Home / Book Review / ( تفہیم و تعبیر (مجموعہ ٔمضامین

( تفہیم و تعبیر (مجموعہ ٔمضامین

(نام کتاب:  تفہیم و تعبیر (مجموعہ ٔمضامین

مصنفہ: رضوانہ پروین

سالِ اشاعت:2014

صفحات:124

ناشر: اِرم پبلشنگ ہائوس،دریاپور،پٹنہ۔۴

مبصر: رہبر رضا

ریسرچ اسکالر،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی۔67

            ’’تفہیم و تعبیر‘‘ رضوانہ پروین کی تحریر کردہ کتاب ہے۔یہ کتاب تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔مضامین کی کل تعداد( ۱۵)پندرہ ہے۔پہلے مضمون کا عنوان ’’تحریکِ نسواں اور خواتین فکشن نگار‘‘ ہے۔اس مضمون میں سر سید،نذیر احمد،عبدالحلیم شرر،راشدالخیری،الطاف حسین حالیؔ اور مرزا رسواؔ کو ایک ساتھ بریکٹ کیا گیا ہے حالانکہ حالیؔ و سر سید تعلیمِ نسواں کے معاملے میں یکساں رائے نہ رکھتے تھے۔حالیؔ تعلیمِ نسواں کے نوید تھے اور سر سید اسے بہت زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے ۔ اردو میں یا ہندوستان میں تحریکِ نسواں اور حقوقِ نسواں کے مباحث پر اجمالی طور پر منضبط انداز میں روشنی ڈالنا ضروری تھا مضمون کا عنوان کم از کم اس بات کا متقاضی تھا لیکن اسے چند صفحے ہی میں سمیٹ دیا گیا ہے اور اس سے بھی تحریکِ نسواں کے پورے خدّوخال واضح ہو کر سامنے نہیں آتے۔ جن خواتین کو مضمون نگار نے اہمیت دی ہے ان میں رشید جہاں ،عصمت چغتائی،قرۃالعین حیدر،واجدہ تبسم، جیلانی بانو اور دیگر نئی لکھنے والیوں کے نام شمار کئے ہیں۔ مسرور جہاں پر قدرے تفصیل سے گفتگو کی ہے۔صبیحہ انور اور قمر قدیر ارم پر ہلکی روشنی ڈالنے کے بعد مضمون کا خاتمہ بالخیر کر دیا ہے۔

            دوسرے مضمون میں غزال ضیغم کے افسانے سوریہ ونشی اور چندر ونشی میں تانیثیت کی تلاش کو اپنا مطمحِ نظر بنایا ہے۔ یہ مضمون تشریحی و تعبیری زیادہ اور تجزیاتی کم سے کم ہے۔ موصوفہ نے اس افسانے کو شاہکار نہیں بلکہ صرف کامیاب بتایا ہے۔

            صالحہ عابد حسین کے ناولوں میں عورت کے کردار پر بحث کرتے ہوئے مضمون نگار نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انھوں نے’’اپنے ناولوں میں عورت کے کردار کو کثیرالجہات صفت عطا کی ہے‘‘۔ صالحہ مرحومہ کے ناول ’’آتشِ خاموش‘‘ اور ’’قطرے سے گہر ہونے تک‘‘سے اقتباسات اخذ کر کے گفتگو کو مدلل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

            شکیلہ اختر کے افسانوں میں بہار کے سماجی مسائل کی عکاسی (خصوصاً ڈائن کے حوالے سے) نو َ صفحات پر مشتمل ہیں۔ پانچ صفحات افسانہ نگار کے فن اور موضوعاتی سروکار کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں ۔ چار صفحات میں افسانہ ڈائن پر بحث کی گئی ہے اور اسے ارددو کے نمائندہ افسانوں میں سے ایک بتایا گیا ہے۔

            ’’فائر ایریا ایک مطالعہ ۔ بہار کے سماجی پس منظر میں ‘‘یہ الیاس احمد کے شہرئہ آفاق ناول پر مبنی ساڑھے پانچ صفحات کا مضمون ہے مضمون کا بنیادی سروکار ناول کا موضوع ہے اس کی فنّی وضع ہرگز نہیں۔کسی علاقے کا سماجی پس منظر ناول بنت کا محرک ضرور ہو سکتا ہے لیکن علاقائی فضا سے فن کو مختص اور مقید کرنے کا نتیجہ آفاقیت کی نفی ہے۔

            ’’منٹو کے گمشدہ افسانے‘‘ بلراج مینرا کی مرتب کردہ کتاب ہے اپنے اس مضمون میں رضوانہ پروین نے جائزہ لیا ہے۔بیمار، راجو اور پھاتو نامی افسانوں پر قدرے مفصل بحث کرتے ہوئے مضمون نگار نے یہ بتایا ہے کہ ـ’’مذکورہ افسانے منٹو کے شاہکار افسانوں میں جگہ پانے کے لائق تو نہیں لیکن انھیں موضوعاتی اور اسلوبیاتی  سطح پر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا ۔‘‘

            ویدک عہد کی سیتا اور سیتا میر چندانی۔ایک تقابلی مطالعہ میں قرۃالعین حیدر کے ناول سیتا ہرن کے کرداروں زمانی فاصلے اور ازلی موافقت کو سامنے لانے کی سعی کی گئی ہے۔دو مضمون کرشن چندر پر ہیں جو ان کے فن اور شخصیت کا احاطہ کرتے ہیں شخصیت والا حصہ فن سے اٹھتا ہوا سا ہے۔بالخصوص ’’کرشن چندر کی شخصیت کے چند دلچسپ پہلو‘‘ سے کئی دلچسپ باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔

            ’’مجازؔ کی شاعری میں عورت کا تصور‘‘ مضمون اچھا ہے ۔ تنقیدی نہیں بلکہ تحسینی ہے عورت کو مجازؔ کس زاویہ سے دیکھتے تھے انھیں عورت میں انقلاب کی کیسی رمق دکھتی تھی آنچل سے پرچم بنانے کی کیسی خواہش ان کے شعری تخیل میں مہکتی تھی اس سے بحث کرتے ہوئے عورت کو مجازؔ کی شاعری کا محور قرار دیا ہے ۔

            ’’جمیل مظہری کا شعری تشخص‘‘مضمون کا ابتدائی حصہ سوانحی  کوائف پر مبنی ہے۔اسکے بعد ان کے شعری امتیازات اور خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔جمیل پر اشتراکی اثرات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے مزید یہ بتایا گیا ہے کہ زندگی کے آخری دنوں میں وہ جن نامرادیوں اور مایوسیوں سے رو برو ہوئے اس کی سچی تصویر نظم ’’پیاسا دریا‘‘ اور ’’دو جمیل‘‘ میں ملتی ہے۔ان نظموں کے دو اقتباسات نقل کرکے مضمون کو مکمل کر دیا ہے۔ مجموعی گفتگو یا خلاصۂ کلام کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ہے۔

            ’’فیضؔکی شاعری میں عصری مسائل کی عکاسی‘‘ میں فیضؔ کے یہاں موجود رومان و حقیقت کے امتزاج کو روشن کیا گیا ہے۔ فیضؔ نے وقتاً فوقتاً جو تنقیدی مضامین ، دیباچے، تبصرے مضامین کی شکل میں لکھے’’ فیض ؔکے تنقیدی افکار‘‘ میں اسی حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔’’تقابلی تنقید‘‘ میں موازناتی تنقید کے فوائد سے بحث کی گئی ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت کو واضح کیا گیا ہے ۔

            کتاب کا آخری مضمون ’’سر سید کا نظریہ تعلیم‘‘ ہے۔ سر سید نے ہندوستانی نظامِ تعلیم میں جو انقلاب برپا کیا اور ملّت کی زبوں حالی کو دور کرنے کی خاطر دانشورانہ اور تعلیمی سطح پر جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اس سے اپنی بساط بھر ہر شخص واقف ہے ۔ یہ مضمون سر سید کے تعلیمی مطمحِ نظر کو سامنے لاتا ہے ۔

            مجموعی طور پر کتاب معلوماتی ہے ۔ مضامین میں موضوعِ بحث بنائی گئی شخصیات یا مسائل میں سے بعض قدرے معروف ہیں تو بعض شہرت کے بامِ عروج کو چھوتے ہیں ۔پروفیسر علیم اللہ حالیؔ نے مقدمہ کتاب میں لکھا ہے کہ ’’رضوانہ کو یہ معلوم ہوگا کہ اچھی تنقید محض مطالعات اور معلومات کی ترسیل اور منتقلی کے ذریعہ سامنے نہیں آ سکتی۔ ادبی تنقید کو جب اس حد تک معروضی بنا دیا جائے تو بے لطفی اور بے ذوقی پیدا ہو جاتی ہے۔ تنقید کو اس سرمستی اور کیف و سرور سے بھی علاقہ رکھنا چاہئے جس سے فن پارے کے جسد سے گزر کر اس کی روح تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پیشِ نظر کتاب رضوانہ کی اولین کاوش ہے ۔ میں اس کا استقبال کرتا ہوں ۔‘‘اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ کاوش لائقِ حوصلہ افزائی ہے ۔

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *