ گئے۔ اس لحاظ سے راجیو گاندھی کا 1988 کا چین کا دورہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے لیے سنگ میل ثابت ہوا کیوں کہ یہی وہ سال تھا جب دونوں ممالک کے رہنما لیڈروں نے گھریلو ترقی اور غیر ممالک میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ ہندوستان اور چین بہت حد تک آج بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

2006 میں ہندوستان اور چین کے درمیان باہمی تجارت کی سطح کافی کم تھی، لیکن اس سال یہ تجارت 60 بلین ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ یہ اس بات کی سب سے شاندار مثال ہے کہ دونوں ممالک کس تیزی سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ لیکن آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اپنی ترقیاتی کاموں کو بروئے کار لانے میں اپنے کئی چیلنج ہیں۔ ہندوستان اور چین جہاں ایک طرف اپنی گھریلو ترجیحات کو بہتر ڈھنگ سے انجام دے رہے ہیں، وہیں دوسری جانب عالمی منظرنامے میں انھیں کئی بڑی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں ممالک میں کل انسانیت کی ایک تہائی آبادی رہتی ہے اور یہ دونوں ان کی معیار زندگی کو بہتر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔لیکن دونوں کو تیزی سے ہوتی ہوئی شہرکاری، وسائل کے تصرف، غذائی اور توانائی تحفظ، مجموعی ترقی اور صلاحیتوں کے فروغ سے متعلق ایک جیسے بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ لہٰذا یہ کام اتنا آسان نہیں ہے، پھر بھی ایک دوسرے کے تعاون کے ذریعے دونوں ممالک ابھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر چین نے سڑک، بجلی، ریلوے، ٹیلی کمیونی کیشن جیسے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا ہے جب کہ ہندوستان میں یہ کام اب بھی جاری ہے۔ لہٰذا ان شعبوں میں ہندوستان کے ساتھ تعاون کرکے چین اپنا بہتر رول ادا کرسکتا ہے جس کا خاطر خواہ فائدہ دونوں ممالک کو ہوگا۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اس وقت چین کی بہت سی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے میں لگی ہوئی ہیں جس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے چین دورہ کے درمیان چینی کامگاروں کو ہندوستان میں کام کرنے کا پرمٹ دیے جانے کے موضوع پر بھی بات چیت ہونے والی ہے جو اس سلسلے میں کافی اہم پیش رفت ہوگی۔

لیکن چین کے ذریعے اسٹیپل ویزا جاری کرنے کا عمل ہندوستان کے لیے نہایت تشویش کا باعث ہے۔ کشمیر کے وہ لوگ جو چین کا دورہ کرنا چاہتے ہیں، انھیں ایک علاحدہ کاغذ پر ویزا جاری کرکے اسے ان کے پاسپورٹ کے ساتھ اسٹیپل کیا جاتا ہے۔ یہ کاغذات ہندوستان سے چین کا سیدھا سفر کرتے وقت بیکار ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ ہندوستانی حکام اسٹامپ شدہ ویزا کے بغیر کسی کو بھی ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ہندوستان چاہتا ہے کہ پاسپورٹ پر ویزا کے طور پر اسٹامپ لگایا جائے جس کی چین اب تک نفی کرتا رہا ہے۔ نئی دہلی کا یہ ماننا ہے کہ اسٹامپ شدہ پاسپورٹ کشمیر کے باشندوں کی ہندوستانی شہریت کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ چین ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا جس سے، بقول اس کے متنازع علاقہ پر ہندوستان کا دعویٰ ثابت ہوتا ہو۔ لیکن 6 اپریل کو ایک بڑی ہی خوش آئند خبر آئی ہے کہ چینی قونصل خانہ نے کشمیر کے ایک پروفیسر مفید احمد کو چین کے قونصل خانہ سے ایک اسٹامپ شدہ ویزا حاصل ہوا ہے نہ کہ اسٹیپل کیا ہوا ویزا۔ اس کے بعد 7 اپریل کو بیجنگ سے یہ خبر آئی کہ چین نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ کشمیریوں کو اسٹیپل کیا ہوا ویزا جاری کرنا اب بند کر دے گا اور اس سلسلے میں وہ بہت جلد ایک اعلان کرنے والا ہے۔ یہ دونوں ہی خبریں یہ ثابت کرتی ہیں کہ وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کا چین کا موجودہ دورہ نہایت کامیاب رہا ہے اور اس سے اس بات کے مزید امکانات پیدا ہوتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان اور چین کے تعلقات کافی مضبوط اور باہم معاون ہوں گے۔

******

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *