بھارت اور پاکستان کے درمیان نئی ویزا پالیسی پر دستخط ہوتےہی ان لاکھوں دھندلائی ہوئی آنکھوں میں چمک آگئی جو برسوں سے اپنے عزیزوں کو دیکھنے کی منتظر تھیں۔ وہ آنکھیں بارہا اپنے حکمرانوں سے سوال کرتی تھی کہ ان کا آخر قصور کیا ہے اور جواباً حکمران اپنی نگاہیں نیچی کر لیا کرتے تھے۔ وہ آخر کس طرح بتاتے کہ ان کا کوئی قصور نہ ہوتے ہوئے بھی انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔ اب کم از کم یہ حکمران عوام سے نظریں ملا سکیں گے اور کہہ سکیں گے کہ وہ اپنے ان عزیزوں سے مل سکتے ہیں جن کے بارے میں سوچ بیٹھے تھے کہ خدا جانے مرنے سے پہلے وہ ایک بار انہیں دیکھ پائیں گے یا نہیں۔ بھارت میں اس کی امید خارجہ سکریٹری کے اجلاس کے موقع پر ہی کی جا رہی تھی لیکن یہ معاہدہ اس وقت دستخط نہ کیا جا سکا اور پھر لوگوں کی آنکھوں میں مایوسی نظر آنے لگی تھی لیکن نئی ویزا پالیسی سے پھر ان آنکھوں نے خواب بننے شروع کر دیے ہیں۔
نئی ویزا پالیسی سے جہاں پینسٹھ سال سے زیادہ اور بارہ سال سے کم عمر کے عام شہریوں کو سرحد پار کے رشتہ داروں سے ملنے کا موقع ملے گا وہیں اب اس بات کی قید بھی نہیں رہے گی کہ آپ جس راستے سے جائیں گے آنا بھی اسی راستے سے ہوگا لیکن ابھی بھی واہگہ اٹاری بارڈر سے جانے والے اس سے مبرّا نہیں ہونگے۔ انھیں اب بھی اسی راستے سے واپسی کا سفر طے کرنا ہوگا۔ دوسری طرف اس فیصلے سے دونوں اطراف کی تاجر برادری کافی خوش ہے کیونکہ انکے لئے تجارت کی نہ صرف یہ کہ نئی راہیں ہموار ہوئی ہیں بلکہ ہند و پاک تجارت میں آسانیوں کی بھی کئی صورت نکالی گئی ہے۔ میڈیا کی خبروں کا اگر بغور جائزہ لیں تو عام انسان کی زندگی پر ان فیصلوں کے اثر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق بھارت کی فئر اینڈ لولی کریم اور اس طرح کی دیگر چیزیں پاکستان میں دگنی سے زیادہ قیمت پر فروخت ہوتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت یہ چیزیں پاکستان کو براہ راست برآمد نہیں کرتا بلکہ یہ چیزیں یا تو دبئی کے راستے وہاں پہونچتی ہیں یا پھر انہیں غیر قانونی طریقے سے اور دونوں ہی طریقوں سے اس کی قیمت پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین بجلی کے بحران سے گزر رہا ہے جبکہ بھارت کی کمپنیاں بجلی پیداکرنے کے لئے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں اس طرح دونوں کے مفاد تجارت سے ہی وابستہ ہیں۔
تجارت کے لئے راہیں ہموار ہوئیں ، ویزا کے حصول میں آنرمی اور سفر میں آسانی بھی ہو گئی تاہم جس چیز کا دونوں ممالک کو خیال رکھنا چاہئے وہ یہ کہ آئندہ کچھ ایسانہ ہو کہ یہ تمام کوششیں شدت پسندوں کے مذموم عزائم کا شکار ہو جائیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر بار اس طرح کی واردات وجود میں آئی ہے جس نے اس سمت میں کی جانے والی گزشتہ تمام کوششوں کو سبوتاژ کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر اٹل بہاری واجپئی کے پاکستان دورے کے فوراً بعد کارگل کا ہونا، بھارت کی پارلیمالیمنٹ پر حملہ یا پھر ممبئی حملہ یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ میرا مقصد ان تمام باتوں کا ذکر کر کے ان کاوشوں کی حوصلہ شکنی ہر گز نہیں ہے جو حالات کو بہتر بنانے کے لئے کی جا رہی ہیں نہ ہی عوام کو آئندہ کے لئے ناامید کرنا ہے تاہم ان نکات پر توجہ دے کر دونوں حکومتیں مستقبل میں پیش آنے والی پریشانیوں پر قابو پا سکتی ہیں۔