Home / Literary Articles / Literature / اقبالؔ: ساجھی وراثت

اقبالؔ: ساجھی وراثت

پروفیسر خواجہ محمد اکرام ادلین
بڑی عجیب بات ہے کہ تاریخ کی کچھ غلطیوں کو انسان بار بار دہراتا ہے اور جتنی بار تاریخ کے ا ن صفحات (Pages)کو الٹتے پلٹتے ہیں اتنی ہی دفعہ کچھ نہ کچھ غلطیاں کربیٹھتے ہیں۔ہندستان کے ماتھے پر بدقسمتی کا ایسا ہی ایک ٹیکا لگا تھا جسے ہم آج اپنی نفرتوں اور کدورتوں سے اس میں مزید رنگ وروغن بھرتے رہتے ہیں۔ یقیناً ہندستان اور پاکستان کا بٹوارہ ایک تاریخی غلطی تھی دونوں ملکوں کے لوگ آج بھی اسے غلط مانتے ہیں مگر صرف غلط ماننا اپنی ذمہ داریوں سے چھٹکارا پالینا نہیں ہوسکتا۔ جس خوبصورت سرزمین کو چاک کرکے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور سرحد کے نام پر جو دیواریں کھڑی کی گئیں تھیں وہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ ان دیواروں کی تعداد اس قدر بڑھ رہی ہے کہ ہم خود کو کھوتے چلے جارہے ہیں بالکل اس طرح ؎
کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
گھرکہیں گُم ہوگیا دیوار و در کے درمیاں
آزادی کے وقت ہند و پاک کا بٹوارہ محض زمینوں کا بٹوارہ نظر آیا تھا مگر یہ تو دراصل ایک تہذیب ، ایک کلچر کو تقسیم کرنا تھا بالکل ویسے ہی جیسے پودے سے پھول کو الگ کردیا جائے۔ اس وقت بھی درد مند دل نے یہ بات کہی تھی ؎
میرے تیرے درمیاں اک ربط اب بھی ہے مگر
پھول جیسے ٹوٹ کر پودے سے ہو لٹکا ہوا
پودے سے لٹکے پھول کا انجام تو آپ کو معلوم ہے کہ اس کی خوشبو، اس کی رنگت ، اس کی نازکی صرف چند لمحوں کی مہمان بن کر رہ جاتی ہے۔ مگر ہندوپاک کا یہ بٹوارہ پھول اور پودے جیسا بھی نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو پھول مرجھا کر سوکھی پتیوں کی طرح مٹی میں مل چکا ہوتا اور پودے بھی اپنی جڑوں سے الگ ہوکر سڑگل چکے ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ بٹوارہ ہوا اور قصہ ختم مگر ایسا نہیں تھا یہ بٹوارہ تو ایسا تھا جیسے پھول سے خوشبو کو الگ کرنا۔آپ جانتے ہیں کہ نہ تو خوشبو کو پھول سے اور نہ پھول کو خوشبو سے جدا کرسکتے ہیں۔ ہندستان اور پاکستان بھلے ہی دو ملک بن گئے مگر ان کی تہذیبی جڑوں(Cultural Routs) کو کیسے الگ کرسکتے ہیں ۔ رشتہ داریاں تو پچاس برسوں میں تقریباً ختم ہورہی ہیں مگر کلچر اور تہذیب تو رشتہ داریوں کی طرح نہیں ہیں کہ انسان مرا اور رشتہ ختم۔ کلچر تو صدیوں میں بنتا ہے اور اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتیں اور جانے انجانے میں یہ تہذیبی شعور اور اس کی روایتیں آنے والی نسلوں تک کسی نہ کسی طرح پنپتی رہتی ہیں۔
ٍ ان تمام باتوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج بھی تہذیبی اعتبار سے ہندستان اور پاکستان میں مماثلتیں موجود ہیں اور رہیں گی۔ سوال یہ ہے کہ تہذیب بنتی کیسے ہے اور بناتا کون ہے۔ ہم سب جو یہاں بیٹھے ہیں یہ بھی ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ ہم جانے انجانے میں ایک تہذیب کو بنارہے ہیں ، ایک تہذیب کی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ گویا تہذیب ایک انسان سے نہیں پورے سماج سے بنتی ہے اس میں کسی ایک مذہب، ایک ذات اور برادری کا عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ مجموعی طور پر اس عمل میں تمام افراد شامل ہوتے ہیں۔ آج اگر ہندستانی تہذیب کی بات کریں تو ویداز،رامائن،مہابھارت، خانقاہ اورصوفیوںکا ایک لمبا سلسلہ خواجہ معین الدین چشتی سے نظام الدین اولیا ؒ تک، شیخ بہاء الدین سے بابا فرید اور مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری تک اور بدھا سے نانک تک۔۔۔آپ ان میں سے کس کو نکال کر ہندوستانی تہذیب کو پیش کرسکتے ہیں۔تُلسی، کبیر، ملک محمد جائسی، بھارتیندو، نظیر،ٹیگور،اقبال،سرسید، راجا رام ہوہن رائے ان میں سے کس کو آپ ہندستان کی تہذیبی وراثت کا حصہ نہیں مانتے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اقبالؔ کو یہ کہہ کر کہ وہ دو قومی نظریہ کے حامی تھے اور پاکستان کا تصور پیش کرنے والوں میں ان کا اہم نام ہے اس لیے ہم آسانی سے ہندستان کے اتنے بڑے شاعر کو پاکستان کے حوالے کردیتے ہیں ۔ اور انہیں ہندستانی تہذیب کی ساجھی وراثت سے اس طرح نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے دودھ سے پانی کو نکالنے کی کوشش کی جائے۔(دودھ سے مکھی کا محاورہ آپ نے سناہوگا مگر پانی کا نہیں لیکن میںنے جان بوجھ کر اس لفظ کا استعمال کیا ہے کہ جس طرح دودھ سے پانی نکالنے کی کوشش حماقت آمیز ہوگی اسی طرح تہذیب سے کسی ایسے حصے کو نکالنا بھی حماقت ہے) یہ سوال اپنی جگہ یقیناً اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان بنوانے میں یا اس کی حمایت کرنے میں اقبال کا کتنا رول رہا ہے ۔ اس سوال کا بہتر جواب آج کے مقررین دیں گے۔
قدرت کے بھی عجیب کرشمے ہیں۔ پاکستان بننے کے ۱۱ ؍سال پہلے ہی اقبال اس دنیا سے اٹھ گئے ۔ اگر بٹوارے کے وقت اقبال زندہ رہتے تو ہمارے لیے آسان ہوجاتا کہ وہ ہندستان کے تھے یا پاکستان کے۔ لیکن جب وہ اس دنیاسے رخصت ہوئے تو اس وقت ان کی قبر ہندستان میں تھی اور آج وہی قبر پاکستان میں ہے تو کیا صرف اس لیے ان کو پاکستان کا شاعر کہہ دیا جائے کہ ان کی قبر پاکستان میں ہے۔ اگر ہمارا نظریہ ایسا ہی ہے تو موہن جوداڑو اور ہڑپا کی تہذیب کا کیا کریں گے جس کا بیشتر حصہ آج پاکستان میں ہے۔ کیا اسے بھی ہم اپنی ہندستانی تہذیبی وراثت سے نکال سکتے ہیں ؟ شاید نہیں اور بالکل نہیں!!!
اس طرح دیکھیں تو بہت سے تضادات(Controvercies) نظر آئیں گے بات دراصل یہ ہے کہ جنھیں شاعر مشرق یعنی(Poet of the east) کہا جاتا ہے یہ کوئی معمولی انسان اور آسانی سے سمجھ میں آنے والے شاعر نہیں۔ ان کی ذات میں، ان کی شاعری میں ایک طرح کی پیچیدگی اور تہہ داری ہے جس کو سمجھنے کے لیے سرسری نہیں گزراجاسکتا۔ اقبالؔ کے یہاں وطن سے محبت کی شاعری بھی ہے اور انسانی عظمت کے نغمے بھی ہیں۔ ان کے یہاں عالمی برادری(Universal Brother Hood) کے گیت بھی ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ بھی ا ن کی شاعری میں موجود ہے۔ مذہبی تنظیموں نے جس طرح انھیں سختی سے اپنانے کی کوشش کی اور خوبصورت گُل بوٹوں سے سجاتے ہوئے ان کی شاعری کو چھاپا اس سے اقبال کو نقصان بھی ہوا۔انھوں نے اپنے طور پر اقبال کو سمجھنے کی کوشش کی اور شاعرِ ملت کے لقب سے نوازا لیکن دوسری طرف مارکسی نظریے کے حامل اقبال کے اس شعر کو پڑھ کر نہ صرف سر دھنتے ہیںبلکہ لوگوں کا لہو بھی اقبال کی زبان میں گرماتے ہیں:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امرا کے درو دیوار ہلادو
گرماؤ غریبوں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشک فرومایہ کوشاہیں سے لڑادو
سلطانی ٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہرخوشۂ گندم کو جلادو
اور وطن پرستی کا گیت گاتے ہوئے فخر سے سر اونچا کرکے یوں کہتے ہیں :
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیںاس کی یہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
اقبال اپنی نظم ہمالہ میںاس پربت سے یوں مخاطب ہوتے ہیں ؎
اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پرغازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا
یعنی جب انسان کے چہروں پر طرح طرح کے مکھوٹے نہیں تھے جس زمانے میں لوگ انسانیت کے پجاری تھے اس زمانے کی خواہش اقبال یوں بیان کرتے ہیں :
ہاں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

یہی اقبال جب ننھے منے بچوں کے ہونٹوں پر نغمے بکھیرتے ہیں تو امن و سکون کی خواہش اور وطن کی خدمت کے جذبے کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہوجائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
ہندستانی تہذیب کی بات کرتے ہوئے رام جی کی مداحی اس طرح کرتے ہیں :
لبریز ہے شرابِ حقیقت سے جامِ ہند
سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رامِ ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ِ ہند
اور گرونانک کے بارے میں کہتے ہیں:
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو ایک مرد ِ کامل نے جگایا خواب سے
ہندستانی تہذیب کی رنگا رنگی کے قائل اقبال اپنے وطن ہندستان کی آزادی کے متوالے بھی نظر آتے ہیں اور فرنگیوں کی سازشوں سے ہندستان اور ہندستانی تہذیب کے بکھرتے شیرازے سے فکر مند ہو کر اہلِ وطن کو عمل پر اس طرح اُکساتے بھی ہیں:
رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کرناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ہندستان کی قومی یکجہتی کی بات کرتے ہوئے’’نیا شوالہ‘‘ بنانے کی بات کرتے ہیں جس میں ذات پات اور مذہب کو بھلا کر ایسے نغمے گائے جائیں جو دلوں کو جوڑتے ہوں وہ ہندو مسلم دونوں سے کہتے ہیں ؎
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دلی کی بستی
آ، اک نیا شوالہ اس دیس میں بنادیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلس ملادیں
ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پجاریوں کو مئے پیت کی پلادیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
یہ اور اس طرح کے بہت سے اشعار اور نظمیں اقبال کی شاعری میں موجود ہیں جس میں عظیم ہندستان کی تعریف کی گئی ہے اور اس کو عظیم تر بنانے کے خواب دیکھے گئے ہیں ۔
٭٭٭

About admin

Check Also

ہری چند اختر کا نثری اور شعری اسلوب

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ہندستانی زبانوں کا مرکز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *