سید عینین علی حق:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی ڈائریکٹر شپ کے دوران آپ نے کیا تلخ اور کامیاب تجربے کیے اور کیا منصوبہ رکھتے ہیں؟
پروفیسر خواجہ اکرم:کسی بھی ادارے میں دونوں قسم کے تجربے ہوتے ہیں ۔شیرینی کے ساتھ تلخی نا ہوتو مزا ہی نہیں آتا۔ایسے ادارے میں رہ کر سب کو خوش بھی نہیں رکھا جاسکتاہے۔ میں کاموں پر توجہ رکھتا ہوں، جو اردو والوں کے حق میں فائدے مند ہو،اردو کو جدید تقاضوں سے جوڑنے کی کوشش میں نے کی اور اس میں ہمیں کامیابی بھی ملی ہے۔اردو کے فروغ کے لیے ٹکنالوجی کا استعمال کیا گیاہے ،جس میں اردو سوفٹویئر کے حوالے سے بڑی کامیابی ملی ہے۔اردو کو سوفٹ ویئر کے ذریعہ سمجھا اور پڑھا جاسکتاہے۔کونسل کی تاریخ میں وزارت آئی ٹی اور ایچ آر ڈی سے دو معاہدے ہوئے۔دوسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ بیرون ملک اردو کے فروغ کے لیے سرگرمیوں کی اجازت مل چکی ہے۔جدہ اور ریاض میںفن خطاطی کی نمائش اور ادبی پروگرام این سی پی یو ایل کرائے گا۔
سید عینین علی حق:آپ سے قبل خصوصاًمدارس پر توجہ نہیں کی جارہی تھی اور اب مزید توجہ کے امکانات آپ سے کس حد تک کیے جائیں؟
پروفیسر خواجہ اکرم:مجھ سے قبل بھی مدارس پر توجہ دی گئی تھی اور میں نے بھی خصوصی توجہ ان مدارس پر مرکوز کی ہے، آخر کیوں نہیں کی جائے مدارس ہندوستان میں فلاحی،سماجی،رفاعی ،مذہبی اعتبار سے تمام معیاری تعلیم مہیا کرارہے ہیں اس لیے میں نے مدارس کو اہمیت دی ہے۔ایسے اداروں پر توجہ دی جانی چاہئے۔وزارت ایچ آر ڈی کی جانب سے بھی دو اسکیم چلائی جارہی ہے۔ایس پی کیو ایم اور ایڈ آئی ڈی ایم آئی یہ دو اسکیم ہیں ۔جو تعلیم کا بڑا نیٹ ورک ہے، جس کے ذریعہ اقلیتوں کی تعلیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ممکن ہے۔
سید عینین علی حق:فروغ اردو کے پاس اعلیٰ سطح پر اردو کے فروغ کے لیے بہت کچھ ہیں،مگر نچلی سطح پر اردو کے فروغ کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟
پروفیسر خواجہ اکرم:اردو کی ترقی و ترویج کے لیے سبھی سطح پر مستقل کام کیے جارہے ہیں ۔اعلی اور نچلی سطح کی کوئی قید نہیں ہے ،جہاں گنجائش ہے وہاں اردو کے فروغ میں کام کیا جارہاہے۔این سی آر ٹی کی کتابیں تیار کرکے شائع بھی کرائی جاتی ہیں ،یہ سکنڈری اور پرائمری سطح کا کام ہے۔نصابی کتابوں کے علاوہ بچوں کے ادب پر مختلف کتابیں شائع کی گئی ہیں اور اشاعتی مرحلے میں ہیں۔قومی کونسل کا ماہنامہ رسالہ’بچوں کی دنیا‘ بھی بچوں کے ادب کو فروغ دینے کی غرض سے شروع کیا گیا ،جو آج کی تاریخ میں اہم کردار ادا کر رہاہے۔’بچوں کی دنیا ‘ کی اشاعت تقریباً ساٹھ ہزار ہے ،یہ اردو کے رسائل وجرائد میں ایک ریکارڈ ہے اور بچوں کے اس رسالے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی دلیل بھی۔عربی اور فارسی زبان و ادب کو فروغ دینے کے لیے ڈپلوما ان فنکشنل عربک،سرٹیفکٹ ان فنکشنل عربک جیسے کورس بھی چلائے جاتے ہیں، جسے بارہویں جماعت کے طلباء کرتے ہیں۔ دوسری جانب اردو کے فروغ کے لیے اردو ذریعہ تعلیم والے طلباء کے لیے ڈی ٹی پی جیسے پروگرام چلائے جاتے ہیں۔جس کے مراکز میں گذشتہ پانچ برسوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے،ملک کے مختلف شہروں میں 467مراکز قائم کیے گئے ہیں ،جس میں 65819لڑکوں اور 43991لڑکیوں نے اردو میں کمپیوٹر کی تعلیم و تربیت کی سند حاصل کی ہے۔اعلیٰ سطح پر تمام اصناف پر اہم کتابیں شائع کی جا رہی ہیں اور اہم پروڈیکٹس پر کام ہو بھی ہو رہے ہیں۔
سید عینین علی حق:کتابوں پر قومی کونسل کی جانب سے بہت زیادہ تعاون دیا جارہا ہے مگرقومی کونسل کی جانب سے کتابوں کی اشاعت کم ہورہی ہے،اس کے کیا وجوہات ہیں؟
پروفیسر خواجہ اکرم:یہ بالکل غلط ہے ۔قومی کونسل کی جانب سے کتابوں پر تعاون بھی دیا جارہاہے اور کونسل کی کتابیں بھی بڑے پیمانے پر منظر عام پر آرہی ہیں۔قومی کونسل نے 39کتابیں اپنی شائع کی ہیں،52کتابیں ری پرنٹ ہوئی ہیں،کورس کی 35کتابیں،جب کہ مکتبوں کی 21کتابوں کے ساتھ ساتھ 50کتابیں اشاعتی مرحلے میں ہیں۔ قومی کونسل مستقل اپنی اشاعتوں کی تعداد میں زبردست اضافہ کررہاہے تاکہ اردو کی تمام اصناف پر کونسل کی کتابیں دستیاب ہوں۔
سید عینین علی حق:حمید اللہ بھٹ نے صحافیوں کو تربیت دینے کا ایک تجربہ کیا تھا،مگر ان کے رخصت ہونے کے بعد وہ سلسلہ قائم نہیں رہ سکا،آپ عملی طور پر خود صحافی ہیں،کیا اس سلسلے کو مستقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ؟
پروفیسر خواجہ اکرم:اردو صحافیوں کو تربیت دینے کی بہت اچھی روایت رہی ہے،جسے میں نے بھی فروغ دیا ہے۔گذشتہ برس جولائی میں شری نگر کے75صحافیوں کو کونسل کے ذریعہ تربیت دیا گیا تھا اور اب 28فروری سے یہی سلسلہ جموں میں شروع ہونے جارہاہے، جس میں 50صحافی شریک ہورہے ہیں۔صحافیوں کے لیے یہ تربیتی کلاس سال میں ایک کرائی جاتی تھی ،جسے اب سال میں دو دفعہ کرایا جائے گا۔قومی کونسل نے صحافیوں کے لیے صحافت کے حوالے سے دو کتابیں بھی شائع کی ہیں،’اردو میڈیا‘ وہ کتاب ہے جس میں صحافت کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا گیاہے۔
سید عینین علی حق:ریسرچ میتھا لوجی پر قومی کونسل کے ذریعہ شائع شدہ تمام کتابیں آئوٹ ڈیٹیڈ ہوچکی ہیں،مجھے لگتا ہے اردو میڈیا کی طرز پر اپ ڈیٹیڈ کتابیں منظر عام پر آنی چاہئے،آپ کا کیا خیال ہے؟
پروفیسر خواجہ اکرم:اس حوالے سے اردو ادب کے ماہرین کا ایک پینل بنانے کا منصوبہ رکھتا ہوں ،جس میں اس طرح کے معیاری کام ہوں جس کا تقاضہ اور ضرورت ہے ۔ہمارے ذہنوں میں مختلف کمیٹیوں کے ذریعہ جو کام آئے ہیں انہیں حل کیا گیا ہے ۔میں اس انٹرویو کو پڑھ رہے قارئین سے بھی کہنا چاہوں گا کہ اہ اپنی رائے ڈاک یا میل کے ذریعہ ہمیں ضرور ارسال کرائیں ،جس پر جلد از جلد عمل در آمد کیا جائے گا۔
سید عینین علی حق:قومی کونسل سمینار بھی کراتاہے اور اس قسم کے پروگراموں کے لیے تعاون بھی دیتاہے،لیکن اس کے باوجود آپ کا کوئی بھی ایک سمینار ریسرچ اسکالروں اور نوجوان ادیبوں کے نام مختص نہیں ہوتا ایسا کیوں؟
پروفیسر خواجہ اکرم:ریسرچ اسکالروں کے حوالے سے سمینار کا ہم نے اعلان کیا ہے، جسے جلد ہی کرایا جائے گا۔ کونسل احاطے میں کوئی سمینار نہیں کرایا جاتاہے ۔قومی کونسل نے ایسے بے شمار سمیناروں کو تعاون دیا ہے جو ریسرچ اسکالروں کے لیے مخصوص تھے۔
سید عینین علی حق:دنیا کی سبھی اہم ترین ویب سائٹ کی اہمیت و افادیت سے آپ واقف ہیں،مگر کونسل کی ویب سائٹ پر قومی کونسل کی تصانیف بہت کم دستیاب ہیں،ایسا کیوں؟
پروفیسر خواجہ اکرم:ہم نے تمام تر کتابوں کو آن لائن کردیا ہے اور ان کتابوں کو مفت ڈائون لوڈ بھی کیا جاسکتاہے،کتابوں کے علاوہ قومی کونسل کے تینوں رسالے ’اردو دنیا‘ ’فکر و تحقیق‘اور ’بچوں کی دنیا ‘کا بھی آن لائن مطالعہ کیا جاسکتاہے۔سبھی کتابوں کو دیگر ویب سائٹ پر بھی بہت جلد کیا جائے گا مثلاً لے اسٹور،کندل وغیرہ پر بھی کونسل کی کتابیں دستیاب ہوںگی ۔اس قسم کی سائٹ کے ذریعہ کونسل کی کتابوں کو موبائیل پر بھی بہ آسانی پڑھا جاسکتاہے۔قومی کونسل کی اردو کتابوں کا مطالعہ ملک اور بیرون کے طلبا بھی کررہے ہیں،بیرون ممالک کے طلباء میں امریکہ،کناڈا،برطانیہ ،فرانس،روس، اسپین اور پاکستان وغیرہ کے شامل ہیں۔آن لائن اردو مطالعہ کا مجموعی اعداد وشمارہندوستان میں 5245جب کہ کل طلبا کی تعداد ملک اور بیرون ملک کی 5426ہے۔بہت جلد آن لائن اردو ہیلپ لائن بھی شروع کرنے جارہاہوں ،اردو پوٹل بھی شامل ہے ،دونوں ہی اہمیت کا حامل ہے ۔وزارت آئی ٹی کے تعاون سے یہ کام ہونے جارہاہے۔