Home / Dr. Khwaja Ekramddin / عبدالوہاب سخن کے ساتھ خواجہ اکرا م کی گفتگو

عبدالوہاب سخن کے ساتھ خواجہ اکرا م کی گفتگو

پروفیسر خواجہ اکرام الدین صاحب السلام علیکم، ‘ وادئ  سخن’ میں، میں عبدالوہاب سخن آپ کا استقبال کرتاہوں۔’ وادئ سخن ‘آپ کی  سرپرستی پر مفتخر ہے۔ اس وادی کے ساکنان  اردو ادب کے تئیں آپ کی ناقابل فراموش خدمات کے مد نظر آپ کے بارے میں مزید تجسس رکھتے ہیں ۔ اس ضمن میں کچھ گروپ کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ سے کچھ سوالات۔

Khawaja Ekramuddin 01 (2)

سوال:- آپ اردو ادب کی ایک نابغہ شخصیت ہیں۔ اردو زبان و ادب کی طرف راغب ہونے کے کیا محرکات رہے جو آپ کو اس  مقام تک لے آئے؟

پہلے میں توشکر گزار ہوں وادئ سخن کا کہ مجھے عزت افزائی بخشی۔

اردو تہذیب میرا خاندانی ورثہ ہے ۔ والد گرامی مولانا محمد شمس الدین سہروردی علیہ الرحمہ  کی تربیت او ر اور ترغیب نے اس جانب  مائل کیا۔  گھر کے تعلیمی ماحول  نے مزید مہمیز کیا اور میں اس جانب مائل ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ میری ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی ۔ مدرسہ سے تعلیم کے دروان  ہی میں نے شبینہ اسکول سے  میٹرک پاس کیا اس کے بعد باضابطہ کالج میں داخلہ لیا ، اسی وقت سے مجھے شوق تھا کہ ارود میں اپنی تعلیم کو جاری رکھوں ۔ عظیم آباد کے ادبی ماحول نے میری اس شوق کو پروان چڑھایا۔ بی اے کرنے کے بعد ہی الحمد اللہ ملازمت کے مواقع ملے مگر اعلی تعلیم کی غرض سے اسے خیر آباد کہا ۔ اس طرح میں دانستہ اردو ادب  میں آیا ۔ اللہ کا کرم  ہے اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا۔

سوال:-طالب علمی کے زمانے کا کوئی ایسا واقعہ جو آپ لئے یادگار بن گیا ہو اور آپ اسے قابل تذکرہ سمجھتے ہوں؟

بظاہر  کوئی ایسا واقعہ نہیں یوں تو زندگی کا ہر لمحہ ایک  نیا واقعہ ہوتا ہے۔

سوال:- رشید احمد صدیقی صاحب آپ کے خصوصی مطالعے میں رہے ۔ ان کے تنقیدی مطالعہ اور مضامین پر آپ کیی 2 کتابیں بھی شائع ہوئیں ۔اس تحریک کا کوئی خاص سبب؟

لسانیا ت کی طرف مائل ہونے کی وجہ میرے استاد گرامی پروفیسر نصیر احمد خان  ہیں ، جو اردو کے ماہر لسانیات ہیں ۔ ایم کے کے دران کی کلاس میں لسانیات کا سبق پڑھتے ہوئے شوق ہوا۔ حیرت ہے کہ لسانیات جیسے خشک موضوع کو وہ جس انداز سے  پڑحاتے تھے کہ نہ صرف  میں بلکہ ہمارے کئی ساتھیوں  نے اسے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔

سوال:-اردو رسم الخظ کی بقا کے لئے کوئی عملی پروگر ام ۔۔ یا ۔۔ لا ئحہ عمل  جس کے ذریعہ اردو والے اس کا تحفظ کر سکیں؟

پہلا عملی پروگرام تو یہی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے ۔ آج کی صارفی دنیا میں جہاں اعداد و شمار کی قدر و قیمت ہے وہیں اس کے استعمال کی بھی اہمیت ہے اس لیے ہر پلیٹ فارم پر اس کے استعمال کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر ڈیجٹل میڈیا کے تمام  پلیٹ فارم پر نستعلیق میں لکھنے کی ضرورت ہے ۔ مجھے اس بات کی خوشی ہےکہ اب  یونی کوڈ میں لوگ کثرت سے لکھنے لگے ہیں ، مجھے یاد ہے کہ میں نے ۲۰۰۶ سے اس کی مہم چلا رکھی تھی ۔  بلا گ ہو یا سیمنار کا مقالہ ہر جگہ اس کی وکالت کی اور  قومی کونسل میں آنے کے بعد اس  سلسلے میں عملی اقدامت کیے، جسے دنیا جانتی ہے۔( اس حوالے سے میری کتاب  میڈیا پر میری کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں )

اس کے علاوہ اردو رسم خط کو عام کرنے کے  لیے جس کو جہاں موقع ملے کوشش کرنی چاہیے ۔

سوال:- ایسے مشاعرے جو میلے ٹھیلوں سے لے کر ادبی تنظیموں کے ذریعہ منعقد کئے جاتے ہیں۔ان کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے؟ کیا وہ اردو کی بقامیں کار گر ثابت ہونگے ؟ ان میں شامل کم از کم چند شعرا بھی مستقبل نصابی ادب کا حصہ بننے لائق ہیں کہ نہیں؟

مشاعرے ہوں یا  اردو کے حوالے سے کوئی بھی تقریب  قابل ستائش ہیں ۔ آج چونکہ تشہیری دور ہے اور اس میں بقا کی ضمانت تشہیر ہی ہے اس  لیے اس طرح کی تقریبات کی اپنی اہمیت ہے اور خاص طور پر مشاعرے جو  تہذیبی اور ثقافتی بنیادوں پر اپنی  شناخت  رکھتے ہیں ۔ اس کا اہتمام ہوتا ہی رہنا چاہیے ۔( مشاعرے کی تہذیبی اہمیت کے عنوان سے میرا مضمون میرے بلاگ میں پڑھا جاسکتا ہے۔)

سوال:- دنیا ایک مواصلاتی گاوں بن چکی ہے۔ سوشل ویب سائٹس پر بھی ادبی سرگرمیاں زور وشور سے ہیں۔اس کا مستقبل کیا ہے اور ادب پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں؟

یقناآج اسی کا دور ہے اس مواصلاتی دنیا میں سائبر اور ڈیجیٹل  ٹکنالوجی کا سہار ا لے کر ہی زبانیں آگے بڑھ سکتی ہیں ۔کئی مثالیں اس حوالے سے دی جاسکتی ہیں مثلا اردو کی اہم صنف مکتوب نگاری دم  توڑ رہی ہے اور اس کی جگہ ای کیل ، واٹس اپ اوردیگر سوشل  نیٹ ورک لے رہے ہیں ۔ اس ان کا استعمال بھی ضروری ہے اور  رواج دینے کی بھِ ضرورت  ہے ۔ میں نے اس  سلسلے میں شاید پہلی دفعہ بلاگ کو کتابی صورت دینے کی کوشش کی ہے میری کتاب ” اردو کے جدید تکنیکی وسائل  اور امکانات ” میں اس پہلو پر تفصیلی بحث موجود ہے ۔آپ بتائیں قارئین تک یہ کتاب کیسے پہنچاوں ۔ میری بلاگ پر بھی موجود ہے۔

سوال:- اس دور میں اردو کی حالت کچھ قابل ستائش نہیں اردو کاایک بڑا حصہ عربی اور فارسی کا مرہون منت ہے۔ عربی فارسی کا رحجان پہلے کی طرح نہیں لوگوں میں۔۔۔ اس سے اردو کس طرح متاثر ہو گی؟

اردو کو جاننےکے لیے اور خاص طور پر کلا سیکی اردو جاننے کے لیے عربی اور فارسی جاننا تو لازم ہے ۔ رجحان بھلے کم ہوجائے اہمیت کم نہیں ہوگی۔

سوال:ـ جواہر لعل  نہرو یونیورسٹی میں بحیثیت ایک مسلمان آپ کا تجربہ کیسا ہے؟ ملک کی بہترین یونیورسٹی ہے مسلمان طالب علموں کے علاوہ غیر مسلم طلباء کا اردوبحیثیت ریسرچ سبجیکٹ  اختیار کرنے کاکیا تناسب ہے وہاں؟

جواہر لعل  نہرو یونیورسٹی کا ماحول بہت سیکولر ہے ،۔ یہاں کبھی کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جس سے یہ احساس ہوا ہو کہ فلاں مسلمان ہے اور فلان ہندو۔ مسلم لڑکیاں بھی یہاں اپنے تہذیبی لباس میں ہوتی ہیں اور  کسی اجنبیت کا احساس نہیں کرتیں ۔ مقام شکر ہے کہ اس رہائشی یونیورسٹی میں بڑی تعداد میں مسلم لڑکے لڑکیاں اور اساتذہ موجود ہیں ۔ ہر اعتبار سے یہاں کا ماحول مثالی ہے۔

سوال: اردو زبان و ادب کا وہ کون سا پہلو ہے جس پر فی الوقت اردو والوں کوتحقیقی  کام کرنے کی اشد ضرورت ہے؟

نئی ٹکنالوجی اور اردو

سوال:- جدید دور میں آپ نے کس طرح اردو کی ترویج کی ذمہ داری سر کی اور اس میں آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

کسی بھی طرح کی ذمہ داری  نبھانے میں دشواریاں تو آتی ہیں لیکن یہ دشواریاں کامیابیوں کے آگے ہیچ ہیں ۔ میں نے کونسل میں رہتے ہوئے جو کچھ کیا وہ تو اہل اردو ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔

سوال:- آپ نے بہت خوبصورتی اور دیانتداری سے جواب دئے تمام سوالات کے۔۔ آخر میں ” وادئ سخن” کے لئے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

بہت اچھی کاوش ہے ، جدید دور کے جدید تقاضوں کے عین مطابق ۔ اسے جاری رکھا جائے ۔

About admin

Check Also

اردو غزل کے چند نکات

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین  اردو غزل  کے چند  نکات دنیا کی تمام زبانوں میں …

One comment

  1. عمدہ…. معلوماتی انٹرویو ہے…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *