نام کتاب        :       آثارِ بغاوت

مؤلف           :       حسین الحق

صفحات        :       182  قیمت   : 200 روپئے

سنہ اشاعت   :       2008

ناشر           :       خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ

مبصر         :       پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

”آثارِ بغاوت“ 1857 کی جنگ آزادی میں قاضی علی حق کی شرکت کا تذکرہ ہے۔ قاضی علی حق بلیا ضلع میں واقع آمڈاری کے رہنے والے تھے۔ بہار میں 1857-58 کی تحریک آزادی میں علمائے صادق پور، پٹنہ کے پیر علی، داروغہ وارث علی، ڈمری کے مولوی علی کریم اور جگدیش پور کے زمیندار بابو کنور سنگھ اور ان کے رفقا کی حب الوطنی تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ قاضی علی حق، بابو کنور سنگھ کے معاونین میں شامل تھے جن کی بے لوث خدمات اور حب الوطنی قابل قدر ہیں۔

قاضی علی حق کی 1857 کی تحریک آزادی میں شمولیت کی تفصیل اس کتاب سے ملتی ہے۔ اردو کے معروف فکشن نگار اور محقق پروفیسر حسین الحق 1857 کی تحریک آزادی کے اس جز کو جمع کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ حسین الحق کا تعلق قاضی علی حق کے خانوادے سے ہی ہے۔ 1857 کی تحریک آزادی میں قاضی علی حق نے بابو کنورسنگھ کے ساتھ جو کارنامے انجام دےے اس کے کاغذات اور دیگر ستاویزات تھے۔ وہ نسل در نسل حسین الحق تک پہنچے جسے انھوں نے کتابی صورت میں محفوظ کردیا ہے۔

آج 1857 کی تحریک آزادی کے ڈیڑھ سو سالہ جشن پر جو تحقیق ہمارے سامنے آرہی ہے ان سے ثابت ہوگیا ہے کہ انگریزوں کے خلاف 1857 کی جنگ بغاوت نہیں تحریک آزادی تھی۔ انگریزوں نے اس تاریخ کو خود سے یا اپنے حوارین سے لکھوا کر ہندوستان کی جو غلط تاریخ رقم کی تھی جدید تحقیق اب اسے رد کررہی ہے۔ کیوں کہ وہ صرف سکے کا ایک رخ تھی۔ ہندوستانیوں کا اس تحریک کے سلسلے میں نقطہ نظر کیا تھا، عوامی گیتوں یا اجتماعی یادداشت میں اس واقعے کے کیا تاثرات تھے، ان محبان وطن کی تلاش جو مستند تاریخوں میں جگہ نہیں پاسکے، ان کی چھان بین قومی اور ریاستوں کی آرکائز اور ان میں پڑے گردآلود کاغذات اور دستاویزوں سے کی جارہی ہے تاکہ حقائق ہر پہلو سے روشن ہوسکیں۔ حسین الحق کا یہ کام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حسین الحق اس کتاب کے ”پیش لفظ“ میں لکھتے ہیں:

”یہ کتاب شواہد، آثار قرائن، تذکروں اور یادوں پر مشتمل ایک ایسا خزانہ ہے جو مجھے بچپن سے بڑھاپے تک مہمیز کرتا رہا ہے، مسرور کرتا رہا ہے، مغموم کرتا رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ میں نے جب جب قاضی علی حق اور ان کے اس ایپی سوڈ کے بارے میں سوچا ہے، ہمیشہ ایک تھرل (Thrill) سا محسوس کیا ہے۔“

پروفیسر حسین الحق نے اس کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے اور ان پانچ ابواب کو بھی ضمنی ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پانچ ابواب کو ”فصل“ کا نام دیا ہے اور ضمنی ابواب کو ”باب“ سے نشان زد کیا ہے۔ کتاب کی ابتدا ڈائرکٹر خدا بخش لائبریری ڈاکٹر امتیاز احمد کے ”حرفِ آغاز“ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد محقق و مولف کا ”پیش لفظ“ ہے اور پھر قاضی  علی حق کی خدمات اور احوال و آثار کی تفصیل ہے۔

کتاب کے فصل کے آغاز میں حسین الحق نے جو حوالہ درج کیا ہے وہ قابل غور ہے:

”ایک مجاہد آزادی کے بارے میں پہلی مطبوعہ تحریر— ہندی ہفتہ وار ”اپنی دھرتی“ دھنباد سے شائع ہوا کرتا تھا۔ اس ہفتہ وار کے 9 مارچ 1974 کے شمارے میں ایک اطلاع درج ہے کہ:——

”جناب قاضی علی حق نے شہید وطن بابو ویر کنور سنگھ کے ساتھ 1857 کی سپاہیوں کی بغاوت میں حصہ لیا۔ ان کے بزرگ حضرت مخدوم اشرف بلیاوی تھے، جس سے اس خاندان کو تصوف ورثے میں ملا۔ یہ اترپردیش بلیا ضلع کے قصبہ آمڈاری کے رہنے والے تھے۔ سپاہیوں کی بغاوت میں حصہ لینے اور انگریزوں کے تنگ کرنے کے بعد ان کا خاندان سہسرام آکر بس گیا۔“ — آئندہ سطور میں تینتیس برس پہلے فراہم کی گئی اسی اطلاع کے حوالے سے گفتگو مقصود ہے۔“

اور اسی گفتگو کا حاصل یہ کتاب ”آثارِ بغاوت“ ہے۔ جس کا نام آثار انقلاب یا مجاہد آزادی جیسے ناموں سے موسوم کیا جاتا تو بہتر تھا۔ بہرحال اس کتاب میں جو باب قائم کےے گئے ہیں وہ اس طرح ہیں:

فصل اوّل ”بغاوت کے آثار“ میں چھ ابواب قائم کےے گئے ہیں۔ پہلے باب میں 1857 سے پہلے ملک کی انتقامی صورتِ حال، سیاسی اور تہذیبی حالات اور1857 کے اسباب سے بحث کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں 1857 میں باغی ہندوستان کا سب سے زیادہ باغی علاقہ اودھ، مشرقی یوپی اور بلیا ہوئے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ باب سوم میں بلیا اور آمڈاری میں جو جنگ ہوئی اس کی شہادتیں مطبوعہ اور قلمی دستاویزات کے حوالے سے جائزہ لیا ہے۔ چوتھے باب میں آمڈار کی ایک نمایاں شخصیت قاضی علی حق کے کردار کو مطبوعہ تحریروں، تحقیقی مقالات، خاندانی تذکروں اور دیگر دستاویزوں سے نمایاں کیا ہے۔ پانچویں باب 1857 کی جنگ آزادی میں قاضی علی حق کی شرکت پانچ عمومی شہادتوں سے واضح کیا ہے۔ چھٹے باب میں اختتامیہ اور بغاوت کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔ فصل دوم ”باغی کی کہانیاں“ اور فصل سوم ”باغی کے آثار“ ہیں۔ فصل سوم کی بحث قاضی علی حق کی سوانح ہے جس میں نام، مقام پیدائش، اسلاف، قد و قامت، مزاج و عادات، بیوی، بچے، رشتے داریاں، ان کے معاصرین، تعلیم و تربیت، اساتذہ، علمی و مذہبی مشاغل، آمڈاری سے سہسرام کی ہجرت، سہسرام کی زندگی اور زندگی کے آخری ایام کا احاطہ کیا گیا ہے۔ فصل چہارم ”باغی کو خراجِ عقیدت“ ہے۔ جس میں جناب مفتی ناصر علی ناصر آمڈاری، حضرت وحیدالحق وحید اصدقی بنارسی، حضرت مولانا محمد انوارالحق شہودی نازش سہسرامی، پروفیسر سید طفیل احمد قطبی الہ آبادی، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، جناب شاہ شہود الحق ثمر اورنگ آبادی جیسی شخصیات نے نظم و نثر میں قاضی علی حق کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور فصل پنجم ”اصل کاغذات کا عکس“ میں ان تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ کاغذات و دستاویزات کا عکس اور ان کے حوالے درج ہیں جن کی مدد سے یہ کتاب اعتبار اور تکمیل کو پہنچی ہے۔ کتاب کے آخر کے تین صفحات میں کتاب ہذا پر ڈاکٹر مختارالدین آرزو، ڈاکٹر عابدرضا بیدار، مولانا قاضی اطہر مبارک پوری، ڈاکٹر شاہ طلحہ رضوی برق اور ڈاکٹر عین تابش کے تاثرات اور کتاب کے ”مآخذات“ درج ہیں۔

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *