ناول : لفظوں کا لہو
مصنف : سلمان عبدالصمد
صفحات :224
قیمت :100
سنہ اشاعت:2016
مبصر :ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی
ایم اے کے زمانے میں کچھ کلاسیکی ناول پڑھے تھے، پھر اس’ کافر صنف‘ کو دور سے ہی سلام کرلیا اور اگر قریب آگیا توادھر ادھر سے سونگھ کر رکھ دیا،نصابی ضرورت کی تکمیل کے بعد، کسی ناول کو من و عن از اول تاآخر پڑھنے کی ہمت نہ کرسکا۔ شایدمیرے لیے قدرت کا یہی فیصلہ تھا۔ لوگ یوجی سی کی تیاری کرتے ہوئے چنیدہ ناولوں کا مطالعہ کرتے ہیں، مگر یہاں بھی میرے لیے اس کی نوبت نہیں آئی۔ پہلی کوشش میں ہی اس مسابقاتی عمل سے فارغ ہوگیا تھا۔قرۃ العین حیدر کے ’آگ کا دریا ‘کو اکابر و اضاعر سمیت کئی بزرگان ادب نے پڑھنے کی نصیحت کی، خود بھی بار ہاپڑھنے کی نیت کی، مگر اس کے بھاری بھرکم جثہ نے میرے ہاتھوں میں وہ لرزہ طاری کیا کہ دل و دماغ کبھی اس کے مطالعے کی طرف راغب نہ ہوسکا۔میرا سوال خود سے ہے کہ ناولوں سے کیوں بدکتا رہا؟قصور ناول کا تھا، ناول میں آنے والے بھرتی کے غیر حقیقی واقعات کا تھا، سپاٹ، بے جان اور خشک بیانیے کا تھا،ہم جیسے روایتی مولویوں کے لیے نامانوس اور وحشت انگیز انگلش آمیز زبان کا تھا،زبان و بیان کے ابہام، جنس و رومان پرور شہوت انگیز تخیلاتی کہانی کا تھا، میں کس کس کے سر قصور کا ٹھیکرا پھوڑوں۔ میں تو اپنے آپ کو قصور وار مانتا ہوں جونصابی کتابیں پڑھنے کے باوجود اس لائق نہ ہوسکا کہ ادب کی سریت کی ڈور اپنے ہاتھ میں تھام سکے۔ہمیشہ سوچتا تھا، سارے لوگ وہی گھسے پٹے موضوعات پر کیوںلکھتے ہیں، غربت، سیاست،فاقہ کشی، معاشی خستہ حالی، قتل برائے ناموس، ادنی اور اعلی ذات کے لڑکے اور لڑکوں کے عشق کی واردات، ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات،ہم جنسی، اباحت پسندی،لوٹ پاٹ، سیاسی بد عنوانی؛اس کے علاوہ ان کے یہاں ہے کیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
اتنے لمبے وقفہ کے بعد آپ کا ناول’ لفظوں کا لہو‘ مجھ ہیچ مداں اور اردو کی ابجد سے نا آشناشخص کو ملا۔ پہلے تو اپنی وہی پرانی عادت عود کر آئی۔خیر سے ان دنوں سفر میں بھی تھا، پلیٹ فارم پر اور پھر ٹرین میں الٹ پلٹ کر دیکھا، کئی ابواب پر سرسری نظر ڈالی،سوچتا تھا نہ پڑھوں،مگراس کے پہلے باب کو پڑھ کر اندازہ ہوگیا کہ یہ ناول مجھ سے’ قسم کا کفارہ‘ ادا کرواکے رہے گا۔ سلمان !خدا جھوٹ نہ بلوائے۔سچی بات یہ ہے کہ آپ نے ایک نئے موصوع صحافت کے المیے اور رشتوں کی تلخی و سنگینی کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ اس سے پہلے صحافت کو اردو کے کسی ناول نگارنے مرکزی موضوع بنایا ہے، مجھے نہیں معلوم۔آپ کا ناول پڑھتے ہوئے عربی زبان کا ایک ناول یاد آگیا، جو میرے پی ایچ ڈی کے مقالے میں شامل ہے۔الرجل الذی فقد ظلہ(اپنے سایے سے محروم آدمی) نام کا عربی ناول بھی اسی صحافت کی اخلاقی باختگی، اور اس کی کریہ صورت حال کے واقعات پر مبنی ہے۔ ظاہرہے یہ توارد ہے اور کچھ نہیں۔ کیوں کہ عربی کے آپ رمز آشنا تو ہیں، مگر آپ کبھی اس کے تخلیقی ادب کامطالعہ نہیں کرتے کہ آپ کا تخلیقی سرچشمہ اور ذریعہ اظہاراردو رہی ہے۔بہت سے لوگ ساحل سے سمندر کی لہروںکو گنتے ہیں، مگر آپ کو تو اس میدان کا بھی خاصا تجربہ رہا ہے۔ بلکہ آپ کی تخلیقی صلاحیت کو صحافت کے جھمیلوں نے بہت متأثر بھی کیا ہے۔ اچھا ہو ا وہاں سے بھا گ نکلے، اگر اس جزیرۂ کالاپانی سے نہ بھاگتے تو اتنا عمدہ ناول کیسے لکھ پاتے۔
ناول کا موضوع، مرکزی کہانی،کرداروں کا ارتقا، مکالمے اور زبان و بیان ہر جگہ تخلیقیت کا عکس نظر آتا ہے۔مرکزی کردار واقعی مرکزی کردار ہے۔ میری نظر میں تو نائلہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ سچ کہہ رہا ہوں نا۔سارے کردار زندہ متحرک اور ارتقا پذیر ہیں۔ سارے کردار ہر جگہ تھوڑے سے وقفہ کے بعد ابھر آتے ہیں۔ کوئی کردار دبتا ، بچھڑتایا کہانی کے منظر نامے سے غائب نہیں ہوتا۔ ایک باب نہیں گزرتا کہ جھٹ سے آپ مرکزی نوعیت کے کرداروں سے کوئی دوسرا کام لے کر اس کو زندہ کردکھا تے ہیں۔مگربرا مت مانیے ۔میرا ایک سوال ہے کہ کیا محسن کو اس ناول کا مرکزی کردار نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ کہانی کا نقش اول اسی کردار نے تیار کیا تھا،بلکہ یہ کہیے کہ ساری ٹریجڈی تو اسی کردار کی تھی، کیا اسی کردار کو کہانی کے مرکز میں رکھ کر صحافت و سیاست اور طب و صحت کی دنیا کے چہرے کا نقاب الٹنا ممکن نہیں تھا۔محسن جیسا باعمل اور متحرک کردار کیوں شروع میں کچھ سرگرم رہنے کے بعدعائب ہوجاتاہے اور پھر کہیں نظر نہیں آتا، یا تو وہ کمپیوٹر پر چیٹنگ کرتا ہوا دکھتا ہے، یا پھر اپنی دونوں بیویوں نائلہ یا زنیرا کے دہن و دماغ میں وہ گھومتا رہتا ہے۔ ناصح و واعظ اور ایک نگراں و سرپرست کے روپ میں۔ یا آپ بھی تانیثیت کے علم بردار ہیں۔ فیمنزم کے چھینٹے آپ پر بھی پڑگئے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا معیوب بات نہیں، محبوب اور پسندیدہ عمل ہے۔ مگر ہندستان جیسے مرد حاوی معاشرے میں اتنا بڑا کام ایک کم عمر خاتون سے لینا ممکن نہیں۔ آپ نے جس نائلہ سے صحافت و سیاست کی غلاظت کو نکال باہر کرنے کے لیے اتنا بڑا کام لیا ،کم از کم وہ عورت پختہ کار اور کچھ عمر کی تو ہوتی۔ اور مرکزی کرادار نائلہ سے زیادہ پر اعتماد اور با ہمت کردار کردار تو ہسپتال میں کام کرنے والی نائلہ کی خاتون دوست نیلا کا ہے۔ جس نے سب سے پہلے ڈاکٹر رستوگی کے کالے کرتوت کے خلاف لب کشائی اور اس کے کلینک پر چھاپہ مارنے کی جرأت کی۔میری نظر میں تو یہ(نائلہ جیسی کم عمر لڑکی کو مرکزی کردار بنانا) مافوق الخیال عنصر جیسا لگتا ہے۔ یہ کام آپ محسن سے بھی لے سکتے تھے۔ تاکہ کہانی کے ابتدا اور اختتام میں ایک منطقی ربط بھی ہوجاتا اور کچھ اٹ پٹا بھی نہیں لگتا۔ایک ناول میں کئی مرکزی کردار کا اجتماع ممکن بھی ہے۔ خیر میں کیا کیا بولے جارہا ہوں۔
اس ناول میں کردار بہت کم ہیں۔ جس کے وجہ سے قاری کی گرفت میں کہانی رہتی ہے۔ وہ کہیں الجھتا نہیں۔ جو بھی ذیلی کردار ہے، وہ تھوڑی دیر کے لیے ناول کے اسٹیج پر آتا ہے، اور اپنا کردار ادا کرکے رخصت ہوتا ہے۔ پھر وہی نائلہ، وہی زنیر اور وہی نیلا۔ یا بے چارہ صحافت گزیدہ نائلہ کاشوہر محسن۔ سب سے عمدہ اس ناول کا عنصر یہ ہے کہ اس کے ابتدا اور اختتام میں ایک قسم کا ربط ہے۔ اس کہانی میں آغاز و وسط، تصادم ، کش مکش، تنزل،نتیجہ کی طرف میلان اور بہتر اختتام ہے، جس سے نئے دور کے اکثر ناول محروم ہوتے ہیں۔ آج کل کے بہت سے ناول ایسے ہیں، جن میں کئی افسانوں کو جوڑ کر ناول ترتیب دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں وسط و کش مکش، تصادم اور اختتام کچھ نہیں ہوتا۔
سلمان! زبان و بیان پر آپ کو دسترس حاصل ہے۔ تخلیقی رچاؤ آپ کا امتیاز ہے۔ جزئیات نگاری اور جذبات نگاری کمال کی ہے۔ آپ نے منٹوکی طرح بہت سی نادر تشبیہات تراشی ہیں اور انھیں کام یابی کے ساتھ جملوں میں برتا بھی ہے۔ اتنی چھوٹی عمر میں اتنی دور کی کیسے سوچ سکتے ہیں۔ لگتا ہے لکھنے سے زیادہ پڑھتے ہیں اور پڑھنے سے زیادہ سر کھپاتے ہیں۔ ’’ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گوری مٹی میں کالے کانچ کی کوئی گولی چھپا دی گئی ہو۔‘‘’’یاد ماضی کی دھک دھک کرتی ریل زنیرا کی آنکھوں کی پٹریوں پر دوڑنے لگی۔‘‘’’جب ہولے ہولے ہوا چلتی تو ہرے ہرے گیہوں کے تنے آپس میں اس طرح ملتے ، جیسے وہ تعلق داری نبھا رہے ہوں۔‘‘’’چہرے کے اسکرین پر ہونٹوں کے کرسر سے نقش و نگار بن رہے ہیں۔‘‘مگرمیں ایک سوال قائم کروں گا کہ کیا تخلیقیت کے نشہ میں زبان کے مسلمہ اصول کو بھی توڑا جاسکتا ہے؟ کیا شاعری کی طرح ناول کی نثر میں بھی زبان کی سطح پر شکست و ریخت کا عمل انجام پاسکتا ہے؟
ایک بات اور یاد آگئی۔ آپ تو خود صحافی، مضمون نگار، اداریہ نویس اور نہ جانے کیا کیا تھے۔ مگر ایک جگہ صفحہ نمبر ۱۹۵ پر، ’چوتھے ستون کے کوٹھے پرسیکس اسکینڈل‘ کے عنوان سے آپ نے جو رپورٹنگ کی ہے،ذرا ٹھنڈے دماغ سے غور کیجیے کہ وہ کچھ رپورٹنگ بھی لگتی ہے۔ رپورٹ مصمون بن گئی ہے۔یا یوں کہیے کہ منی افسانہ بن گیا ہے۔ اگر آپ نے یہاں بھی آج کل کے صحافیوں کو آئینہ دکھانے کی’تخلیقی‘ کوشش کی ہے تو پھر بجا ہے آپ کا لکھا ہوا۔