سیاست ، مسلمان اور مودی
—مشرف عالم ذوقی
دلی اسمبلی انتخاب میں گنتی کے چندروز رہ گئے ہیں۔ شیوسینا رام مندر کو بھلانے پر بی جے پی پر حملہ کررہی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی مسلمانوں کی منہ بھرائی کررہی ہے۔ دیگر پارٹیاں بھی اقلیتی فرقے کو خوش کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے یہ پارٹیاں کچھ بھی کرسکتی ہیں— لیکن کیا ہندوستانی مسلمان آزادی کے ۶۷ برسوں کے اس سچ سے واقف نہیں کہ اس ملک میں ہمیشہ انہیں حاشیے پر رکھاگیا—؟ اور سیاسی پارٹیوں نے انہیں محض ووٹ بینک کے لیے استعمال کیا—؟ آج بھی اگر ہندوستانی مسلمان اپنے وجود کو بھلا کر محض ووٹ بینک بنے رہنا چاہتے ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کی تقدیر کو بدل نہیں سکتی۔ تقدیر کو بدلنے کے لیے تدبیر کا سہارا لینا ہوتا ہے۔
آج اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کے پاس مستقبل نام کی کوئی چیز نہیں۔ اگر آپ نوجوان ہیں تو آپ کو روزگار اور کیریئر کے لیے سوچنا ہوتا ہے بلکہ روزگار اور کیریئر کے نام پر دھوکہ یا اندھیرا ملتا ہے۔ آپ نوجوان ہیں تو اس بات کا بھی خدشہ اور خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی گولی آپ کا انکائونٹر نہ کردے۔کہیں آپ کو کسی فرضی مسلم تنظیم کے بہانے جیل نہ بھیج دیاجائے اورآپ کے مستقبل کو تباہ و برباد نہ کردیا جائے—
مظفر نگر کے تازہ تشدد کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ سماج وادی ہو، بسپا ہو، کانگریس ہو، کوئی بھی سیاسی پارٹی آپ کی نہیں ہے۔ کانگریس وعدہ کرتی ہے اور برسراقتدار آتے ہی مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں کو بھول کر مسلمانوں کو اپنا شکار بناتی رہتی ہے۔ اوراس سے بھی بھیانک معاملہ بھاجپا کا ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کے لیے زندگی اور خوشیوں کے ہر راستے پر پابندی لگا دیتی ہے۔ خطرہ بے حد سنگین ہے اور المیہ یہ ہے کہ مسلمان اس خطرے کو ابھی تک سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ وہ اس بار بھی انتخاب کو بہت آسانی سے لے رہے ہیں جبکہ یہ انتخاب آر پار کی لڑائی ہے۔ سوال یہ ہے—
کہ کیا آج بھی مسلمان ۶۷ برسوں سے چھائے ہوئے خوف کے سائے ہیں جینا چاہتا ہے؟
کیا وہ آج بھی مفلسوں اور فقیروں کی طرح ملک کے لیڈران سے ہمدردی اور بھیک چاہتا ہے؟
اس کی ملکیت چھینی جارہی ہے— اس کے تشخص پر حملہ ہورہا ہے— اس کی داڑھی اور لباس کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے۔ اورسیاسی پارٹیاں ابھی بھی مسلمانوں کو سیاسی طور پر مضبوطی دینے کا کوئی بھی وعدہ نہیں کررہی ہیں۔ اس کے باوجود مسلمان سوئے ہوئے کیوں ہیں؟ انہیں اپنے کل، اپنے مستقبل، اپنے بچوں کی فکر کیوں نہیں ہے؟ کیونکہ اگر فکر ہوتی، اگر ہندستانی مسلمان سنجیدگی سے اس سنگین خطرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو پھر وہ متحد ہوکر یہ فیصلہ کرتے کہ اب کسی بھی قیمت پر انہیں ایسی سیاسی پارٹیوں کا لقمہ نہیں بننا ہے— کسی بھی قیمت پر انہیں ووٹ بینک بننا منظور نہیں ہے— کسی بھی قیمت پر وہ اپنے مستقبل، اپنے آئینی حقوق کو دائوں پر نہیں لگا سکتے اور جب ہندستانی مسلمان یہ فیصلہ کرلیںگے تو فرقہ پرست طاقتوں کے ہوش اڑجائیںگے۔ ہندستان کے۳۰ کروڑ مسلمانوں کا اتحاد ایک نئے ہندستان کی تعمیر و تشکیل میں معاون ثابت ہوگا۔
ایک وقت تھا جب بی جے پی کے پاس بھی صرف دو ممبرتھے۔ لیکن آر ایس ایس اور گرم ہندو تو کے راستہ پر چلنے والی بی جے پی کو جب ال کے اڈوانی کا ساتھ ملا تو یہی اعدادوشمار ۱۸۵ پر پہنچ گئے۔ اڈوانی نے رام مندر کا نعرہ دے کر ہندستان کی تاریخ کو ایک بار پھر تقسیم کی طرف موڑ دیا۔ لیکن اس آندھی سے، آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا طبقہ متحد ہوگیا۔ بی جے پی کھل کر مسلم دشمنی اور آر ایس ایس کی قیادت میں آگے بڑھتی رہی۔
آج کی سیاست اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں سیاست کی آڑ میں خون چوسنے والے گدھ چاروں طرف نظر آرہے ہیں۔ اعتبار کانگریس پر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مودی کا معاملہ خوفناک بھی ہے اور خطرناک بھی۔ ابھی حال تک مجھے جی میل پر گریش جویال کے اردو میں پیغامات ملتے تھے۔ اب خبر ملی کہ وہ آر ایس ایس کے آدمی ہیں۔ اور آر ایس ایس ملک میں اردو کو لے کر خوفناک سیاست کا کھیل، کھیلنے جارہی ہے۔ اور اس کھیل میں جویال اور ان کے کئی مسلمان دوست ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ آر ایس ایس الگ الگ ریاستوں سے اردو میں تین اخبارات کے ساتھ دو اردو کا چینل لانے جارہی ہے۔ اور اف ام ریڈیو پر بھی اردو میں پروگرام شروع ہونے کی بات کہی جارہی ہے۔ میں نے اپنے ناول آتش رفتہ کا سراغ میں ان امور کا تذکرہ کیا ہے کہ آنے والے برسوں میں آر ایس ایس کا رول کیا ہوگا۔ اورآر ایس ایس کو ہندی سے زیادہ اردو اور عربی کی ضرورت ہوگی۔ اور آر ایس ایس اپنی سیاست کے لیے مجبور و بے بس اور بے ضمیر اردو والوں کو اپنا شکار بنائے گی۔ اور قاعدے سے دیکھیں تو اس کی شروعات ہوچکی ہے۔
مسلمانوں سے پرہیز کرنے والے مودی کو بھاجپا کی قیادت سونپنے کا فیصلہ آر ایس ایس کا تھا۔ ایک ایسا مرد آہن جو کسی بھی قیمت پر مسلمانوں کا نام تک لینا گوارہ نہ کرتا ہو۔ آر ایس ایس نے راجناتھ کو اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اور راجناتھ نے مسلمانوں کا نام تک سننا گوارہ نہ کرنے والے مودی کی تاجپوشی کا اعلان کردیا۔ مگر انتخابات آتے آتے آر ایس ایس کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا کہ مسلمان کسی بھی قیمت پر ان کے ساتھ نہیں آئیں گے۔ ادھر مودی نے اپنی سبھائوں میں پیسے دے کر یا فرضی مسلمانوں کو بلانا شروع کیا۔ کیونکہ مودی بھی جانتے ہیں کہ ۳۰ کروڑ کی آبادی کو لیے بغیر حکومت نہیں ہوسکتی۔ مختار عباس نقوی کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ مسلمانوں کو منانے کی کوشش کریں۔ اور مختار عباس نقوی نے مسلمانوں کو حصہ داری تک دینے کا اعلان کردیا۔ لیکن سوال ہے یہی بات مودی نے خود کیوں نہیں کہی۔ اور مسلمان مختار عباس نقوی کی باتیں کیوں سنیں گے؟
یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مودی اب سیاہ ناگ کا کھیل کھیلنے والے ہیں— جہاں وہ کچھ دیر کے لیے چھپ کر اپنے شکار کو اس بات کا احساس دلانا چاہتا ہے کہ وہ محفوظ ہے۔ یہ مودی کی حکمت عملی ہے کہ وہ اب ہر طرح سے مسلمانوں پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور ۱۸۹۲ سے مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والی آر ایس ایس اب اردو اور بے ضمیر مسلمانوں کے سہارے خطرناک سیاست کا نیا جوا کھیل رہی ہے۔
مودی محض ایک نام نہیں، تشدد کا ایک ایسا چہرہ ہے، جسے آج کی تاریخ میں ساری دنیا پہچان چکی ہے۔ یہ ایک ایسے قاتل کا چہرہ ہے، جو سامنے آتا ہے تو گودھرہ کا شرمناک حادثہ نگاہوں کے آگے گھوم جاتا ہے۔ ممکن ہے گجرات سانحہ پر مودی مسلمانوں سے معافی مانگ لیتے تو شاید صورتحال وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ ٹوپی پہننے سے انکار کرنے اور مسلمانوں کا موازنہ کتوں سے کرنے کے بعد یہی مودی جب آزادی کے مرد مجاہد مولانا ابو الکلام آزاد کو یاد کرتے ہیں یا بی جے پی میں مسلمانوں کو آنے کی دعوت دیتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے، ایک بوکھلایا ہوا شیر پنجرہ سے باہر آکر مسلمانوں کی ہلاکت کے نئے نئے منصوبے تیار کررہا ہو۔ آزادی کے بعد سے اس ملک میں جب جب انتخابات نزدیک آئے ہیں، مسلمانوں کے اتحادکو لے کر مکالمے ہوتے رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ال کے اڈوانی کی رتھ یاترائوں کے بعد بہت حد تک اس ملک کے مسلمانوں میں اتحاد دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ لیکن اسی کا دوسرا پہلو ہے کہ میڈیا اور اخباروں نے جب چیخ چیخ کر مسلمانوں کے متحد ہونے کا فسانہ چھیڑا، ہندوئوں کا ایک بڑا طبقہ بھی اتحاد پر زور دینے لگا۔ اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بی جے پی نے جب وزیر اعظم کے لیے مودی کارڈ کھیلا تو ہندوئوں کا ایک بڑا طبقہ مودی کے نام پر نہ صرف متحد ہوا بلکہ ملک میں زور دار مودی لہر چلنے کا انکشاف بھی ہوا۔ بزنس ورلڈ اور سوشل میڈیا آج مودی کے ساتھ کھڑا ہے۔ سوشل نیٹ ورک پر اگر آپ مودی کے خلاف بولتے ہیں تو آپ پر حملہ بعد میں ہوتا ہے، مودی کے خیرخواہ اسلام پر حملہ پہلے کرنے لگتے ہیں۔ یہ بھی وہ پہلو ہے جہاں آپ بی جے پی اور مودی کا خوفناک چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ بی جے پی کے دوراقتدار کا ہر دن مسلمانوں کے لیے بوجھ کی طرح تھا جب صبر اور قوت برداشت جواب دے جاتی تھی۔ میڈیا چینلس میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف آواز بلند کی جاتی تھی۔ منوج رگھوونشی کے پروگرام میں باضابطہ اسلام اور مسلمانوں کے کردار کو زخمی کیا جاتا تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم مودی نام کی آندھی سے خود کو محفوظ رکھنے کی تدبیر کریں۔ اور اس لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ مسلمان متحد ہوکر ایک پلیٹ فارم پر آجائیں کہ کسی بھی قیمت پر ایک ووٹ بھی بی جے پی یا مودی کو نہیں جائے گا۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ آئندہ بھی انتخابات کے فیصلوں میں مسلمانوں کی مرضی شامل ہوگی۔ اس بار کا انتخاب مسلمانوں کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ اور مسلمانوں کا اتحاد ہی مودی کو اقتدار کی کرسی تک پہنچنے سے روک سکتا ہے۔
Zauqui2005@gmail.com