اردو صحافت اور جنگ آزادی 1857
مصنف: معصوم مراد آبادی
خبر دار پبلیکیشن، نئی دہلی، 2008
صفحات 191
مبصر : پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
برصغیر میں اردو صحافت کی تاریخ تقریبا دو سو سال پرانی ہے اور اس موضوع پر اب تک متعدد کتابیں اردو اور انگریزی میں شائع ہوچکی ہیں، لیکن پہلی جنگ آزادی سنہ 1857 میں اردو اخبارات کے قائدانہ اور سرفروشانہ کردار کو بہت کم لکھا گیا ہے۔ 2007 میں اولین جنگ آزادی کا ڈیڑھ صد سالہ جشن نہایت تزک و احتشام کے ساتھ دار الحکومت دہلی اور دوسرے شہروں میں منایا گیا۔ پریس کلب آف انڈیا نئی دہلی نے ملک کے پہلے شہید صحافی مولوی محمد باقر کے 150 سالہ یوم شہادت پر ایک جلسہ کااہتمام ۲۰۰۷ کے ستمبر میں کیا تھا۔ اس تقریب کے محرک ہندی اور انگریزی کے نامور صحافی تھے۔ اردو اداروں کو ان کی یاد میں جلسہ منعقد کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ نوجوان اردو صحافی اور پندرہ روزہ خبردار، نئی دہلی کے مدیر معصوم مراد آبادی کو اس کوتاہی کی تلافی کے لئے کمر بستہ ہونے کے لئے آمادہ کیا۔ اس موضوع پر مواد تلاش کرنے اور ترتیب دینے میں انہیں نہایت جاں فشانی کرنی پڑی۔ اس کے لئے انہیں نیشنل آرکائیوز نئی دہلی سے استفادہ کرنے کے علاوہ علی گڑھ، حیدر آباد، دہلی، رامپور اور ملک کی دیگر معروف لائبریریوں سے مواد حاصل کرنے کے لئے جانا پڑا۔
سال بھر کی محنت شاقہ کے بعد اس موضوع پر اردو میں یہ پہلی کتاب شائع ہوئی ہے۔ مصنف نے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میں سب سے زیادہ قربانی اردو کے صحافیوں نے دی ہے۔کتاب کا مقدمہ نامور صحافی جناب گربچن چندن نے تحریر کیا ہے۔ انہوں نے اردو صحافت اور صحافیوں کے قائدانہ کردار پر روشنی ڈالی ہے اور اس کتاب کی نمایاں خوبیوں کو اجاگر کیا ہے۔ کتاب کا آغاز ”اردو صحافت اور سنہ 1857” کے عنوان سے ہوتا ہے جس میں مصنف نے پہلی جنگ آزادی کے اسباب کا تجزیہ کیا ہے جس نے پورے ملک میں انگریزی حکومت اور حکام کے خلاف نفرت پیدا کردی تھی اور عوام و خواص صحافی و ادیب غاصب حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے صف آرا ہوگئے۔ اس باب میں اخبارات اور سرکاری پالیسی، علما کی جانب سے اعلان جہاد، اخبارات کے لئے خبروں کے ذرائع اور جنگ آزادی کے خاتمہ کے بعد صحافت بالخصوص اردو صحافت کو پہنچنے والے صدمہ کا ذکر ہے۔
مصنف نے بغاوت برپا کرنے میں اردو اخبارات کی بے باکانہ تحریروں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
” بغاوت کی وہ لہر جو مرکز حریت میرٹھ سے شروع ہوکر دہلی پہنچی تھی اس کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں اردو صحافت نے کلیدی کردار کیا تھا۔ مولوی محمد باقر کے ‘دہلی اردو اخبار’ جمیل الدین ہجر کے ‘صادق الاخبار’ اور مرزا بیدار بخت کے اخبار ‘پیام آزادی’ نے وطن کو آزاد کرانے کے لئے عوام کے دلوں کے دلوں میں جذبہ آزادی پیدا کیا۔”
مصنف نے ایک باب میں ہند میں انگریزوں کی آمد اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام، فرنگی استعمار کے خلاف علما کی جد و جہد اور اعلان جہاد و فتوی، بغاوت کا آغاز، بہادر شاہ ظفر کے آخری ایام اور دہلی میں انگریزوں کی انتقامی کاروائی کا ذکر کیا ہے۔ اردو کے پہلے اخبار ‘جام جہاں نما’ کلکتہ اور اس کے مدیر سدا سکھ لال کی خدمات کا ذکر ہے۔ کتاب کا اصل باب ‘دہلی اردو اخبار’ ہے جس میں انہوں نے اس اخبار کے آغاز اشاعت سے لے کر اشاعت بند ہونے تک کے تما واقعات قلم بند کئے ہیں۔ اگلا باب مولوی باقر کی شہادت کے جاں فرسا واقعات پر مشتمل ہے۔ اس میں مولوی محمد باقر کے خاندان، تعلیم و تربیت، ملازمت، بہادر شاہ ظفر کے ساتھ تعلقات اور پھر ان کی صحافتی خدمات مذکور ہیں۔ ایک باب اس زمانے کے معروف اخبار ‘صادق الاخبار’ دہلی کا تذکرہ ہے جس نے سنہ 1857 کی جنگ آزادی کے واقعات کی خبر نگاری میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اس اخبار کا نمایاں وصف یہ ہے کہ اس نے ظالم و جابر حکومت کے جبر کی پروا کئے بغیر حکومت کے خلاف وہ فتوی شائع کیا تھا جس پر اس وقت کے 35 جید علما کرام کے دستخط اور مہریں ثبت تھیں۔ اس کے علاوہ کتاب میں بہادر شاہ ظفر کے مقدمہ میں شامل اس اخبار کے ان تراشوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر استغاثہ نے سنہ 1857 کی بغاوت کو برپا کرنے میں قلعہ معلی اور اردو صحافت کے درمیان سازش کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا بیدار بخت کے اخبار ‘پیام آزادی’ کا مفصل ذکر ہے جس کے خاص نگراں تحریک آزادی کے سپہ سالار عظیم اللہ خاں تھے۔ مصنف نے پہلی بار اس اخبار پر روشنی ڈالی ہے۔ انگریز اس اخبار سے اس قدر خوف زدہ تھے کہ جب انگریزوں نے واپس دہلی پر قبضہ پایا تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان سبھی لوگوں کو پھانسی پر لٹکادیا گیا جن کے گھروں سے پیام آزادی کا ایک شمارہ بھی برآمد ہوا۔ سب سے درد ناک کہانی ‘پیام آزادی’ کے ایڈیٹر مرزا بیدار بخت کی ہے۔ انگریزوں نے مرزا بیدار بخت کے جسم پر سور کی چربی مل کر پھانسی دے دی تھی۔ آج سے ڈیڑھ سو سال قبل یہ اخبار دیونا گری اور فارسی دونوں رسم الخط میں دہلی سے شائع ہوتا تھا اور ستمبر سنہ 1857 سے جھانسی سے اس کا مراٹھی اڈیشن بھی شائع ہونے لگا تھا۔ عظیم اللہ خان نے سنہ 1857 میں یوروپ میں اس کی اشاعت کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس اخبار کے اقتباسات کا ترجمہ دہلی میں مقیم لندن ٹائمز کا نمائندہ لندن بھیجا کرتا تھا۔ آج برطانوی عجائب خانہ میں بھی ‘پیام آزادی’ کا کوئی شمارہ محفوظ نہیں ہے جب کہ سنہ 1936 تک اس کے شمارے وہاں محفوظ تھے۔ اس کے علاوہ فارسی کے اخبار ‘سراج الاخبار’ اور لاہور سے شائع ہونے والے انگریز پرست اخبار ‘کوہ نور’ کا بھی ذکر ہے۔ دہلی کے علاوہ اس زمانے میں ملک کے دیگر شہروں سے بھی اردو کے اخبارات شائع ہوتے تھے جنہوں نے جنگ آزادی کی خبر نگاری میں نمایاں طور پر حصہ لیا تھا۔ ان میں ‘سحر سامری’ لکھنو، طلسم،لکھنو’ رسالہ ‘بغاوت ہند’آگرہ، عمدہ الاخبار’بریلی، چشمہ فیض’سیالکوٹ ”پنجاب” گلشن نو بہار’ کلکتہ کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے۔ آخر میں سنہ 1857 کے بعد انگریزی حکومت کے ذریعہ اخبارات پر لگائی گئی سنسر شپ کا ذکر ہے جس کی وجہ سے ملک میں دیسی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات کی اشاعت بہت کم ہوگئی تھی۔
کتاب کے فلیپ پر عصر حاضر کے معتبر نقاد اور بزرگ صحافی فضیل جعفری نے معصوم مرادآبادی اور ان کی اس کتاب کے متعلق اپنی رائے پیش کی ہے۔ ان کی یہ رائے اہمیت کی حامل ہے کہ ”معصوم مراد آبادی نے انیسویں صدی میں شائع ہونے والے اخبارات، رسائل اور پہلی جنگ آزادی کے متعلق لکھی جانے والی اہم کتابوں کے تفصیلی اور دقیق مطالعے کے بعد جو تجزیاتی نتائج اخذ کئے ہیں ان سے خود میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور مستقبل میں جو لوگ بھی اردو صحافت اور جنگ آزادی پر قلم اٹھائیں گے وہ معصوم مراد آبادی کی اس تصنیف کو نظر انداز کرکے اپنے موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کرسکیں گے۔ ایسی حوالہ جاتی نوعیت کی کتابیں شاذ و نادر یہ منظر عام پر آتی ہیں۔”
معصوم مراد آبادی قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے ایسے موضوع پر قلم اٹھایا جو ان کے پیشہ سے متعلق ہے اور جس پر کام کرنے سے دانش گاہوں کے ریسرچ اسکالرز بھی ہچکچاتے یہں۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ جو حضرات بھی اردو صحافت کی تاریخ کی پُرخار وادی میں قدم رکھیں گے ان کے لئے مصنف کی اس کتاب سے استفادہ ناگزیر ہوگا۔ یہ کتاب یقینا حوالہ جاتی نوعیت کی ہے اور تشنگان تحقیق اس سے اپنی تشنگی دور کرتے رہیں گے۔