پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
مولانا ابوالکلام آزاد ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ادب و سیاست ہو یا تفسیر وتبصرہ ہر جگہ ان کی جولانیٔ طبع اور روانیٔ قلم قابلِ دید ہے۔ ان کی زندگی کے ایک ایک پہلو پر گفتگو کے لیے اچھا خاصہ وقت درکار ہے۔ اس محدود وقت میں ان کی کسی بھی تصنیف یا زندگی کے کسی بھی پہلو پر اجما لاًگفتگو بھی تشنہ ہی رہے گی ۔اگر صرف ادب کو لیا جائے تب بھی ابوالکلام آزاد ایک ہمہ گیر ادبی شخصیت کے مالک نظر آتے ہیں ،جن میں ایک بالیدہ شعری شعور بھی موجود ہے اور ان کی نثر بجائے خود سحرِسامری سے کم نہیں۔ اسی لیے خود آزاد نے شاعری کو چھوڑ کر نثر میں ساحری کو ترجیح دی ورنہ آزاد نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں شاعری بھی خوب کی ہے۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں اصناف ادب میں صرف شاعری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اثر انگیزی ،دلپذیری اور دلرُبائی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی لیکن اگر کوئی ادیب نثر میںساحری کے کرتب دکھائے جو شاعری کو بھی پیچھے چھوڑ جائے تو کیا یہ کسی فنی معجزے سے کم ہے۔ ابوالکلام آزاد کی نثر میں یہ فنی معجزے موجود ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ابوالکلام آزاد نے اپنی معجز بیانی سے اردو نثر کو آسمان پر پہنچا دیا ۔ان کا نثری اسلوب منفرد اور توانا ہے جیسا کہ خود ابوالکلام آزاد کی شخصیت تھی ،اُن کی شخصیت میں جو نظم و ضبط،شوکت وتمکنت ،رعب ودبدبہ اور وقار ،جذباتیت اور بلند حوصلگی اولوالعزمی، تعقل پسندی اور شائستگی نظر آتی ہے اسی کا عکس آزاد کی نثر میں بحسن وخوبی موجود ہے اور بقول حامدی کاشمیری:
’’اس میں نزاکتِ گل بھی ہے اور صلابتِ سنگ بھی،تخیل بھی ہے، حقیقت بھی،سنجیدگی بھی ہے ، مزاح بھی ،غم پسندی بھی ہے اور خوش طبعی بھی،فلسفہ بھی ہے اور شعریت بھی ،اسلوب کے یہ بولتے رنگ جادوئی کشش رکھتے ہیں۔‘‘ (ایوانِ اردو،آزاد نمبرصفحہ ۱۷۱)
آزاد کے اسلوب کی یہ نیرنگی ان کی تمام تحریروں میں نظر آتی ہے ۔
’’ترجمان القرآن ‘‘ہو’’تذکرہ‘‘ ہو ’’ غبارِخاطر‘‘ ہویا ان کی صحافتی نگارشات ،ہر تحریر بجائے خود ایک خوبصورت ادبی نمونہ ہے مگر ادبی نثر کے حوالے سے جب بھی ابوالکلام آزادکا تذکرہ ہوتا ہے تو لوگوں کے اذہان ’’غبارِخاطر ‘‘ کی طرف منعطف ہو جاتے ہیں ۔گویا آزاد کی تحریروں کا وہی ایک مثالی نمونہ ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ مثلاََ آپ ان کی تصنیف ’’تذکرہ ‘‘ کو ہی لے لیں اس میں علمی و ادبی اور تحقیقی رنگ کے با وصف جو رنگ سب سے نمایاں ہے وہ اس کتاب کے آخری بیس صفحات ہیں جن میں انشاکے وہ کمالات موجود ہیں کہ ایک ایک جملے کو پڑھتے جائیں آپ ہر جملے سے ادب وفن کی نئی نئی لطافتوں سے روشناس ہوں گے۔ آپ سبھی حضرات اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ابوالکلام آزادکسی طور پر اپنے ذاتی احوال قلمبند کرنے کے لیے رضا مند نہیں تھے مگر عزیز ترین دوست کے اِصرار نے انھیں مجبور کر دیا ۔مگر آپ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ مجبوری بھی کیا ہی خوب تھی۔ابوالکلام آزاد نے سوچا دوست کی رفاقت بھی نبھے اور اور اصرار کا صلہ بھی ملے اور میں مقصد اصلی سے گریز بھی کر جاؤں ۔لہٰذا وہ بیٹھے تو اپنے ذاتی احوال لکھنے مگر اپنے مادری اور پدری سلسلے کے اکابر و شیوخ کے حالات و سوانح لکھ گئے جو تذکرہ سے زیادہ تاریخ ثابت ہوئی ۔مگر فضل الدین احمد بھی پیچھے نہ ہٹے اور ان کے اصرار نے آزاد کو پھرمجبور کیا اور اپنے سوانحی حالات کے ضمن میں ابوالکلام آزادنے بیس صفحات لکھے مگر بادلِ نخواستہ ،اور آپ جانتے ہیں جب دل یارائی نہ کرے تو ذہن و دماغ کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔چنانچہ آزاد نے یہاں بھی اپنی ذہانت و فطانت سے خوبصورت نثر کے گُل بوٹے کھلائے اور ایسی گلکاریاں کیں اور بات سے بات نکالنے کا وہ ہنر دکھایا کہ سوانح اور ذاتی حالات نثر کی رنگینیوں میں کھو گئی اور یہ اندازِنثر اردو انشاپردازی میں اپنی مثال آپ ہوئی ۔ابوالکلام آزاد کی تحریروں کی انہی خصوصیات سے متاثر ہو کر مولوی عبدالحق نے ایک جگہ لکھا تھا:
’’دو آدمیوں کی ادبی خدمات سے محروم ہوجانے سے اردو ادب کو بڑا شدید نقصان پہونچ گیا۔ ایک ابوالکلام آزاد اور دوسرے مولانا ظفرعلی خان ایڈیٹر زمیندار،جو اردو کے بہترین نثّار اورصاحب طرز انشاپرداز اور باکمال مترجم تھے ،ان کی ذات سے ملک و ملّت کو فائدہ پہونچا ، یا نہیں ،اس میں اختلاف ہو سکتا ہے ،لیکن علم وادب کو تو شدید نقصان پہونچ گیا ۔‘‘ (بحوالہ الجمعیۃ آزاد نمبر،دہلی ،صفحہ۱۰۲)
میں’’ تذکرہ‘‘ کے انہی صفحات کے حوالے سے چند باتیں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اس سے قبل ’’تذکرہ ‘‘کی تصنیف وتالیف کے محرکات کو ذہن نشیں کرانا چاہتا ہوں ۔ یہ کتاب مولاناآزاد نے خود اپنی ذاتی تحریک پر نہیں لکھی بلکہ جن دنوں مولاناآزاد رانچی میں نظر بند تھے اس زمانے میںالبلاغ پریس کے مہتمم فضل الدین احمد صاحب جو مولاناآزاد کے خاص دوستوں میں سے تھے اور جن کے لیے آزاد کے دل میں بے انتہا احترام کے جذبات موجود تھے ۔لہٰذا وہ ان کی کسی بات کوٹالتے بھی نہیں تھے ۔
فضل الدین احمد نے اسی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ذاتی حالات لکھنے کی فرمائش کر ڈالی اور آزاد ٹال نہ سکے ۔حالانکہ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے حالات اپنے قلم سے لکھیں ،بہ ہزار اصرار تیار ہو گئے اور’’ تذکرہ ‘‘ کا آغاز اپنے خاندان کے اکابرو شیوخ کے حالات اور دعوت وعزیمت کے سلسلے میں ان کے کارناموں سے کیا اور قلم برداشتہ لکھتے رہے اور ہر ہفتے عشرے کی تحریر فضل الدین احمدکو روانہ کرتے رہے ۔اپنی یادداشت کے لیے کسی صفحے پر آخری سطر یا چند الفاظ لکھ لیا کرتے تھے اور جب بھی موقع ملتا وہ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ۔ یہ ان کے علم و فضل اور حافظہ کا کمال تھا جو شاید باید ہی کسی کو میسر آتا ہے ۔
آزاد کو اس کی طباعت کا قطعی خیال نہ تھا اور نہ انھوں نے کوئی اہتمام کیا اس لیے اس کتاب میں ترتیب وتبویب کا اہتمام نظر نہیں آتا ہے اور جب ان کی اجازت اور مرضی کے بغیر چھپنا شروع ہوا تو سخت برہم ہوئے اور اس کی طباعت روک دی مگر یہاں بھی فضل الدین احمدان کی رضا مندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اس طرح یہ کتاب شائع ہو سکی ، مگر یہ ادھوری رہی کیونکہ یہ جلد اوّل کے طور پر شائع ہوئی تھی اور دوسری جلد ابھی آنی باقی تھی اسی لیے بہت سےFoot notesاور دیگر تفصیلات کو پہلی جلد سے حذف کرکے دوسری جلد کے لیے محفوظ کر لیا گیا مگر وائے افسوس دستبرد زمانہ سے یہ بھی نہ بچ سکا اور اب یہ ادھوری تصنیف ہمارے سامنے ہے ۔مگر جو کچھ بھی اور جتنا بھی ہے آپ اس کو پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ’’ تذکرہ‘‘ کا اسلوب کتنا عالمانہ ،کتنامحققانہ ،کتنا مورّخانہ، کتنا باوقار اور کتنا ساحرانہ ہے۔ یہاں ان کے آخری بیس صفحات سے صرف ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آزاد کے اس رنگ کو آپ بھی دیکھ لیں :
’’ جتنی زندگی گزر چکی ہے ،گردن موڑ کے دیکھتا ہوں تو ایک نمودِغبار سے زیادہ نہیں ،اور جو کچھ سامنے ہے وہ بھی جلوئہ سراسے زیادہ نظرنہیں آتا ۔قلمِ درماندہ تذکرہ ونگارش سے عاجز،اور فکر ِ گم گشتہ حیرانِ اظہار وتعبیر۔اپنی سرگذشت اور رویدادِ عمرلکھوں تو کیونکرلکھوں ؟ ایک نمودِ غبار و جلوئہ سراب کی تاریخ ِحیات قلمبند ہو تو کیوں کر ہو؟دریا میں حباب تیرتے ہیں ہوا میں،غبار اُڑتا ہے۔طوفان نے درخت گرادیئے،سیلاب نے عمارتیں بہادیں ،عنکبوت نے اپنی پوری زندگی تعمیر میں بسر کردی ،مرغِ آشیاں پرست نے کونے کونے سے چُن کر تنکے جمع کیے ،خرمن وبرق کا معاملہ ،آتش وخش کا افسانہ ،ان سب کی سرگزشتیں لکھی جاسکتی ہیں ،تو لکھ لیجئے۔ میری پوری سوانح عمری بھی انھیںمیںمل جائے گی نصف افسانہء امید اور نصف ماتم ِیاس!
عاشق نہ شدی ،محنتِ الفت نہ کشیدی
کس پیشِ تو غم نامہ ٔ ہجراں چہ گُشاید‘‘
اس اقتباس سے لطف ِ زبان کا جو احساس آپ کو ہوا اور جمالیات کا جو حظ آپ نے اٹھایا اسے تو چھوڑیئے اور آپ شوکتِ الفاظ اور تمثیلی اندازِ بیان پر نہ جایئے ۔یہاں محض لفاظی اور صناعی نہیں بلکہ اس رنگ برنگی دنیا کی طرح آزاد کے الفاظ بھی نہایت ہی رنگین ہیں مگر اس رنگینی میں دنیا اور انسانی زندگی کی حقیقت کو ملاحظہ فرمائیں: ’’ایک نمودِ غبار و جلوئہ سراب کی تاریخ ِحیات قلمبند ہو تو کیوں کر ہو؟‘‘ اس جملے میں’ نمودِغبار اور جلوئہ سراب ‘سے محض ابوالکلام آزاد کی ذات نہیں بلکہ اس دنیا کے تمام انسانوں کی ذات مراد ہے ۔
آپ غور کریں کہ شعر کو معنویت اور ایجاز و اختصار کے لحاظ سے جو امتیاز حاصل ہے کیا یہ عناصر یہاں موجود نہیں ؟بے شک موجود ہیں اور بدرجۂ اتم موجود ہیں !یہ تو ایک مثال ہے مگر میں تو پس و پیش میں ہوں کہ مثال دوں تو کہاں سے دوں ہر جملہ تو اپنے آپ میں ایک جہان معنی ہے ۔آپ اس جملے کو دیکھیں ’’حکایت برق و خرمن کوئی افسانہ ٔ راز نہیں جس کے لیے پوری رات آنکھوں میں کاٹنی پڑے ، صرف ایک نالہ ٔ گرم اور آہ ِسرد میںپوری حکایت ختم۔‘‘آپ ذرا غور فرمائیں علامہ اقبال کے اس شعر پرــ:
ہمدمِ دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو
سوز وساز ودرد و داغ جستجو و آرزو
تقریباََتمام ناقدین کایہ کہناہے کہ دنیا کی تفسیر و تعبیر اقبال نے چھ لفظوں کے ذریعے کردی جو یقینا اختصار و ایجاز کی نادر مثال ہے اور واقعی ایسا ہے بھی ،ا ور مولانا آزاد نے یہاں ’’نالۂ گرم اور آہ ِسرد ‘‘کہہ کر دنیا اورانسانی زندگی کی کیسی اچھی تفسیر و تعبیر پیش کی ہے۔ آج تک ہم نے بہ نظر استحسان یا بہ نظر غائر نہیں دیکھا اور ہمارا یہ عمل آزاد کا نہیں بلکہ اردو نثر کا المیہ ہے۔
اب ذرا اس عہد و معاشرے پر بھی غور کریں جس عہد میںآزاد کی نثر پروان چڑھ رہی تھی ۔مشرقی روایات کا شیرازہ بکھر رہا تھا ،ہندستانی مسلمانوں پر کیابلکہ ایشیا وافریقہ کی مسلم دنیا پر بھی جمود کی کیفیت طاری ہو چکی تھی ۔غیر ملکی تسلط کے جبر و استبداد نے ہماری بلند حوصلگی ہم سے چھین لی تھی ۔ایسے میں ایک طرف پنجاب سے اقبال نے بیداری کے نغمے سنائے تو دوسری طرف بنگال سے آزاد نے نعرئہ آزادی بلند کی۔ اسی لیے ان دنوں ادیبوں کے یہاں ایک سی بلند آہنگی نظر آتی ہے یہ اور بات ہے کہ یہ آپس میں بُعدِمشرقین تھے۔اس عہد کی سیاسی فضا کی ایک بڑی دین خطابت بھی ہے اور مولانا آزادخطابت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے ۔عربی Back ground سے تعلق رکھنے والے مولانا آزاد کو خطابت کی ساحری کا بخوبی اندازہ تھا اور انھوں نے اس کا خوب سے خوب تر استعمال بھی کیا ہے۔ اسی لیے ان کی نثر میں بھی خطابت کی شان صاف جھلکتی ہے ۔ان کی تحریروں میں یہ خطیبانہ گھن گرج اکثر جگہ موجود ہے ۔
مولانا آزاد کی تحریروں کی ایک خوبی نثر ونظم کا حسین امتزاج بھی ہے ۔ انھوں نے اپنی نثر میں عربی ،فارسی اور اردوکے اشعار کا خوب خوب استعمال کیا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ اشعار کے استعمال سے عبارت بعض جگہ بوجھل ہوگئی ہے مگر اکثرجگہ جس حسُن وخوبی کے سا تھ مولانا آزاد اپنی عبارت میں اشعار کو چسپاں کرتے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ انھوں نے اشعار کو اس طرح استعمال کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے اشعار اپنے معانی کی تکمیل یہیں آکر کرتے ہیں بلکہ میرا ماننا تو یہ ہے کہ آزاد کی نثر میں جس سیاق وسباق میں اشعار استعمال ہوئے ہیں اگر انھیں تشریحی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وہ بہترین تشریحی ادب کا نمونہ معلوم ہوتے ہیں ۔
مولانا آزاد کی تحریروں میں عطفی اور اضافی جملے بھی زیادہ استعمال ہوئے ہیں اور جا بجا مترادفات و تضادات سے بھی خوب کام لیا ہے ۔ اِن سے کہیں تو معنوی وسعت پیدا ہوئی ہے اور کہیں ثقالت بھی ۔ اس کے علاوہ ان کی لفظیات کے ذخیرے میں عربی و فارسی فرہنگ بھی دوش بدوش نظر آتے ہیں جس کے سبب عبارت ثقیل ہو جاتی ہے ۔’’تذکرہ ‘‘ کے آخری صفحات کے علاوہ مجموعی طور پر اسلوب ایسا ہی ہے بلکہ ’’الہلال ‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ میں صحافت کی جو روانیٔ بیان تھی وہ ’’تذکرہ ‘‘ جیسی خالص علمی و تحقیقی تصنیف میں برقرار نہیں رہتی بلکہ زیادہ وقار و تمکنت در آئی ہے ۔مثلاََیہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’غرض ایک چیز دعوت ہے ،ایک عزیمتِ دعوت،اور ایک عزیمت دعوت کا درجہء تجدید ومقامِ قیامِ دعوتِ عامہ،اور ایک مقام اصلاحِ افراد کا ہے، ایک عائلۂ و جماعت کا ،اور ایک امت ونوع کا۔سو اگرچہ دعوت موجود ہوتی ہے مگر عزیمتِ دعوت مفقود ہو جاتی ہے ،اور اگرچہ اصلاحِ افراد کا سامان ہو تا ہے مگر اصلاحِ امت کا کوئی سامان نہیں ہوتا ۔ اگر چند اصحابِ عزائم ہوتے بھی ہیں ،تو اسباب و موانعِ مذکورہ سے درجۂ تجدید وکمالِ عزیمت ِ دعوت تک ان کی رسائی نہیں ہوتی ،کاروبارِ دعوت کے کالبدُ و اشکال تو موجود ہوتے ہیں مگر روحِ فتح و نصرت مفقود ہو جاتی ہے ، اوراسی لیے معاملہ ٔ تجدیدو احیائے امت اپنے کشودِ کار کے لیے کسی مردِ غیب کا منتظر ہوتا ہے۔
عشق اگر مردست،مردے تابِ دیدار آورد
ورنہ چوں موسیٰ بسے آور د و بسیا ر آورد‘‘
مگر’’ تذکرہ ‘‘ کا آخری باب اس کے بر عکس ہے ۔یہاں رنگین بیانی اور شاعرانہ اظہار ِ بیان ہے ۔ان عبارتوں کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عبارت کو مرصع ومسجع بنانے کی خاطر لفظی بازی گری کی گئی ہو لیکن اگر ایک ایک لفظ پر غور کیا جائے تو لفظی بازی گری کے بجائے معنی آفرینی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر اس اقتباس کودیکھیں :
’’آنکھیں کھلیں تو عہدِ شباب کی صبح ہو چکی تھی اور خواہشوں اور ولولوں کی شبنم سے خارستان ِ ہستی کا ایک ایک کانٹا پھولوں کی طرح شاداب تھا۔ اپنی طرف دیکھا تو پہلو میں دل کی جگہ سیماب پایا دنیاپر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ اس صبح ِفریب کے لیے نہ تو سوزو تپش کی دوپہر ہے ،نہ نا امیدی و ناکامی کی شام یہ سارا شہرستانِ امید اور نگار خانہء نظرفریب صرف ایک ہمارے ہی دیدہ و دل کی کام جوئیوں کے لیے بنا ہے اور گویا گوشہ گوشہ اور ذرہ ذرہ ہماری ہوسناکیوںکے لیے چشم براہ ہے ۔جس طرف کان لگایا یہی صدا سنائی دی ،معلوم نہیں اپنی ہی گنبدِغفلت اورہنگامہء ہوس کی گونج تھی یا نو گرفتارانِ طلسمِ شباب کی ہوش رُبائیوں کے لیے خود سازِ ہستی کا نوائے فریب ہی یہی ہے۔
شہریست پُر ز خوباں ،وز ہر طرف نگارے
یاراں صلائے عام است گر می کنید کارے‘‘
(تذکرہ ۔۔صفحہ ۳۹۴)
اس اقتباس میں جوانی کی امنگوں ،حوصلوں اور دنیا کی رنگینیوں اور دلفریبیوں سے متعلق تمام تر احساسات و کیفیات موجود ہیں ۔یہ تفصیلات اسی سرمستی ومدہوشی کے ساتھ لفظوں میں جھلک رہی ہیں جتنے خود جوانی کے شب وروز ہوتے ہیں ۔اس اقتباس کی ترکیبوں کو دیکھیں جو محض خوبصورت لفظوں کا مجموعہ نہیں جوصرف صوت و آہنگ کے اعتبار سے کانوں کو بھلے لگتے ہیںبلکہ ان ترکیبوں میں استعاراتی اور تمثیلی انداز کے سبب معانی و مفاہیم کی وسعت نظر آتی ہے ۔ملاحظہ فرمائیں :
دل کی نادانیوں اور انسان کی بے اختیاری کی تصویر آزاد اِن لفظوں کے ذریعے کس خوبصورتی سے کھینچتے ہیں ۔’’پہلو میں دل کی جگہ سیماب‘‘ اور جوانی کے ابتدائی ایام کے لیے ’’صبح ِ فریب ‘‘اور اختتام ِ جوانی کے لیے ’’ناامیدی و ناکامی کی شام ‘‘اور دنیا کے لیے ’’شہرستانِ امید اور نگارخانۂ نظر فریب ‘‘ اس کے علاوہ ’’گنبدِ غفلت ‘‘ اور ’’ ہنگامۂ ہوس ‘‘اور ’’ نو گرفتارانِ طلسمِ شباب ،سازِ ہستی ، نوائے فریب‘‘ یہ ترکیبیں ایک طرف آزاد کے اسلوب کو انفردیت و عظمت بخشتی ہیں تو دوسری طرف معنوی وسعت پیدا کرتی ہیں ،یہ یقینا بیان کا بڑا حسن ہے اور اس طرزِبیان پر اُسی کو قدرت حاصل ہو سکتی ہے جسے زبان و بیان پر پوری مہارت اور دسترس حاصل ہو۔
تذکرے کے اس حصے کے مطالعے سے معلوم ہو تا ہے کہ آزاد کی شگفتہ نگاری کا یہ پہلا نمونہ ہے جو اردو زبان و ادب میں ایک خوبصورت اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں ان کی زندگی کا بھرپور عکس موجود ہے ،ان کی زندگی اور زندگی کے مشاہدے ،خاندان اور تہذیبی رکھ رکھاؤ،علمی وادبی روایات ،سیاسی و معاشرتی شعور اور ان کی ذاتی زندگی کے دلچسپ پہلو یہ سب کچھ یہاں موجودہیں اور انہی کے امتزاج سے ایک انوکھا اور نرالا اسلوب ابھر کر سامنے آیا ہے جس کا خاتمہ بھی انہی کی ذات پر ہوا ۔ مگر یہ ہمارے لیے اب بھی نہایت قیمتی اور بیش بہا سرمایہ ہے جو ادب ِ اردو بالخصوص اردو نثر کو فخر و امتیاز عطا کرتا ہے ۔
٭٭٭
Tags مولانا ابوالکلام آزاد، ابالکلام ،Abulklam Azad