دینی مدارس پر ایک معروضی نظر
تبصرہ : ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
zik@zik.in
کتاب : دینی مدارس : عصری معنویت اور جدید تقاضے
مصنف : پروفیسر ابراہیم موسیٰ
ترجمہ : ڈاکٹر وارث مظہری
صفحات : ۳۳۹
سال اشاعت : ۲۰۱۷
ناشر : نعیمیہ اسلامک اسٹور، دیوبند
کتاب کے مصنف ایک امریکی یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں اور تقریباً چھ سال ہندوستان کے عربی مدارس میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں ۔ ساؤتھ افریقہ سے تعلق رکھنے والے مصنف نے اپنی نوجوانی میں بنگلور کے مدرسۃ سبیل الرشاد، دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ، دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی اور کچھ وقت تبلیغی جماعت میں بھی لگایا ہے۔ ان کی یہ کتاب دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کی ان کی اپنی سرگزشت اور ایک استرجاعی جائزہ یعنی retrospection ہے جو انہوں نے دوسرے اداروں میں تعلیم حاصل کرکے اور مدارس عربیہ کے بارے میں اعتراضات کا جائزہ لینے اور ہندوستانی مدارس کو بعد میں دوبارہ آکر دیکھنے کے بعد حاصل کیا ہے۔اس کتاب میں بالخصوص مدارس کی تاریخ اوران پر شکوک کا جائزہ لیا گیا ہے اور خصوصاً انتہا پسندی کے تناظر میں روشنی ڈالی گئی ہے نیز آج مدارس کی عصری معنویت کو واضح کیا گیا ہے۔پروفیسر یوگندر یادو نے بھی کافی عرصہ قبل زمینی جائزہ لے کر اس موضوع پر ایک اہم کتاب لکھی ہے۔
۱۱؍۹ کے سانحے کے بعد ہندوپاک کے مدارس عربیہ کوکافی اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔لیکن مغرب میں لکھنے اور بولنے والے بھول جاتے ہیں کہ ’’ طالبان‘‘ ان مدارس عربیہ کی پیداوار نہیں ہیں جو برصغیر کے ہر علاقے میں پائے جاتے ہیں بلکہ انہوں نے ان مخصوص ’’مدارس ‘‘ میں تعلیم وتربیت حاصل کی تھی جنہیں سی آئی اے نے مجاہد پیداکرنے کے لئے پاکستان ۔افغانستان کی سرحد پر بنایا تھا جہاں کئی ملین افغانی مہاجر اس وقت افغانستان پر کمیونسٹ غلبہ کے بعد پناہ لئے ہوئے تھے۔جو کتابیں سی آئی اے کے قائم کردہ ان مدارس میں پڑھائی جاتی تھیں انہیں امریکی حکومت نے زر خطیر خرچ کرکے نبراسکا یونیورسٹی میں تیار کروایا تھا۔
مولانا غلام احمد وستانوی کے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم بننے اور پھر جلد ہی معزول کئے جانے اور جامعۃ الہدایہ جے پورجیسے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بین السطور میں مؤلف ایسے تجربوں کی حمایت کرتے ہیں کہ مدارس کے نظام اور نصاب کو بدلا جائے ۔ان کا یہ بھی تجزیہ ہے ، جس سے ہمیں اتفاق ہے، کہ ارباب مدارس اپنے نظام ونصاب میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتے۔مصنف مدارس کی اصلاح کو عملی قالب میں ڈھالنے کے داعی اور متمنی ہیں لیکن انہوں نے اس کا کوئی واضح خاکہ نہیں پیش کیا ہے۔
اس کتاب میں علماء دارالعلوم دیوبند، علمائے فرنگی محل ، علمائے بریلی اور علمائے خیر آبادکا بھی تعارف تفصیل سے کرایا گیا ہے اور مختلف مدارس میں پڑھائے جانے والے مضامین اور کتب کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب میں برصغیر میں رائج اسلامی تعلیم کے مراحل کا بھی احاطہ کیا ہے۔، درس نظامی کی تفصیل دی گئی ہے اور درس نظامی میں اصلاح کی کوششوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے، جیسے علامہ شبلی نعمانی کی کوشش ۔کتاب میں پاکستان کے کچھ مدارس کا بھی ذکر ہے لیکن شیعہ مدارس یا ڈگرسے ہٹنے والے مدارس مثلاً مدرسۃ الاصلاح اور اہل حدیث کے مدارس پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔
کتاب میں کچھ چیزوں کی ضرورت نہیں تھی بلکہ وہ صرف بھرتی کے یعنی fillers ہیں جیسے امریکی پالیسی سازوں کے نام مصنف کا خط یا اپنے بعض اساتذہ کے نام خطوط۔
ہندوپاک وبنگلا دیش کے تمام موجودہ مدارس ۱۸۵۷ کے بعد کے دور سے تعلق رکھتے ہیں جب مغلیہ سلطنت کے قائم کردہ مدارس پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا یا وہ بند ہوگئے۔ تب علماء کو خدشہ ہوا کہ باقی ماندہ مدارس میں انگریز اپنی زبان اور مغربی علوم پڑھائیں گے، اس لئے انہوں نے پرائیویٹ مدارس بنانے کی ٹھان لی اور پورے برصغیر میں ایسے مدارس کا ایک جال بچھا دیا۔
آزادی کے بعد حالات بدل گئے تھے لیکن ہمارے علماء اور منتظمین مدارس نے کسی اصلاح کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کی۔ بلکہ جب ہندوستانی حکومت نے چند سال قبل کوشش کی کہ سنٹرل مدرسہ بورڈ بناکر کچھ تبدیلی لائی جائے اور مدارس کی سندوں کو سرکاری حیثیت دی جائے تو خود بڑے مدارس کے منتظمین نے اس کی شدید مخالفت کی حالانکہ سرکار کی طرف سے سنٹرل مدرسہ بورڈ سے انضمام الزامی نہیں تھا نیز انضمام کے بعد بورڈ چھوڑنے کا بھی اختیار ہر مدرسہ کوحاصل تھا۔اس مخالفت کے باوجود بہت سے مدارس (تقریباً ۱۳ ہزار) نے حکومت سے مراعات اور فنڈ لینا شروع کردیا ہے۔
کتاب کے مترجم ڈاکٹر وارث مظہری خود بھی ایک اہم اسلامی اسکالر ہیں اور مدرسہ کے پس منظر سے تعلق رکھتے ہوئے، اس کے نظام اور نصاب میں اصلاح کے داعی رہے ہیں، بلکہ مسلکی منافرت کے خلاف وہ لکھتے اور بولتے بھی رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ مسلکی منافرت مدارس کی دین ہے جو اپنے اپنے مسلک کے بارے میں شدت پسندی اپنے طلبہ میں کوٹ کوٹ کر بھر دیتے ہیں اور پھر ان طلبہ کے ذریعے یہ منافرت پورے سماج میں پھیل جاتی ہے۔
آخری بات : عمدہ کتابوں کے اردو ترجمے ہونے چاہئیں ۔عربی میں تو یہ بہت عام ہے لیکن اردو والے اس سلسلے میں بہت پیچھے ہیں۔ یہ کتاب اس سمت میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔