تصوف عہد حاضر کی سب سے اہم ضرورت ہے
تصوف میں امن عالم کا پیغام پوشیدہ:دانشوران
ولڈ اردو ایسوسی ایشن کے تحت دوروزہ قومی سیمینار کا انعقاد ،مفکرین ادب کا اژدحام
رپورٹ
جواہر لال نہر و یونیورسٹی میں ”ولڈ اردو ایسوسی ایشن “کے زیر اہتمام دو روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں مختلف تعلیمی ادارواں کے ریسر چ اسکالرس اور معروف ومعتبر دانشوروں نے اردو ، عربی اور فا رسی ادبیات میں متصوفانہ روایت پر تبادلہ ٔ خیال کیا ۔ سیمینار کے پہلے دن تین نشستیں ہوئیں۔ پہلی نشست افتتاحیہ پر مشتمل تھی، جب کہ دو نشستوں میں اسکالرس نے پر مغز مقالات پیش کیے ۔افتتاحی نشست میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خواجہ معین الدین چشتی اردو ، عربی ،فارسی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر خان مسعود نے کہا کہ صوفیا نہ خیالات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ سسکتی بلکتی دنیا کو تصوف کا جام پلانا ضروری ہے۔ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئر مین پروفیسرعارف ایوبی نے کہا کہ تصوف کا سلسلہ انتہائی قدیم ہے ۔ بعثت نبوی سے قبل بھی اس کی روایت رہی ہے۔ آمد اسلام کے بعد تزکیہ نفس کا عنصر تصوف میں اہم ہوگیا ۔ انھوں نے کہا کہ صوفیانہ اصطلاحوں کے تناظر میں ادب پر بہت کچھ لکھا گیا مگراب تصوف کو سماج سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ تصوف کو انتہائی سلجھے انداز میں پیش نہیں کیا گیا ۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم تصوف کے اصولوں پر عمل پیراہوجائیں تو پوری دنیا خاص طور سے برادران وطن سے بہتر معاملات کرسکتے ہیں ۔ حسن ِ اخلاق کا جو معاملہ تصوف میں پوشیدہ ہے ، اسے انتہائی واضح انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے انگلش اینڈ فارن لنگویجز حیدرآبادسے تشریف لائے پروفیسر مظفر عالم نے کہا کہ تصوف کے تناظر میں اردو ، فارسی اور عربی کی ادبیات میں لطیف رشتہ ہے ۔ کیوں کہ تصوف کی روایت کو سمجھنے کے لیے ان تینوں زبانوں پر غوروفکر کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے خصوصاً تصوف کے تاریخی پہلوؤں پر بھر پور روشنی ڈالی ۔اس موقع پر پروفیسر سید اختر حسین(صدر ، انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز ) نے کہا کہ جانبداری اور خود غرضی کے اس دور میں تصوف کے بغیر سماج میں امن وسلامتی کی فضا قائم کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ اس لیے متصوفانہ معاملات پر توجہ دینا لازمی ہے۔ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر محمدرکن الدین نے مہمانوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے تحت ہونے والے دیگر پروگراموں کا خاکہ پیش کیا۔
قبل ازیں سفیر اردو اور جے این یو کے استاد پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین نے ولڈ اردو ایسو سی ایشن کے اغراض ومقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ انھوں نے کہا کہ ادب وثفافت کو فروغ دینے اور غیر ملکی ادب سے استفادہ کے لیے ضروری ہے کہ ہم عالمی سطح پر کام کریں ۔ متحدہ طور پر ادبی سرگرمیوں کو فروغ دیں ۔ کیوں کہ گلوبلائزیشن کے دور میں عالم ادبیات کو سمجھنا ضروری ہے ۔ انھوں نے کہاکہ آئندہ چند ماہ میں ولڈاردو ایسو سی ایشن کے بینر تلے ملک اور بیرون ملک میں متعدد سیمیناروں کا انعقاد کیا جائے گا ۔ادب میں دل چسپی لینے والے افراد چند شرائط کے ساتھ ان میں شرکت کرسکتے ہیں ۔ افتتاحی نشست کی نظامت ڈاکٹر ایس خان نے کی ، جب کہ دوسرے سیشن کی نظامت مہوش نور نے کی۔اس سیشن میں تین مقالے( علی الترتیب صدر شعبہ فارسی دہلی یونیورسٹی پروفیسر علیم اشرف، ڈاکٹر زرینہ زرین(شعبہ اردو کولکاتا یونیورسٹی) ڈاکٹر غلام معین (شعبہ فارسی مولانا آزاد کالج کولکاتا)پیش کیے گئے ۔ اس سیشن کی صدارت پروفیسر سید اختر حسین(صدر ، انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز )ڈاکٹر توحیدخان (سرپرست ، ورلڈ اردو ایسوسی ایشن )اور ڈاکٹر محمد کاظم ( وائس چیئرمین، ورلڈ اردو ایسوسی ایشن )۔ تیسرے سیشن میں علی الترتیب پانچ اسکالرس( ڈاکٹر رضوان الحق (این سی ای آرٹی ، بھوپال)، ڈاکٹر محمد مشتاق (شعبہ عربی ڈگری کالج بارہمولہ کشمیر ) ، مسعود اظہر ، سلمان عبدالصمد اور سورج کمار ) نے مقالات پیش کیے۔ اس سیشن کی صدارت پروفیسر علیم اشرف ، پروفیسر عارف ایوبی اور ڈاکٹر سمیع الرحمن نے کی اورپروگرام کی نظامت امتیاز رومی نے کی ۔ اس پروگرام میں جامعہ، دہلی یونیورسٹی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،بھوپال، حیدر آباد اور کلکتہ سے بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات اور اساتذہ وغیرہ موجود تھے۔
دوسرے دن کی رپورٹ
انسانی رواداری کے فروغ میں تصوف کا اہم مقام:دانشوران
’’اردو، فارسی اور عربی میں میں تصوف کی روایتـ‘‘دو روزہ قومی سیمینار اختتام پذیر
ورلڈ اردو ایسو سی ایشن کے بینر تلے جے این یو میں منعقد ہونے والا دو روزہ قومی سیمینار’’اردو، فارسی اور عربی میں تصوف کی روایتـ‘‘ اختتام پذیر ہوا۔دو دنوںکے سیشن میں بڑی تعداد میں مفکرین ادب اور ریسرچ اسکالرس نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے ۔ ساتھ ہی ساتھ باضابطہ مباحثہ سیشن کا اہتمام کیا گیا ، جس میں متعدد تعلیمی اداروں کے اسکالرس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور متصوفانہ ادب کے متعدد پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا ۔ اس موقع پر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے متصوفانہ اور اسلامی شاعری کے مابین پائے جانے والے لطیف رشتوں پر گفتگو کی ۔ انھوں نے کہا کہ سلوک وطریقت کے معاملات میں صوفیاکی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور متصوفانہ ادب کا معاملہ طریقت وسلوک سے کچھ الگ ہے ۔ اس لیے ہمیں اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے کہا کہ انسانی رواداری اور بقائے باہمی کے فلسفے کو تصوف سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ ڈاکٹر مہتاب عالم نے کہا کہ علاقائی سرحدوں میں صوفیوں کا سلسلہ محدود ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوب کے بہت سے صوفی شعرا سے شمال کے بہت سے افراد ناواقف ہیں ، اسی طرح شمالی ہند کے بے شمار صوفیا کے متعلق جنوب کے بہت سے افراد علم نہیں رکھتے ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ تصوف کے معاملات کو بھی ملکی اور عالمی سطح پر سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔
اختتامی نشست میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے نومنتخب ڈائریکٹر سید عقیل احمد نے کہا کہ مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ قومی اور ملکی سطح پر تصوف کو فروغ دیا جائے، تاکہ عالمی سطح پر امن وآشتی کا ماحول پیداہوسکے ۔ انھوں نے مزید کہاکہ اب نہ صرف دانشوروں اور پروفیسروں کے معاملات پر توجہ دی جائے گی ، بلکہ ریسرچ اسکالرس کی تربیت بھی اہم ایشو ہوگا ، تاکہ وہ مستقبل میں بہترین اساتذہ بن سکیں ۔ انھوں نے اردو قومی کونسل کی دیگر سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور اپنے عزائم کا اظہار کیا ۔ پروفیسر سید اختر حسین نے کہا کہ تصوف کو سماجیات سے جوڑ نے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ فقط متصوفانہ اصطلاحوں سے تصوف کو سمجھا نہیں جاسکتا ہے ، اس لیے معاشرتی سطح پر اسے رائج کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ تصوف کا اصل مفہوم واضح ہوسکے ۔
غور طلب ہے کہ ورلڈ اردو ایسو سی ایشن کے بینر تلے منعقد ہونے والے دو روزہ قومی سیمینار کو فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ ، چشتی فاؤنڈیشن اجمیر شریف اور انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز کا تعاون حاصل تھا ۔ د دروزہ قومی سیمینار میں یہ محسوس کیا گیاکہ تلفظات کی سطح پر عام طور پر غلطیاں ہوئیں اس لیے پروفیسر خواجہ اکرام نے دو ودن کے ورکشاپ کے انعقاد کی تجویز رکھی جس پر قومی کونسل کے ڈائریکٹر نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے ہم کونسل کی جانب سے پورا تعاون پیش کریں گے۔مقالات کے لیے متعینہ دو نشستوں میں ڈاکٹر آفتا ب عالم ، ڈاکٹر لیاقت علی،ڈاکٹر محمد عمران ، ڈاکٹر محمد عابد حسین ،صالحہ صدیقی ، محمد ابرارالحق ، عبدالقیوم ،امام الدین ، نیلو فر خانم ، نفیسہ خالد ، مشتاق احمد صدیقی اور منیرہ نژاد شیخ وغیرہ نے مقالات پیش کیے ۔ ان نشستوں کی صدارت پروفیسر عارف ایوبی، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، پروفیسر رضوان الرحمن، پروفیسر سید اختر حسین، ڈاکٹر مہتاب عالم ، ڈاکٹر توحید خان، ڈاکٹر زرینہ زرین ، وسیم راشداورڈاکٹر محمد کاظم نے کی ۔ جب کہ نظامت کے فرائض ولڈ اردو ایسوسی ایشن کے ڈائرکٹر محمد رکن الدین اور اسسٹنٹ ڈائرکٹر محمد ثناء اللہ نے انجام دیے ۔اس پروگرام میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی یونیورسٹی ، اے ایم یو کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں کے ریسر چ اسکالر س اور اساتذہ کثیر تعداد میں موجود تھے ۔