نام کتاب …….نالہ شب گیر
مصنف ………… مشرف عالم ذوقی
پبلشر …………. ذوقی پبلیکشن دہلی
صفحات ………. ٤٠٠
قیمت کتاب …… ٥٠٠
سن اشاعت ……٢٠١٥
مبصر: ڈاکٹر شیفتہ پروین ،جے این یو نئی د ہلی
دو لفظ ذوقی کے ناول نالۂ شب گیر پر
”ہر اس لڑکی کے نام جو باغی ہے اور اپنی شرطوںپر زندہ رہنا جانتی ہے ” نالہ شب گیر مشرف عالم ذوقی کا عورتوں کے مسایل پر ایک شاہکار ناول ہے .ذوقی صاحب ننے ناول کو سات حصّوں میں تقسیم کیا ہے .ناول کی کہانی کا آغاز عروج زوال اور اختتام انہی حصوں سے اگے بڑھتا نظر اتا ہے .سات حصّے کچھ اس طرح سے ہیں .دشت خوف ؛ آتش گل ؛ رنگ جنون؛ بحر ظلمات ؛ وادی اسرار ؛ بارش سنگ ؛سفر آخرشب ان تمام حصوں مے کہانی اپنے مقام تک پہنچتی ہے .ناول کے پہلے حصّے میں ذوقی عورت کے روپ اور کردار پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈالتے ہیں ،کہ ایک عورت ہونے کے باوجود میں میں اس عورت سے واقف نہیں تھی . .ذوقی عورت کی انفرادیت کو اپنی زبانی کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں —- “وہ ندی بھی ہے اور بہتی بھی ہے _کوئی سونامی لہر ، کوئی جوار بھا ٹا ،کوئی سیلاب شرارہ ،سیلاب جھومتا گا تا آبشار _ وہ سب کچھ ہے اور ہیں بھی نہیں _ وہ ایک کبھی نہ ختم ہو نے والی “پری کتھا ” ہے _وہ دنیا کی ساری غزلوں ‘نظموں سے زیادہ خوبصورت اور پر اسرار بلا ہے _جو آج کی ہر تلاش و تحقیق کے ساتھ نئی اور پر اسرار ہوتی چلی جاتی ہے _عورت _ کائنات میں بکھرے ہوے تمام اسرار سے زیادہ پر اسرار ‘خدا کی سب سے حسین تخلیق _یعنی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ عورت کوجان گیا ہے تو شاید اس سے زیادہ شیخی بگھا ر نے والا یا اس صدی میں اتنا بڑا جھو ٹا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا _ عورتیں جو کبھی گھریلو یا پالتو ہوا کرتی تھی _بزدل اور کمزور تھیں _اپنی پر اسرار فطرت یا مکڑی کے جالے میں سمٹی ، ‘کوکھ میں مرد کے لنطفے کی پرورش کرتیں ” صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ محض بچہ دینے والی ایک گائے بن کر رہ گئی تھیں _مگر شاید صدیوں میں مرد کے اندر دہکنے والا یہ نطفہ شانت ہوا تھا یا عورت کے لیۓ یہ مرد آہستہ آ ہستہ بانجھ یا سرد یا محض بچہ پیدا کرنے والی مشین کا محض ایک پرزہ بن کر رہ گیا تھا …………عورت اپنے اس احساس سے آ زاد ہونا چاہتی ہے…………شاید اس لئے اس ناول کا جنم ہوا ………..” ( ١٢-١٣ صفہ نمبر ) عورت کی صدیوں پرانی روایت پر ذوقی طنز کرتے ہوئے ،عورتوں کے حالات اسکی بےبسی پر اظہار خیال کرتے نظر آتے ہیں .صدیوں پرانی عورت کی تاریخ کو بھی دہراتے ہیں .ذوقی نے بڑی گہرایی سے عورت کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے .ناول میں ذوقی صا حب کے جملے کہیں کہیں بہت سخت بھی ہیں . جو مصنف کے ، مسائل کی طرف فکر و دانش کی دلیل دیتی ہیں ..ذوقی نے ناول کے کینواس پر ایک ایسی عورت کا کردار پیش کیا ، جو باغی ہے . ااپنی آزادی اور اپنے حقوق کی نمائندگی کرتی ہوئی ناہید ناز صدیوں پرانی روایت سے پرے سونامی کی طرح مرد ذات کی بنائی سیاست کو ختم کر دیتی ہے .وہ آزاد ہے .ٹھیک ویسے ہی جیسے اس معاشرے میں ایک مرد آزاد ہے .وہ کسی سے کمتر نہیں .اسلئے جب ناہید ماڈرن لغات پر کام کرتی ہے تو مرد کے ذریعہ دے گئے تمام الفاظ کو بدل دیتی ہے . .ذوقی نے عورت کے دو کردار پیش کیں ہیں –ایک صوفیہ جو کہ ڈری سہمی سی عورت ہے .شوہر کی فرمابردار-لیکن کمزور ہوتے ہوئے بھی صوفیہ کا کردار مجھے آج تک اردو کے کسی بھی ناول میں نظر نہیں آیا .ذوقی نے صوفیہ اور ناہید دونوں کے کرداروں کو لازوال بنا دیا ہے . صوفیہ کا کردارایک پراسرار لڑکی کا کردار ہے .جو خوف سے محبّت کرتی ہے .یہ خوف صدیوں کی بندش کا نتیجہ ہے .ایک ایسا وقت آتا ہے جب وہ اپنے شوہر کو فراموش کر دیتی ہے اور خوف کے سایے میں جینے لگتی ہے .، اس سے مختلف کردار ناہید کا ہے ،.جو اپنے شوہر یوسف کمال جکو نیم شب کے سنّاٹے میں گھر سے باہر نکالدیتی ہے .وہ مرد ذات کو ‘چوہا’ کہتی ہے اس کو اپنی پہچان کسی مرد ذات کی سرپرستی مین منظور نہیں .نالہ شب گیر میں ذوقی صا حب نے عورت کے حولے سے بہت سے ایسے سوالات اٹھاے ہیں جسکا تعلق عورت کی نفسیات ،اس کی ذہنی پریشاننیوں سے ہے …میں یہ بھی تسلیم کرتی ہوں کہ جس انداز میں ذوقی نفسیاتی سطح پر انسانی کرداروں کا جایزہ لیتے ہیں ،ایسے جایزے سب کے بس کا روگ نہیں ..یہ ہنر صرف ذوقی کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے . . عورت کو ہمارے معاشرے اور سماج نے ایک کمزورعورت بنا کر پیش کیا ہے — جب کہ ایسا نہیں ہے .ہمارا سائنس بھی یہ مانتا ہے کے عورت کا وجود اس کے پیدا ہونے کے بعد سے ہی مضبوطی اور فیصلہ لینے کی قوت کی طرف مایل ہونے لگتا ہے ..یعنی عورت کو مرد سے زیادہ طاقتور پایا گیا .پھر سوال ہے ،عورت کمزور کیسے ہو گی ؟ اسکا جواب مرد کی ذات میں ازل سے پوشیدہ ہے .یہ مرد ہے جو اسے کمزور کرتا رہا ہے .یہ مرد کی ذات ہے جو ازل سے عورت کی شناخت کو کچلتا آیا ہے ..اسلئے ناول کے آخر میں جب تفتیش کے دوران بلّی اور چوہے کی تصویر ملتی ہے ..تو انتقامی جذبہ پوری طرح سامنے آ جاتا ہے –بلّی نے چوہے کو کھایا اور آزاد ہو گی .اب اسے کسی مرد یا چوہے کی ضرورت نہیں . اس ترہ ناہید نیی صدی کے ١٥ برسوں کی ، اس عورت کی ترجمانی کرتی ہے ، جو اب پیدا ہو چکی ہے .یہ سمون د بوار کی کمزور عورت نہیں ہے .یہ جینا جان گی ہے . ” در اصل عورت اب عورت کے گندے ماضی سے لڑ رہی تھی _ عورت تاریخ پر چابک برسا رہی تھی_ وہ صدیوں میں سمٹے ان پہلوں کا جا ئزہ لے رہی تھی ،جب جسمانی طور پر اسے کمزور ٹھیرا تے ہوے مردانہ سماج میں اس پر ظلم و ستم ایک ضروری مذہبی فریضہ بن چکا تھا _ ا یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ در اصل بغاوت کی بیار زیادہ تر وہیں بہہ رہی تھی ،جہاں بندشیں تھیں_ دم گھٹنے والا معاشرہ تھا -شاید اسی لۓ تقسیم کے بعد حکومت کرنے والے علما اور ملا ؤں کے خلاف عورتوں نے بغیر خوف اپنی آواز بلند کرنا شروع کی- (١٨ -١٩ صفہ نمبر ) مشرف عالم ذوقی نے ناول کے ہر
حصّے کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے .ہر حصّہ تجسس پیدا کرتا ہے — .یہ اکیسویں صدی کا ناول ہے .یہاں آپ کو نے موضوعات ملینگے .ہر قدم تجسّس ..ہر ہر قدم ساسیں تیز …ہر صفحہ ایک نیا خیال …ناول ختم کرتے ہی مرد ذات مشہور ناول نگار کفکا کے میٹا مور فوسس کی طرح ایک کمزور چوہے میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے …اور عورت ناہید ناز کی طرح ایک غراتی ہی بلّی ،جو آزاد ہے ……
حصّے کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے .ہر حصّہ تجسس پیدا کرتا ہے — .یہ اکیسویں صدی کا ناول ہے .یہاں آپ کو نے موضوعات ملینگے .ہر قدم تجسّس ..ہر ہر قدم ساسیں تیز …ہر صفحہ ایک نیا خیال …ناول ختم کرتے ہی مرد ذات مشہور ناول نگار کفکا کے میٹا مور فوسس کی طرح ایک کمزور چوہے میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے …اور عورت ناہید ناز کی طرح ایک غراتی ہی بلّی ،جو آزاد ہے ……
ڈاکٹر شیفتہ پروین
JNU NEW DELHI
PHONE NO 9540733232
E MAIL shefta.jnu@gmail.com