Home / Book Review / تانیثیت اور ممتا کی نئی شارح —– اسنی بدر

تانیثیت اور ممتا کی نئی شارح —– اسنی بدر

تانیثیت اور ممتا کی نئی شارح —– اسنی بدر

  شبنم پروین
ریسر چ اسکالر ، جے این یو ،نئی دہلی

عموماً تانیثی مطالعہ میں تانیثی مزاحمت کی ہی گونج سنائی دیتی ہے کہ جہاں لب ولہجہ میں ارتعاش کی کیفیت ہو ، وہیں نظریں جا ٹکتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ تانیثی حسیت کے پس منظر میں وہی ادب قابل اعتبار سمجھا جانے لگا ہے ، جو مرد اساس معاشرہ کو چیلنج کرے ، تاہم اس نظریہ کی بنیاد پر تا نیثیت کا دائر ہ محدود ہوجاتا ہے۔ اس کے باو جود بھی ثانیثیت کو محدود کرنے والی اس ذہنیت پر کبھی غور وفکر نہیں کیا جاتا۔ بلا امتیاز خاتون اور مرد تخلیق کاروں کے ، میں یہ کہہ سکتی ہوں تانیثیت کی علمبرداری کی سند حاصل کرنے میں نسوانیت کا کسی بھی درجہ خیال نہیں رکھا جارہاہے ۔ میرے لحاظ سے ثانیثیت،اسی وقت قابل اعتبار ہوسکتی ہے ، جب اس سے نسوانیت متاثر نہ ہو ، لیکن جس سرعت کے ساتھ نسوانیت کو مجروح کرکے ثانیثیت کا دائرہ وسیع کیا جارہا ہے ، وہ کم از کم صنفِ نازک کے حق میں مفید نہیں۔ ثانیثیت کی علمبرداری کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ نسوانی گداز جاتا رہے اور مرد سا گٹھاو ¿ عورت میں پیدا ہوجائے۔ اس لیے تانیثی مطالعہ میں اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا جانا چاہیے کہ ثانیثیت کے رنگ کو چوکھا کرتے وقت نسوانی رنگ مانند نہ پڑجائے ۔

اس چند سطری تمہید کے تناظر میں اسنی بدر کے شعری مجموعہ ’’منظر نامہ“کے منظر وپس منظر کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان کے ثانیثی لب ولہجے میں نہ صرف ثانیثیت کی گونج ہے ، بلکہ نسوانی کشش بھی موجود ہے۔ ثانیثی خیالات کے غلبہ نے ایک طرف جہاں عورتوں میں مرد اساس معاشرہ سے تصادم کی کیفیت پیدا کردی ہے ، وہیں عورتوںمیں یہ احساس بھی جا گزیں ہونے لگا ہے کہ جو نسوانیت واقعی عورتوں کے لیے کشش کا سامان پیدا کرتی ہے ، وہ اب عیب ہوتی جارہی ہے ۔ گویا اس طرح دیکھیں تو ثانیثیت کے غلبہ نے عورتوں میں پائے جانے والے جذبات کو بھی مجرو ح کیا ہے ۔ مثلا ً ، کبھی عورتیں اپنے بچوں کے تئیں جذباتی حد تک ممتا کی دولت لٹاتے فخر محسوس کرتی تھیں ،مگر آج یہ جذبات واحساسات سرد مہری کے شکار ہیں ، مگر اسنی بدر کی نظموں میں ان احساسات وجذبات کی بازیافت نظر آتی ہے ، جو ثانیثیت کے نعروں میں گم ہوگئے ہیں ۔ ماں کی ممتا کل بھی مسلّم تھی اور آج بھی مسلّم ہے ،تاہم بچوں کی پرورش وپرداخت کے پس منظر میں ثانیثیت گزیدہ عورتوں کا آج جو رویہ ہے ، اس نے اس ممتا کو بھی مثا تر کیا ہے ، مگر اسنی بدر کی شاعر ی میں اس ممتا کے احساس کی بازیافت مکمل طور پر موجود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج کے ثانیثی ماحول میں بھی اس کا اظہار برملا کرتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے ، اسنی بدر ثانیثیت کے ساتھ نسوانیت کا بھی پاس ولحاظ رکھتی ہیں ،ان کا یہی احساس انھیں یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے :

تمہارے خالی بستر پر کہانی اب بھی رکھی ہے

تمھاری چائے کی پیالی نہ گرتی ہے نہ ٹوٹی ہے

تمھارے آرٹ کے صفحوں پر یہ تتلی اب بھی بیٹھی ہے

تمھارا سبز بلیزرہینگر پر مسکراتا ہے

تمہیں یہ گھر بلاتا ہے

مگر اب تم نہیں آتے

تمھارے فون آتے ہیں

مجھے تو یاد آتا ہی نہیں

کب گود سے میری نکل کر تم کسی اسکول میں پہنچے

مگر بس یاد ہے اتنا کہ تم ہرروز آتے تھے

اسنی بدر نے ’عیسی کے نام‘نامی نظم میں جہاں ایک طرف ماں کی ممتا کو مہمیز کرنے کی کامیاب کوشش کی ہےں ، وہیں ثانیثیت کے سامنے وہ اس طرح مسکراتی ہےں کہ ثانیثیت خود شرما نے لگی ہے اور اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ نسوانیت ایک فطری جذبہ ہے ، اس میں غیر ضروری چھیڑ چھاڑ دلکشی کی باعث نہیں، بلکہ ثانیثیت کے لیے عار کا سبب بن جاتی ہے ۔ اسنی بدر نے ان اشعار میں یہ وضاحت کی ہے کہ ممتا کا یہ احساس جب سرد ہونے لگے تو مان لو عورت اپنے فطری جذبات سے بغاوت پر آمادہ ہے ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسنی بدر نے ثانیثیت اور نسوانیت کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ممتا کی جوفضا اس نظم میں پائی جاتی ہے ، وہ اسنی بدر کی متعدد نظموں میں موجود ہے اور ان کا یہ رویہ انھیں انفرادی خلعت عطا کرتا ہے ۔

اسنی بدر نے جس طرح ثانیثیت کو نسوانیت میں ضم کرنے کی کوشش کی ہیں، اسی طرح ان کے یہاں ممتا کا جذبہ منفرد رنگ میں ابھرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اردو شاعری میں ماں سے اپنائیت و جذبات کے اظہار کا لطیف اشاریہ پایا جاتا ہے ۔ ایسی شاعر ی پڑھنے کے بعد جہاں قارئین کے دل میں گدگداہٹ پیدا ہوتی ہے ، وہیں آنکھیں بھی آبد یدہ ہوتی ہیں ۔ کیوں کہ والدین خصوصاً ماں سے دوری کی وجہ سے بسا اوقات ایک شاعر بچہ بن جاتا ہے اور بچوں کے جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے۔ یہ وہی جذبات ہوتے ہیں جو مادی چمک میں کھو کر ایک اولاد ماں کی ممتاکا پاس ولحاظ نہیں رکھتا ہے ، مگر اسنی بد رکے یہاں ممتا کی کیفیت ذرا بدلی بدلی سی ہے ، کیوں کہ ان کے اندر کا شاعر بچہ بن کر والدین کے ذہن ودماغ کو نہیں گدگداتا ہے ، بلکہ ایک خاتون شاعرہ مکمل طور پر عورتوں کی نفسیات کا پاس ولحاظ رکھتی ہے اور مکمل ماں بن کر اپنے بچوں کے ذہن کو گدگداتی ہے ۔ اپنائیت بھرے بول سے مادیت کے شکار بچوں کو بچپن کا واسطہ دیتی ہے ۔ پرانی یادوں کو گویائی عطا کرتی ہے کہ بچہ خود بخود ماں کی طرف مچل مچل کر بڑھنے لگتا ہے ۔ گویا اسنی بدر نے ممتا کی نئی تشریح کی ہے ، وہ بھی عورت کے بھیس میں ۔ اسنی بدر بچوں کو بچپن کو وہ سبق یاد لاتی ہے ، جسے بچہ اور ماں نے ساتھ مل کرپڑھا تھا ، مگر وہ سبق آج ماں کو تو یاد رہتا ہے ، مگر بچہ بھول گیا ہے۔ اسنی بدر اپنے بچوں کو بھولا سبق یاد دلانے کے لیے پرانی یادوں کو گویا ئی عطاکرتی ہیں تو یہی یادیں بچوں میں جذبات کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔اس لیے عصری پس منظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ منور رانا کے یہاں ماں کا جو تصور ہے ، جو لطیف جذبہ ہے ، وہ اسنی بدر کے یہاں آکر بدل جاتا ہے ۔ کیوں کہ اسنی کے یہاں شاعر بچہ نہیں بنتا ، بلکہ ایک خاتون شاعرہ مکمل ماں ہوتی ہےں ، ویسی ہی ماں جو ایک بچہ کے لیے بچپن میں ماں ہوتی ہے ہیں۔ مذکورہ مثال میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسنی بدر نے ایک طرف جہاں مٹتی تہذیب کی عکاسی کی ہے۔ چھوٹی چھوٹی روایتوں کو ابھارا ہے، وہیں جذبات واحساسات کو نئی زندگی دی ہے ۔ ساتھ ہی اس نظم میں تیز رفتار ترقی کا مرثیہ بھی ہے کہ بچے نہیں آتے ، صرف ان کی کال آتی ہے ۔

ثانییثت کے غلبہ نے جہاں کسی حد تک ممتا کو مجروح کیا ہے ، وہیں شوہر وبیوی کے جذبات کو شگفتگی کے بجائے گٹھاؤآشنا بنا دیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات نہ بیوی کو شوہرسے دوری کا احسا س ہوتا ہے اور نہ ہی شوہر کو اپنی بیوی سے فرقت کا۔ اسنی بدر کے یہ جذبات اور نفسیات، قربت کا جو احساس دلا تے ہیں ، وہ بہت سے شعرا کے یہاں معدوم ہے :

تمھاری یاد ایسے میں بھلا کیا خاک آئے گی

سلیقے سے کبھی بادلوں میں کنگھا نہیں کرتی

جہاں پر آئینہ ہے اس جگہ دیکھا نہیں کرتی

مجھے اچھی طرح معلوم ہے ،ا چھا نہیں کرتی

ان چند سطروں سے واضح ہے کہ اسنی بدر کے یہاں احساسات وجذبات کے اظہار میں بازاری پن کا احساس نہیں ہوتا ، بلکہ پرانی یادوں کی قدرومنزلت بڑھ جاتی ہے اور دل لمس آشنا بن جاتا ہے۔ دونوں ایک ایسے احساس میں ڈوبے نظر آتے ہیں، جس احساس کا یادوں اور چھوٹی چھوٹی عادتوں سے گہرا ربط ہوتا ہے۔ اگر رومانی فضا سے یادوں کے احساسات وجذبات کو نکال دیں تو فقط جسمانی ہوس کا تاثر باقی رہتا ہے ۔ ظاہر ہے یادوں کے بغیر نہ رومان پرور فضا کی کوئی اہمیت ہوسکتی ہے اور نہ ہی تخیل کی وادیوں میں خود کو گم کیا جاسکتا ہے ۔ اس لیے اسنی بدر جس انداز سے اپنے شوہر یا عاشق کو یاد کرتی ہیں ، اس سے نہ کسی ہوسناکی کا اظہار ہوتاہے اور نہ ہی نفسیاتی تناظر میں کوئی منفی جذبہ سر ابھارتا ہے۔

اس چند سطری مضمون میں ظاہر ہے کہ کمال وتمام کے ساتھ اسنی بدر کی شاعر ی کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا ہے ، البتہ ان کے موضوعات کی جھلکیاں اور ان کے شعری سروکار کا اندازہ بخوبی لگا یا جاتا ہے ۔ اس لیے یہاں اب فقط مثالوں کے ساتھ اس مضمون کا اختتام بہتر ہوگا ۔

اسنی بدر اپنی شاعری میں پرانی روایتوں اور قدیم قدروں کا ذکر کرکے ہمارے ذہن ودماغ کو گدگدانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی یہی کوشش برق رفتا ر دنیا کی بے بضاعتی اور حقیرانہ سروکار پر غور وفکر کے لیے مجبور کرتی ہے ۔مثلاً ، فیس بک ؛ اس نظم میں ایک نفسیاتی لطیف رشتہ بھی موجود ہے کہ انسان، دوستی کے ایک نئے پہلو پر توجہ اس قدر دینے لگا کہ دوستی کا لطیف جذبہ متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکا :

میں نے دیکھا نہیں ہمسائی کا چہرہ کب سے

بھول بیٹھی ہوں وہ اترونا سالہجہ کب سے

آن لائن تو نظر آتی ہے معمول کے ساتھ

ہاں مگر اس سے ملایا نہیں چھ ماہ سے ہاتھ

دوست تم پر ہی منالیتے ہیں اب سال گرہ

مرنے والوں کو دیا جاتا ہے تم پر پرسہ

ظاہر ہے ان اشعار میں جو درد ہے ، وہ آج کے ماحول کا پروردہ بآسانی محسوس کرسکتا ہے کہ نزدیکیوں نے انتہائی دوری پیدا کردی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان آئن لان ہوکر ایک دوسرے سے قریب تو ہوتا ہے ، مگر اس قربت نے دونوں کے درمیان اتنی دوریاں پیدا کردی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے پاس ہوکر بھی بہت دور ہوتے ہیں ۔ گویا سال گرہ بھی بس اب مذاق ہے ۔ مرنے والوں کے لواحقین کے پاس جا کر تعزیت کرنا ایک عیب سا ہوتاجارہا ہے ۔ لوگ اس قدر بے مروتی میں مبتلا ہیں کہ فیس بک پر تعزیت کرکے اخلاقی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ گویا برق رفتا رتبدیلی نہ صرف انسانی زندگی کے خارجی پہلو و ¿ں کو متاثر کرنے لگی ہے،بلکہ داخلی احساسات وجذبات کو بھی مجروح کردیا ہے ۔

خلاصہ کے طور پر میں کہہ سکتی ہوں کہ اسنی بدر کی شاعری میں ممتا اور ثانیثیت کی منفرد تشریح ملتی ہے ۔ ثانثیت میں مزاحمت کے ساتھ ساتھ مشرقیت کا عنصر بھی ہے ۔ اقدار کے بدلتے منظر نامے میں اپنائیت اور پرانی قدروں کی انوکھی پاسداری ملتی ہے ۔ ثانیثیت کے نعرے آج اس قدر زور وشور سے بلند ہورہے ہیں کہ عورتوں کی نسوانیت آج غائب ہونے لگی ہے ۔ مزاحمت کی چمک اتنی تیز کردی گئی ہے کہ نسوانی گداز میں گٹھاو ¿ کی سی شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ اس لیے ثانیثیت ، نسوایت کے حق میں مضر ت رساں بنتی جارہی ہے ۔ مگر اسنی بدر کے یہاں ثانیثیت کا وہ بدرمنیر نظر آتا ہے ، جس کی روشنی میں نسوانیت مکمل گداز کے ساتھ شگفتہ نظر آتی ہے ۔ ا س لیے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ اسنی بدر کے یہاں جو ثانیثیت ہے ، وہی دراصل ثانیثی لب ولہجہ قرار پائے تو ادب او ر خواتین کے حق میں مفید ہوگا ہے ۔ ورنہ ثانیثیت کے نام پر ہونے والے ہنگامے بے سود ہے ۔

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *