Home / Book Review / علامہ فضل حق اور انقلاب 1857

علامہ فضل حق اور انقلاب 1857

علامہ فضل حق اور انقلاب 1857

مرتب         :         یٰسین  اختر مصباحی

صفحات      :        208 قیمت :        60 روپئے

ناشر       :        دارالقلم 66/92 قادری مسجد روڈ، ذاکر نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 110025

      مبصر        :        پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

علامہ فضل حق خیرآبادی انقلاب 1857 کے ایک ایسے مرد مجاہد تھے جن کا ذکر اکثر مورخین نے کیا ہے، کہیں بالتفصیل تو کہیں اختصار کے ساتھ۔ واقعات اور کردار پر جب زمانے کی گرد جمنے لگتی ہے تو حقیقت کی تلاش ایک دشوار مرحلہ بن جاتا ہے۔ حقیقت تک رسائی سنجیدہ تحقیق کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے بعد ہی تجزےے کے ساتھ ہم کسی کردار کا صحیح خد و خال اجاگر کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔

زیرنظر کتاب ”علامہ فضل حق اور انقلاب 1857“ علامہ فضل حق خیرآبادی کے انقلاب اٹھارہ سو ستاون میں اہم کردار کو سمجھنے میں بڑی حد تک معاون ہے۔ علامہ فضل حق عربی، فارسی اور اردو کے ایک جید عالم بھی تھے۔ جن سے مرزا غالب جیسے نابغہ ¿ روزگار اپنی فکر اور تحریر میں اصلاح لیا کرتے تھے۔ علامہ فضل حق کی سیاسی اور سماجی بصیرت ایسی تھی کہ بادشاہ وقت بہادر شاہ ظفر بھی امور حکومت میں ان سے مشورہ کرتے تھے اور اپنے دربار میں عزت کی جگہ دیتے تھے۔ خود ایک تعلیم یافتہ اور اعلیٰ دینی خاندان سے تھے۔ ان کے بھائی اور صاحبزادے بھی سرکاری اعلیٰ مناصب سپر تھے۔ ایسے میں انقلاب 1857 جب رونما ہوا تو انھوں نے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ حتی کہ بغاوت کے الزام میں انھیں انگریزی حکومت نے بہادر شاہ ظفر کے ساتھ حراست میں لے لیا اور انھیں بھی رنگو ںکے قیدخانے میں بند کردیا جہاں 1861 میں ان کا انتقال ہوگیا۔

علامہ فضل حق خیرآبادی کی ذاتی زندگی، علمی لیاقت اور سیاسی و سماجی شعور کو اجاگر کرنے میں زیرنظر کتاب کو ایک اہم ماخذ یا اشارےے کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ کتاب انقلاب 1857 کے دیگر گوشوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ اس کے مشمولات میں نو9 عنوانات کی فہرست اس طرح ہے:

(i) گردش ایام پہ غالب ہوا ہے فضل حق، (ii) دینی و علمی احوال و آثار (iii) تعارف تصانیف (iv) ورود دہلی اور سرگرم جدوجہد (v) سیاسی بصیرت اور انقلاب 1857   (vi) فتوائے جہاد اور قائدانہ کردار (vii) مقدمہ ¿ بغاوت اور اس کے متعلقات (viii) چند اغلاط کی تصحیح، اور (ix) انقلاب کی کہانی، قائد انقلاب کی زبانی۔ ان عنوانات میں شروع سے بالترتیب چار سرخیوں پر مرتب کی خود اپنی تحریر ہے جو مختلف حوالوں سے اپنے موضوع کی وضاحت کرتی ہے۔ پہلا عنوان ”گردش ایام پہ غالب ہوا ہے فضل حق“ کتاب کا مقدمہ ہے۔ اس کے حوالہ جات تو معقول ہیں لیکن تجزیاتی نظر میں ژولیدگی ہے، مقصد کی بات بمشکل ہاتھ آگی ہے۔ علامہ فضل حق کی ذاتی زندگی ہو یا سیاسی و سماجی، ان کا بچپن ہو یا تعلیم و تربیت ان تمام گوشوں کو اجاگر کرنے میں مرتب نے مشمولات میں دوراندیشی سے کام لیا ہے اور بہت اہم مضامین جمع کردےے ہیں۔

کتاب کے مقدمے میں انقلاب 1857 کے رونما ہونے کے اسباب، علامہ فضل حق کی دہلی آمد۔ شاہی دربار تک رسائی۔ دلی کے حلقہ و احباب، تصنیف و تالیف، دلی کے علاوہ لکھنو ¿، رام پور، کانپور کے انقلاب میں اتحادی فوج کی رہنمائی، دلی سے جاری ان کے فتوے، بہادر شاہ ظفر سے مشورے سے لے کر انقلاب کی فتح و شکست اور گرفتاری کے بعد بادشاہ کے ساتھ رنگون بھیجے جانے تک کا اجمالی جائزہ تاریخی اور مستند بیانات کی روشنی میں لیا ہے۔ مقدمے کے بعد دوسرے عنوان ”دینی و علمی احوال و آثار“ میں ان کی تعلیم و تربیت، خاندان، 1831 سے 16 سال تک بحالت مجبوری انگریزی سرکار کی نوکری 1856 تک لکھنو ¿ میں قیام،نواب رام پور یوسف علی خاں کے دربار سے وابستگی، غالب، بہادر شاہ ظفر،  امام بخش صہبائی، مومن اور ذوق جیسے ہمعصروں کے ساتھ علمی سرگرمیاں، اولاد و اخلاف اور ان کے پیشے، ان کی کل تصانیف کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تیسرا عنوان ”تعارف تصانیف“ میں مولانا فضل حق کی تصانیف کا تفصیلی جائزہ ہے۔ ان کے علمی و سماجی کارناموں میں امہات مسائل، مسئلہ وجود، مسئلہ علم، الہدیة السعیدیة، الروض المجود فی تحقیق حقیقة الوجود، رسالہ کل طبعی، امتناع النظیر، تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ، رسالہ قاطیغورپاس، رسالہ علم و معلوم، حاشیہ افق المبین، شرح تہذیب الکلام، حواشی تلخیص الشفا، رسالہ فی تحقیق حقیقة الاجسام اور رسالہ تشکیک فی الماہیات پر تنقیدی نوٹ قلم بند کیا ہے۔

چوتھا عنوان ”ورود دہلی اور سرگرم جدوجہد“ حکیم محمود احمد برکاتی ٹونکی، جواب کراچی میں مقیم ہیں، ان کا ایک جامع مضمون ہے جس میں موصوف نے مولانا فضل حق خیرآبادی کے دہلی میں آغاز جہاد مئی 1857 سے ان کی گرفتاری تک کے واقعات کو معتبر حوالوں سے اجاگر کیا ہے۔ اس مضمون کا اہم نکتہ مولانا کا شاہی دربار تک رسائی، مرزا مغل اور بخت خاں سے مشورے، مولانا سے متعلق مالک رام کے بیانات کی تردید، سقوط دہلی کےے بعد ستمبر 1857 کو مولانا کی دہلی سے رخصت اور جنوری 1859 تک مجاہدین کے ساتھ اودھ کے خطوں میں سرگرم جہاد ہے۔

پانچواں عنوان ”قواعد و ضوابط کورث“ ہے جسے علامہ فضل حق خیرآبادی نے اپنی فوج کو متحد کرنے کے لےے ترتیب دیا تھا۔ اس دستور العمل کو بروئے کار لانے کے تمام نکتے کی وضاحت اس حصے میں کی گئی ہے۔ چھٹا عنوان ”سیاسی بصیرت و استقامت اور انقلاب 1857“ مولانا محمد عبدالشاہد شیروانی علی گڑھی کا مضمون ہے جس میں مولانا کے حالات، حادثہ ¿ بالاکوٹ 1831 اور واقعہ ہنومان گڑھی 1855 سے تا آخر بیان کےے گئے ہیں۔ 16اگست 1857 کو مولانا کی شاہی دربار میں حاضری، بادشاہ سے مشورے، 2 ستمبر کو پھر مرزا الٰہی بخش، میرسعید علی خاں اور حکیم عبدالحق کے ساتھ دربار میں حاضری، جنرل بخت خاں سے علامہ کی ملاقات، جامع مسجد میں علما کے سامنے تقریر اور جہاد کے لےے فتوے صادر کرنے، مرزا مغل کی تشکیک، اتحادی فوج میں انتشار اور 14ستمبر 1857 کو دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے اسباب و علل کا بھی دانشورانہ محاکمہ ہے۔ انھوں نے اسباب شکست کو سمجھنے کے لےے 1757 کی جنگ پلاسی تک کے اوراق بھی پلٹنے کی کوشش کی ہے اور جنگ کے قتل عام میں برحق اور باطل ذہنیت کو اجاگر کیا ہے۔ مضمون میں ان مجاہدین کی فہرست بھی جمع کی ہے جنھیں غدر 1857 کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ گولیوں سے اڑا دیا گیا یا جو لوگ دہلی چھوڑ کر غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مولانا پر 1859 میں لکھنو ¿ میں جو مقدمہ چلا پھر انھیں مجرم ثابت کرکے انڈمان کے قیدخانے بھیجنے اور ان کے ساتھ انگریزوں کے ناروا سلوک کی تفصیل یا ان تفصیلات کے ماخذ کی طرف اشارے کےے ہیں۔

انھوں نے مولانا کے انتقال، مدفن اور تاحال ان کے وارثین کا بھی ذکر کیا ہے۔ چھٹا عنوان ”فتوائے جہاد اور قائدانہ کردار“میں راجہ غلام محمد لاہور نے مولانا فضل حق کی دوراندیش ان کے فتوائے جہاد اور قائدانہ کردار کے حوالے سے اجاگر کیا ہے۔ اس مضمون میں غلام محمد کے اپنے نظرےے کے ساتھ جو حوالاجات کی تفصیل دی ہے وہ حقیقت تک رسائی کا اہم سراغ دیتی ہے۔ ساتواں مضمون ”مقدمہ ¿ بغاوت کے نتائج و اثرات اور اس کے متعلقات“ بھی مولانا محمد عبدالشاہد شیروانی علی گڑھی کا ہے۔ جنھوں نے علامہ فضل حق پر چلائے گئے مقدمے کی شروعت (30جنوری 1859، بمقام لکھنو ¿) سے قید رنگوں تک کا احاطہ کیا ہے، یہ مضمون خاصا طویل ہے۔ آٹھواں مضمون ”چند اغلاط کی تصحیح“ ہے جو حکیم محمود احمد برکاتی ٹونکی کا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے مولانا فضل حق کے متعلق کسی خاص گروہ کی جانب سے پھیلائے گئے غلط بیانات کی تردید اور حقیقت کا انکشاف کیا ہے اور آخری مضمون ”انقلاب کی کہانی قائد انقلاب کی زبانی“ میں علامہ فضل حق خیرآبادی کی قائدانہ صلاحیت اور دوراندیشی ان کے احوال و آثار کے پس منظر میں اجاگرکیا گیا ہے۔ اس مضمون میں مولانا کی دو اہم تصانیف کی حصولیابی، ان پر محققین کی رائے، کتاب میں بیان امور سیاست اور دوراندیشی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *