Change in the attitude of America towards Pakistan
گذشتہ چند دنوں سے پاکستان کے تئیں امریکہ کے رویے میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ امریکہ کے تقریباً تمام اہم لیڈروں کے ذریعے پاکستان کی اس بات کو لے کر پذیرائی کی جارہی ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سال کے اندر دہشت گردی مخالف جنگ میں پاکستان نے بہت اہم رول ادا کیا۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے حال ہی میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جو کچھ کیا ہے، وہ واقعی قابل تعریف ہے، خاص کر وہ جس طرح ان دہشت گرد گروہوں سے برسر پیکار ہے، جس طرح ان کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے اور جس طرح اسے اس بات کا احساس ہے کہ اسے ان انتہاپسند تنظیموں سے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔‘ یہ تمام چیزیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرنے میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے حالیہ امریکی دورے کے دوران کہا تھا کہ اوبامہ انتظامیہ دہشت گردی مخالف جنگ کو لے کر اب اسلام آباد کے خلاف کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ قریشی کے ساتھ ہوئی میٹنگ کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران بولتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ ’’ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں رہی ہیں اور آگے بھی یہ نااتفاقیاں رہیں گی جیسا کہ دوستوں کے درمیان ہوتا ہے، فیملی ممبران کے درمیان ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایک نیا دن ہے۔‘‘
یہ تمام باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ پاکستان کے تئیں امریکہ کی سوچ میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب اسے پاکستان پر کچھ کچھ اعتبار بھی ہونے لگا ہے۔ لہٰذا اس سنہرے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی قائدین کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ امریکہ سے حاصل ہونے والی مالی امداد کا استعمال ملک کی غریبی کو مٹانے کے لیے کیا جائے، اسکولوں اور خستہ حال سڑکوں کی تعمیر کی جائے، عوام کو بجلی فراہم کرنے کے انتظامات کیے جائیں، کیوں کہ اسی قسم کے ترقیاتی کاموں سے ملک کے عوام کا اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے کہ حکومت ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ’ اسلام آباد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مزید فوجی اور مالی امداد کا مطالبہ کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی مذاکرات میں پاکستانی عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے طریقوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔‘
دراصل امریکہ کی سب سے بڑی تشویش پاکستان میں امریکہ مخالف رجحانوں کو لے کر ہے جو بعد میں سنگین صورت حال اختیار کر سکتے ہیں۔ پاکستانی شہریوں کی سب سے بڑی ناراضگی امریکی ڈرون حملوں کو لے کر ہے جس میں دہشت گردوں کے نام پر اب تک بقول ان کے، سیکڑوں بے گناہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ امریکہ پاکستانی شہریوں کے درمیان اپنے خلاف زور پکڑتی اس ناراضگی کو لے کر بہت تشویش میں مبتلا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگوں کی اس ناراضگی کو جلد از جلد دور کیا جائے۔ اسی لیے وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے پاکستان کو پیسہ دینے کے لیے تیار ہے تاکہ وہاں پر تعمیراتی کاموں کو آگے بڑھایا جاسکے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان امریکہ سے ملنے والے ہر مالی تعاون کا استعمال اپنی فوج کو مضبوط بنانے کے لیے کرنا چاہتا ہے اور ہر بات کے لیے اپنی پڑوسی ہندوستان پر الزام لگاتا رہتا ہے۔ ہم سب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ دہشت گردی یا انتہاپسندی ان جگہوں پر زیادہ عروج پاتی ہے جہاں پر بنیادی ڈھانچوں کی کمی ہے اور لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ خاص کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگ اس وقت خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہیں جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ شہروں میں رہنے والے لوگ کس قدر خوش حال ہیں اور انھیں بجلی، پانی، بہترین سڑکیں، بہتر نظام تعلیم وغیرہ جیسی ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہیں جب کہ قبائلی علاقوں کے لوگ ان سہولیات سے کوسوں دور ہیں۔ سماج کا یہی غیر مساویانہ نظام انھیں انتہا پسندی کی طرف راغب کرتا ہے۔ لہٰذا اگر پاکستان سے انتہاپسندی کو ختم کرنا ہے تو وہاں کی حکومت کو سب سے پہلے ان بنیادی سہولیات کا انتظام کرنا ہوگا اور سماج کے ان حلقوں کو بنیادی حقوق دینا ہوگا جن سے وہ خود کو محروم پا رہے ہیں۔
افغانستان پر اگر نظر ڈالیں تو وہاں صدیوں سے چلی آرہی جنگ کی صورت حال کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔ اگر وہاں کے لوگ تعلیم یافتہ ہوتے اور انھیں انسانی ضروریات سے متعلق تمام سہولتیں دستیاب ہوتیں تو وہ کبھی بندوق کا سہارا نہیں لیتے۔ لیکن دنیا کی کسی بھی طاقت نے اس جانب توجہ نہیں کی اور ہمیشہ وہاں کے عوام کو بندوق کے زور پر زیر کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔ اب جب کہ وہاں پر ہندوستان جیسے چند افغان دوست ممالک بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے کام میں مصروف ہیں تو اس میں بھی پاکستان اپنی ٹانگ اڑانے میں لگا ہوا ہے اور افغانستان میں ہندوستان جیسے دیگر ممالک کی موجودگی کو اپنے خلاف ایک سازش سمجھ رہا ہے۔ پاکستان کو اپنی اس محدود ذہنیت سے باہر نکلنا ہوگا تبھی جاکر اس خطے میں امن و امان قائم کیا جاسکتا ہے۔
اس سمت میں پاکستان کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کا یہ بیان بھی کافی حوصلہ افزا ہے کہ انھوں نے امریکی قانون سازوں سے کہا ہے کہ ان کے ملک کی مسلح افواج اپنے ’فوجی ہارڈویئر‘ کے مطالبہ کو چھوڑنے کو تیار ہیں بشرطیکہ اسلام آباد کو یہ یقین دلایا جائے کہ توانائی اور اقتصادیات سے متعلق اس کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے گا۔ پاک – امریکہ اسٹریٹیجک مذاکرات کے دوران کیانی نے واشنگٹن میں واقعی پاکستانی سفارت خانہ میں نامہ نگاروں کو بریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنوبی وزیرستان اور وادیٔ سوات میں انتہاپسندوں کے خلاف فوج کے کامیاب آپریشن کے بعد پاکستان کے تئیں وہائٹ ہاؤس کے رویہ میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔
لیکن گذشتہ چند دنوں سے ہندوستان کے خلاف پاکستانی رویوں سے تو دور دور تک اس بات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ پاکستان واقعی امریکی مالی امداد کا استعمال ملک کے ترقیاتی کاموں میں کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ ابھی تازہ خبر ملی ہے کہ پاکستان نے ہندوستان سے ملحق اپنی مشرقی سرحد پر فوج کی تعداد میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور امریکہ کے سامنے پھر وہی پرانا راگ الاپنے لگا ہے کہ چونکہ اس کی مشرقی سرحد ہندوستان کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کے مد نظر پوری طرح محفوظ نہیں ہے اس لیے وہ افغانستان سے ملحق اپنی مغربی سرحد سے کچھ فوجی ٹکڑیوں کو ہٹاکر مشرقی سرحد پر تعینات کرنے کے لیے مجبور ہے، جس کا اثر براہِ راست شمال مغربی صوبہ سرحد میں القاعدہ، طالبان اور دیگر انتہاپسند تنظیموں کے خلاف اس کے فوجی آپریشن پر پڑے گا۔
اگر ہم 24 مارچ کو واشنگٹن میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان وزارتی سطح پر ہونے والی اپنی نوعیت کی پہلی اسٹریٹیجک بات چیت سے لے کر اب تک کی صورت حال پر مجموعی نظر ڈالیں تو یہ بات پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ان مذاکرات سے پہلے اسلام آباد کو اس بات کی پوری امید تھی کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہندوستان جیسا سول نیوکلیئر ڈیل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ لیکن اب چونکہ ناکامی اس کے ہاتھ لگی ہے، لہٰذا اب وہ اپنے پرانے رویہ پر واپس لوٹنے پر مجبور ہوا ہے۔ ہندوستان سے ملحق اپنی مشرقی سرحد پر فوج کی تعداد میں اضافہ کو اگر اس نظریہ سے دیکھا جائے تو بات پوری طرح واضح ہو جائے گی۔ ساتھ ہی اگر ہم اس دوران دہشت گردی سے متعلق پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے جاری کی جانے والی وارننگ پر نظر ڈالیں، جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھانگوی جیسی ممنوعہ دہشت گرد تنظیمیں امریکہ اور افغانستان کے سفیروں کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں تاکہ ان کی رہائی کے عوض پاکستان میں گرفتار کیے گئے اپنے چند لیڈروں کو رہا کرایا جاسکے، تو بھی یہ بات پوری طرح سمجھ میں آنے والی ہے کہ پاکستان نے اب امریکہ کو پریشان کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنے شروع کردیے ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ کے کسی بڑے افسر کا پاکستان میں قتل کردیا جائے یا پھر کسی امریکی سفیر کو اغوا کر لیا جائے اور پھر پاکستانی قائدین امریکہ کے سامنے اپنی یہ معذوری پیش کریں کہ وہ ان انتہاپسندوں کو کنٹرول کرنے کی پوری صلاحیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا امریکہ انھیں ڈرون ٹکنالوجی فراہم کرے۔
یہ تمام حالات ایک خطرناک مستقبل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کی تمام کوششوں کو ناکام کر سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ہی بین الاقوامی برادری کو بیوقوف بنایا ہے اور اب امریکہ
کے ساتھ سول نیوکلیئر ڈیل نہ ہونے کی وجہ سے اب وہ اپنی پرانی فطرت پر لوٹ آیا ہے جو امریکہ کے لیے اور افغانستان میں اس کی نام نہاد ’دہشت گردی مخالف جنگ‘ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔