Home / Literary Articles / جام نور میں شائع انٹرویو

جام نور میں شائع انٹرویو

خوشتر نوارانی

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
پروفیسر،شعبہ اردو،جواہر لال نہر ویونیورسٹی،دہلی
ڈاکٹر خواجہ اکرام اردو کے ایک اچھے استاذ ،کالم نگار، کئی کتابوں کے مصنف اور مذہبی رحجان اور عصری شعور رکھنے والے ایک معتدل فکر مسلمان ہیں- عصر حاضر کی مسلم دانشوری کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ دانشوران پر جب زعم دانشوری سوار ہوتا ہے تو ان سے احساس مسلمانی رخصت ہو جاتا ہے،اس کے بر خلاف ڈاکٹر خواجہ اکرام ہندوستان کی ایک بڑی عصری درس گاہ جواہر لال نہر ویونیورسٹی کے استاذ ہونے اور ایک آزاد ماحول میں رہنے کے باوجود اسلام کا درد، ملت کی فکر اورقوم کے تابناک مستقبل سے گہرا لگائو رکھتے ہیں اور ہر وقت اسلامی کردار اور مسلمانوں کے تعلیمی، معاشی اور سیاسی شعورکو پروان چڑھانے کے لیے اپنے طور پر کوشاں رہتے ہیں- موصوف صوبۂ جھارکھنڈ سے تعلق رکھتے ہیں، مدرسہ شمس العلوم گھوسی(یوپی) سے بنیادی دینی تعلیم کی تحصیل کے بعد عصری علوم کی طرف مائل ہوئے اور پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد جے این یو دہلی آئے اور یہاں سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تکمیل کی- ایم فل کے لیے آپ کے تحقیقی موضوع کا عنوان ’’رشید احمد صدیقی کے اسلوب کا تنقیدی مطالعہ‘‘ اور پی ایچ ڈی کا عنوان ’’ انیسویں صدی کے تذکروں کا تنقیدی جائزہ‘‘ ہے- اب تک تقریباً نصف درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ’’ اردو کے شعری اصناف ‘‘اور ’’جدید فارسی ترجمہ و قواعد ‘‘خصوصی اہمیت کی حامل ہیں-ڈاکٹر صاحب ابھی جے این یو دہلی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں،نیو ایج میڈیا اینڈ ریسرچ سینٹر دہلی کے ٹرسٹی اور مختلف دینی و علمی سرگرمیوں اور تنظیموں سے وابستہ ہیں-

سوال :-سب سے پہلے اختصار کے ساتھ یہ بتائیں کہ آپ ایک چھوٹے سے دینی ادارہ سے ملک کی ایک عظیم یونیورسٹی کے منصب تدریس تک کیسے پہنچے؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-سب سے پہلے تو ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس منصب اور اس مقام پر فائز کیا ہے ، یہ ایک چھوٹا سا منصب ہے ، لیکن منصب سے زیادہ اسے میں اپنی دینی ،علمی، اخلاقی اور ملی ذمہ داری سمجھتا ہوں ، اور اگر میں اسے نبھانے میں کامیاب ہو گیا تبھی ان سوالات کا کوئی جواب ہوگا، نہیں تو کچھ نہیں، مدرسے سے میری تعلیم شروع ہوئی، میرے والد مولانا شمس الدین سہروردی علیہ الرحمۃ والرضوان ایک بڑے صوفی عالم تھے، ان کی ساری زندگی اصلاح معاشرہ اور خدمت قوم میں گزری، ایک بڑے شہر سے اپنے پیر کے حکم کے مطابق ایک چھوٹے گائوں کا سفر کیا، جس علاقے میں وہ گئے وہ آدی باسیوں کا علاقہ تھا، یعنی جھارکھنڈ کا علاقہ، جہاں کے مسلمانوں کے نام ہری میاں، چمن میاں، لکشمن میاں وغیرہ ہو ا کرتے تھے، وہ صرف ایک چادر اوڑھا کرتے تھے، انہیں دین کے تعلق سے کچھ پتہ نہیں تھا، گویا انہیں ایک جنگل میں بھیج دیا گیا اور ان سے یہ کہا گیا کہ تمہیں دین کی روشنی پھیلانی ہے ، کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا، ۴۰/۴۵ سال ہو رہے ہوں گے، اور اتنی سی مدت میں اللہ کا شکر ہے کہ پورا منظر تبدیل ہو گیا ہے، ایک اس وقت کا گائوں تھا اور ایک آج کا گائوں ہے ، میرے گائوں کے پڑھنے والوں کا پہلاگروپ وہی ہے جس میں ہم لوگ نکلے ہیں ، میرے گائوں میں دو سو گھر ہیں اور آج کوئی ایسا گھر نہیں جس میں کوئی عالم دین یا کوئی حافظ قرآن نہ ہو، میرے والد کی بڑی خواہش تھی کہ میں عالم دین بنوں، اس لیے ان کی بڑی سخت ہدایات تھیں ، اور ۱۱ ؍سال کی عمر میں مجھے انہوں نے جھارکھنڈ سے اعظم گڑھ قصبہ گھوسی میں مدرسہ شمس العلوم میں داخل کر دیا- میں نے وہاں فارسی کی دوسری پڑھنا شروع کیا ، گلستاں بوستاں پڑھی، منشی کا امتحان دیا، منشی کامل کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک میرے سینئر دوست مولانا شوکت نے مجھے بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی طرف متوجہ کیا، اور میں شمس الہدیٰ پٹنہ چلا گیا، شمس الہدیٰ پہنچا تھا کہ وہاں مجھے زندگی کے دو راستے نظر آئے، شمس الہدیٰ بیچ شاہراہ پر ہے جسے اشوک راج پتھ کہتے ہیں ، شمس العلوم کا جو گیٹ ہے یہ سائنس کالج کے گیٹ کے سامنے ہے، بالکل رو برو، میں حسرت اور حیرت سے دیکھتا تھا کہ ایک ہم ہیں ڈرے، سہمے اور دبے ہوئے ، گھنٹی کی آواز پر لپک کر دوڑتے ہیں ، زور سے قہقہہ نہیں لگا سکتے ، ہنس نہیں سکتے، آزادانہ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے، دوسری طرف سڑک کے اس پار ایک گیٹ کھلتا ہے جہاں عجیب رونق ہے،آزادی ہے ،وہاں کے طلبہ کو ہم دیکھتے ہیں تو ان میں بے باکی اور جرأت نظر آتی ہے، میں بار بار سوچتاتھا، اسے آپ تمنا کہیے یا طفلانہ حسرت کہیے، میںسوچتا تھا کہ کیا میں اس بیچ کی سڑک کو پار کر سکتا ہوں؟ لیکن مجھے اس کی باضابطہ تحریک ایک واقعہ سے ہوئی، میرا ایک رو م میٹ ساتھی تھا، جو روزانہ شام میں نہاتا تھا اور خوشبو لگا کر، اچھے کپڑے پہن کر وہ کہیں نکلتا تھا، مجھے دو باتوں سے حیرت ہوئی، اول یہ کہ مدرسہ میں جو نہانے کا تصور ہے وہ جمعہ کو ہے یا صبح کو ہے، لیکن وہ لڑکا صبح بھی نہاتا تھا اور شام میں بھی نہاتا تھا، یہ چیز ہمارے لیے عجیب تھی، دوسری یہ کہ وہ کتابیں لے کر شام کو کہیں نکلتا تھا، وہ مجھ سے سینیر تھا، میں اس کے تعاقب میں رہا اور ہمیشہ اس سے پوچھتا رہا ، ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ تم جاتے کہاں ہو؟ اس نے کہا کہ پٹنہ میں ایک نائٹ اسکول ہے اس میں میں نے داخلہ لے رکھا ہے، میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا کہ کیا میں بھی اس میں داخل ہو سکتا ہوں ؟ پہلے تو اس نے ذہنی طور پر مجھے آزمایا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ شکایت کر دے، کیوں کہ شکایت کرنے کا مطلب تھا ہوسٹل سے اخراج، جب اسے میں نے اعتماد میں لے لیا تب اس نے مجھے راستہ بتایا اور میں نے نویں کلاس میں داخلہ لے لیا، اس وقت میری یہ حالت تھی کہ ہندی کی تھوڑی بہت شد بد تھی، اس وقت تعلیم کے لیے پیسے بھی نہیں تھے، والد صاحب ضعیف ہو گئے تھے، اسکول سے ریٹائرڈ ہو گئے تھے، بیمار رہتے تھے ، ذریعہ معاش کچھ تھا نہیں، بہر کیف !حاصل کلام یہ کہ میں نے دسویں کا امتحان پاس کر لیا ، اور اب تک گھر پر کسی کو اطلاع نہیں دی ، چوں کہ میں نے اپنی تعلیم کا رخ موڑ لیا تھا، اس لیے گھر والوں سے بتاتے ہوئے کافی ڈر لگ رہا تھا، والد صاحب سے ڈرتے ڈرتے میں نے کہا کہ میں میڑک کے امتحان میں پاس ہو گیا ہوں، اچھے نمبر حاصل ہوئے ہیں، آپ اجازت دیں تو پٹنہ کالج میں میرا داخلہ ہو سکتا ہے، خلاف توقع وہ خوش ہوئے، اور اپنی رضا مندی کا اظہار کیا ، لیکن اتفاق سے اسی سال والد صاحب کا انتقال ہو گیا-
والد صاحب نے چوں کہ اجازت دے دی تھی ، اس لیے میں نے سوچا کہ یہ ایک طرح سے میرے اوپر ذمہ داری ہے، میں نے بڑی محنت کی اور انٹر میڈیٹ کے امتحان میں پورے بہار میں گیارہویں پوزیشن حاصل کر لی- اس سے مجھے بہت دلی خوشی ہوئی اور حوصلہ بڑھا- ہمارے اساتذہ نے بھی حوصلہ افزائی کی، پھر میں نے امتیازی نمبرات کے ساتھ وہیں سے بی اے بھی مکمل کیا، پھر جے این یو آ گیا یہاں بھی اللہ کا فضل رہا، ایم اے میں بھی ٹاپ کیا، ایم فل میں بھی ٹاپ کیا، تو میری خواہش بڑھتی چلی گئیاور خوب سے خوبتر کی تلاش میں سرگرداں رہا-
جب میں شمس الہدیٰ میں پڑھ رہا تھا تو وہ اہل سنت کا ادارہ تھا ، لیکن ہر مکتب فکر کے لوگوں کا آنا جانا ہوتا تھا، وہاں ایک بار بحث ہو رہی تھی، فاتحہ، مزار، چادر وغیرہ کے تعلق سے کہ اسلام میں ان کی کیا حیثیت ہے، اس کے بعد میں نے ۱۶؍ صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا اور اس میں میں نے فتاویٰ رضویہ، فتاویٰ امجدیہ اور فتاویٰ رشیدیہ کے فتاوے نقل کیے اور میں نے علمی طور پر یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ ان امور کی اسلام میں کیا حیثیت ہے، یہ کتابچہ’’ اہل بریلی حقانیت کے آئینے میں ‘‘کے نام سے ایک ہزار کی تعداد میں چھپا اور بک گیا، اس وقت گریہڈیہہ میں ایک صاحب کوئی صوفی ازم کی تحریک لے کر اٹھے تھے، مختلف مذاہب کو ملانے کی بات کر رہے تھے ، ایک الگ نظریے کی تاسیس کر رہے تھے، انہوں نے میرے ۱۶؍ صفحات کے کتابچہ کا جواب ۲۵۰؍ صفحات پر لکھا، اس کے بعد میں نے جو پہلا مضمون لکھا وہ پٹنہ کالج کی میگزین میں چھپا، یہ بھی بہت مقبول ہوا، آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے بارہا نشر ہوا- اس کے بعد جے این یو آیا تو ایم فل میں میںنے ’’رشید احمد صدیقی کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی،جو ملک کی یونیورسٹیز اور پاکستان کے پشاور یونیورسٹی میںشامل نصاب ہے- اس کے بعد میں نے فارسی میں پی ایچ ڈی کی، دہلی یونیورسٹی میں اسی وقت ایک جگہ آئی جس میں فارسی، اردو جاننے والے کی ضرورت تھی، حسن اتفاق کہ میں نے درخواست دی اور میرا تقرر ہو گیا، اسی درمیان تھی پروفیسر وہاب اشرفی صاحب نے کہا کہ آپ بہار آ جائیں، اور رانچی میں انہوں نے بحیثیت لیکچرارمیرا تقرر کر لیا ، لیکن وہاں کی آب و ہوااور علمی فضا مجھے پسند نہیں آئی اور پھر واپس دہلی آ گیا، ۵؍سال تک دہلی یو نیورسٹی میں میں نے عارضی ۵؍سالہ مدت گزاری اور اس کے بعد جے یو این میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہو گیا اور اب میں آپ کے سامنے ہوں –
سوال:-آپ ایک مسلمان ہیں، اس کے علاوہ تعلیم کے ابتدائی مرحلے میں آپ کا تعلق مذہبی اداروں سے بھی رہا ہے، اس لیے آپ پر دیگر کاموں کے ساتھ خدمت اسلام اور دعوت دین کا فریضہ بھی عائد ہے ، اس کے لیے آپ نے کس طرح کی ترجیحات متعین کی ہیں؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-دعوت و تبلیغ کے حوالے سے میری پہلی ترجیح تو یہ ہوتی ہے کہ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری زبان میں وہ اثر پیدا فرمائے جس سے دین کی باتیں موثر ہوں، ہمارے کردار سے ، گفتار سے ، ہمارے عمل سے کچھ طلبہ اچھی باتیں سیکھ سکیں اور انہیں اپنا سکیں، میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ شب و روز کی جو ہماری مصروفیات ہیں ان میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھے جس سے غلط تاثر جائے، دوسرا مقصد میرا خاص طور پر جے این یو میں یہ ہوتا ہے کہ یہاں بڑاآزاد ماحول ہے، یہاں مسلمان بچے اور بچیاں آتے ہیں ، اس لیے میںاپنی کلاس میں ہر دن کہیں نہ کہیں اسلامی بات لے کر آتا ہوں اور میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہر روز ان کو حدیث کا ایک مفہوم ضرور بتائوں، جس طرح کی احادیث میں نے جمع کیں اور ان کو سینے میں محفوظ کیا، ان کا تعلق کردار سازی سے ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عصری تعلیم کے جتنے بھی ادارے ہیں ان کی بنیاد اقتصاد پر ہے، ان کی بنیاد معاشرے کی اصلاح پر نہیں ہے، اور کردار سازی کی کمی وجہ سے بے راہ روی ہوتی ہے ، میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں بتائوں جو ان کی کردار سازی میں معاون ثابت ہو سکیں، گویا میری ایک طرح سے کوشش یہ ہوتی ہے کہ میرا طالب علم کسی بھی شعبے میں چلا جائے، کسی نہ کسی طور پر اسلامی کردار کے فروغ میں وہ اپنا کردار پیش کر سکے، وہ باضابطہ طور پر دینی تعلیم کو پیش نہیں کر سکتے، کیوں کہ دینی علوم سے وہ بے بہرہ ہوتے ہیں، لیکن اسلامی کردار کو تو پیش کر سکتے ہیں-
سوال:- جواہر لال نہر و یونیورسٹی ملک کی عظیم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے، اس ادارہ میں مسلم طلبہ کے لیے اور خاص طور سے مدارس کے طلبہ کے لیے کس طرح کے مواقع حاصل ہیں؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-یہ اللہ کا شکر ہے کہ جے این یو جیسے ادارے میں مسلم طلبہ کی تعداد بہت اچھی ہے، مسلم اساتذہ کی تعداد بھی ماشاء اللہ اچھی ہے، اور یہاں پر جہاں تک مواقع کی بات ہے تو مواقع یہاں بے انتہا ہیں، یہ بالکل ایک سمندر کی طرح ہے ،جس ساحل پر بیٹھ جائیں کہیں نہ کہیں راستہ مل ہی جائے گا – مدارس کے طلبہ بھی یہاں اچھی تعداد میں ہیں اور بہت اچھا کر رہے ہیں، لیکن یہاں پر بھی وہی طالب علم اچھا کر رہے ہیں جو مدارس سے ہی کچھ نہ کچھ صلاحیت لے کر آئے ہیں، مدارس کا ایک بڑا المیہ ہے کہ تین چار سالوں میں آج کل دستار فضیلت مل جا رہی ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ وہ نحو میر، میزان اور پنچ گنج سے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں، احادیث کا ترجمہ نہیں کر سکتے، قرآنی آیات کا مفہوم نہیں بتا سکتے، تو اگر ان کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے تو پھر ایسے طلبہ کے لیے یہاں بھی مواقع نہیں ہیں، لیکن ایسے طالب جن کی عربی اچھی ہے اور یہاں آنے کے بعد انہوں نے اپنی انگریزی اچھی کر لی تو ایسے طالب علم کبھی بے کار نہیں رہ سکتے، ان کے لیے بھی بڑے اچھے مواقع ہیں، اچھے پیسے ہیں، ترجمے کا کام، ایمبیسی میں دفتر کا کام ،اور دوسرے اداروں میں عربی جانے والوں کی بہت ضرورت ہے، اور ایسے طالب علم جن کو انگریزی اور عربی پر یک ساں دسترس ہو ان کی بے انتہا کمی بھی ہے،اور ایسے طلبہ کے لیے معاش کا مسئلہ نہیں ہوتا ہے ، یہ خود بھی خود کفیل ہوتے ہیں اور پورے گھر الوں کو سنبھال لیتے ہیں ، اس کے علاوہ ہمارے یہاں اردو ماس میڈیا کا کورس ہے، اس میں ہم ہر سال دو تین مدارس کے طلبہ کو بھی لے لیتے ہیں، آج اردو کے عربی کے چینل شروع ہورہے ہیں، مختلف ویب سائٹس ہیں جن پر کام کرنے والوں کی ضرورت ہے، اس طرح کے کاموں میں اردو اور عربی جاننے والے طلبہ کے لیے بڑے مواقع ہیں، علاوہ ازیں جے این یو سے بیرون ملک جانے کے لیے بھی بہت سے مواقع ہیں، اگر یہ طلبہ بی ایڈ کر لیں تو ان کے لیے باہر کے اسکولوں میں بہت سے امکانات روشن ہیں، مدارس کے طلبہ میں ایک خوبی ایسی ہے جو دوسرے طلبہ میں نہیں ہوتی ہے، وہ تکلم کی طاقت ہے ، یہ دراصل شخصیت کو موثر بنانے بہت معاون چیز ہے، اس کی وجہ سے سمیناروں میں، سمپوزیم میں، مبا حثوں میں ان کا اچھا مظاہرہ ہوتا ہے ، اس کی وجہ سے وہ اساتذہ کی نظروں میں آ جاتے ہیں اور آسانی سے کہیں نہ کہیں ان کا تقرر ہو جاتا ہے-
سوال :-کہتے ہیں کہ جے این یو کا مزاج سیکولر اور کمیونسٹ ہے، ایسے میں ایک مسلمان طالب علم اسلامی مزاج کے ساتھ یہاں کیسے گزارا کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-سب سے اچھا موقع یہیں ہے، آپ ذرا غور فرمائیں کہ ہندوستا ن میں جتنے تعلیمی عصری ادارے ہیں ان میں افطار ،سحر اور تراویح کا جو اہتمام جے این یو میں ہوتا ہے یقین مانیے پورے ہندوستان میں کہیں بھی نہیں ہوتا ہے ، ایک ایک ہاسٹل میں سو سو طلبہ افطار کے وقت ایک ساتھ بیٹھتے ہیں ، جتنے بھی مسلمان ہوتے ہیں خواہ وہ جس ہیئت میں ہوں وہاں پہنچتے ہیں، بلکہ یہاں پر تو ٹوپی کرتا ،اور داڑھی کو اس حیثیت سے اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ اس وضع کے لوگ جھوٹ نہیں بولیں گے، مکاری نہیں کریں گے، فریب نہیں دیں گے، آپ کو یہ بھی بتائوں کہ جے این یو میں ایسی ایسی لڑکیاں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں جو نیم عریاں ہوتی ہیں اور ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی صرف آنکھیں کھلی ہو ں گی، سارا جسم نقاب میں چھپا ہوگا، لیکن کیا مجال کہ کوئی شخص بول دے کہ وہ نقاب میں کیوں ہیں، یہ دقیا نوسی ہے کسی طالب علم کے بارے میں آپ کبھی نہیں سن سکتے کہ وہ ٹوپی پہنتا ہو اور داڑھی رکھتا ہو اور اس سے کسی نے یہ کہہ دیا ہو کہ وہ دقیانوس ہے، تو اس سیکولر ماحول میں زیادہ مواقع ہیں، آزادی ہے ، آپ جس لباس میں رہیں جس طرح کا کھانا کھائیں ، جس طرح کا کام کریں، کوئی رکاوٹ نہیں، اتنا آزاد ماحول تو آپ کو ہندوستان کی کسی یونیورسٹی میں مل ہی نہیں سکتا، یہاں طلبہ زیادہ محفوظ ہیں اور ان کے لیے زیادہ مواقع ہیں کام کرنے کے-
سوال :-لیکن آپ ان طلبہ کے بارے میں کیا کہیں گے جو مدارس سے ۸؍سالہ نصاب مکمل کرکے یہاں آئے ہیں اور یہاں آنے کے بعداپنی ہیئت ہی کو بدل لی ہے؟ اس کے لیے وہ یہ تو ضیح بھی کر تے میں کہ داڑھی ہمارے لیے ایک طرح کی رکاوٹ ہے، اس لیے ہمیں ترقی کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو گیا ہے-
ڈاکٹر خواجہ اکرام:- جی ہاں !یہ قابل غور پہلو تو ضرور ہے کہ وہ ۸؍ سال مدارس سے پڑھ کر یونیورسٹی آئے اور آتے ہی اپنی ہیئت کو تبدیل کر لیا اور صرف ہیئت ہی نہیں اپنا مزاج بھی بدل لیا، تو سب سے پہلے سوال تو ان کی تربیت پر ہوتا ہے کہ ۸؍ سالوں تک جب وہ مدارس میں رہے تو کیا وہاں ان کی اسلامی تربیت نہیں ہوئی یا ہوئی تو اتنی ناقص ہوئی کہ ہوا کے ایک معمولی جھونکے کے ساتھ ریت کی دیوار کی طرح یکایک ڈھہ پڑی، تو یہاں اس کی ذمہ داری جہاں ایک طرف طالب علم پر آتی ہے وہیں ان کی تربیت کرنے والے مدارس پر بھی آتی ہے، کہ بہرحال ان میں کسی نہ کسی طرح کا نقص ہے جس کی وجہ سے ان کا اثر دیرپا نہیں رہ پا رہا ہے-
میں اپنے دوستوں کے بارے میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ کئی ایک ایسے بھی ہیں جن کا تعلق مدارس سے ہے اور وہ شراب و کباب کی مجلسوں میںبھی شریک ہوتے ہیں اور بلا تکلف ان کا استعمال کرتے ہیں، میں یہ دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتا ہوں ، حیرت کے علاوہ میں اس پر سوچتا بھی ہوں کہ آخر ایسا کیو ں ہے؟ مجھے اب تک اس کی دو وجہیں نظر آئی ہیں، ایک وجہ یہ کہ مدارس میں طلبہ کے لیے اتنی پابندی ہوتی ہے کہ وہاں پر وہ پَربھی نہیں مار سکتے، اب وہ اچانک قید سے آزادی کے ماحول میں آتے ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ آزادی کے ماحول میں آتے ہیں اس سے اچانک سب کچھ بدل جاتا ہے ، تو زیادہ قید اور زیادہ قید سے انتہا ئی آزادی کی طرف ان کا سفر، یہ ایک بنیادی وجہ ہے اس کی-
دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے جہاں تعلیم حاصل کی وہاں ان کی بھر پور تربیت نہیںہوئی، تعلیم تو دراصل تربیت ہی کا نام ہی ہے، سعدی نے کہا ؎
علم رابرتن زنی مارے بود
علم را بردل زنی یارے بود
مطلب یہ کہ مدارس میں علم کو دل و دماغ پر موثر کرنے والا ذریعہ نہیں بنایا گیا، صرف ہجے کرا کر رٹوا دیا گیا، اس سے طالب علم کی شخصیت پر اثر نہیں پڑا،اس لیے اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے- مدارس میں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ کردار سازی پر کام کریں-
سوال:-جے این یو نے اردو کو کیا مقام دیا ہے، یعنی اس کے شعبۂ اردو کا کیا حال ہے اور اس میں کس قسم کے کورسیز ہیں؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-جے این یو کا شعبہ اردو بہت بہتر ہے، دنیا کی کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں اردو کی تعلیم ہوتی ہو اور وہاں جے این یو کے شعبہ اردو کا اثر نہ ہو ، یا اس کے چرچے نہ ہوں، یورپ میں آپ جائیں امریکہ ، کناڈا، لندن، جرمنی، روس اور دوسرے ممالک جو ٹو ٹ کر بکھر گئے ہیں ان تمام ممالک میں جے این یو کے شعبۂ اردو کا بڑا نام ہے- ہمارے وہ اساتذہ جو سبکدوش ہو چکے ہیں وہ وہاں کی یونیورسٹیوں میں بارہا وزٹینگ پروفیسر بھی رہے ہیں، اور آج بھی ایکس چینج پروگرام کے تحت وہاں سے طلبہ اور طالبات یہاں پر آتے ہیں، ہندوستانی سطح پر بات کیجیے تو جے این یو کا شعبہ اردو اپنا امتیازی مقام رکھتا ہے، اس کی امتیازی شناخت ہے، اس طور پر کہ ہمارے یہاں کورسیز کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ کوئی حصہ تشنہ نہیں رہتا ہے، ہم نے اپنے طلبہ کے لیے ہندی کو لازم کر دیا ہے تاکہ اگر طالب علم ہندی بھی پڑھ لیں جو ملک کی قومی زبان ہے- اردو کے نصاب میںثقافت ، تہذیب اور تاریخ کے پس منظر میں ادب کو پڑ ھانے کی کوشش کرتے ہیں ، ہمارے یہاں ۴؍ سمٹسر میں ۱۷؍ کورسیز ہیں، ان کے اندر ہم تقریباً تمام چیزوں کو شامل کر لیتے ہیں ، ہمارا طریقہ بالکل الگ ہے، ہم خود امتحانا ت لیتے ہیں اور کاپیاں چیک کر کے طلبہ کو نمبرات دیتے ہیں، ہمارے طلبہ اس کے مجاز ہیں کہ وہ ہم سے پوچھیں کہ آپ نے آخر ہمیں کیوں کم نمبر دیا؟ تو ایسا نظام ہے کہ ہمیں مجبور ہونا پڑے گا کہ ہم دکھائیں اور ان کو بتائیں کہ دیکھیے آپ نے یہ غلطیاں کی ہیں، ہم طلبہ کو اسائنمنٹ لکھنے کو دیتے ہیں تو ایک اسائنمنٹ لکھنے کے لیے کم سے کم بیس کتابیں انہیں دیکھنا پڑتی ہیں، ہمیں اگرچہ اس کا یقین ہے کہ وہ ۲۰؍ کتابیں نہیں دیکھ سکتے مگر انہیں ایک طرح سے رہنمائی تو ہو جاتی ہے کہ وہ ایم اے کے بعد تفصیل سے دیکھنا اور پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکیں، گویا ہمارا نصاب ڈیزائن ہی اس طور سے کیا کیا گیا ہے کہ وہ صرف موضوع کو Coverنہیں کرتا بلکہ اس کے پورے کینوس میں جا کر اس کے پس منظر کو واضح کر دیتا ہے-
جے این یو کے شعبۂ اردو کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے ۲۰؍۲۵ سال پہلے جب اردو صحافت کے کورس کا تصور نہیں تھا ،اس وقت جے این یو کے شعبہ اردو نے ڈپلوما ان اردو ماس میڈیا کو رس شروع کیا تھا، جو آج بھی چل رہا ہے، اور آج ہندوستان کا کوئی سا بھی اردو چینل B.B.Cسے لے کرVoice of Americaتک اور دور درشن سے لے کر Zee TVاور دوسرے چینلوں تک کوئی سا بھی ایسا نہیں ہے جس میں ہمارے جے این یو کے طلبہ ماس میڈیا کر کے نہ پہنچے ہوں، فرقان علی صاحب جو دوردرشن میں ہیں پہلے B.B.Cمیں تھے، یہیں کے پرور دہ ہیں ،دو ردرشن کے شکیل صاحب بھی یہیں کے پروڈکٹ ہیں، اب ہم نے دو سال کا ایم اے ان ماس میڈیا کا کورس شروع کیا ہے جو پچھلے پانچ چھ سالوں سے چل رہا ہے ، تو یہ سب وجہیں ہیں جن سے شعبۂ اردو کا ایک نام ہے اور ایک مقام ہے-
سوال:-آپ نے ابھی کہا کہ جے این یو کے شعبۂ اردو کا نصاب کچھ ایسا ڈیزائن ہوا ہے کہ اس نے اردو کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کر لیا ہے، حالانکہ اردو کا نصاب دوسری یونیورسٹیوں میں بھی ہے پھر بھی آپ نے جے این یو کے شعبہ اردو کو نصاب میں جدید کا ری کی وجہ سے ممتاز قرار دیا ، اب یہاں میں مدارس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، وہ اس طور پر کہ کئی سو سالوں سے وہاں ملا نظام الدین کا تیار کردہ درس نظامی رائج ہے اور اہل مدارس اس میں تبدیلی کے لیے آج تک تیار نہیں ہیں؟ آپ کی اس تعلق سے کیا رائے ہے؟ نیز نصاب کی جدید کاری کی اہمیت کیا ہے؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-نصاب کی اہمیت کسی بھی ادارے کے لیے ایسی ہی ہے جیسے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت ہے، کسی ادارے کا نام اس کی بلڈنگ سے نہیں ہوتا، ادارے کا نام اس کے نصاب سے ہوتا ہے، جیسا نصاب ہو، ویسی تعلیم ہوگی اور ویسے ہی طالب علم ہوں گے، آپ نے جو یہ بات کہی کہ مدارس کے لوگ ادھر توجہ نہیں دے رہے ہیں، بالکل صحیح ہے ، یہ دراصل بہت سنجیدہ مسئلہ ہے، سنجیدگی سے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، دیکھیے زمانہ تغیر پذیر ہے ، منطق و فلسفہ مدارس میںپڑھائے جاتے ہیں، منطق کی تعلیم میں شروع میں ہی یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ہر چیز تغیر پذیر ہے او رجب ہر چیز تغیر پذیر ہے تو یہ اصول نصاب کے تعلق سے کیوں قابل قبول نہیں مانا جاتا؟ مدارس میں بھی توتبدیلی لانی چاہیے، سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تبدیلی کو ہم دوسرے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں، اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نصاب میں تبدیلی محال ہے جب بھی نصاب میں ترمیم و اصلاح ایک ناگز ضرورت ہے، اگر ترمیم نہیں کی گئی تو ہم زمانہ سے بہت دور ہو جائیں گے، بہت پیچھے رہ جائیں گے، دیکھیے مدارس کو اگر ملکی اور بین الملکی سطح پر دیکھیں تو ان کی اہمیت، افادیت، ان کا مقام اور ان کے مرتبے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، ان کا اتنا بڑا مقام ہے جس کا ہم تصور نہیں کر سکتے، ہمیں ان مدارس پر فخر کرنا چاہیے، ہندوستانی سطح پر بھی مدارس کا اتنا بڑا مقام ہے او رملک کی تعمیر میں اس کااتنا اہم کردار ہے کہ آپ سوچیے کہ جو کام حکومت نہیں کر سکی اسے مدارس کر رہے ہیں، آج حکومت Literacy Movementکے لیے ہزاروں کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے، لیکن مسلم قوم میں جس نے Literacy Movementپیدا کیا ہے یہ صرف اور صرف مدارس ہیں، پوری مسلم آبادی کو دیکھیے تو اس میں ۷۰؍فی صد تعلیم یافتہ افراد مدارس کے ملیں گے جن کی تعلیم پر حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا، اگر آپ صرف اس نقطے سے بھی دیکھیں جب بھی ہندوستانی مدارس کا مرتبہ بے پناہ بلند نظر آئے گا- اب اگر مدارس کو ہم تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ نئے تعلیمی نظام کے تقاضوں سے جوڑنے کی کوشش کر لیں تب تو یہ مدارس ایسے ہو جائیں گے کہ لوگ اسکولوں کا رخ ہی نہیں کریں گے، مدارس کی طرف دوڑ کر آئیں گے،مدرسے میں تو بنیادی طور پر قرآن اور حدیث کی تعلیم دینی ہے ، یہی وہ تعلیم ہے جو دنیا کو صحیح راستہ دکھا سکتی ہے، ظلمت سے نور کی طرف لا سکتی ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ہے، لیکن اس تعلیم کے بعد وہ طلبہ اگر آج کی دنیا کے دوسرے علوم سے باخبر ہوں گے جب ہی تو وہ مدافعت کر سکیں گے ، آج مدارس کے طلبہ اور کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ کے بیچ ایک وسیع خلیج ہے اور یہ اس لیے ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے غیر مانوس ہیں، جن کے مانوس ہونے کے لیے اگر تھوڑی بہت ترمیم ہو جائے گی تو خلیج پٹ جائے گی اور جب خلیج مٹ جائے گی تو میں بتائوں کہ مدارس کے طلبہ جتنا بہتر کر سکتے ہیں اتنا بہتر کوئی نہیں کر سکتا، تو ترمیم تو ضروری ہے اور اس کے لیے اہل علم و نظر کو بہت سنجیدہ غور کرنا ہوگا کہ آج کون کون سے علوم شامل نصاب کیے جانے کے لائق ہیں اور اب کن کو پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے-
ایک بات یہاں میں بطور خاص کہنا چاہوں گا وہ یہ کہ بلاشبہ مدارس کو ایک اچھا فاضل، ایک اچھا مفتی، ایک اچھا خطیب اور ایک اچھا قلم کار پیدا کرنا چاہیے، لیکن وہ مفتی ، وہ خطیب وہ قلم کاراسی وقت تو اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے جب وہ اپنے گرد و پیش کے ماحول کو جانے ، معاشرے کو سمجھے، لیکن آپ اگر معاشرہ کو جانے بغیر صرف کتابی کیڑے بنے رہیں گے تب تو آپ زمین و آسمان کے بیچ پڑے رہین گے، معاشرے سے تعلق پیدا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہمیں کرنا ہوگا، اس تعلق سے جو نکات ہماری فکر میں ہیں میں آئندہ ان کو تحریری طور پر لکھ کر قارئین کے حضور پیش کرنے کی کوشش کروں گا-
سوال:-موجودہ گلوبلائزیشن کے دور میں اسلام کے لیے کس قسم کے مسائل اور خطرات در پیش ہیں اور آپ کی نظر میں ان سے نبرد آزمائی کے لیے اسلام پسندوں کو کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:- اسلام کے لیے آج وہی خطرہ ہے جو مکی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو درپیش تھا، مکی زندگی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ اس دور میں آپ کے خلاف اور آپ کے صحابہ کے خلاف نفرت کا زہر اگلا جا رہا تھا، اور ایسی سازشیں رچی جا رہی تھیں کہ لوگ ان سے پورے طور پر متنفر ہو جائیں، آج بھی پوری دنیا میں اسلام کے خلاف یہی ہو رہا ہے، کسی نے داڑھی رکھ لی، کسی نے ٹوپی لگالی تو یہ دہشت گرد ہے، کسی نے باشرع صورت اختیار کر لی اور وہ مسلم معاشرے میں ہے تو اس کے بارے میں یہ پیشگی تصور کہ یہ چار شادیاں کرے گا او رکب بیوی کو طلاق دے دے گا کچھ نہیں کہا جا سکتا، یہ فروعی مسائل ایسے ہیں جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو چاٹ رہے ہیں، اور عالمی سطح پر ان کو لے کر ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے- اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو ہمارا دانشور طبقہ ہے، جو ہمارے علماء ہیں ، خطیب و قلم کار ہیں ، جو پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ تو اسٹیج رسول پر جاکر ایک دوسرے کو گالیاں دے کر چلے آئیں گے لیکن یہ سبق عوام کو نہیں دیں گے کہ اگر کوئی ان سے کہے کہ تم چار شادیاں کرنے والے ہو تو اس کا جواب کیسے دے اور چار شادیوں کا جواز کیسے پیش کرے – اگر وہ طلاق پر زبان درازی کرے تو وہ طلاق کی حکمت کو بتا سکے اور یہ واضح کر سکے کہ اسلام نے جو عورت کو مقام دیا ہے وہ کسی اور نے نہیں دیا ہے- تو خلاصہ یہ کہ آج ہمارے خلاف نفر ت پھیلائی جا رہی ہے اور ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس نفر ت کا جواب کیسے دیں، آج اسلام کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے، نہ تو میزائیل کا خطرہ ہے نہ بم اور بارود کا ، آج جس بڑے دشمن سے اسلام کا سامنا ہے وہ نفرت کا دشمن ہے-
سوال:-مسلمانوں کی تعلیمی حالت سے آپ کتنا مطمئن ہیں؟ او رکیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آج ایک طرف جہاں مسلم طلبہ کارحجان تیزی سے عصری تعلیم کی طرف بڑھ رہا ہے وہیں دینی تعلیم سے ان کا رحجان کم ہوتا جا رہا ہے؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-میں بڑا مطمئن ہوں پورے طور پر مسلم معاشرے سے، خاص طور سے ۹۰؍کی دہائی جو ایک زخم پہنچا کر گئی اور اس زخم کی تڑپ نے ہمیں راستہ دکھانا شروع کیا کہ ہم آگے کیسے بڑھیں، دس سال پہلے کے بارے میں آپ غور کریں تو دیکھیں گے کہ مسلم سوسائٹی میں یہ تڑپ، یہ جستجو، کچھ کرنے کی خواہش ، کچھ کر گزرنے کی تمنا لوگوں میں نہیں تھی، تو ایک طرح سے ہمیں بڑا زخم ملا ، لیکن یہ ایک بڑا جھٹکا تھا جس نے ہمارے لیے بہت سے راستے کھول دیے- اور ہمیں بیدار کر دیا، ابھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مدرسے میں ایک تڑپ ہے لیکن تڑپ کے ساتھ ایک جھجھک بھی ہے، کھل کر کوئی سامنے آنا نہیں چاہتا- جتنے علمائے کرام ہیں ان سے بیٹھ کر آپ تنہائی میں گفتگو کیجئے وہ روتے ہیں، قوم کے درد میں وہ غلطاں و پیچاں رہتے ہیں، سب کو احساس ہے کہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اگر چند مجاہد مرد، علمی مجاہد ، میدان میں اتر آئیں ، بے خوف و خطر، اسلامی تعلیمات کے ساتھ اسلام کی عصری تعبیر و تشریح پیش کریں تو نقشہ بدل جائے گا- صرف وہ جھجھک ہے علمائے کرام کی ، دانشوروں کی ، جس کی وجہ سے وہ کھل کر بولنا نہیں چاہتے، آج آپ مدارس کے طلبہ کو دیکھیے ، ہر ایک کے اندر ایک للک ہے ، تڑپ ہے، کہ کیا ہم دنیا کے دوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں؟ آج یہ بھی خوش آئند ہے کہ بہت سی ریاستوں نے مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم کر لیا ہے اور بہت سے مواقع فراہم کر دیے ہیں کہ مسابقتی امتحانات میںبیٹھ سکتے ہیں، مدراس کے طلبہ نوکری حاصل کر سکتے ہیں، آپ بہار میں چلے جائیں وہاں مدارس کے سینکڑوں ایسے فارغین مل جائیں گے جنہوں نے بہار کی عالمیت سے بی ایڈ کیا اور اس کی بنیاد پر ہائی اسکول کے ٹیچر ہیں، مدارس کی اسناد کی بنیاد پر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور کالجز میں لیکچرار بنے ہوئے ہیں- تو بہر کیف آج نئی پیش رفت ہوئی ہے ، صورت حال اطمینان کی ہے، لیکن اطمینان سے مراد یہ بھی نہیں کہ خوش ہو کر ہم غافل ہو جائیں، آج ابھی مہمیز لگانے کی ضرورت ہے ، اور یہ مہمیز آپ کا رسالہ لگا سکتا ہے اور دیگر دینی رسائل لگا سکتے ہیں ، علماء کرام لگا سکتے ہیں اور وہ خطباء لگا سکتے ہیں جو جمعے کی نماز پڑھاتے ہیں – آج بڑا المیہ ہے کہ علماء اور ائمہ کو ہمارا معاشرہ حقیر نظروں سے دیکھتا ہے، اس رحجان کو بدلنے کی ضرورت ہے، لیکن بہر کیف ان کا جو مقام آج ہے وہ بھی کوئی معمولی نہیں ہے، آج بڑے بڑے گائوں میں چلے جائیں، جس طرح عوام اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہیں پردھان اور سرپنچ کی آواز پر نہیں کرتے، تو ان علماء اور ائمہ کو عوام کے اندر اب تعلیمی بیداری بھی لانے کی ضروت ہے-
سوال:-عصر حاضر میں تعلیم کا مقصود کیا ہے اور آپ کی نظر میں تعلیم کا صحیح مقصد کیا ہو نا چاہیے؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-تعلیم کا مقصود صرف اور صرف کردار سازی ہے ،تعلیم کو اگر آپ نے روزگار سے جوڑا تو ملیا میٹ ہو جائے گا- تعلیم کا یہ قطعی مقصد نہیں ہے کہ آپ نے علم حاصل کر لیا تو آپ کو روز گار مل جائے، ہاں ! آپ اس کے لیے مستحق ہو گئے – یہاں یہ بات بھی ذکر کر دوں ، انسان خلیفۃ الارض ہے، اس لیے ضروری ہے کہ علوم دینی بھی حاصل کیے جائیں، عصری بھی ،تاریخ،تمدن، ثقافت اور حالات سے واقف رہا جائے کیوں کہ خلافت زمین ہی پر کرنی ہے فضا میں نہیں-
سوال:-آج ہندوستان میں تعلیم کے حوالے سے بہت سے منفی رحجانات ہیں ، خاص طور پرلڑکیوں کی تعلیم کے تعلق سے مسلم معاشرہ میں ، لوگ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کو پڑھا کر کیا کرو گے ؟ آخر تو انہیں چولہا ہی جلانا ہے؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-کوئی ان سے میری طرف سے یہ سوال کرے کہ آج اگر لیڈی ڈاکٹر کو عورتوں سے باتیں کرنی ہو یا عورتوں کا علاج کرنا ہو تو مسلم ڈاکٹر کہا ں سے لائو گے ؟ چراغ لے کر ڈھونڈتے رہ جائیں گے وہ، اگر ایک دو انہیں ملیں گی بھی تو برائے نام ملیں گی، چلیے ڈاکٹر وں کو چھوڑ یے، کوئی کسی ایسی عورت کو مسلم معاشرے سے ڈھونڈ کر نکال دے کہ وہ سیرت رسول پر تقریر کر سکے؟ آج اگر عورتوں کو تعلیم نہ دی گئی تو ہماری بنیادیں زیادہ کمزور ہو جائیں گی، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بچیوں کی تعلیم بچوں سے زیادہ ضروری ہے – اور رہا یہ کہنا کہ عورتوں کو چولہا ہی جلانا ہے، تو میں کہوں گا کہ تعلیم کے تعلق سے جب اسلام نے کوئی فرق نہیں کیا تو ہم کون ہوتے ہیں فرق کرنے والے، میں عورت کو شمع محفل بننے کی وکالت نہیں کرتا، وہ گھر کے اندر کی ہی ذمہ داریاں نبھائیں ، لیکن اس کے ساتھ علوم کی تحصیل اور حالات سے آ گہی ان کے لیے بھی تو ضروری ہے تاکہ وہ ایک باشعور شخصیت کے ساتھ بچوں کی بھی با شعور شخصیت کی تعمیر کر سکیں- نسل کی تعمیر بنیادی طور پر تو عورتوں ہی کے ہاتھ میں ہے-
سوال:-عصر حاضر میں مذہبی صحافت کی اہمیت کیا ہے؟ اور مذہبی صحافت کو اپنا ہدف پانے کے لیے اور کیا کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:-آپ نے مذہبی صحافت کو ایک نیا رجحان دیا ہے- پہلے تو پہلی نظر میں پتہ چل جاتا تھا کہ یہ ایک دینی رسالہ ہے، چلو اسے سائڈ کرو، ضرورت تھی اس قسم کی پیش کش کی کہ دیگر رسالوں میں بھی اس کا ایک مقام ہو – میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں مذہبی تعلیمات نہ ہو ں، رسالے تو مذہبی تعلیمات پر ہی مبنی ہوں، لیکن پیش کش عصری ہو،آپ صوفیہ کے طرز تبلیغ پر غور کریںکہ انہوں نے گیرو الباس کیوں زیب تن کیا؟ کوئی بھی رنگ اختیار کر سکتے تھے، لیکن ایسا انہوں نے اسی لیے تو کیا کہ معاشرتی ہم آہنگی پیدا ہو ، لیکن آپ تو رسالوں پر گنبد و مینار کی تصویر دے کر اسے الگ کر دیتے ہیں ، ان کا تقدس بسر و چشم تسلیم، لیکن اس سے ان کی بے حرمتی بھی تو ہوتی ہے، آپ زمانے کے ساتھ چلیے، نئے نئے ڈیزائن لائیے، میں یہ نہیں کہتا کہ تصویر چھاپیے، لیکن تزئین تو عصری ہو، یہ تو صحافت کی اولین چیز ہے- عمدہ پیش کش تو موجودہ صحافت کی روح ہے-مجھے خوشی ہے کہ اس حوالے سے بھی آپ کا کام قابل ستائش ہے-
سوال:-جام نور اور اس کے قارئین کے لیے کوئی پیغام؟
ڈاکٹر خواجہ اکرام:- مولانا رحمت اللہ صدیقی نے پہلی بار مجھے جام نور عنایت کیا، دیکھ کر مجھے بے انتہا حیرت اور مسرت ہوئی، پورا رسالہ ایک نشست میں پڑھ گیا- تاثرات کی جہاں تک بات ہے، میں اس تعلق سے آپ کے منہ پر کچھ بھی نہیں بو لوں گا، آپ اسے ستائش سمجھیں گے، البتہ میںاپنے تاثرات دوسری جگہوں پر لکھ کر بھیجوں گا- یقینا جام نور نے صحافت کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا ہے، میں دعا کرتا ہوں کہ خدائے تبارک و تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ اسے مزیدپہنائیاں عطا کر سکیں، اس کو مزید ترقی دے سکیں- قارئین تک ضرور یہ بات پہنچانا چاہوں گا کہ وہ آپ کا زیادہ سے زیادہ تعاون کر یں کیوں کہ یہ ایک ایسا رسالہ ہے جسے ہر طبقے کے لوگ انتہائی دلچسپی سے پڑھتے ہیں، آپ سے میری گزارش ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ہر ممکن تبدیلی کرتے رہیں – اب تک آپ نے اس میں جو فنی جو ہر اتارا ہے ، اس سے آپ کی جو صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں، اس تعلق سے تاثرات کے بارے میں ایک بار پھر وعدہ کرتا ہوں کہ میں دوسری جگہوں پر لکھ کر بھیجوں گا- آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا-qqq
(شمارہ جولائی۲۰۰۶ئ)

About admin

Check Also

انٹرنیٹ کی دنیا

انٹرنیٹ کی دنیا  پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین آج کا دور اور آنے والا عہد  …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *