پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
مشرق وسطیٰ میں تاشقند ارود ۔ ہندی کا عظیم مرکز
مشرق وسطیٰ میں اردو اور ہندی کی تعلیم و تدریس کے لیے تاشقند ایک اہم مرکز ہے ۔ تاشقند ازبکستان کی راجدھانی ہے اس لیے اس شہر کو کئی اعتبار سےاہمیت اور شہرت حاصل ہے لیکن برصغیر کے لیے اس شہر کی ایک بڑی شناخت اردو اور ہندی ہے ۔ کیونکہ تاشقند اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیزکے تحت1947 سے اس ادارے میں اردو۔ ہندی کی تعلیم دی جارہی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی بر قرار ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اردو کے طالب علموں کو ہندی اور ہندی کے طالب علموں کو اردو ایک مضمو ن کی حیثیت سے لازمی طور پر پڑھنا ہوتا ہے اس طرح اس ادارے سے وابستہ طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ اکثر اساتذہ بھی دونوں زبانوں سے واقف ہوتے ہیں۔حالانکہ تاشقند میں کئی جدید او ر روایتی تعلیمی ادارے مو جود ہیں لیکن تاشقند اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز کو ایک خاص اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ اس ادارے میں دنیا کی اہم مشرقی زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ کسی بھی ملک میں دوسرے ملک کی زبان کی تعلیم اور درس و تدریس کا مطلب یہ بھی کہ براہ راست اس ملک کی تہذیب اور اس کے تمدن سے آگہی حاصل کرنا یا اس ملک کی تہذیب و تمدن سے رو برو ہونا۔اردو ہندستا ن کی قدیم زبان ہے جو ایک عرصے تک سرکاری زبان بھی رہی ہے اس کے بولنے والوں کو تعداد برصغیرمیں تقریباً تیس کروڑ سے زیادہ ہے ۔ اردوزبان میں ازبکستان بالخصوص مشرق وسطیٰ کے تہذیبی اور تمدنی عناصر کو نمایا ں طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔اردو زبان میں کثرت سے مشرق وسطیٰ کی زبانوں اور علاقائی بولیوں کے الفاظ آج بھی موجود ہیں ۔جہاں تک ازبکستان اور ہندستان کے باہمی رشتوں کی بات ہے تو مقام شکر ہے کہ زمانۂ قدیم میں بھی شاہراہ ریشم کے ذریعے اقتصادی تعلقات رہے تھے لیکن اس سے زیادہ علمی ، مذہبی اور معاشرتی سطح پر گہرے رشتے موجودتھے ۔آج بھی ہندستان کے بہت سے رسوم و رواج میں مشرق وسطیٰ کی معاشرتی زندگی کےعناصر موجود ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ بابر نے ہندستان پر حکومت کی اس لیے یہ اثرات موجود ہیں ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بابر نے ہندستان پر غیر ملکی بن کر حکومت نہیں کی بلکہ ہندستان کو اپنا ملک بنایا اورخود کو ہندستانی بنانے میں بابر نے اپنے لیے فخر سمجھا اسی لیے اس عہد میں معاشرتی سطح پر جتنی ترقیات ہوئی ہیں ان میں مشترک قدریں اس زمانے میں بھی موجود تھیں اور آج بھی سماجی سطح پر لین دین کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں جسے ہم ’ہند۔ وسط ایشیائی قدر‘ کہہ سکتے ہیں ۔ اسی دور میں اردو زبان کا نکھر کر سامنے آنا ایک اہم واقعہ ہے ۔اسی لیے اردو اور ہندی زبانوں میں ایسے محاورے، الفاظ ، ضرب الامثال موجود ہیں جو ا ن ممالک کی مشترکہ اقدار کی شاندار وراثت کی امین ہیں ۔
ارود اور ہندی زبان کی تدریس اور تعلیم کے لیے سب سے پہلے یہ ادارہ قیام میں آیا لیکن پہلے اس ادارے کا نام ”ترکستان انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز“ تھا جہاں اردو ۔ ہندی کے علاوہ کئی اورمشرقی زبانیں پڑھائی جانی شروع ہوئیں ۔ بعد میں 1991 میں ا س ادارے کا نام تبدیل ہو کر’’ تاشقند اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز‘‘ رکھا گیا ۔ اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ تہذیبی۔ لسانی اور اقتصادی اعتبار سے جن ممالک سے نزدیک رہا ہے ان کی تہذیب و تمدن کو زبان کے ذریعے سیکھا اورسیکھا یاجائے۔ چنانچہ اس ادارے نے محنت و مشقت سے ایشیائی ممالک میں اپنی ایک شناخت قائم کی اوربہت تیزی یہ ادارہ ایشیا اور یووپ کے ممالک میں پہچانا جانے لگا لیکن مزید ترقی کے لیے اس ادارے کو دنیا کے دیگر ادارو ں سے کچھ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ مجموعی طور پر اردو ۔ ہندی زبان کی تعلیم و تدریس کی وجہ سے ہمارے لیے یہ ادارہ کافی اہمیت رکھتا ہے۔
اس ادارے سے اردو اور ہندی کی کئی نامی گرامی شخصیات وابستہ رہی ہیں ۔ ابھی پروفیسر الفت محب صاحبہ اس شعبے کی صدر ہیں ۔ان کے علاوہ اساتذہ میں ڈاکٹر سراج الدین نورمتوف،ڈاکٹر محیا عبد الرحمانوا، ڈاکٹر لولا مکتوبہ،موجودوہ صادیقوا، سلیمانوامعمورا ، شارا حمیدوامخلصہ، کمالہ ارگا شوا اور محترمہ تماارا خوجائیوا صاحبہ بہت ہی اخلاص اور محنت و مشقت سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ا ن اساتذہ میں بہت سے ایسے ہیں جن کے مضامین ملک اور بیرون ملک کے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں ۔زیادہ تر اساتذہ پی ایچ ڈی کے علاوہ ڈی لٹ کی بھی ڈگری حاصل کر چکے ہیں ۔ ازبکستا ن میں تدریس کا ایک ایسا انوکھا نظام بھی ہے جسے دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ہوئی ۔یہاں اساتذہ سبکدوش نہیں ہوتے ۔ سبکدوشی کے بعد بھی یہ جب تک چاہیں تدریس سےوابستہ رہ سکتے ہیں ۔ فی الوقت محترمہ تمارا صاحبہ ہیں جو تقریباً اسی سال کی نفیس خاتون ہیں وہ اب بھی بڑی سنجیدگی سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں ، عمر کے اس حصے میں بھی جس طرح ان کوچاق وچوبند دیکھا وہ قابل رشک ہے ۔اسی طرح محترمہ حمیدوامخلصہ بھی سبکدوشی کے بعد بھی وقت کی پابندی کےساتھ انسٹی ٹیوٹ آتی ہیں اور کلاسیں لیتی ہیں ۔دوسری قابل ستائش بات یہ ہے کہ تمام اساتذہ بڑے خلوص اور دوستانہ ماحول میں ایک ساتھ رہتے ہیں ، کسی کے چہرے پر کسی کے لیے کوئی شکن نہیں دیکھا ، سب ایک دوست کی طرح ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ساتھ مل کر انسٹی ٹیوٹ کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ طلبہ وطالبات کی بھی بڑی تعداد ہے ۔ اساتذہ طالب علموں کے ساتھ شفقت ومحبت کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ اپنے بچوں اور دوستوں جیسا بے تکلفانہ سلوک دیکھ کر مجھے بے انتہا خوشی ہوئی ۔ دعا کرتا ہوں کہ یہ علمی درسگاہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرے ہند ۔ازبکستان دوستی مزید مضبوط ہو۔