پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
امریکہ کا نام سنتے ہیں بیک وقت کئی سوالات اور کئی باتیں ذہن میں آتی ہیں ۔ یہ معاملہ صرف امریکہ کے ساتھ ہی ہے کیونکہ امریکہ آج کی دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے۔شاید اسی طاقت کے سبب کمزورممالک اس سے پریشان ہیں یا اگر پریشان نہیں ہیں تو اس سے خوفزدہ ضرور ہیں۔اسی سبب امریکہ آج کی دنیاکاواحد ایسا ملک ہے جس کے لیے سب سے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے ۔ ایک نہیں کئی سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے ۔ دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا کوئی ایسا اخبار نہیں جس میں کسی نہ کسی طور پر امریکہ کے حوالے سے کوئی خبر نہ ۔یہ اور اس طرح کی کئی ایسی باتیں ہیں جس کی وجہ سے امریکہ ہمیشہ چرچے میں رہتا ہے ۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اور مختلف رپورٹس کے حوالے سے بھی امریکہ اس لیے زیر بحث رہتا ہے کہ امریکہ کو ہی دہشت گردی سے آج سب سے زیادہ خطرہ ہے اسی لیے امریکہ اس کی مدافعت کے لیے ایسی اور اتنی احتیاطی تدابیر کرتا ہے کہ لوگوں کواس سے اکثر پریشانی اور بدگمانی ہوتی ہے۔خاص طور پر امریکہ جانے والے شوق میں امریکہ کا سفر ضرور کرتے ہیں لیکن ہر سفر کرنے والے کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ نجانے وہاں پہنچنے پر کس طرح کی تلاشی لی جائے گی اور کیا سلوک کیا جائے گا؟کیونکہ اس طرح کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں کہ ہندستان کے کئی وزیروں کو بھی سخت تلاشی سے گزرنا پڑا ہے ۔امریکہ میں لی جانے والی تلاشی کے حوالے سے بھی طرح طرح کی خبریں دنیا میں سر گرم رہتی ہیں اور خاص طور پر مسلمانوں کے حوالے سے تو یہ خبر
زیادہ ہی سرگرم رہتی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی سختی کی جاتی ہے ۔
انھیں تمام واہموں اور اندیشوں کے ساتھ ہم نے بھی امریکہ جانے کا ارداہ کیا
۔ 4 اپریل کی رات ہم ، ڈاکٹررضوان الرحمان اور ڈاکٹر اشتیاق جے این یو سے ڈیویس اینڈایلکنس کالج، ویسٹ ورجینیا کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ایک سمینار میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے۔ دل میں طرح طرح کے خیالات تھے اور ایک طرح کا خوف بھی تھا کہ نجانے کیا ہو؟کئی احباب نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ کا ویزا مل جانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ امریکہ میں داخل بھی ہوجائیں گے ۔ اصل مرحلہ تواس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ ائیر پورٹ پر اترتے ہیں ۔خیر ہم اپنے طور پر مطمئن تھے ۔ڈاکٹر رضوان میرے اچھے دوست ہیں ہر طرح کی باتیں اُن سے شئیر کرتا ہوں لیکن میں نے اپنے دل کے اندیشے کو ان سے کبھی ظاہر نہیں کیا۔ لیکن امریکہ جانے کا میرا جو تجربہ ہے وہ ان اندیشوں سے بالکل الگ ہے ۔البتہ جس بات نے سب سے زیادہ بد حظ کیا وہ خود دہلی ائیر پورٹ پر ائیر انڈیا کے اسٹاف کا برتاؤ تھا۔ ہم تینوں احباب وقت سے تین گھنٹہ پہلے ہی ائیر پورٹ پہنچ گئے لیکن حیرت بھی ہوئی اورہمیں غصہ بھی آرہا تھا کہ چیک اِن کے لیے بیک وقت کئی کاؤنٹر کھلے ہوئے تھے لیکن وہاں جس طرح کے نا تجربہ کار اسٹاف موجود تھے وہ ائیر انڈیا کے لیے باعث شرم ہے ۔ بلا مبالغہ ہم لوگ صرف ایک فیملی کے بعد تھے لیکن ہمارے اور ان کے چیک اِن میں ڈھائی گھنٹہ لگ گیا۔ ہم نے بار بار ان کے سنئیر سے شکایتیں بھی کیں لیکن لا حاصل ۔ خیر یہ مرحلہ طے ہوا اس کے بعد امیگریشن کے لیے لائین میں لگے ۔ یہاں ہم سے اتنی تفتیش ہوئی کہ کہاں جا رہے ہیں ؟ کیوں جارہے ہیں ؟ کہاں رُکیں گے ۔ کب واپس آئیں گے ؟ اس کے بعد ہمارا دعوت نامہ دیکھا گیا، یونیورسٹی کا آڈر دیکھا گیا اس کے بعد خاتون امیگریشن آفیسر نے با دل نخواستہ ہمارے پاسپورٹ پر مہر لگائی ۔ ان کاروائیوں میں اتنی دیر ہوئی کہ جہاز کی روانگی سے صرف پانچ منٹ پہلے ہم جہاز میں داخل ہوسکے ۔ لیکن ہماری طرح اور بھی کئی مسافر تھے، اس لیے پورے ایک گھنٹے تاخیر کے بعد تمام مسافر جہاز میں پہنچے تب جہاز روانہ ہوا۔دہلی میں ائیر انڈیا اور امیگریشن آفیسر کے اس سلوک اور برتاؤ سے ہم بہت بد حظ اور پریشان ہوئے ۔ اب رات کا ایک بج چکا تھا ۔ بھلا ہو ڈاکٹر اشتیاق کا کہ انھوں نے کئی رو ز پہلے ہی ہم تینوں کے لیے فرنٹ رَو کی سیٹیں ریزرو کر ا لی تھیں اس لیے ہم لوگ بہت آرام سے بیٹھ گئے اور اب ذہن پہ یہ بار تھا کہ پندرہ گھنٹے کا سفر کیسے کٹے گا۔لیکن ہم تین احباب تھے اس لیے باتوں باتوں میں سفر خوشگوار ہوتا جارہاتھا۔ ڈاکٹر اشیتاق سے اکثر خوش گپی بھی ہوتی رہی ۔یہ ہماری زندگی میں پہلی ایسی رات تھی جو بیس گھنٹے کی تھی۔تقریبا بارہ ہزار کیلو میٹر کی دوری اور پانچ ٹائم زون سے گزرنا تھا ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم لوگوں کو اس کا احسا س بھی نہیں ہوا۔ہندستان میں اس وقت شام کے پانچ بج رہے ہوں گے اور امریکہ میں اس وقت صبح کے ساڑھے سات بجے تھے ۔ پرواز میں یہ اعلان ہواکہ ہم اب جلد ہی نیو یارک کے جان کنیڈی ائیر پورٹ پرلینڈ کرنے والے ہیں ۔ ہمارا اشتیاق بڑھا سوچا نیو یارک کاطائرانہ منظر دیکھ لیں لیکن اس قدر بادل اور کہرا تھا کہ اوپر سے کچھ نظر نہیں آیا، کچھ ہی لمحوں کے بعد ہمارا جہازکینڈی ائیر پورٹ پر لینڈ کر گیا۔ کچھ ہی دیر میں ہم امیگریشن کاؤنٹر پر کھڑے تھے ۔ یہاں پہنچ کر دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں کہ اب نجانے یہاں کیا سلوک ہو؟ دل ہی دل میں ڈھیر ساری دعائیں پڑھیں ۔ لیکن جو ہم نے سُنا تھا سب غلط ثابت ہوا ۔امیگریشن کاؤنٹر پر کوئی سوال نہیں پوچھا گیااور نہ تلاشی کے لیے کسی مشین سے گزرنا پڑا۔ اس طرح ہم جلد ہی وہاں سے باہر نکلے چونکہ دو گھنٹے کے بعد واشنگٹن کے لیے فلائٹ لینا تھا اس لیے باہر نکلتے ہی خود کار( بغیر ڈرائیور) میٹرو پر سوار ہوئے اور ٹرمینل سیون پر پہنچے۔ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد یونائٹید کی فلائٹ پر سوار ہوئے ۔ جہاز دیکھ کر حیرت ہوئی کیونکہ یہ چھوٹا جہاز تھا جس میں صرف34 سیٹیں تھیں وہ بھی آدھی سے زیادہ خالی ۔ خراب موسم کے سبب ہچکولے کھاتے تقریباًایک گھنٹے میں ہم لوگ واشنگٹن ڈیلس ائیر پورٹ پہنچ گئے ۔ یہاں ڈاکٹر لکھن گوسائیں کی اہلیہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھیں ۔ ڈاکٹر لکھن گوسائیں جو جان ہاپکینس یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین لینگویج پروگرام میں ہندی اردو کے استاذ اور اور اس شعبے کے کارڈینٹر بھی ہیں ۔ انتہائی مخلص دوست ، جے این یو میں طالب علمی کے زمانے میں ہم ساتھ ساتھ تھے ۔بہت دنوں کے بعد ان سے ملنے کا اتفاق ہو رہا تھا۔ہم بہت خوش تھے لیکن ہم سے زیادہ وہ لوگ خوش تھے ۔ دہلی سے روانگی سے قبل ہی ان کے کئی فون آچکے تھے ، انھوں نے بار بار ہمیں امریکہ کے سفر کے حوالے سے اہم ہدایتیں دیں ۔ ان کی اہلیہ شیلی نے بھی کئی بار فون پر بات کی اور ہمارے منع کرنے کے بعد بھی وہ ائیر پورٹ آئیں ۔ان کے اس اخلاص کو دیکھ کر ہمیں بے حد خوشی ہوئی کیونکہ امریکہ میں کہاں کسی کے پاس اتنا وقت ہوتا اور اگر کسی کے پاس وقت بھی ہوتا ہے تو وہ امریکی مزاج میں ڈھل جاتا ہے ۔ لیکن ڈاکٹر لکھن اور ان کی اہلیہ تو بالکل نہیں بدلے تھے ، وہی مشرقی مزاج اور انداز، مہمانوں کے استقبال کا وہی والہانہ انداز۔یہ سب دیکھ کر ہمیں مشرقی تہذیب کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔دہلی سے نکلے ہوئے اب تک تیس گھنٹے سے بھی زائد ہوچکے تھے ۔ شیلی نے جلدی سے ہمارے لیے کھانا تیار کیا اتنے میں ڈاکٹر لکھن یونیورسٹی سے گھر آگئے ۔ ہم کچھ زیادہ ہی بھوکے تھے اس لیے کھانے پر ٹوٹ پڑے ۔کھانے سے فارغ ہوکر ہم گیسٹ روم میں آگئے ۔ ہم تھکے ہوئے تھے اس لیے سوچا جلد ہی سو جائیں گے مگر ڈاکٹر لکھن سنگھ نے جو دلچپ گف
تگو شروع کی تو محفل زعفران زار ہوگئی ۔ یونہی خوش گپیوں میں دوپہر سے شام ہوگئی ۔واشنگٹن میں یہ ہماری پہلی رات تھی سوچا کچھ چہل قدمی ہوجائے ۔ یہ طے کیاگیا کہ ہم رات میں وائٹ ہاؤس دیکھیں گے کیونکہ ہم لوگوں کا قیام اسی 16 اسٹریٹ پر تھا جس پر وائٹ ہاؤس واقع ہے اور قیام گاہ سے محض ایک دو کیلو میٹر کی دوری پر تھا ۔ لہذا ہم باہر آئے لیکن اس قدر سرد ہوائیں چل رہی تھیں کہ ہمت نہیں ہوئی اورواپس گیسٹ ہاؤس آگئے ۔ ہمیں بالکل بھوک نہیں لگی تھی لیکن شیلی اور ڈاکٹرلکھن کے اصرار نے مجبور کردیا ۔ڈاکٹر رضوان اور اور ڈاکٹر اشتیاق تو نیند کے غلبے میں تھے لیکن میں ڈاکٹر لکھن کی دلچسپ گفتگو میں محو تھا ۔ ان کی گفتگو سے امریکہ کے حالات ،امریکہ میں اردو ہندی تعلیم کے اداروں اور اساتذہ کے حوالے سے گفتگوہوتی رہی ۔ تقریبا دس سال سے لکھن امریکہ میں ہیں اس لیے امریکی تہذیب و تمدن پر ان کی گہری نظر ہے ساتھ ہی ساؤتھ ایشیا ئی ممالک کے احوال پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے ہیں ۔ان سے گفتگو کے بعد میری کئی غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔انھوں نے بتایا کہ امریکہ میں تقریبا ًتمام ممالک کی زبانیں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں خاص طور پر ان ممالک کی زبان و تہذیب پر گہری نظر ہے جو ممالک آج سیاسی اوراقتصادی اعتبار سے اہم ہیں ۔میں نے ائیر پورٹ پر ہونے والے سلوک اور تلاشی کے حوالے سے جاننا چاہا تو انھوں نے یہ بتایا کہ یہاں کی ایجنسیاں بہت باخبر ہوتی ہیں اس لیے ہر آنے والے کی انھیں پوری خبر رہتی ہے ، با وجود اس کے جن پر ذرا بھی شبہ ہوتا ہے انھیں مزید تفتیش کے لیے روک لیتے ہیں ۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی یہ پالیسی ہوتی ہے کہ ہر دو تین آدمیوں کے بعد کسی ایک کو وہ ضرور روک لیتے ہیں ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہاں آنے والے نفسیاتی دباؤ میں رہیں۔ ان کی یہ بات ہمیں اس لیے بھی درست لگی کہ ہم لوگوں نے خود دیکھا کہ ہم سے آگے لائن میں کھڑے دو تین لوگوں کو کسی الگ روم میں لے جایا گیا اور تفتیش کی گئی ۔اس کے علاوہ جن پر انھیں کوئی شک ہوتا ہے یا کسی کے حوالے سے کوئی خبر رہتی ہے تو ملتے جلتے نام والے لوگ بھی تفتیش کے عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔امریکہ سے واپسی پر نیو یارک ائیر پورٹ پر تلاشی کا ایک عبرتناک منظر دیکھنے کو ملا ، ایک نوجوان کی سر عام جس طرح تلاشی لی جارہی تھی وہ بے عزتی سے کم نہیں تھی۔بار بار طرح طرح سے تلاشی لی گئی ۔حالانکہ اس کے پاس سے کچھ بر آمد نہیں ہوا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کسی اطلاع کی بنیاد پر اس کی یہ درگت ہوئی ۔حالانکہ ویزا دیتے وقت بھی امریکی ایمبیسیاں ہر طرح کا احتیاط برتتی ہیں اکثر لوگوں کو مہینوں کے بعد ویز ملتا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے میرے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔ مجھے دوسرے دن ہی دس سال کا ویزا مل گیا ۔میری اور ڈاکٹرلکھن کی گفتگو طویل ہوتی جارہی تھی ، میرے دوست ڈاکٹر رضوان اور ڈاکٹر اشتیاق صوفے پر ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے ۔ ہمیں اس کا خیال بھی نہیں رہا اور ہم محو گفتگوتھے بات یہ تھی کہ ہند وپاک اور کئی اہم ممالک کے سفید پوشوں کی بات ہورہی تھی ۔یہ مذہبی اور سیاسی سفید پوشوں کی کہانی تھی کہ کس طرح وہ اپنے اپنے ملکوں کا سودا یہاں آکر کرتے ہیں اور اپنے ملک میں واپس جاکر سب سے بڑے محب وطن کہلاتے ہیں ۔ یہ میری حیرت ہی تھی کہ میری آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی کیونکہ وہ بڑے صحافی اور سیاسی لیڈران جو اپنے اصولوں کے لیے مشہور ہیں وہ کس طرح چند ڈالر کے عوض سب کچھ بیچ ڈالتے ہیں ۔اس گفتگو سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعی زمانہ بدل گیا ہے ، معیار اور اصول اور ملک و قوم کے تئیں وفادار ی اب دیکھاوا ہے کیونکہ یہ وفادرای کا ٹھیکہ چلانے والے یہاں آکر اسی کا سوادا کرتے ہیں ۔ہماری باتیں ختم نہ ہوتیں اگر ہم اپنے احباب کی جانب نہ دیکھتے ، وہ تکلف میں کبھی آنکھ کھولتے اور بند کرلیتے ۔لہٰذا ہم نے آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔
دوسرے دن شیلی کے ہمراہ ہم لوگ واشنگٹن ڈی سی کی سیر پر نکلے کیونکہ ڈاکٹر لکھن کو کلاس کے لیے یونیورسٹی جانا تھا اس لیے وہ دوپہر بعد ہم سے کسی خاص مقام پر ملنے کا وعدہ کر کے چلے گئے ۔دنیا بھر امریکہ کا وائٹ ہاؤس اپنے رعب و دبدبے کی وجہ سے مشہور ہے ۔ اس لیے ہم نے سب سے پہلے وائٹ ہاؤس ہی دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔ جب ہم وائٹ ہاؤس کے قریب پہنچے تو اتفاق سے صدر امریکہ کا قافلہ گزررہا تھا ۔ قافلے کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ یہ براک اوبامہ ہیں کہ جب ہندستان گئے تو ہر طرف ان کی سیکیورٹی کا ہی چرچہ تھا اور سیکیورٹی کے نام کئی ہوٹل ، کئی شاہراہ اور کئی مارکیٹ بند کرا دئے گئے ۔لیکن یہاں تو سیکیورٹی کا وہ تام جھام نہیں تھا ، چند پولیس کی گاڑیاں آگے پیچھے تھیں اور لوگ معولی بریکیڈ کے پاس کھڑے تھے ۔ ہم بھی وہیں یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور قافلہ گزرتے ہی بریکیڈ ہٹادئے گئے ۔ ہم وائٹ ہاؤس کے بالکل نزدیک کھڑے اس ہاؤس کو دیکھ رہے تھے جس کا نقشہ ہمارے ذہنوں میں کچھ اور تھا ، ہم نے سوچا تھا وائٹ ہاؤس کافی بڑا ہوگا ۔ لیکن ہمیں مایوسی ہوئی کہ ساری دنیا پر حکمرانی کرنے والے کا قلعہ اتنا چھوٹا کہ ہمارے راشٹر پتی بھون کا ایک کونہ لگ رہا تھالیکن میڈیا میں جس طرح اس کو دیکھا یا جاتا رہا ہے اس سے ہمارے ذہن یہ تصور تھا کہ کافی بڑا ہوگا ۔ لیکن اسے دیکھ کر یہ بھی اندازہ ہوا کہ میڈیا کسی چیز کو کس طرح چھوٹا یا بڑا کر کے دکھا سکتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی ریاستہائے متحدہ امریکہ کا دارالحکومت ہے۔ اس کے نام کے آگے ڈی سی کا مطلب’’ڈسٹرکٹ آف کولمبیا‘‘ ہے جو وفاقی ضلع ہے ۔واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس، پینٹاگن، ورلڈ بینک ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس کے علاوہ مختلف ملکی و بین الاقوامی اداروں کے صدر دفاتر واشنگٹن میں ہیں۔اسی سبب یہ شہر بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔اس کے علاوہ نیچرل سائینس میوزیم ، آرٹ گیلری ،نیشنل میوزیم آف امریکن انڈین ، نیشنل ائیر ایند اسپیس میوزیم قابل دید ہیں۔ان کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ان کے پاس تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے کوئی قابل دید پرانی عمارتیں تو نہیں ہیں لیکن جدید انکشافات اور جدید تکنالوجی کو جس سلیقے سے انھوں نے میوزیم میں رکھا کہ تمام سیاحوں کے لیے باعث کشش ہے۔ ان کو دیکھ کراپنے ملک کی سیر گاہوں کا خیال آیا کہ ہمارے پاس اتناکچھ ہے مگر سیاحوں کو اٹریکٹ کرنے کا سلیقہ ابھی تک ہمیں نہیں آیا۔ خیر ہم نے نیشنل پارک میں واقع ان تمام مقامات کی جلدی جلدی سیر ، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا کیونکہ اگر ہم لوگ صرف نیچرل سائنس میوزیم ہی قاعدے سے دیکھتے تو اس کے لیے کم از کم پورا ایک دن چاہیے تھا۔ لیکن ہمیں تو ایک ہی دن میں سب دیکھنا تھا۔تقریباًتین بجے ڈاکٹر لکھن گوسائیں کا فون آگیا ۔اس درمیان طفیل احمد صاحب کا کئی بار فون آچکا تھا ، وہ ہمار انتظار کر رہے تھے۔ ڈاکٹر لکھن کے ساتھ ہم لوگ ساؤتھ ایشیا اسٹڈیز پرجیکٹ کے ڈائریکٹر طفیل احمد صاحب سے ملنے ان کی آفیس پہنچے ۔ ان کے ساتھ ایک پنجابی ریسٹورینٹ میں دو پہر کا کھانا کھایا۔ یہ جے این یو میں ہمارے ساتھ تھے اس کے بعد وہ بی بی سی سے منسلک ہوگئے اور اب وہ واشنگٹن میں قیام پذیر ہیں۔ میڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے متعلق انھوں نے تفصیلات بتائیں ۔ یہ انسٹی ٹیوٹ بنیادی طور پر میڈل ایسٹ کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی مانیٹرنگ کرتا ہے۔ خاص طور پر ان موضوعات کا باریکی سے جائزہ لیتے ہیں جن کا تعلق دہشت گردی سے ہوتا ہے ۔ ان تفصیلات کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ کیوں اورکس طرح امریکہ دنیا کے حالات سے باخبر رہتا ہے اور اس کے لیے وہ کتنی خطیر رقم خرچ کرتا ہے ۔امریکہ دنیا سے با خبر رہنے کے لیے ہر طرح کی ترکیبیں اختیار کرتا ہے ۔اس کے سپر پاؤر ہونے میں یہ عنصر بھی بڑ ا ممد و معاون ہے۔اس کے بعد ہم لوگ جان ہاپکنس یونیورسٹی گئے اور دیر تک اردو ہندی تعلیم کے نصاب اور طریقہ ٔ تعلیم پر بات چیت کرتے رہے۔کچھ طلبہ و طالبات سے بھی ملاقات ہوئی ان سے بھی تبادلہ خیالات کیا ۔ ان سے مل کر ان کی تعلیم کی سنجیدگی اور عزائم کو سن کر حیرت واستعجاب بھی ہوا کہ یہ لوگ کس دور اندیشی کے ساتھ اپنے کیرئیر کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے کتنی جانفشانی کرتے ہیں ۔ یہی وہ خاص باتیں ہیں جس کے سبب امریکہ دنیا میں اپنی برتری ثابت کرنے میں کامیاب ہے۔
شام ہوتے ہی ہم لوگ ڈاکٹر لکھن صاحب کی ہمرہی میں گیسٹ ہاؤس آگئے اور صبح کو کلارکس برگ جانے کے لیے واشنگٹن ایئر پورٹ پہنچے۔ایلکنس، ویسٹ ورجینیا ، جہاں کانفرنس ہوئی یہ علاقہ واشنگٹن سے کافی دور ہے ۔ تقریباٍ ًدس گھنٹے کی ڈرائیو ہے ۔ امریکہ میں دوری کا پیمانہ یہ ہے کہ کتنے گھنٹے کی ڈرائیو ہے ۔وہاں کی سڑکیں کشادہ اور ٹریفک کی الجھنوں سے دور ہیں ۔گاڑیاں 70 میل کی رفتار سے چلتی ہیں۔ لیکن ہمارے لیے حیرت یہ تھی کہ سوائے ہوائی جہاز کے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں تھی ۔ لہٰذا ہم نے بھی ہوائی جہاز سے ویسٹ ورجینا جانے کے لیے کلارکس برگ تک کا سفر کیا۔ اس بار واشنگٹن ائیر پورٹ پر سیکورٹی سے گزرتے ہوئے اس مشین سے بھی گزرنا پڑا جس کے بارے میں دنیا کے تمام اخبارات میں ہنگامہ بپا ہوا تھا۔ لیکن ہم نے غور سے دیکھا کہ کیا اس مشین سے صرف غیر ملکی گزر رہے ہیں یا ا مریکی شہری بھی ۔ لیکن بلا امتیاز یہاں سے سبھی کو گزرنا تھا۔ جوتے بھی کھولنے پڑے ۔ اس مرحلے سے گزر کر ہم ایئرکرافٹ پر سوار ہوئے ۔اس روٹ پر چلنے والی زیادہ تر ہوائی جہاز چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ ۳۴ یا ۵۰لوگوں کے لیے سیٹیں ہوتی ہیں ۔اسی طرح کے جہاز پر سوار ہوکر ہم نئے تجربات سے گزرے۔ ائیر کرافٹ میں صرف گیارہ لوگ تھے ۔کلارکس برگ سے پہلے مارگن ٹاؤن میں ایک اسٹاپج تھا، یہاں تین لوگ اترے اور ایک خاتون سوار ہوئیں ۔ہمیں اس کا اندازہ نہیں تھا کہ مارگن ٹاؤن سے کلارکس برگ کی دوری کتنی ہے؟۔جہاز کے پرواز بھرتے ہی پہاڑی سلسلے شروع ہوئے ۔ خراب موسم کے سبب جہاز کچھ زیادہ ہی ہچکولے کھارہا تھا اور ہماری روح فنا ہورہی تھی کبھی ہم ڈاکٹر رضوان کی جانب دیکھ رہے تھے تو کبھی وہ ہماری جانب اور ہم نے بڑے زوروں سے اپنی اپنی سیٹیں پکڑ رکھی تھیں ۔میں نے حیرت سے ڈاکٹر رضوان سے پوچھا بھائی یہ جہاز اونچائی پر کیوں نہیں جارہا ہے۔رضوان صاحب نے خوف کے لہجے میں کہا کہ کہیں کریش تو نہیں کرے گا؟ ہم بے حد ڈرے ہوئے تھے کیونکہ جہاز کو پرواز بھرے دس منٹ ہو چکے تھے اور یہ اونچائی کی جانب بڑھنے کے بجائے ہچکولے کھاتے پہاڑیوں سے گزر رہا تھا ۔اسی اثنا میں اچانک نیچے کو ڈرتے ہوئے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کلارکس برگ آگیا ۔ صرف دس منٹ کی فلائٹ یعنی دہلی سے نوئیڈا کی دوری تھی۔اسی لیے مارگن ٹاؤن کے بعد یہ اونچائی پر نہیں گیا۔خیر اللہ کا شکر تھا کہ ہم کلارکس برگ پہنچ گئے۔ یہ ایک چھوٹا ائیر پورٹ تھا۔ وہاں سے ایلکنس تک جانے کے لیے کوئی پبلک سواری نہیں تھی ۔ ہمارے لیے ایک گاڑی بھیجی گئی تھی جس سے ہم ڈیوس اینڈ ایلکنس کالج پہنچے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اگر ہمارے لیے گاڑی نہیں بھیجی گئی ہوتی تو ہمارا پہنچنا ناممکن تھا۔معلوم یہ ہوا کہ دوسرے شہروں سے آنے والے لوگ ائیر پورٹ پر اتر کر کرائے کی کار لے کر جاتے ہیں ۔ یہاں ہر جگہ آسانی سے پچاس ڈالر یومیہ کے حساب سے کار مل جاتی ہے ۔ لیکن ہمارے لیے مشکل یہ تھی کہ ہمارے پاس انٹرنیشنل لائسنس بھی نہیں تھا اور نہ رائٹ ہینڈ ڈرائیونگ کا تجربہ اور نہ ہی اس پہاڑی سلسلے کے راستے سے واقفیت تھی ۔ اس انداز کو دیکھ کر سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہاں کے تمام لوگوں کے پاس خود کی گاڑیاں ہوتی ہیں اسی لیے کسی پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت نہیں ۔ لیکن مشینی دور کا یہ انداز بھی بڑ ا اٹ پٹا لگا کہ ہم جیسے لوگ اگر یوں ہی بے یارو مددگار پہنچ جائیں تو کیا ہو؟ یہ شہر اپنی قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ روایتی اقدار کے لیے جانا جاتا ہے ۔ لوگ بڑے نرم مزاج
اور تحمل کے حامل ہیں ۔ اس شہر کی آبادی تقریباًآٹھ ہزار ہے۔تین دن کے قیام میں آس پاس جانے کا اتفاق ہوا مگر ایک حیرت مجھے اور ڈاکٹر رضوان کو ہمیشہ رہی کہ کسی گاڑی کے ہارن کی آواز نہیں سنی ۔ لوگ انتہائی صبر وسکون سے گاڑی چلاتے ہیں اگرآپ کسی زیبرا کراسنگ پر کھڑے ہیں تو لوگ گاڑیاں روک دیتے ہیں ۔یہی حال نیو یارک اور واشنگٹن میں دیکھا۔لیکن نیو یارک اور واشنگٹن کی زندگی اس سے مختلف ان معنوں میں تھی کہ یہ زیادہ ترقی یافتہ شہر ہیں ، یہاں دنیا کی ساری سہولتیں موجود ہیں لیکن یہ تمام سہولتیں مشینوں پر منحصر ہیں ۔ تقریباًتمام چیزیں خود کار ہیں ۔ میٹرو ، یا اسکائی ٹرین یا بس کسی بھی جگہ کام کرنے والے لوگوں کی جگہ مشینیں موجود ہیں ۔ائیر پورٹ کے ٹرمینل پر چلنے والی میٹرو اور اسکائی ٹرینیں بغیر ڈرائیور کے ہیں جو الیکٹرونک کمانڈ سے چلتی ہیں۔ گھر اور ہوٹل کے اندرکی تمام آشائشیں بھی مشینی ہی ہیں ۔اگریہاں ایک دن کے لیے بجلی چلی جائے تو شاید یہاں کی زندگی ہی رک جائے ۔اسی انداز زندگی نے لوگوں کو مشینی بنا دیا ہے اور سوچنے سمجھنے کا انداز بھی مشینی ہوگیا ہے ۔ لوگوں کو انسان سے زیادہ مشین پر ہی بھروسہ بھی ہے اور یہی ان کا سہارا بھی ہے ۔اسی لیے دنیا کے تمام برقی اور معدنی ذرائع کا استعمال کرنے کے اعتبار سے امریکہ اور یوروپ کے کئی ممالک پہلے نمبر پہ ہیں جوایک اعتبار سے دنیا کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی بھی ہے ۔
اسی مشینی زندگی نے لوگوں کو انسان کی طاقت و قوت کو سمجھنے کی کوشش بھی چھین لی ہے ۔ ان کے اس رویے نے انسانی زندگی میں ایک ایسا خلا پیدا کیا ہے کہ اب کچھ لوگ پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھنے لگے ہیں۔یہ سیمنار بھی اسی فکری سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ ایلکنس ،ویسٹ ورجینیا ، امریکہ میں منعقدہ ایک کانفرنس(7 تا 10اپریل2011 )میں ہندستان سے ہم، ڈاکٹر رضوان اورڈاکٹر اشتیاق تین لوگ شریک ہوئے ، امریکہ کے مختلف اسٹیس کے علاوہ کئی ممالک کے دانشور وں نے بھی شرکت کی ۔ اس کانفرنس کا بنیادی موضوع’’مشرق و مغرب میں اخلاقیات ، روحانیت اور دانشوری کی روایت‘‘تھا۔ مختلف احباب نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا اپنے مقالے میں احاطہ کیا۔کسی نے سائنس کی موجودہ ترقی کے دور میں اخلاقیات کے گم ہوتے مسائل پر بات کی تو کسی نے روحانیت کے حوالے سے مشرق و مغرب کی روایتوں کا جائزہ لیتے ہوئے انسان شناسی اور انسانی دوستی کا حوالہ پیش کیا۔تین دن کے اس کانفرنس میں
مجموعی طور پر انسانی اقدار کی تلاش وجستجو اور عہد حاضرکے ثقافتی اور تہذیبی انتشار اور اس کے نتیجے میں پیداہونے والے مسائل پر گفتگو ہوئی ۔اس کانفرنس کی تفصیل سے قبل اگر امریکی زندگی کے چند پہلوؤں پر غور کر لیاجائے تو اس کے اغراض و مقاصد کوآسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔اس سیمنار میں جس طرح کے مقالے پڑھے گئے اس سے حیرت ہوئی کہ زیادہ تر لوگوں نے بر صغیر ایشیا اور بالخصوص ہندستانی فکر و فلسفے کو اپنا موضوع بنایا ۔ خاص طور پر صوفیا ئے کرام کی زندگی ان کے اصولوں اور ہندستانی موسیقی کے علاوہ گوتم بودھ اور ہندو میتھالوجی پر گفتگو کی ۔ اندازہ یہ ہوا کہ لوگ اب تہذیبی زندگی کی تلاش میں مشرق کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے امریکی اساتذہ کے علاوہ وہ ہندستانی اساتذہ بھی شامل تھے جن کا تعلق ہندستان سے تھا، اگرچہ اب وہ امریکی شہری ہیں ۔ان سے ذاتی گفتگو کے دوران یہ احساس ہوا کہ لوگ اس مشینی زندگی سے پریشان سے ہورہے ہیں اور بہتر زندگی کی تلاش میں صدیوں پرانی تہذیب کے حامل ممالک کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کا مطالعہ بڑے انہماک سے کر رہے ہیں ۔لیکن افسو س یہ ہواکہ کہ ان کے پاس ریفرنس کے لیے جو کتابیں ترجمے کی شکل میں موجود ہیں وہ ناقص اور نامکمل ہیں ۔مجھے اس ضرورت کا شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے ملک کی تہذیب و تمدن پر بہتر اور مستند کتابوں کا ترجمہ اور اس کی اشاعت مغربی ممالک کی موجودہ ضرورت بنتی
جارہی ہے اس لیے ہمارے ملک کے دانشور اگر اس جانب توجہ دیں تو ہماری تہذیب و ثقافت کو لوگ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔کیونکہ کئی مقالوں میں جو حوالے دیئے گئے تھے وہ یا تو غلط تھے یا ناقص اور یہ قصور ان کا نہیں تھا بلکہ کتابوں کی عدم دستابی کے سبب تھا۔بہر کیف وہاں جاکر تکنیکی ترقی کے اعتبار سے تو نہیں لیکن تہذیبی رنگارنگی کے اعتبار سے ہمیں اپنے ملک پر فخر کا احساس ہوا۔انھیں اقدار کی کمی کے سبب ان ممالک میں انسان گم ہوتے جارہے ہیں۔آج کی دنیا ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیات کے اعتبار سے بام عروج پر ہے تو دوسری جانب لوگ ان ترقیات کے پس منظر میں گُم ہوتے ہوئے انسان اور انسانیت کی جانب بھی تشویش بھرے انداز میں
دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ در اصل سائنسی ترقیات ہماری زندگی میں انقلاب انگیز تبدیلیاں لے کر آئی ہیں۔ان تبدیلیوں کا سیدھا اثر ہماری شب و روزکی زندگی پر مرتب ہوئی ۔ زندگی اتنی آسان ہوگئی کہ ہم نے ان ٹکنالوجی کو اپنی زندگی کا لازمہ بنا لیا اورگرد وپیش کو بھی اسی عینک سے دیکھنے لگے۔ یہ بات اگرچہ ہم ہندستانیوں کی زندگی پر مکمل طور پر صادق نہیں آتی لیکن امریکی زندگی کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ لوگ مشینی دور میں خود بھی مشین بن گئے ہیں اور ان کی زندگی کا انحصار بھی انھیں مشینوں پر ہے۔
امریکہ کی زندگی کے حوالے سے کچھ نئی باتوں کا انکشاف ہوا۔ ایک بات جو بڑی اچھی لگی وہ یہ کہ ہم لوگ ڈیوس اینڈ ایلکنس کالج کے جس ’گریس لینڈ اِن ‘میں ٹھہرے ہوئے تھے وہ ایک تھری اسٹا ر ہوٹل کے برابر کی سہولیات کا حامل تھا ۔ معلوم یہ ہواکہ اس کالج میں ہوٹل مینجمنٹ کی تعلیم ہوتی ہے اور یہاں پڑھنے والے طلبہ و طالبات ہی اس کا پوار مینجمنٹ سنبھالتے ہیں۔ سارا کام انھیں کے ذمے ہوتا ہے ۔اس طرح ان کی یہ پریکٹیکل ٹرینگ بھی ہوجاتی ہے اور گیسٹ ہاؤس کو کسی طرح کا اقتصادی بوجھ بھی نہیں ہوتا ہے۔شاید ہمارے یہاں کے طالب علم اس کو کسی طرح گوارا نہیں کریں ۔لیکن یہ وہاں کی تہذیب کا حصہ ہے کہ کوئی کچھ بھی کام کرے ان کے لیے باعث شرم نہیں کیونکہ بہت سے طلبہ چھٹیوں میں کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں کام کرلیتے ہیں ، خود اس کالج کی شاندار کینٹین میں ہم لوگوں نے دو تین وقت کا کھانا کھایا جو ایک اچھے ہوٹل کے کھانے سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ معلوم یہ ہواکہ کچھ طلبہ و طالبات یہاںپارٹ ٹائم کام کرتے ہیں یہ ان کے لیے شرم کا سبب نہیں ۔ کینٹین کا انتظام بھی ایسا کہ ہر طرح کے کھانے اور مشروبات موجود تھے ۔ خود سے کھانا لینا ہے اور کھانے کے بعد پلیٹیں بھی اٹھا کر متعینہ جگہ پر رکھنا ہے۔ اس طرح بہت سے طالب علم اس کینٹین میں جز وقتی کام کر کے اپنی تعلیم کا خرچ نکالتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں اسکولوںمیں پڑھنے والے تمام طلبہ و طالبات کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کمیونٹی سروس کریں ۔ یہ ان کے کریکولم ( تعلیم سرگرمیوں ) کا حصہ ہوتا ہے۔وہ طالب علم جو
کمیونٹی سروس میں حصہ نہیں لیتے ان کو سرکاری نوکریاں ملنی مشکل ہوتی ہیں ۔ اس کمیونٹی سروس میں جھاڑو دینے سے لے کر صفائی ستھرائی کا کوئی بھی کام ہوسکتا ہے۔یہ پہلو ہمیں بہت اچھا لگا کہ جہاں ہم پڑھتے ہیں وہاں کسی کام کو کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے اور یہ ہماری مستقبل کی زندگی کی ٹرینگ بھی ہوتی ہے۔
البتہ ہماری تہذیب سے جو چیز بالکل منفرد تھی وہ یہاں کی آزادانہ زندگی ۔ جہاں لڑکے لڑکیوں کا بے تکلف اختلاط ہر جگہ نظر آیا ۔ ظاہر ہے یہ ان کی زندگی کا حصہ ہے ۔ لیکن یہاں بھی ایک بات نظر آئی وہ یہ کہ جو لوگ روایتی عیسائی ہیں ، ان کے یہاں مشترکہ زندگی کچھ جھلک ملتی ہے۔وہ اپنی بچیوں کی شادیاں جلد ہی کر دیتے ہیں ۔ ہمیں ائیر پورٹ پر جو خاتون لینے آئیں تھیں وہ ریسرچ اسکالر تھیں ، ان کی عمر تیس سے بھی کم تھی اور وہ شادی شدہ تھیں ۔ ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ ان کے یہاں ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کا
خیال ہے ۔ حالانکہ ہمارا یہ عام تصور ہے کہ امریکہ میں بچے بڑے ہوتے ہی اپنے من کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسا ضرور ہے لیکن روایتی قسم کی فیملی کچھ مختلف ہے۔ وہاں گیسٹ ہاؤس میں ایک پمفلیٹ دیکھنے کو ملا جس کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہاں لڑکے لڑکیاں اپنے ساتھی کا انتخاب خود کرتی ہیں اور اس میں کوئی سماجی برائی نہیں ۔ کسی دوست کے ساتھ ڈیٹ پر جانا اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا اس کے بعد یہ طے کرنا کہ ان کے ساتھ شادی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ ہمیں اس وقت اور حیرت ہوئی کہ ایک ہندستانی پروفیسر نے اپنی بیٹی کے بارے میں بتایا کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑے اچھے عہدے پر فائز ہے لیکن ہمارے کہنے کے باوجود وہ ڈیٹ پر جانے کا وقت نہیں نکال پا رہی ہے۔ ان کی اس بات سے بھی اندزہ ہوا کہ یہ آزادی امریکی زندگی کا حصہ ہے ۔ خیر ہم اس پمفلیٹ کا ذکر کر رہے تھے جو پولیس انتظامیہ کی جانب سے تھا جس کے سرورق پر لکھا تھا ‘‘Dating Violence اور اندرونی صفحات پر بہت سی تاکیدیں لکھی ہوئی تھیں جو ڈینٹنگ کے اصولوں کے مخالف ہو سکتی ہیں۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ڈیٹینگ کے بہانے بہت
سے کرائم بھی ہوتے ہیں اور اس کے کئی اصول بھی ہیں ۔یعنی ڈیٹینگ پر گئی لڑکی کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسے کسی بات کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے ۔یہ اور کئی طرح کی ہدایات اس میں درج تھیں۔بہر کیف یہ ان کی تہذیب کاحصہ ہے ۔ اس کے علاوہ ان میں اور مشرقی تہذیب میں جو نمایاں فرق نظر آیا وہ یہ کہ وہ مہمانوں کا استقبال بھی مصنوعی انداز میں کرتے ہیں ۔ جو لوگ ان کے انداز سے واقف نہیں ہیں انھیں بڑی مایوسی ہوگی کیونکہ ہم مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں لیکن وہ ہماری طرح مہمانداری اور ضیافت نہیں کرتے۔ہاں ایک بات جو مجھے بہت اچھی لگی وہ یہ کہ جس طرف نکلیں کوئی بھی مل جائے وہ آپ کو ہیلو ضرور کہے گااور جواب میں مُسکرائے گا۔ حالانکہ یہ ہماری تہذیب ہے کہ کسی سے ملو تو سلام میں پہل کرو لیکن ہم اپنی تہذیب بھولتے جارہے ہیں ۔خیر تین دن کے سمینار کے بعد ہم نیویارک کے لیے روانہ ہوئے۔
اس سفر میں امریکہ کے تین شہروں ویسٹ ورجینیا، واشنگٹن اور نیو یارک کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ ان تینوں شہرو ں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تینوں شہروں کی زندگی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھی۔ورجینا روایتی طرز کا شہر ہے۔ واشنگٹن سیاسی سرگرمیوں کا شہر اور نیو یارک مختلف تہذیب و ثقافت کا شہر ہے۔‘‘نیویارک ریاستہائے متحدہ امریکہ کا سب سے بڑا شہر ہے اور دنیا کے عظیم ترین شہروں میں سے شمار ہوتا ہے جو دریائے ہڈسن کے کنارے واقع ہے۔ نیویارک کاروبار، تجارت، فیشن، طب، تفریح، ذرائع ابلاغ اور ثقافت کا عالمی مرکز ہے جہاں کئی اعلیٰ نوعیت کے عجائب گھر، آرٹ گیلریاں، تھیٹر، بین الاقوامی ادارے اور کاروباری مارکیٹیں ہیں ۔ اقوام متحدہ کاصدر دفتر بھی اسی شہر میں ہے جبکہ دنیا کی کئی معروف بلند عمارات بھی اسی شہر کی زینت ہیں۔ یہ شہر دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے باعث کشش ہے۔’’ 1952میں اقوام متحدہ کے دفاتر کے قیام نے اسے دنیا بھر کے شہروں پر سیاسی برتری دلائی۔نیو یارک 11 ستمبر 2001کودہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنا اور شہر کی بلند ترین عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے تباہ ہونے سے اس کی شہرت اور بھی بڑھ گئی۔ ویکی پیڈیا کے مطابق’’نیویارک کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ
کادارالحکومت بھی کہلاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں عالمی معروف ادارے اور ٹائمز اسکوائر ،ٹائم وارنر، نیوز کارپوریشن، ہیرسٹ کارپوریشن اور وایا کوم اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کی آزاد فلموں میں سے ایک تہائی نیویارک میں پیش کی جاتی ہیں۔ 200سے زائد اخبارات اور 350 جرائد کے دفاتر شہر میں موجود ہیں۔ صرف کتب کی طباعت و اشاعت کی صنعت سے ہی 13 ہزار افراد وابستہ ہیں۔ شہر امریکہ کے4 بڑے نشریاتی ٹیلی وژن اداروں اے
بی سی، سی بی ایس، فوکس اور این بی سی اور دیگر کئی معروف کیبل ٹیلی وژن چینلوں بشمول ایم ٹی وی، فوکس نیوز، ایچ بی او اور کامیڈی سینٹرل کا ہیڈکوارٹر ہے۔انگریزی کے علاوہ اردو کے کئی ہفتہ وار اخبار بھی نیو یارک سے شائع ہوتے ہیں۔ نیویارک شہر بین الاقوامی کاروبار اور تجارت کا عالمی مرکز سمجھا جاتا ہے اور اسے عالمی اقتصادیات کے تین مراکز (نیویارک، لندن اور ٹوکیو) میں سے ایک قرار دیا جاتاہے۔ تجارت، انشورنس، ریئل اسٹیٹ، ذرائع ابلاغ اور آرٹس کے علاوہ شہر کے دیگر اہم شعبہ جات میں ٹیلی وژن اور فلم انڈسٹری، طبی تحقیق اور ٹیکنالوجی، غیرمنافع بخش ادارے اور جامعات اور فیشن شامل ہیں۔ نیویارک شہر پانچ علاقوں پر مشتمل ہے: مین ہٹن، بروکلن، کوئنز، برونکس، اسٹیٹن جزیرہ ۔ یہ پانچوں علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اگر انہیں الگ شہر بھی سمجھا جائے تو یہ تمام دنیا کے50 گنجان آباد ترین علاقوں میں شامل ہوں گے۔‘‘
ہم لوگ نیو یارک میں مین ہٹن کے ڈاؤن ٹاؤن علاقے میں ایک ہوٹل میں رکے ۔ انٹر نیٹ کے ذریعے ہی ہم لوگوں نے اس ہوٹل کو بُک کرایا تھا ۔ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ اس کے منیجر ہندستانی ہیں اور دہلی کے لاجپت نگر کے رہنے والے ہیں ۔ جب ہم یہاں پہنچے تو رات کاایک بج چکا تھا ۔ موسم سرد تھا اور ہلکی بارش بھی ہورہی تھی ۔ ہوٹل میں کھانے کا کچھ انتطام نہیں تھا اس لیے ہم لوگ باہر آئے ۔ دوسری اسٹریٹ پر ایک میکڈونل پہنچے لیکن کھانے میں کوئی چیز سبزی کی نہیں تھی ،کچھ بر گر تھے بھی تو اس میں بھی گوشت کی آمیزش تھی جو حلال نہیں تھا، ہمارے بار بار حلال پوچھنے
پر اس نے ڈیلنسی اسٹریٹ پر ساہیوال ڈیلی کا پتہ بتایا ۔وہاں پہنچ کر ہمیں خوشی ہوئی ، دوکان مالک بھائی عبد الماجد بڑے تپاک سے ملے اور ہفتوں کے بعد دال ، چاول اور گوشت دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور کھانے کا مزہ بھی آیا ۔ بھائی ماجد صاحب نے اپنی جانب سے ایک اور سبزی بھی کھلائی اور عمدہ چائے پلائی اور ہم سے بہت کم پیسے بھی لیے۔ جس تپاک سے ہمارے پاکستانی بھائی ملے کہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے اور معاًخیال آیاکہ کاش ہم ہندستانی اور پاکستانی اسی طرح اپنے ملکوں بھی ملتے ۔
نیویارک کی پہلی صبح ہمارے لیے اور بھی سردی لے کر آئی ۔ لیکن ہم لوگ سیر کو نکل پڑے ۔ہر جگہ شہر کا میپ دستیاب تھا اور ٹرانسپورٹ کی رہنمائی بھی اس لیے ہم ڈاکٹر رضوان جو تجربہ کار سیاح ہیں کی رہنمائی میں نکل پڑے۔ میٹرو کے ذریعے پہلے گراؤنڈ زیرو میموریل دیکھنے گئے ۔ جو عمارت تباہ ہوئی تھی اس جگہ تعمیر کا کام تیزی سے جاری تھا۔ اور نیا ٹریڈ سینٹر اسی کے بالمقابل نئی آب و تاب کے ساتھ پرانی عمارت سے بھی زیادہ اونچی اور مضبوط کب کی بن چکی ہے ۔ یہ عمارت اسٹیل اور شیشے سے بنی ہوئی ہے ۔ باقی کئی عمارتیں زیر تعمیر ہیں ۔ اسے دیکھنے کے بعد ہم نے نیو یارک کے کئی علاقوں کو دیکھا اور خاص طور پر اسٹیچو آف لیبرٹی کو ۔ یہاں پہنچ کر اندازہ ہواکہ کس طرح سیاحوں کو اٹریکٹ کیا جاتا ہے ۔ فیری( پانی کا جہاز) ہر آدھے گھنٹے پر مفت میں سیاحوں کو اس جزیرے کی سیر کراتی ہے جہاں اسٹیچو آف لیبرٹی ہے۔ انتہائی عمدہ انتظام ، دیکھ کر طبعیت خوش ہوئی ۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے اپنے عزیزوں کے لیے یہیں سے تحائف بھی خریدے ۔مجوعی طور پر نیو یارک مشترکہ تہذیب وثقافت کا ایک خوبصورت شہر ہے اور اس کا امتیاز بھی یہی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے لوگ اس شہر میں موجود ہیں ۔لیکن کم وقت میں تمام مقامات کو دیکھنا ممکن نہیں تھا ۔ کیونکہ۱۳؍ اپریل کی صبح دہلی کے لیے ہماری واپسی تھی ۔ دو دنوں میں اس شہر کو نہیں دیکھا جاسکتا ۔لیکن اہم مقامات کو دیکھ کر 13 اپریل کو ہم لوگ دہلی کے لیے روانہ ہوئے ۔ اس دفعہ امریکی وقت کے حساب سے ہمارا جہاز شام کے پانچ بجے نیو یارک سے روانہ
ہوا۔ کچھ ہی دیر میں رات ہو گئی ۔ لیکن یہ رات صرف چار پانچ گھنٹے کی تھی ۔ اس کے بعد تمام راستے دن ہی دن تھا۔مگر سورج کی روشنی اتنی تیز تھی کہ ہم باہر نہیں دیکھ سکتے
تھے۔اللہ کا شکر ہے کہ ہم خیر وخوبی سے 14اپریل کی شام دہلی واپس آگئے۔اور اب امریکہ کو نئے سرے سے دیکھنے کی کوش کر رہا ہوں۔
٭٭٭