پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
مہ جبیں غزل انصاری : شعری تخلیق سے ادبی سرگرمی تک
برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد اور اب برطانوی شہری ، یارک شائر ادبی فورم کی چیر پرسن محترمہ مہ جبیں غزل انصاری کی شخصیت کو اردو زبان و ادب کے تناظر میں دو جہتوں سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ ایک تو ان کا شعری تخلیق کا منظر نامہ اور دوسرا اورزبان و ادب کی ترویج کی کوششیں ۔ دونوں لحاظ سے مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ بلند مقام پر فائز ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان کے شہر عروس البلاد کراچی سے ہے، ان کے شوہر نامدار ڈاکٹر نسیم الحق انصاری صاحب کا تعلق بھی پاکستان سے ہے ۔ اس مثالی فیملی کی کئی ایسی خصوصیات ہیں جو انھیں کے ساتھ مختص ہیں ۔ اللہ کے فضل وکرم سے یہ ایک خوشحال خاندان ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ علم و ادب دوست فیملی بھی ہے ۔ ایک ایسی خصوصیت جو شاذ و نادر ہی کسی کے حصے میں آتی ہے ، اس کا تعلق بھی ان کی علم دوستی سے ہے ۔ مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ لندن میں مقیم ہونے کے بعد انھوں نے وہاں بھی تعلیم کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا بلکہ وہاں بھی تعلیم کی پیاس نے انھیں یونیورسٹی تک پہنچایا اور ایک نئی مثال قائم کی ۔ انھوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ یونیورسٹی میں وکالت کی ڈگری کے لیے داخلہ لیا اور ماں ، بیٹی دنوں نے ایک ساتھ ڈگری حاصل کر کے ہیڈس سپیریئر یونیورسٹی میں ایک نیا ریکارڈ بنایا۔تعلیمی لیاقت کے اعتبار سے اگر چہ وہ وکیل ہیں لیکن شعرو ادب سے بھی ان کا خاصہ شغف ہے ۔ کراچی میں اسکول کی تعلیم کی دوران ہی ان کے تخیلات نے شعر کی شکل لینا شروع کر دیاتھا ۔یہ شوق پروان چڑھتا گیا اور جب انھیں اپنی تخلیقات پر اعتماد ہوا تو انھوں نے اپنا تخلص “غزل ” رکھا اور باضابطہ شعر کہنے لگیں ۔ شاعری کا سفر کسی مقام پر رکا نہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سفر میں انھوں نے ہمیشہ اعتدال اور تحمل سے کام لیا ۔ بہت غور و فکر کے بعد یہ شعر کہتی ہیں اور شعر برائے شعر نہیں ہوتے بلکہ اس میں ان کے مشرق و مغرب کے ذاتی مشاہدے، تجربے ، فکر اور معاصر ادبی رویوں کی بھر پور جھلک موجود ہوتی ہے ۔ ان کے اب تک تین مجموعہ ٴ کلام منظر عام پر آچکے ہیں ۔ پہلا ’’ادھورے خواب‘‘ دوسرا’’ سنہرے خواب‘‘ اور تیسرا شعری مجموعہ ’’زندگی ‘‘ کے نام سے ہے۔مجموعوں کے نام سے بھی پتہ چلتا ہے کہ خواب کےسہارے وہ اصل زندگی تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ پہلا مجموعہ ’ادھورے خواب‘ سے ہی ایسا لگتا ہے کہ وہ زندگی کے تسلسل کے ساتھ ذاتی زندگی کو بھی تحریک دینا چاہتی ہیں ، خواب جب شرمندہٴ تعبیر ہونے لگے تو وہ سنہرے خواب بن جاتے ہیں اور وہی خواب’ زندگی ‘ بن کر ابھرتے ہیں ۔ان کے کلام کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’خواب کا استعارہ‘ ان کا پسندیدہ استعارہ ہے ۔ خوابوں کے سہارے وہ زندگی کی بڑی حقیقتوں کا بیان بہت آسانی سے کر جاتی ہیں ۔جیسے یہ شعر:
نیندوں میں اس کے خواب بسائے تمام رات آنکھیں کھلیں تو تلخ حقیقت تھی سامنے
یہ اس طرح کے بے شمار اشعار ان کے مجموعوں میں جابجا مل جائیں گے ۔ خواب کو شاعری میں کئی شعرا نے استعمال کیا ہے ۔ معاصر شعرا میں کثرت سے استعمال کرنے والوں میں شہر یار کا نام آتا ہے ۔ اس کے بعد میرے مطالعے کے مطابق غزل انصاری کا ہی نام لیا جائے گا ۔ان کی غزلوں میں مشرق و مغرب کی زندگی اور ان دونوں زندگیوں کا تضاد دیکھنے کو ملتا ہے ۔مشرقیت ان کے دامن سے ایسے لپٹی ہے کہ مغرب کی خیرہ کردینے والی روشنی بھی اسے مدھم نہیں کرپاتی اسی لیے ان کی شاعری میں مشرقی حوالے زیادہ ملتے ہیں ۔غزل کی خوبی یہ ہےکہ وہ اپنی شاعری کو سجانے سنوارنے کے لیے نئی لفظیات نہیں گھڑتیں اور نہ نئی شعری ترکیبات وضع کرتی ہیں بلکہ سیدھے سادے لفظوں میں ہی بڑی بات کہہ جانے کا ہنر جانتی ہیں ۔ یہ اشعار دیکھیں :
اس بار آندھیوں نے ستم یہ کیا غزل آنکھوں کے سامنے تھے جو پردے ہٹادیے
آنکھ جھپکے گی تو یہ لمحہ بھی نکل جائے گا وقت بھی ریت ہے ، مٹھی سے پھسل جائے گا
غزل صاحبہ غزل کے ساتھ اچھی نظمیں بھی کہتی ہیں اور ایسے مسائل جو آنکھوں کے سامنے ہیں مگر عام آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں ، اسے بہت سلیس لب ولہجے میں بیان کرنا جانتی ہیں ۔مثلا یہ نظم :
نفرتوں کی سیاہ راتوں میں
عشق سے تھوڑی روشنی مانگو
اس سے پہلے کہ خواب مر جائیں
اپنے خوابوں کی زندگی مانگو۔
ان کی ایک نظم ’’ زندگی کا کھیل ” کے عنوان سے ہے ، ملاحظہ کریں کہ کس قدر سادہ اسلوب ہے مگر کتنی با معنی ہے :
کھیل تو نرالے سب
زندگی دکھاتی ہے
پہلے خو د ہنساتی ہے
خود ہی پھر رلاتی ہے
سوچتی ہوں یہ جیون
خواب ہے حقیقت ہے
رنج ہے کہ راحت ہے
ہجر ہے رفاقت ہے
کچھ سمجھ نہیں آتا
دل میں ایک الجھن ہے
غم سے جس کا بندھن ہے
شوق کا یہ درپن ہے
ہم سفر ملا تھا جو
ہم نوا نہیں تھا وہ
ہم نوا ملا تھا جو
ہم سفر نہ بن پایا
غزل صاحبہ اکثرچھوٹی نظمیں لکھتی ہیں لیکن موضوعات کا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان کی نظمیں معاشرتی نظام اور انسانی زندگی کے ان پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں جن کو ہم اکثر نظر انداز کرتے ہیں ۔ لیکن ان کی غزلوں میں درد کی ایک کسک موجود ہے جو ذاتی درد والم کے طور پر پیش ہوا ہے لیکن اس میں اجتماعی زندگی جھانکتی ہے ۔ اس کے علاوہ ان کی غزلوں اور نظموں میں تمنا، انسانی رشتوں کے بے قدری ، انسانی اقدار کی پامالی نمایاں موضوعات ہیں ۔
مہ جبیں غزل صاحبہ کے شاعری اور اردو کی خدمات پر ازہر یونیورسٹی کے شعبہٴ اردو (برائے خوتین ) میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جا چکا ہے اور ان کی شاعری کو شامل نصاب بھی کیا گیا ہے ۔
شاعری کے علاوہ ان کی قدرو منزلت کا ایک بڑی وجہ ان کی ادبی سرگرمیاں ہیں ۔ یارک شائر ادبی فورم کی چیر پرسن ہیں ۔ ایک دہائی سے اس تنظیم کے تحت اردو کے مختلف قومی اور بین الاقوامی پروگرام اورمشاعرے پابندی سے کراتی رہتی ہیں ۔ اس تنظیم کے ذریعے انھوں نے اردو ادیبوں اور شاعروں کو جوڑ رکھا ہے ۔ کسی بھی پروگرا م کے انعقاد میں ان کے احباب کے ساتھ ساتھ ان کا پورا خاندان انتظام و ا نصرام میں لگا رہتا ہے ۔ ڈاکٹر نسیم کے ساتھ ساتھ ان کے بچے بھی اردو شعر و ادب سے شغف رکھتے ہیں ۔دیار غیر میں اردو کی شمع روشن رکھنے والوں میں مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔